Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • مقلدوں کی نامقلدی

    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    الحمد للّٰه رب العالمين والصلٰوة والسلام علٰي سيد المرسلين وعلٰي آلهٖ وصحبهٖ اجمعين اما بعد:
    جس زمانے میں آج ہم زندہ ہیں اس میں ہر دن عجائبات کا ظہور ہوتا ہے اور ان تمام میں وہ عجائبات جو دین کے نام پر اور نام نہاد علماء کے ذریعہ ظاہر ہوتے ہیں وہ سب سے حیرت انگیز ہیں۔
    ایک طرف تقلید کو واجب، ضروری اور فرض تک بتایا جارہا ہے ائمہ اربعہ کی تقلید کو قرآن سے ثابت کیا جارہا ہے دوسری طرف یہی مقلدین خود مجتہد بن کر نا مقلد ی پھیلا رہے ہیں ۔ ایک طرف تو غیر مقلدیت کو فتنہ قرار دیا جارہا ہے اور احادیث صحیحہ ، حسان کو چھوڑ کر جمود وتعصب کی راہ اپنائی جا رہی ہے تودوسری طرف ہر دن نت نئے مسائل نکال کر دین کو ناقص باور کرایا جا رہا ہے ۔
    امامان ِ دین ، مجتہدین ا ور محدثین سے بے پرواہ ہو کر اپنے پیروں ، فقیروں اور جاہل صوفیا کے نکالے ہوئے رسم ورواج کو نا صرف دین ومذہب اور اصل الاصول مانا جارہا ہے بلکہ ایک بڑا طبقہ تو دین و شریعت سے بے پرواہ مسلک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بے نیاز ہو کر ہندوستان کے بعض شہروں کے نام نہاد مولویوں کے نام پر مسلک نکالے ہوئے ہے ۔سال کے بارہ مہینے اسی نو ایجاد مسلک کے رسوم ورواج کو تقویت دینے ،زندہ رکھنے اور ان کوصحیح اور درست ثابت کرنے میں صرف ہوجاتے ہیں ۔ ان نو ایجاد بدعات وخرافات کو اس مسلک کے معتبر علماء تو مستحب و مندوب ہی کہتے ہیں لیکن جن لوگوں کے ہاتھ میں اس مسلک کے منبر و محراب ہیں جن کے ہاتھ میں عوام کی نکیل ہے جو پیری مریدی کو بطور کاروبار اپنائے ہوئے ہیں ان کے نزدیک ان بدعات کو فرائض و واجبات سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔
    عوام کے نزدیک تو ان رسوم کی حیثیت بلاشبہ واجبات و فرائض کی ہے۔ اس طبقہ کے عوام کی اکثریت نماز روزہ سے کوسوں دور ہے لیکن وہ گیارہویں شریف ، شب برأت ، کونڈے ، محرم کے کھچڑے ، تبارک کی روٹی ، تیجہ ، دسواں ، چالیسوا ں، بیسواں، برسی وغیرہ کو فرائض و واجبات سے زیادہ اہمیت دیتی ہے اس کو ہر گز نہیں چھوڑتی،چونکہ دیہات و قصبات میں مجالس میلاد کے ذریعہ نیز منبر ومحراب سے جلسے جلوسوں سے پابندی کے ساتھ ان تمام رسوم ورواج کی تبلیغ ہوتی رہتی ہے اس کے بر خلاف نماز وروزہ کی نا اتنی تلقین ہوتی ہے اور نا ہی اس کی تبلیغ۔
    عوام کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ یہ رسوم در حقیقت اولیاء کرام وبزرگان دین کی تعظیم وتکریم کا ذریعہ ہیں اس سے نا صرف وہ حضرات خوش ہوتے ہیں بلکہ وہ حضرات ان رسوم سے خوش ہو کر کرنے والوں پر نظر کرم فرماتے ہیں اور ان پر آنے والی بلاؤں کو دور کردیتے ہیں ، سال بھر مال واولاد میں برکت ہوتی ہے ، نیاز وفاتحہ نا کرنے والوں سے بزرگان دین ناراض رہتے ہیں اور قیامت میں ان کی سفارش بھی نہیں کرائیں گے ۔
