Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • علم کس سے سیکھیں؟

    ایک بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا میں یوٹیوب پر موجود فلاں شخص کے لیکچر سن سکتی ہوں اور ان کے ایک کتاب پر ریکارڈ شدہ لیکچرز کی مدد سے علم سیکھ سکتی ہوں؟
    یاد رکھیے کسی شخص سے علم لینے اور اس کے دروس سننے سے قبل تین باتوں کا تیقن اور معلوم ہونا ضروری ہے:
    ۱۔ کیا اس شخص نے علماء سے باقاعدہ حصولِ علم کیا ہے اور ان سے علومِ شرعیہ کی تحصیل میں ایک معقول مدت صرف کی ہے؟
    کیوں کہ علم شرعی کا اصل طریق اسے کتابوں سے نہیں بلکہ علماء سے سیکھنا اور پڑھنا ہے۔ اور ائمۂ سلف ایسے شخص کو عالم نہیں سمجھتے تھے جو صرف کتب کے مطالعے میں مگن رہتا اور علماء سے نہیں پڑھا ہوتا تھا۔
    جیسا کہ ایک حدیث نبوی میں بھی دینی علم حاصل کرنے کا یہی طریق بتایا گیا ہے کہ تم مجھ سے علم سیکھتے ہو اور آگے لوگ تم سے علم حاصل کریں گے اور پھر آگے ان سے علم لیا جائے گا۔
    اسی طرح تحصیل علم میں یہ بھی ضروری ہے کہ سکھانے والے کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ بنیادی علوم اور اہم معاون فنون کی تحصیل میں ایک عرصہ مشغول رہا ہے۔ ائمۂ سلف صرف اس شخص کو عالم کہتے اور اسی سے علم سیکھنے کی اجازت دیتے تھے جس کا متعلم ہونا معلوم ومتعارف ہوتا۔ اور یہ صرف ایک مدت تک اس میدان میں سعی کرنے ہی سے معروف ہوتا ہے۔
    طلب علم کی یہ مدت اگرچہ قطعی طور پر متعین نہیں کی جا سکتی، لیکن علوم دینیہ کے تنوع اور علماء کے طرز عمل سے اس کی مدت کچھ ماہ یا ایک دو سال نہیں بلکہ آٹھ دس سال یا اس سے زیادہ ہی ہونی چاہیے۔
    بلکہ ائمہ سلف کے یہاں تو ایسے آثار وواقعات بہ کثرت ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت طویل عرصہ تک باقاعدگی سے طلب علم میں مشغول رہا کرتے تھے۔ اور اس وقت تک مسندِ تدریس وافتاء پر براجمان نہیں ہوتے تھے جب تک کہ معاصر اہل علم اس کے رسوخِ علمی اور مہارت وقابلیت کی گواہی نہیں دیتے تھے۔
    جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    میں نے اس وقت تک فتویٰ دینے کا آغاز نہیں کیا تاوقتیکہ اپنے سے بڑے علماء امام ربیعہ اور امام یحییٰ بن سعید سے نہیں پوچھ لیا کہ کیا میں اس کا اہل ہوں یا نہیں؟
    پوچھا گیا: اگر وہ آپ کو فتویٰ دینے سے روک دیتے تو پھر؟ فرمایا:میں رک جاتا۔ اور انسان کو کبھی خود کو کسی شے کا اہل نہیں سمجھنا چاہیے جب تک کہ وہ اس فن میں اپنے سے زیادہ مہارت رکھنے والوں سے اپنی بابت رائے نہ لے لے۔ اور میں نے اس وقت تک فتویٰ نہیں دیا جب تک کہ ۷۰اہل علم نے مجھے فتویٰ دینے کا اہل نہیں قرار دیا۔
    ۲۔ دوسری بات یہ جاننا ضروری ہے کہ پڑھانے والے کا منہج اور افکار ونظریات کیا ہیں؟
    یہ شے اگرچہ اس بندے کے اساتذہ کی معرفت سے بھی عموماً معلوم ہو جاتی ہے، لیکن فکری انتشار کے اس دور میں صرف اساتذہ کی معرفت کافی نہیں، بلکہ ایسے شخص کا اپنا عقیدہ ومنہج معلوم ہونا بھی ضروری ہے۔
    کیونکہ یہ علم دین ہے اور اسے لینے سے قبل دینے والے کا فکری رجحان اور منہج واضح طور پر معلوم ہونا چاہیے، اس لیے کہ نا معلوم شخص سے علم سیکھنا اور اس کی تقریر، درس اور بیان سننا سخت مضر اور نقصان دہ ہے۔
    جیسے ہم بیمار ہونے پر اپنا علاج کسی نا معلوم طبیب سے نہیں کرواتے اور صرف اسی معالج کے پاس جاتے ہیں جس کا ہمیں علم ہوتا ہے کہ وہ کیسا ہے، بعینہٖ دین اور علم سیکھنے سے قبل بھی سکھانے والے کا تعارف ہونا چاہیے، کیونکہ جان کی حفاظت سے ایمان کی حفاظت کہیں زیادہ ضروری اور مقدم ہے۔
    ۳۔ تیسری بات یہ ہے کہ تعلیم وتدریس سے منسلک شخص کے بارے میں معتبر اہل علم کی رائے کیا ہے اور وہ اس کے عقیدہ ومنہج اور علمی مہارت کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں، یہ بھی معلوم ہونا چاہیے، تاکہ کسی ایسے شخص سے علم نہ لیں جو اس کا اہل نہیں یا اس کا منہج درست نہیں، کیونکہ معاصر راسخ الفکر علماء اپنے دور کے لوگوں سے آگاہ ہوتے اور ان کی اصلیت؍حقیقت کا علم رکھتے ہوتے ہیں۔
    آخری بات یہ بھی ذہن نشین رکھیے کہ آپ ہر علم؍فن اس کے ماہر ومتخصص سے سیکھنے کی کوشش کریں، کیوں کہ جو شخص خود کسی شے میں مہارت رکھتا ہے وہی اگلے میں قابلیت پیدا کر سکتا اور بہ تمام وکمال دوسرے تک مہارت منتقل کر سکتا ہے، اس لیے کہ جو شخص خود ہی ایک علم میں مہارت نہیں رکھتا وہ دوسرے کو کیا دے گا، جیسا کہ کہتے ہیں:’’فاقد الشیء لا یعطیہ‘‘، یعنی اگر کوئی شخص خود کسی شے سے محروم ہے تو وہ دوسرے کو بھی دینے کی استطاعت نہیں رکھتا۔
    مذکورہ بالا گزارشات اس بنا پر عرض کی گئی ہیں کہ علم شرعی دین ہے اور اسے حاصل کرنے سے قبل ہی حق وباطل کی معرفت ضروری ہے، تاکہ اپنا تعلق اہل حق کے ساتھ استوار کیا جائے اور اپنے دین وایمان کو محفوظ بنایا جا سکے۔
    اگر ہم ان چیزوں کو سمجھ لیں تو آج کے دور میں بہت سے انحرافات سے محفوظ رہ سکتے ہیں جو داعیانِ ضلالت نے پھیلا رکھے ہیں اور ہر طرف موجود نا اہل یا باطل منہج کے حامل داعیان ومعلمین کو ان قواعد کی روشنی میں پرکھ کر اپنا ایمان وعمل ان سے بچا سکتے ہیں۔ واللہ الموفق

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings