-
واقعۂ حرہ کے وقت مسجد نبوی میں اذان بند ہونے سے متعلق روایات کا جائزہ سعیدبن عبدالعزیز سے نقل کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ جب ایام حرہ کا واقعہ پیش آیا تو تین دنوں تک مسجد نبوی میں اذان اوراقامت نہیں ہوئی ، اورسعیدبن المسیب ان دنوں مسجد نبوی ہی میں ٹھہرے رہے آپ کہتے ہیں جب نماز کا وقت ہوجاتا تو قبر نبوی سے اذان کی آواز سنائی دیتی اورمیں یہ آواز سن کر اقامت کہتا اورنماز اداکرتا۔
یہ روایت سعیدبن المسیب کے حوالے سے تین لوگوں نے بیان کیا ہے:
سعید بن عبد العزیز،التنوخی
ابو حازم، سلمۃ بن دینار۔
محمد بن سعید القرشی المخزومی
سعید بن عبد العزیزکی روایت:
امام دارمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا مروان بن محمد، عن سعيد بن عبد العزيز، قال: ’’لما كان أيام الحرة لم يؤذن فى مسجد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ثلاثا، ولم يقم، ولم يبرح سعيد بن المسيب المسجد، وكان لا يعرف وقت الصلاة إلا بهمهمة يسمعها من قبر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فذكر معناه‘‘
[سنن الدارمی:۱؍۲۲۷]
یہ روایت مرسل ہے کیونکہ سعیدبن عبدالعزیز واقعۂ حرہ کے وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔
واقعہ ٔحرہ۶۳ ہجری میں پیش آیا (عام کتب تاریخ)
اورسعیدبن عبدالعزیز کی پیدائش۹۰ ہجری میں ہوئی ہے ، امام ذہبی فرماتے ہیں:
’’ ’’ وُلِدَ: سَنَةَ تِسْعِيْنَ، فِي حَيَاةِ سَهْلِ بنِ سَعْدٍ ‘‘[سیر أعلام النبلاء:۸؍۳۲]
یعنی موصوف واقعہ پیش آنے کے ۲۷ستائیس سال بعدپیداہوئے، پھر ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ واقعہ کسی اورسے سناہے اوراس کانام نہیں لیا ، لہٰذا روایت مرسل ہے۔
یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ سعیدبن عبدالعزیز نے یہ روایت سعیدابن المسیب سے سنی ہو کیونکہ اول تو انہوں نے صیغۂ ارسال سے روایت کیا ہے ۔
دوسرے یہ کہ سعیدبن عبدالعزیز کی پیدائش ۹۰ ہجری میں ہوئی ہے جیساکہ اوپر حوالہ پیش کیا گیا اوران کے پیداہونے کے تقریباً تین سال بعد ہی سعیدابن المسیب کی وفات ہوگئی ۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ وَقَالَ أَبُو نُعَيْمٍ، وَعَلِيُّ بنُ المَدِيْنِيِّ: تُوُفِّيَ سَنَةَ ثَلاَثٍ وَتِسْعِيْنَ‘‘
[سیر أعلام النبلاء ط الرسالۃ: ۴؍۲۴۶]
معلوم ہوا کہ یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ سعیدبن عبدالعزیز نے یہ روایت سعیدابن المسیب سے سنی ہو۔
ابوحازم سلمہ بن دینار کی روایت:
امام ابن سعدرحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أخبرنا الوليد بن عطاء بن الأغر المكي قال: أخبرنا عبد الحميد بن سليمان عن أبي حازم قال: سمعت سعيد بن المسيب يقول: لقد رأيتني ليالي الحرة وما فى المسجد أحد من خلق اللّٰه غيري، وإن أهل الشام ليدخلون زمرا زمرا يقولون: انظروا إلى هذا الشيخ المجنون، وما يأتى وقت صلاة إلا سمعت أذانا فى القبر ثم تقدمت فأقمت فصليت وما فى المسجد أحدغيري.
[الطبقات الکبریٰ لابن سعد:۵؍۱۳۲،ومن طریق ابن سعد أخرجہ ابن الجوزی فی (مثیر العزم الساکن:۲؍۳۰۱) بہ ، وأخرجہ ا بن خزیمہ فی تاریخہ:۴؍۱۱۹) و اللالکائی فی (کرامات الأولیاء:۹؍۱۸۳) وأبونعیم فی (دلائل النبوۃ: ص:۵۶۷)کلہم من طریق محمد بن سلیمان بن لوین عن عبدالحمید بہ]۔
اس روایت کا مرکزی راوی عبد الحمید بن سلیمان الخزاعی ضعیف ہے۔
امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۳) فرماتے ہیں:
’’ لم یکن عبد الحمید بن سلیمان أخو فلیح بن سلیمان بثقۃ ‘‘[معرفۃ الرجال لابن معین :۱؍۵۷]
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۴) فرماتے ہیں:
’’ کان فُلَیْح، وأخوہ عبد الحَمِیْد، ضَعِیْفَین‘‘[سؤالات محمد بن عثمان بن أبی شیبۃ لعلی بن المدینی – الفاروق: ص:۴۸]
امام ابو زرعۃ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی۲۶۴)فرماتے ہیں:
’’ضعیف الحدیث‘‘[الجرح والتعدیل:۶؍۱۴، وسندہ صحیح]
امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۷) فرماتے ہیں:
’’ عبد الحمید بن سلیمان أخو فلیح ، لیس بقوی ‘‘[الجرح والتعدیل:۶؍۱۴]
امام نسائی رحمہ اللہ (المتوفی۳۰۳) فرماتے ہیں:
’’ عبد الحمید بن سلیمان أخو فلیح ضعیف ‘‘[ الضعفاء والمتروکین :ص:۷۲]
امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی۳۵۴) فرماتے ہیں:
’’کَانَ مِمَّن یخطیء ویقلب الْأَسَانِید فَلَمَّا کثر ذَلِک فِیمَا روی بَطل الِاحْتِجَاج بِمَا حدث صَحِیحا لغَلَبَۃ مَا ذکرنَا علٰی رِوَایَتہ‘‘ [المجروحین لابن حبان:۲؍۱۴۱]
امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی۳۸۵) نے اسے ضعفاء ومتروکین میں ذکر کیا ہے۔
’’ عبد الحمید بن سلیمان مدنی ‘‘[الضعفاء والمتروکون للدارقطنی :ص:۲۷]
امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸) فرماتے ہیں:
’’عبد الحمید بن سلیمان اخو فلیح عن أبی الزناد ضعفوہ جدا ‘‘[المغنی فی الضعفاء للذہبی :ص:۴۴]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲)فرماتے ہیں:
’’عبد الحمید بن سلیمان الخزاعی الضریر أبو عمر المدنی نزیل بغداد ضعیف ‘‘[تقریب التہذیب: ص:۲۴۹]
محمد بن سعید القرشی کی روایت:
امام ابن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال: أخبرنا محمد بن عمر قال: حدثني طلحة بن محمد بن سعيد عن أبيه قال: كان سعيد بن المسيب أيام الحرة فى المسجد لم يبايع ولم يبرح، وكان يصلي معهم الجمعة ويخرج إلى العيد، وكان الناس يقتتلون وينتبهون وهو فى المسجد لا يبرح إلا ليلا إلى الليل. قال فكنت إذا حانت الصلاة أسمع أذانا يخرج من قبل القبر حتي أمن الناس وما رأيت خبرا من الجماعة .
[الطبقات الکبریٰ لابن سعد :۵؍۱۳۲]
یہ روایت موضوع ہے ، اس میں کئی علتیں ہیں:
پہلی علت:
’’محمد بن سعید‘‘ کو ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے ، لہٰذا یہ نامعلوم التوثیق ہے۔
دوسری علت:
’’طلحہ بن محمد‘‘ غیر معروف ہے ۔
امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۷ ) نے کہا:
’’ لا اعرف طلحۃ بن محمد بن سعید بن المسیب‘‘[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم:۴؍۴۷۶]
تیسری علت:
امام ابن سعد کا استاذ’’محمدبن عمر‘‘ کذاب ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ (المتوفی۲۰۴)نے کہا:
’’ کتب الواقدی کذب ‘‘[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم:۲۰۸ وسندہ صحیح]
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۴)نے کہا:
’’ ولا ارضاہ فِی الحدیث، ولا فِی الانساب ولا فِی شیء ‘‘[تاریخ بغداد: ۵۲۱۴]
امام سحاق بن راہَوَیْہ رحمہ اللہ (المتوفی ۲۳۷)نے کہا:
’’ عندی ممن یضع الحدیث ‘‘[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم:۲۰۸ وسندہ صحیح]
امام ابن القیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی۵۰۷)نے کہا:
’’ اجمعوا علی ترکہ ‘‘[معرفۃ التذکرۃ لابن القیسرانی: ص:۱۶۳]
ان علتوں کی بنیاد پر یہ روایت موضوع ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ سعید بن المسیب رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا جانے والا یہ واقعہ ثابت ہی نہیں ، لہٰذا سبائیوں اور قبوریوں کا اس سے اپنے اپنے مطلب کے لیے استدلال باطل ومردود ہے۔
٭٭٭