    تیجہ ، دسواں ،بیسواں اور برسی وغیرہ سے ہمارے عزیزوں کی بخشش ہو جاتی ہے اور ان کے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ اور اگر نیاز و فاتحہ بزرگان دین کی کی جاتی ہے تو اس سے ان کے درجات بلند ہوجاتے ہیں ۔اس سلسلہ میں بانیٔ سلسلہ نے چند حکایات بھی اپنے ملفوظات میں نقل کردی ہیں اورکچھ ان کے مریدین نے تراش لی ہیں ۔
    غرض یہ کہ یہ کاروبار دن دونی رات چوگنی ترقی پر ہے ۔ سال بھر ان رسموں کو فروغ دینے والوں کو انواع و اقسام کے کھانے ملتے رہتے ہیں اور لذت کام ودہن کا یہ کام پورے زور شور سے چلتا رہتا ہے ۔
    جب کبھی ان رسموں کے خلاف کچھ کہا جاتا ہے تو یہ حضرات آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، سوشل بائیکاٹ سے لے کر گالی گلوج تک اورفتویٰ بازی سے افتراء پردازی تک تمام ہتھکنڈے اپناتے ہیں اور کہنے والے کو رسوا کیا جاتا ہے، اس کو علماء کرام و بزرگان دین کا دشمن قرار دیا جاتا ہے اور سب سے آسان نسخہ یہ ہے کہ اس پر وہابیت کا ٹھپہ لگا کر عوام کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ غیر مقلد ہیں اس لیے ایسا کہتے ہیں ہمارے مسلک ومذہب میں یہ سب چیزیں جائز ہیں جبکہ ان کے یہاں ایصال ثواب حرام ہے۔
    مسلک ومذہب کی دہائی اور تقلید کی بات جس زور وشور سے کی جاتی ہے اس سے عوام کی یہ غلط فہمی پختہ ہوجاتی ہے کہ فقہ حنفی اور مسلک امام ابوحنیفہ میں یہ سب چیزیں جائز ہیں ،اختلاف کرنے والے جاہل اور غیر مقلد ہیں جو اماموں کو نہیں مانتے ۔
    حالانکہ فقہ حنفی میں ان اشیاء کا کہیں ذکر نہیں، امام ابو حنیفہ نے ان اشیاء کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیا، اسی طرح امام صاحب کے شاگردوں کی کتابیں بھی ان رسوم ورواج سے خالی ہیں ۔
    جب یہ بات عوام کے سامنے آتی ہے اور وہ ان مولویوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فلاں فلاں لوگ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ۔ تو یہ مولوی مسلک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بغاوت کرتے ہوئے فقہ حنفی کو ٹکاسا جواب دیتے ہوئے پورے غیر مقلد بن جاتے ہیں اور قرآن وسنت کو اپنی عقلی تک بندیوں کی خراد پر رکھ کر وہ کرشمے دکھاتے ہیں کہ اہل علم بس ہائے ہائے کہتے رہ جاتے ہیں ۔
    بقول اقبال
    خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
    ہوئے کس درجہ فقیہان ِ حرم بے توفیق
    ان حضرات کی غیر مقلدیت سے دین وایمان ، عقیدہ وعمل اور احترام وتکریم کے سارے شرعی پیمانے الٹ پلٹ ہوکے رہ گئے ہیں ۔
    فقہاء احناف وعلماء اصول نے یہ بات ایک بار نہیں بار بار لکھی دہرائی اور بتائی ہے کہ کسی مقلد کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ براہ راست قرآن و حدیث سے استدلال کرے ،ا س کے لیے حکم یہی ہے کہ وہ ہر قول اور ہر فعل میں یہ دیکھے کہ میرے امام کا قول اس بارے میں کیا ہے، اس کا خود اجتہاد کرنا یا کسی دوسرے مجتہد کا قول اپنا لینا جائز نہیں۔
    ’’الجوہرالنفیس ‘‘کے مصنف عمر بن عمر الازہری جو خود معتبر علماء احناف میں شمار ہوتے ہیں انہوں نے اپنی اس کتاب میں فقہاء احناف کے سات طبقات متعین فرمائے ہیں اور طبقۂ سابعہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
    والطبقة السابعة: وهى طبقة المقلدين الذين لا يقدرون على ما ذكر۔ولا يفرقون بين الغث و الثمين، ولا يميزون بين الشمال واليمين بل يحفظون ما يجدون ، كحاطب ليل ، فالويل لهم ولمن قلدهم كل الويل،انتهيٰ ۔
    یعنی طبقۂ ہفتم حنفی علماء کا وہ طبقہ ہے جو طبقہ ششم سے بھی ادنیٰ درجہ کے ہیں، یہ مقلد محض ہیں ،یہ لوگ یہ اہلیت بھی نہیں رکھتے کہ اقویٰ وقوی ،اصح وصحیح ، ضعیف وغیر ضعیف ظاہر الروایہ وظاہرالمذہب اور نوادر میں تمیز کر سکیں۔
    ان پر لازم ہے کہ کسی فقیہ کی تقلید کریں ۔ ان لوگوں کو تمیز نہیں بلکہ جو روایت پاتے ہیں کیسی ہی ہو لے لیتے ہیں ان کو کمزور و قوی میں تمیز کرنے کا سلیقہ تک نہیں، دائیں بائیں کی تمیز سے بھی عاری ہیں یہ حاطب اللیل ہیں ، پس خرابی ونامرادی ہے ان کے لیے اور ان کی تقلید کرنے والوں کے لیے ۔
    قارئین کرام ! طبقات فقہاء کے موضوع پر جن حضرات نے لکھا ہے مثلاً :علامہ کفوی صاحب طبقات حنفیہ ،علامہ عمر بن عمر الازہری صاحب الجواہر النفیسہ ،وعلامہ تقی الدین عبد القادر التمیمی الدارمی،الغزی الحنفی صاحب الطبقات السنیہ فی تراجم الحنفیہ ، وعلامہ ابو الحسنات عبد الحیٔ فرنگی محلی ،صاحب عمدۃ الرعایۃ ،و علامہ السید امیر علی مترجم الفتاویٰ الہندیہ ،المسمیٰ بہ عالم گیریہ ۔
    ان سب حضرات نے ساتویں طبقہ کے احکام بھی لکھے ہیں کہ یہ حضرات محض مقلد ہیں ،ان کے لیے قاعدہ یہ ہے کہ یہ حضرات کسی مسئلہ میں اپنی رائے ،قیاس یا اجتہاد کا استعمال نہیں کر سکتے ،جب تک ان کے پاس کسی مافوق فقیہ کا کوئی قول نہ ہو یہ حضرات فتویٰ نہیں دے سکتے ان کے لیے لازم ہے کہ اپنے سے مقدم کسی فقیہ کا قول نقل کریں ۔ وہ جب بھی فتویٰ دیں تو اس طرح لکھیں کہ فلاں فقیہ نے یہ لکھا ہے ۔
    لیکن افسوس ہے کہ ہمارے یہ مہربان جو اپنے آپ کو سچا حنفی اور پکا مقلد کہتے ہیں لیکن فقہائے احناف کی ہدایات کو ذرا خاطر میں نہیں لاتے من مانی کرتے اور نری غیر مقلدیت کو اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں ۔
    جن کو یہ حضرات غیر مقلد کہتے ہیں یعنی حضرات علمائے اہل حدیث وہ تو قرآن و سنت کی پیروی اوراتباع رسول و صحابہ کی روش کو دل سے ایسا لگائے ہوئے ہیںکہ جس چیز کا ذکر قرآن وحدیث و عمل صحابہ میں نہیں پاتے اس سے نہ صرف الگ رہتے ہیں بلکہ اس کو بدعت سیئہ کہتے ہیں ۔
    مگر یہ حضرات مقلد کہلانے کے باوجود نت نئے مسائل ایجاد کرتے رہتے ہیں اور جب ان مسائل کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو بجائے ائمہ فقہ کے اقوال نقل کرنے کے مجتہد مطلق بننے لگتے ہیں اور اس بارے میں ان کو اتنی تمیز بھی نہیں ہوتی کہ وہ جس چیز کو استدلال میں پیش کر رہے ہیں وہ قول رسول ﷺ ہے یا قولِ صحابہ ، قول ِتابعی ہے یا قولِ فقہاء ،بعض گمراہ ادیبوں ،صوفیوں ،طبیبوں تک کے قول کو قول رسول باور کر کے استدلال کر لیتے ہیں ۔
    حدیث و علوم حدیث سے ان کو مس نہیں، سارا سرمایہ ضعیف، موضوع اور من گھڑنت روایات ہی ہیں، حاطب اللیل اور لا یفرقون بین الغث والثمین ولا یمیزون بین الشمال والیمین کی زندہ مثال ہیں ۔
    اب یہ مسئلہ ہی لے لیجئے ! ایصال ثواب کے نام پر سال بھر قسم قسم کے کھانوں کا جو انتظام ان حضرات نے کر رکھا ہے اس کی تفصیلات اچھے خاصے آدمی کو حیرت زدہ کرنے کے لیے کافی ہے۔
    تیجہ،دسواں،بیسواں،چالیسواں،برسی، گیارہو یںبارہویں،کونڈے شب برأت ،امام حسین کی نیاز ، ان کا چہلم،کے علاوہ ہر جمعرات کو فاتحہ ،بزرگوں کی فاتحہ ،معصوموں کی فاتحہ ،وغیرہ وغیرہ وہ رسمیں ہیں جن کا قرآن وسنت، تعاملِ صحابہ اورعمل ائمہ سے قطعاً کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جا سکتا ،مگر جس پابندی سے یہ سارے اعمال جاری ہیں اور جس طرح ہر نیاز اور ہر فاتحہ الگ قسم کے کھانوں سے مخصوص ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان حضرات نے یہ سب انواع واقسام کے کھانے فاتحہ کے نام پر کیوں تراشے ہوئے ہیں ۔
    فاتحہ میں کام ودہن کی کیا کیا لذتیں پوشیدہ ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لیے صرف ایک پیر صاحب کی فاتحہ کے لوازمات ملاحظہ کریں ۔
    ۱۲۔ اعزا سے اگر بطیب خاطر ممکن ہو تو فاتحہ میں ہفتہ میں دو تین بار ان اشیاء سے بھی کچھ بھیج دیا کریں ۔
    (۱) دودھ کا برف خانہ ساز ،اگر چہ بھینس کے دودھ کا ہو ۔
    (۲) مرغ کی بریانی (۳) مرغ پلاؤخواہ بکری (۴)شامی کباب (۵) پراٹھے اور بالائی (۶) فیرنی (۷) ارد کی دال مع ادرک و لوازم (۸) گوشت بھر ی کچوریاں(۹)سیب کا پانی (۱۰) انارکا پانی (۱۱) سوڈے کابوتل اور دودھ کا برف (وصایہ شریف :۔ ابو العلائی پریس آگرہ ، ص: ۹۔۱۰)
    ملاحظہ فرمایا آپ نے یہ ایک پیر کے فاتحہ کے لوازمات ہیں ۔ اور یہ یاد رہے ہفتہ میں دو تین بار کی تلقین ہے ۔
    جب ایک پیر کی فاتحہ کا یہ عالم ہے تو اندازہ لگائیے کہ یہاں ہندوستان میں کون ساشہر یا قصبہ ہے جس میں اصلی یا جعلی پیروں کے مزارات نہیں ہیں اور ان کی آڑ میں یہ حضرات کیا کیا کروا رہے ہیں ۔
    اور یہ سب کچھ محض مقلدوں کی نا مقلدیت کے زور پر۔
    قرآن وسنت کے واضح احکامات کے ہوتے ہوئے تقلید ائمہ کا نام لے کر نصوص شرعیہ کی مخالفت دھڑلے سے اس عذر کے تحت کی جاتی ہے کہ ہم کیا جانیں، یہ احادیث جو آپ پیش کر رہے ہیں ہمارے امام کے پیش نظر بھی رہی ہوں گی پھر آپ نے ان کے خلاف حکم دیا تو ضرور یا تو یہ منسوخ ہیں یا مرجوح ہیں یا ان پر عمل متروک ہے۔ غرض یہ کہ امام کے ذمہ وہ باتیں بھی لگادیں گے جو امام نے نہیں کہیں، صاف صریح احادیث پر عمل نا کرنا اور اس کے لیے تقلید کو بہانا بنانا کہ ہم مقلد ہیں ہمارے اوپر ہمارے اما م کی تقلید ضروری ہے نا کہ اتباع حدیث۔
    اور جہاں لذت کام و دہن کا معاملہ ہو ،مرغ پلاؤ، بٹیر پلاؤ ، شامی کباب ، قورمہ ،بریانی،باقرخانی اور شیر مال کا ذکر ہو وہاں نا تقلید یاد رہتی ہے اور نہ ائمہ کرام یاد رہ جاتے ہیں، تقلید کا جوا گردن سے اتار پورے غیر مقلدبن جاتے ہیں ۔
    اکثر لوگ جو عید الاضحیٰ پر قربانی کرنے میں ہزار بہانے تراشتے ہیں ،بچوں کے عقیقے نہیں کرتے وہ گیارہویں بڑی پابندی اور رغبت سے کرتے ہیں ، گھروں میں بکرے پالتے ہیں اور ان کو بڑے پیر کے نام ہی سے لیتے خریدتے ، پالتے پوستے اور بولتے ہیں ،عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے پیر کی گیارہویں کرنے سے سب بلائیں دور ہو جاتی ہیں ۔ اور سال بھر گھر میں خیر وبرکت رہتی ہے بڑے پیر صاحب خوش ہوتے ہیں اور سارے گھر پر ان کا سایہ اور نظر کرم رہتی ہے۔
    اگر ایک بار شروع کرکے بند کردیا جائے تو پیر صاحب ناراض ہوجاتے ہیں اور بلائیں آنے لگتی ہیں اس لیے شروع کرکے بند نہیں کیا جا سکتا ۔
    اس گیارہویں کے تعلق سے اگر آپ ان نام نہاد مقلدوں سے جو پکے غیر مقلد بن کر اپنے امام سے بغاوت کرکے اور فقہ حنفی سے اعراض کرکے مجتہد بننے کا ڈھونگ کرتے ہیں پوچھیں کہ یہ کیوں کر جائز ہے تو مغالطوں،فریبوں اور بے سود لفاظیوں کا سہارا لے کر ہر قیمت پر اس کو جائز درست اور صحیح قرار دینے میں لگ جاتے ہیں حالانکہ قرآن و حدیث میں جس کا ذکر نہیں، صحابہ تابعین کے یہاں جس کا گزر نہیں، امامان دین نے جس کی اجازت نہیں دی اس کو اپنے اجتہاد سے ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ۔
    اور صرف ایک لفظ’’ ایصال ثواب ‘‘ کا سہارا لے کر اس کو جا ئز اور درست بتاتے ہیں ۔حالانکہ ’’لعن اللّٰہ من ذبح لغیر اللّہ‘‘ ’’جو غیر اللہ کی خوشنودی کے لیے ذبح کرے اس پر اللہ کی لعنت ہو ‘‘رسول اکرم ﷺ کا صاف صریح فرمان موجود ہے ۔ فقہ حنفی پکارپکار کر کہہ رہی ہے کہ نذر لغیر اللہ ، باطل وحرام ہے ۔ غیر اللہ کی نذر باطل ہے ، حرام ہے ۔ لیکن ان حضرات کو فقہاء کی یہ باتیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں بلکہ وہ اس کو ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تراشتے ہیں ،کبھی سلاطین پر بہتان باندھتے ہیں اور کبھی کسی علاقے کی خواتین کے عمل کو پیش کرتے ہیں ۔
    افسوس اس بات پر ہے کہ عوام ان دنیا ساز مولویوں کے چنگل میں اس بری طرح پھنس چکی ہے کہ انہیں اللہ کی بات ،رسول کی بات اور فقہاء کے ارشادات بھی اس حرام و شرک کے کام سے روک پانے میں ناکام ہیں ،جس پیر کی گیارہویں دھوم دھام سے کی جاتی ہے ان کے ارشادات کی طرف بھی ان حضرات کی قطعاً توجہ نہیں ۔ ہم ذیل میں پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کی مشہور زمانہ کتاب ’’فتوح الغیب‘‘ سے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں شاید یہ بھائی کچھ نصیحت پکڑیں۔
    ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے دیدار کی توقع رکھتا ہے اسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور مخلوقات میں سے کسی کو بھی خدا کی عبادت میں شریک نہ ٹھہرائے ۔ ‘‘
    واضح ہو کہ صرف بت پرستی ہی شرک نہیں بلکہ خواہشات نفس کی اندھادھند پیروی کرنا اور دنیائے فانی میں کسی بھی ہستی یا کسی بھی شیٔ سے قلب ودماغ کو بدرجہء عشق وابستہ کرلینا بھی صریحاً شرک ہے ۔
    اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : { أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ…}(الفرقان:۴۳)
    ’’ اے نبی کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے اپنی ہوائے نفسانی ہی کو اپنا معبود بنا رکھا ہے‘‘ ۔(فتوح الغیب :۔ ص: ۲۶، مقالہ نمبر:۷)
    پیران پیر نے قرآن شریف کی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کس قدر صاف بات بتلادی ہے کہ شرک صرف اسی کو نہیں کہتے کہ بت پوجے جائیں ،خواہش نفس کی پیروی اور اللہ کے علاوہ کسی اور ذات سے قلب ودماغ کو بدرجہ عشق وابستہ کرلینا بھی صریحاً شرک ہے ۔
    مقالہ نمبر ۲ صفحہ نمبر ۱۲ پر فرماتے ہیں :
    ’’ مسلمانو! سنت کی پیروی کرو اور بدعات سے مجتنب رہو، اللہ اور اس کے رسول برحق کی فرمانبرداری کرو اور ان کی حکم عدولی مت کرو۔‘‘
    پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ ، جن لوگوں کو سنت کی پیروی اور بدعات سے دور رہنے کی تلقین کر رہے ہیں ، وہی لوگ آج بازارِ بدعات کو گرم کئے ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں وہ تمام الو ہی صفات واختیارات ماننے پر خوش ہیں جس سے شیخ نے منع کیا اور اس کو شرک بتایا ہے ۔
    ہم اپنے ان بھائیوں سے عرض کرنا چاہتے ہیں جو گیارہویں کی رسمیں بڑے پیمانے پر کرتے ہیں کہ بھائیو! جس پیر کی گیارہویں کر رہے ہو اس کی بات تو سن لو ، اس کی لکھی ہوئی کتابوں کو تو دیکھ لو، اس کے ارشادات سے بغاوت اس کے بتائے ہوئے طریقہ سے اعراض وبے نیازی کہیں ایسا نہ ہو کہ روز قیامت وہ خود ان افعال سے اپنی برأت کے ساتھ ساتھ آپ حضرات سے بھی برأت کا اظہار فرمادیں ، کیونکہ بزرگان دین کا رشتہ جس قدر اپنے نبی سے ہے اتنا مریدوں سے نہیں اور نبی ﷺ نے جب فرمادیا کہ میرے لائے ہوئے دین میں جو لوگ نئی نئی چیزیں نکال کر ان کو دین کا حصہ بنا ئیں گے تو وہ مردودہوں گے اور جو چیز وہ نکالیں گے وہ بھی مردود ہوگی ،اللہ کے دربار میں ،رسول کے دربار میں اور روز قیامت دین کے خلاف ان بدعات کو رواج دینے والوں کو رسول اکرم ﷺ کے دست مبارک سے جام کوثر پینا نصیب نہ ہوگا بلکہ ان کو دھتکار دیا جائے گا۔ جیسا کہ بخاری ومسلم ودیگر کتب احادیث سے ثابت ہے ۔آج تحقیق کرلو اور اپنے اعمال کا جائزہ لے لو ورنہ کل کو پچھتانا پڑے گا۔ اور اس وقت ، وقت نکل چکا ہوگا۔
    رہے نام اللہ کا۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings