Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • فرض نماز کے بعد ’’ ۔۔۔ یُحْیِی وَیُمِیتُ ۔۔۔‘‘ والے ذکر سے متعلق روایت کی تحقیق

    آج کل مساجد میں لگے پوسٹرمیں نماز کے بعد مسنون اذکار میں درج ذیل ذکرکوبھی شامل کیا گیا ہے :
    ’’ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَ عََلٰي كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٍ‘‘ (فجراور مغرب کے بعد دس بار)
    فجراورمغرب یاکسی بھی نمازکے بعد اس ذکر کا پڑھنا صحیح سند سے ثابت نہیں اس سلسلے کی روایات کاجائزہ پیش خدمت ہے:
    حدیث ابوالدردائص:
    امام طبرانی رحمہ اللہ (المتوفی۳۶۰)نے کہا:
    حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللّٰهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُنَيْسٍ الدِّمْيَاطِيُّ، ثنا مُوسَي بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَطَائٍ الْبَلْقَاوِيُّ، ثنا هَانِئُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، وَرُدَيْحُ بْنُ عَطِيَّةَ، أَنَّهُمَا سَمِعَا إِبْرَاهِيمَ بْنَ أَبِي عَبْلَةَ، يَقُول:سَمِعْتُ أُمَّ الدَّرْدَائِ، تَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَائِ، يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَال:’’ مَنْ قَالَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَهُوَ ثَانٍ رِجْلَهُ قَبْلَ أَنْ يَتَكَلَّمَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَه،لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٍ عَشْرَ مَرَّاتٍ كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ مَرَّةٍ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَمُحِيَ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ، وَرُفِعَ لَهُ عَشَرُ دَرَجَاتٍ، وَكُنَّ لَهُ فِي يَوْمِهِ ذَلِكَ حِرْزًا مِنْ كُلِّ مَكْرُوهٍ وَحِرْزًا مِنَ الشَّيْطَان، وَكَانَ لَهُ بِكُلِّ مَرَّةٍ عِتْقُ رَقَبَةٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، ثَمَنُ كُلِّ رَقَبَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا وَلَمْ يَلْحَقْهُ يَوْمَئِذٍ ذَنْبٌ إِلَّا الشِّرْكَ بِاللّٰهِ، وَمَنْ قَالَ ذَلِكَ بَعْدَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ كَانَ لَهُ مِثْلُ ذَلِكَ‘‘
    صحابی رسول ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:’’جس نے فجرپڑھنے کے بعد سیدھا بیٹھ کر بغیرکوئی کلام کئے ہوئے دس مرتبہ یہ پڑھے:’’ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَه،لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٍ ‘‘تو ہربار پڑھنے کے عوض اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی ، اور دس گناہ مٹائے جائیں گے اور دس درجات بلند کئے جائیں گے اور یہ کلمات اس کے لیے اس دن ہر تکلیف دہ چیز سے نیز شیطان سے حفاظت کا ذریعہ بنیں گے اور ہربار اسے خاندان اسماعیل سے ایسا غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا جس کی قیمت بارہ ہزار درہم ہو اور اس دن شرک کے علاوہ کوئی اور گناہ اس کے حصہ میں نہیں آ سکتا ،اورجس نے مغرب کے بعد ان الفاظ کو کہا اسے بھی اسی طرح کا اجر ملے گا‘‘
    [مسند الشامیین للطبرانی: ۱؍۳۷]
    یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے ، دیکھیں:[ضعیف الترغیب للالبانی :ص :۱۳۶]
    اس کی سند میں ایک راوی ’’موسٰی بن محمد البلقاوی ‘‘ہے یہ کذاب یعنی بہت بڑا جھوٹاہے۔
    امام أبو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۷)نے کہا:
    ’’کان یکذب ویأتی بالأباطیل‘‘
    ’’یہ جھوٹ بولتا تھا اور جھوٹی حدیثیں بیان کرتاتھا‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:۸؍۱۶۱]
    امام عقیلی رحمہ اللہ (المتوفی۳۲۲)نے کہا:
    ’’یحدث عن الثقات، بالبواطیل‘‘
    ’’یہ ثقہ راویوں کے حوالہ سے باطل اور جھوٹی حدیثیں بیان کرتاتھا‘‘[الضعفاء الکبیر للعقیلی:۴؍۱۶۹]
    امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی۳۵۴)نے کہا:
    ’’یَضَع الحَدِیث علی الثِّقَات‘‘
    ’’یہ ثقہ راویوں کے حوالہ سے حدیث گھڑ کر بیان کرتاتھا‘‘[المجروحین لابن حبان:۲؍۲۴۳]
    امام ابن عدی رحمہ اللہ (المتوفی۳۶۵)نے کہا:
    ’’یسرق الحدیث‘‘
    ’’یہ حدیث چور تھا‘‘[الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی:۸؍۶۴]
    امام ابن الجوزی رحمہ اللہ (المتوفی۵۹۷)نے کہا:
    ’’کذاب‘‘
    ’’یہ بہت بڑا جھوٹاہے‘‘[الموضوعات لابن الجوزی:۲؍۲۶۷]
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸)نے کہا:
    ’’کذاب متہم‘‘
    ’’یہ بہت بڑا جھوٹا اور متہم شخص ہے‘‘[المغنی فی الضعفاء للذہبی:ص:۷۴]
    معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے ۔
    حدیث عبد الرحمٰن بن غنم (تابعی):
    امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی۲۴۱)نے کہا:
    حدثنا روح ، حدثنا همام ، حدثنا عبد اللّٰه بن أبي حسين المكي عن شهر بن حوشب ، عن عبد الرحمٰن بن غنم ، عن النبيﷺ أنه قال: من قال قبل أن ينصرف ويثني رجله من صلاة المغرب ، والصبح: لا إله إلا اللّٰه ، وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد بيده الخير، يحيي ويميت ، وهو علٰي كل شيء قدير عشر مرات ، كتب له بكل واحدة عشر حسنات ، ومحيت عنه عشر سيئات ، ورفع له عشر درجات ، وكانت حرزا من كل مكروه ، وحرزا من الشيطان الرجيم ، ولم يحل لذنب يدركه إلا الشرك ، وكان من أفضل الناس عملا ، إلا رجلا يفضله ، يقول:أفضل مما قال۔
    اللہ کے رسول ﷺسے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
    ’’جس نے فجر اور مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد اپنا پاؤں جائے نماز سے پھیرنے سے پہلے دس مرتبہ یہ پڑھے:’’لا إلہ إلا اللّٰہ ، وحدہ لا شریک لہ ، لہ الملک ولہ الحمد، بیدہ الخیر، یحیی ویمیت، وہو علٰی کل شیء قدیر‘‘ تو ہربار پڑھنے کے عوض اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی ، اور دس گناہ مٹائے جائیں گے اور دس درجات بلند کئے جائیں گے اور یہ کلمات اس کے لیے اس دن ہر تکلیف دہ چیز سے نیز شیطان مردود سے حفاظت کا ذریعہ بنیں گے اورشرک کے علاوہ کوئی گناہ اس کے حصہ میں نہیں آسکتا اوراس دن وہ سب سے بہتر عمل کرنے والا شمار ہوگا الایہ کہ کوئی اس سے بہتر بات کہہ دے‘‘
    [مسند أحمد ط المیمنیۃ:۴؍۲۲۷ واخرجہ ایضا الترمذی رقم۳۴۷۴من طریق شھربن حوشب بہ موصولاعن ابی ذر، لکن لیس فیہ تقیید بعد صلاۃ المغرب، وایضا اخطاء شہربن حوشب فی وصلہ والصواب ارسالہ کما قال الدارقطی۔ انظر:علل الدارقطنی:۶؍۲۴۸]
    یہ روایت ضعیف ہے اس میں دو علتیں ہیں:
     الف: ارسال:
    یہ روایت مرسل ہے کیونکہ عبدالرحمن بن غنم اسے اللہ کے نبی ﷺ کے حوالے سے روایت کررہے ہیں اور یہ صحابی نہیں ہیں ، اللہ کے نبی ﷺکا زمانہ انہوں نے نہیں پایا۔ لہٰذا یہ روایت مرسل ہے اور مرسل حدیث ضعیف ہوتی ہے۔
    واضح رہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس حدیث کا مرسل ہونا ہی راجح قرار دیا ہے ، چنانچہ:
    امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی۳۸۵)نے کہا:
    ’’والصحیح عن ابن أبی حسین المرسل ابن غنم ، عن النبی صلی ﷺ‘‘
    ’’صحیح بات یہ ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے یعنی اللہ کے نبی ﷺسے اسے ابن غنم روایت کررہے ہیں (اور انہوں نے اللہ کے نبیﷺ کو دیکھا ہی نہیں کیونکہ یہ صحابی نہیں ہیں‘‘[علل الدارقطنی:۶؍۲۴۸]
     دوم:شہربن حوشب کا اضطراب شدید:
    اس روایت کا دار ومدار شہربن حوشب پرہے اور یہ ا س روایت کو بیان کرنے میں سند و متن دونوں اعتبار سے بہت زیادہ اضطراب کا شکار ہوا ہے۔
    امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی۳۸۵)نے کہا:
    ’’ویشبہ أن یکون الاضطراب فیہ من شہر، واللّٰہ اعلم‘‘
    ’’اس روایت میں اضطراب کاذمہ دار شہربن حوشب ہی معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم‘‘ [علل الدارقطنی:۶؍۲۴۸]
    اس اضطراب کی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے ہم صرف علامہ البانی رحمہ اللہ کے الفاظ میں خلاصہ نقل کرنے پراکتفاء کرتے ہیں ۔
    علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    وفي تصحيحه نظر لأنه من رواية شهر بن حوشب عن عبد الرحمٰن بن غنم وقد اضطرب شَهْر فى إسناده ومتنه على ابْنُ غَنْم:أما الإسناد فمرة يقول: عن ابْنُ غَنْم مرفوعاًَ۔وابْنُ غَنْم مُخْتَلَفٌ فى صحبته، فهو مرسل۔وهو رواية أحمد:۴؍۲۲۷ ومرة يقول:عنه عن أبي ذَرٍّ مرفوعاً، وهو رواية التِّرْمِذِيّ وكذا النَّسَائِيّ فى عمل اليوم والليلة ،رقم ۱۲، وتارة يقول:عنه عن مُعَاذ۔ وهو رواية النَّسَائِيّ رقم ۱۲۶،وأخري يقول:عنه عن فاطمة رضي اللّٰه عنها، وهو رواية لأحمد : ۶؍۲۹۸۔فهذا اضطراب شديد من شَهْر يدل على ضعفه كما تقدم، ولذلك قال النَّسَائِيّ عقبه: وشَهْر بن حَوْشَب ضعيف، سُئِلَ ابْنُ عون عن حديث شَهْر؟ فقال:إن شَهْراً تركوه ( أى طعنوا عليه وعابوه)، وكان شُعْبة سَيِّئَ الر أى فيه، وتركه يحيي القطان۔وأما المتن:فتارة يذكر صلاة الفجر دون المغرب، كما فى حديث أبي ذَرّ۔وتارة يجمع بينهما، كما فى حديث ابْنُ غَنْم المرسل، وحديث فاطمة، وأخري يذكر العصر مكان المغرب، وذلك فى حديث مُعَاذ، وتارة يذكر يحيي ويُمِيِت وتارة لا يذكرها، وتارة يزيد قبلها بيده الخير، وتارة لا يذكرها، وتارة يذكر: قبل أن ينصرف ويَثْنِي رجليه۔وتارة لا يذكرها۔وتارة يضطرب فى بيان ثواب ذلك بما لا ضرورة لبيانه الآن۔وبالجملة فهذا الاضطراب فى إسناده ومتنه لو صدر من ثقة لم تطمئن النفس لحديثه فكيف وهو من شهر الذى بالضعف اشتهر ؟
    اس حدیث کو صحیح قرار دینا محل نظر ہے کیونکہ اسے شہربن حوشب نے عبدالرحمن بن غنم سے بیان کیا ہے اور شہربن حوشب اس حدیث کو ابن غنم سے نقل کرنے میں سند ومتن دونوں اعتبار سے اضطراب کا شکار ہوا ہے ، جہاں تک سند کامعاملہ ہے تو کبھی یہ ابن غنم سے اسے مرفوعاً نقل کرتاہے اورابن غنم کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے لہٰذا یہ طریق مرسل ہوا یہ روایت ’’مسند احمد ۴؍۲۲۷‘‘ میں ہے ۔ اور کبھی ابن غنم عن ابی ذر کے واسطہ سے نقل کرتا ہے یہ ’’ترمذی‘‘ اور’’ نسائی عمل الیوم واللیلۃ رقم۱۲‘‘کی روایت ہے ۔ اور کبھی ابن غنم عن معاذ کے واسطہ سے نقل کرتاہے یہ ’’نسائی رقم ۱۲۶‘‘کی روایت ہے ۔ اور کبھی ابن غنم عن فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ سے نقل کرتاہے یہ ’’مسنداحمد۶؍۲۹۸‘‘کی روایت ہے ، تو یہ شہربن حوشب کا شدید اضطراب جو اس کے ضعیف ہونے پردلالت کرتاہے کمامضی ۔
    اوراسی لیے امام نسائی نے اس کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہاکہ شہربن حوشب ضعیف ہے ۔اورابن عون سے حدیث شہرکے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:کہ محدثین نے اسے متروک سمجھا ہے (یعنی اس پر طعن کیا ہے اور اس پرجرح کی ہے)۔اور امام شعبہ رحمہ اللہ اس کے بارے میں بری رائے رکھتے تھے۔اورامام یحییٰ بن سعید القطان نے اسے متروک سمجھا ۔
    اورجہاں تک متن میں اضطراب کی بات ہے تو کبھی یہ مغرب کے بجائے صرف نماز فجر کا ذکر کرتاہے، جیساکہ (اس کی نقل کردہ )ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔اورکبھی دونوں نمازوں کو ایک ساتھ ذکر کرتاہے جیساکہ ابن غنم کی مرسل حدیث اور حدیث فاطمہ میں ہے ۔ اور کبھی مغرب کی جگہ عصر کی نماز کا ذکر کرتاہے اور ایسا معاذرضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے ۔اورکبھی یحیی ویُمِیِت کے الفاظ بھی بیان کرتاہے اور کبھی ان الفاظ کو چھوڑ دیتا ہے ۔ اورکبھی ان الفاظ سے قبل بیدہ الخیر کا اضافہ کرتا ہے اورکبھی یہ اضافہ نہیں کرتا ۔ اورکبھی قبل أن ینصرف ویَثْنِی رجلیہ کے الفاظ ذکر کرتاہے اور کبھی ان کا ذکر نہیں کرتا اور کبھی اس عمل کے ثواب کو بیان کرنے میں اضطراب کا شکار ہوتا ہے جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔
    الغرض یہ کہ ایک ہی حدیث کی سند و متن میں اس طرح کا اضطراب اگر کسی ثقہ راوی سے صادر ہوجائے تو اس کی حدیث بھی محل نظر ہوجائے گی ،چہ جائے کہ ایسے اضطراب کا صدور شہربن حوشب کی طرف سے ہو جو ضعیف ہونے میں مشہور ہے۔
    [تمام المنۃ ص۲۲۹]۔
    علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف تسلیم کرنے بعد شواہد کے پیش نظر اس کے الفاظ کو قوی قرار دیا ہے لیکن ان تمام شواہد میں فجراورمغرب کی نماز کے بعد کی قید نہیں ہے بلکہ مجموعی سیاق اس بات پردلالت کرتا ہے کہ ان الفاظ کو صبح وشام کے اذکار کے طور پر ذکر کیا گیا ۔
    اورعلامہ البانی رحمہ اللہ کا بھی قدیم موقف یہی تھا کہ نماز کے قید کے ساتھ یہ روایت صحیح نہیں ہے ،البتہ صبح وشام کے اذکار کے طور پر یہ روایت صحیح ہے، جیساکہ علامہ موصوف نے’’ سلسلہ صحیحہ رقم ۱۱۳ ،اوررقم ۱۱۴‘‘کے تحت وضاحت کی تھی، لیکن بعد میں علامہ البانی رحمہ اللہ کو ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے منقول ایک روایت ملی جس میں نماز کے بعد کی قید ہے اور محض اسی روایت کو بنیاد بناکر علامہ البانی رحمہ اللہ نے شہربن حوشب کی روایت کو حسن لغیرہ کہا (سلسلہ صحیحہ: رقم: ۱۱۴)اوربعض دیگرروایات کے عموم کو بھی اسی پرمحمول کیا دیکھئے:(صحیح الترغیب:ج:۱،ص:۳۲۲)حالانکہ ان روایات کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنے قدیم موقف میں صبح و شام کے اذکار کے طورپرپیش کیا تھا دیکھئے : (سلسلہ صحیحہ: رقم: ۱۱۳)۔
    عرض ہے کہ ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جسے علامہ البانی نے مرکزی شاہد باور کیا ہے وہ شاہد بننے کے قابل ہی نہیں تفصیل اگلی سطور میں۔
    حدیث ابی امامہ ص:
    امام طبرانی رحمہ اللہ (المتوفی۳۶۰)نے کہا:
    حَدَّثَنَا الْمِقْدَامُ بْنُ دَاوُدَ، ثنا أَسَدُ بْنُ مُوسَي، ثنا آدَمُ بْنُ الْحَكَمِ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ الْوَلِيدِ النَّرْسِيِّ، ثنا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ، ثنا أَبِي، ثنا آدَمُ بْنُ الْحَكَمِ، ثنا أَبُو غَالِبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَال: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ:’’مَنْ قَالَ فِي دُبُرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْئٍ قَدْيرٌ مِائَةَ مَرَّةٍ قَبْلَ أَنْ يَثْنِيَ رِجْلَيْهِ، كَانَ يَوْمَئِذٍ أَفْضَلَ أَهْلِ الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ قَالَ مِثْلَ مَا قَالَ أَوْ زَادَ عَلٰي مَا قَال‘‘
    ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:’’جس نے نماز فجرکے بعد جائے نماز سے اپناپاؤں پھیرنے سے پہلے سو (۱۰۰) بار کہا: لا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْئٍ قَدْيرٌ‘‘وہ اس دن روئے زمین کا سب افضل شخص ہوگا الا یہ کہ کوئی اوربھی اسی طرح کہہ دے یا اس سے زیادہ کہہ دے‘‘
    [المعجم الکبیر للطبرانی :۸؍۲۸۰]
    عرض ہے کہ یہ روایت گزشتہ روایت کی شاہد نہیں بن سکتی اس کی دو وجوہات ہیں:
     پہلی وجہ:
    کیونکہ اس کا متن گزشتہ روایت کے متن سے بہت مختلف ہے ، چنانچہ اس روایت میں کلمات مذکورہ کو سو(۱۰۰) بار پڑھنے کے لیے کہا گیا ہے جبکہ گذشتہ حدیث میں دس بار کاذکرہے،نیزاس روایت میں نماز مغرب کا بھی ذکر نہیں ۔
     دوسری وجہ:
    متن کے اس اختلاف کے ساتھ ساتھ یہ حدیث بھی سخت ضعیف ہے سند میں أبو غالب حزور الباہلی ہے یہ ضعیف ہے بلکہ بعض ناقدین نے اس پرسخت جرح کی ہے۔ چنانچہ:
    امام ابن سعد رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۰)نے کہا:
    ’’کانَ ضَعیفًا، مُنکَرَ الحَدیثِ‘‘
    ’’یہ ضعیف اورمنکرحدیث بیان کرنے والا تھا‘‘[الطبقات لابن سعد:۹؍ ۲۳۶]
    امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی ۳۵۴)نے کہا:
    ’’مُنکر الْحَدِیث عَلٰی قلتہ لَا یَجُوز الِاحْتِجَاج بِہِ إِلَّا فِیمَا یُوَافق الثِّقَات‘‘
    ’’یہ کم حدیث والا ہونے کے ساتھ ساتھ منکر حدیث بیان کرتا تھا اس سے احتجاج جائز نہیں جب تک کہ ثقہ رواۃ اس کی موافقت نہ کردیں‘‘[المجروحین لابن حبان:۱؍۲۶۷]
    ض امام أبو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۷نے کہا:
    ’’لیس بالقوی‘‘
    ’’یہ قوی نہیں ہے‘‘ [الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:۳؍۳۱۵]
    امام نسائی رحمہ اللہ (المتوفی۳۰۳نے کہا:
    ’’ضَعِیف‘‘
    ’’یہ ضعیف ہے‘‘[الضعفاء والمتروکون للنسائی: ص۱۱۵]
    سند میں ایک دوسرا راوی ’’آدم بن الحکم البصری ‘‘ہے ،بعض محدثین نے اس پر بھی جرح کی ہے ،چنانچہ:
    ض امام علی بن المدینی رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۴)نے کہا:
    ’’ضَعِیف ضَعِیف‘‘[سؤالات ابن أبی شیبۃ لابن المدینی:ص۶۷]
    ض امام ابن أبی حاتم رحمہ اللہ (المتوفی۳۲۷)نے کہا:
    ’’تغیر حفظہ‘‘ [لسان المیزان ت أبی غدۃ :۲؍۱۵]
    خلاصۂ بحث:
    اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ فجرومغرب کے بعد مذکورہ ذکر پڑھنے سے متعلق ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے منقول روایت موضوع ہے، جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہاہے۔
    اور ابن غنم کی حدیث کو شہربن حوشب نے روایت کیا اور شدید اضطراب کا شکار ہوا ہے لہٰذا اس کی یہ روایت بھی ضعیف ہے جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہاہے۔
    ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایت جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے مرکزی شاہد باور کیا ہے (سلسلہ صحیحہ رقم ۱۱۴) وہ سخت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ متن کے اعتبارسے بالکل علیحدہ روایت ہے لہٰذا اسے شاہد قرار دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، نتیجتاًیہ روایت ہرحال میں ضعیف ہی ہے۔
    امام دارقطنی (العلل۶؍۲۴۸) امام احمد (الفتح لابن رجب: ۷؍ ۴۲۸) امام نسائی (سنن النسائی الکبری:۶؍۳۷) اور امام ابن رجب (فتح الباری ۷؍۴۲۸) رحمہمااللہ نے اسے ضعیف قراردیا ہے۔
    معاصرین میں سے بھی متعدد اہل علم نے اسے ضعیف قرار دیاہے۔ مثلاً دیکھئے: [المصطفی من أذکار المصطفی ص۲۱۳].
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings