Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • طلاق حیض کے عدم وقوع سے متعلق ابن عمر رضی اللہ عنہ کے فتویٰ کی سند

    عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو جو طلاق دی تھی اللہ کے نبیﷺنے اسے رد کردیا تھا اس سے متعلق روایات کی تفصیل کے لیے ہماری کتاب’’ احکام طلاق ‘‘کی طرف رجوع کریں۔
    ذیل میں اس بات کی تفصیل پیش کی جارہی ہے کہ صاحب واقعہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ بھی یہی تھا کہ حیض کی حالت میں دی گئی طلاق کا کوئی شمار نہیں ہوگا۔ چنانچہ:
    امام ابن حزم رحمہ اللہ (المتوفی:۴۵۶) نے کہا:
    نا يونس بن عبيد اللّٰه نا ابن عبد اللّٰه بن عبد الرحيم نا أحمد بن خالد نا محمد بن عبد السلام الخشني نا ابن بشار نا عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي نا عبيد اللّٰه بن عمر عن نافع مولي ابن عمر عن ابن عمر أنه قال فى الرجل يطلق امرأته وهى حائض، قال ابن عمر: لا يعتد بذلك ۔
    نافع رحمہ اللہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دیا ، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ اس کی طلاق کا کوئی شمار نہیں ہوگا۔
    [المحلی لابن حزم، ت بیروت:۹؍۳۷۵، أیضا:۹؍۳۸۱، وإسنادہ صحیح ، إغاثۃ اللہفان ط عالم الفوائد:۱؍۵۲،وقال المحقق : إسنادہ صحیح]
    امام ابن حزم رحمہ اللہ (المتوفی:۴۵۶) نے کہا:
    ’’الروایۃ الصحیحۃ ‘‘،’’ صحیح روایت‘‘[المحلی لابن حزم، ت بیروت:۹؍۳۸۱]
    امام ابن قیم رحمہ اللہ (المتوفی:۷۵۱) نے کہا:
    ’’ وہذا إسناد صحیح ‘‘، ’’یہ سند صحیح ہے‘‘ [عون المعبود مع حاشیۃ ابن القیم:۶؍۱۷۱]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲) نے کہا:
    ’’ وإسنادہ صحیح‘‘ ،’’ اس کی سند صحیح ہے‘‘[التمییز لابن حجر، ت دکتور الثانی:۵؍۲۴۳۵]
    اس اثر کے متن پر اعتراض اور اس کا جواب:
    امام ابن أبی شیبۃ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۵)نے کہا:
    حدثنا عبد الوهاب الثقفي ، عن عبيد اللّٰه بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، فى الذى يطلق امرأته وهى حائض ، قال : ’’لا تعتد بتلك الحيضة ‘‘
    نافع روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں کہا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی کہ:’’ اس کی بیوی اس حیض کا شمار نہیں کرے گی ‘‘
    [مصنف ابن أبی شیبۃ. سلفیۃ:۵؍۵ ، وإسنادہ صحیح وأخرجہ أیضا ابن الأعرابی فی معجمہ:۲؍۸۵۰، والبیہقی فی سننہ:۷؍۴۱۸، من طریق ابن معین عن عبدالوہاب بہ]
    اس روایت کی بنیاد پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابن حزم کی روایت میں جس چیز کو شمار نہ کرنے کی بات ہے وہ طلاق نہیں بلکہ حیض ہے جیساکہ دوسری روایت میں صراحت ہے ۔
    عرض ہے کہ ابن حزم کی روایت مجمل نہیں ہے بلکہ بالکل صریح اور واضح ہے کہ انہوں نے طلاق کو شمار نہ کرنے کی بات کہی ہے ، اسی طرح جس طریق میں حیض کو شمار نہیں کرنے کی بات ہے وہ بھی بالکل صریح اور واضح ہے۔اس لیے دوسری روایت پہلی روایت کی تشریح نہیں ہے بلکہ دونوں روایات میں الگ الگ بات ہے اور دونوں ہی ثابت شدہ ہیں۔
    دراصل ابن عمر رضی اللہ عنہ کامکمل کلام یہی ہے کہ وہ حیض کی حالت میں طلاق دینے پر نہ تو طلاق شمار کرتے تھے اور نہ ہی ایسی طلاق کے بعد بطور عدت حیض کو شمار کرتے تھے ، عبدالوہاب الثقفی نے اپنے طریق سے یہ دونوں باتیں نقل کی ہیں لیکن انہوں نے بعض دفعہ پہلی بات بیان کی ہے اور بعض دفعہ دوسری بات بیان کی ہے۔
    اور دیگر رواۃ کے یہاں بھی روایت کا یہ طرز عمل ملتا ہے ،چنانچہ :
    ایک ہی سند سے دو متن ثابت ہونی کی مثال: عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے دورخلافت میں صدقۃ الفطر کی ادائیگی کے لیے یہ فرمان جاری کیا تھا کہ طعام یا نصف درہم وصول کیا جائے۔
    ابواسامہ نے عوف کے طریق سے یہ دونوں باتیں نقل کی ہیں لیکن انہوں نے بعض دفعہ صرف طعام والی بات بیان کی ہے اور بعض دفعہ صرف نصف درہم والی بات بیان کی ہے۔
    چنانچہ : امام ابن أبی شیبۃ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۵)نے کہا:
    حدثنا أبو أسامة، عن عوف، قال: سمعت كتاب عمر بن عبد العزيز إلى عدي يقرأ بالبصرة فى صدقة رمضان: على كل صغير أو كبير، حر أو عبد، ذكر أو أنثي، نصف صاع من بر، أو صاع من تمر۔
    بصرہ میں عدی کے پاس عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا فرمان پڑھا گیا جس میں تھا کہ : ہر چھوٹے بڑے ، آزاد غلام اور مرد عورت کی طرف سے نصف صاع گیہوں یا ایک صاع کھجورکی ادائیگی واجب ہے۔
    [مصنف ابن أبی شیبۃ، ت الشثری:۶؍۲۸۹، وإسنادہ صحیح، وأخرجہ أیضا الطحاوی فی شرح معانی الآثار :۲؍۴۷، من طریق عبد اللّٰہ بن حمران عن عوف بہ]
    یہاں ابواسامہ نے عوف کے طریق سے صرف طعام والی بات نقل کی ہے ۔ اب اگلی روایت دیکھیں:
    امام ابن أبی شیبۃ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۵)نے کہا:
    حدثنا أبو أسامة، عن عوف، قال: سمعت كتاب عمر بن عبد العزيز يقرأ إلى عدي بالبصرة: يؤخذ من أهل الديوان من أعطياتهم، عن كل إنسان نصف درهم ۔
    بصرہ میں عدی کے پاس عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا فرمان پڑھا گیا جس میں تھا کہ : سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سے نصف درہم ہر انسان کی طرف سے (بطور فطرہ ) لیا جائے گا۔
    [مصنف ابن أبی شیبۃ، ت الشثری:۶؍۲۹۳، وإسنادہ صحیح وأخرجہ ابن زنجویہ فی الأموال:۳؍۱۲۶۸،من طریق ابن المبارک عن عوف بہ]
    یہاں ابواسامہ نے اسی طریق سے یہ روایت نقل کیا مگر صرف نصف درہم والی بات بیان کی ہے۔
    یہی معاملہ عبد الوہاب الثقفی کا بھی ہے کہ انہوں نے ایک روایت کے الگ الگ حصے کو الگ الگ موقع سے بیان کیا ہے اور ساری باتیں ثابت ہیں ۔
    ایک ہی سند سے مروی ابن عمر رضی اللہ عنہ کے الگ الگ واقعات و اقوال:
    اگرعبیداللہ نے نافع کے طریق سے ابن عمررضی اللہ عنہ کا طلاق سے متعلق صرف ایک ہی فتوی نقل کیا ہوتا تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ ایک روایت دوسری روایت کی تشریح ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عبیداللہ نے نافع کے طریق سے ابن عمررضی اللہ عنہ کی طرف سے طلاق ہی سے متعلق کئی باتیں نقل کی ہیں ، جن کی درج ذیل دو قسمیں ہیں:
    (الف) پہلی قسم : ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واقعہ حیض سے متعلق :
    ابن عمر رضی اللہ عنہ کے طلاقِ حیض کا واقعہ:
    عن عبيد اللّٰه ، أخبرني نافع ، عن ابن عمر ، أنه طلق امرأته وهى حائض ، فأتي عمر النبى ﷺ ، فاستفتاه فقال : مر عبد اللّٰه فليراجعها ، حتي تطهر من حيضتها هذه ، ثم تحيض حيضة أخري ، فإذا طهرت فليفارقها قبل أن يجامعها ، أو ليمسكها ، فإنها العدة التى أمر أن تطلق لها النساء ۔
    عبیداللہ نے نافع سے انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمررضی اللہ عنہ نبی ﷺکے پاس آئے اور ان سے فتویٰ پوچھا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا: عبدللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہو کہ وہ اپنی بیوی واپس لے لیں یہاں تک کہ وہ اس حیض سے پاک ہوجائے پھر اسے دوسری بار حیض آئے پھر اس کے بعد جب وہ پاک ہو تو اسے جماع سے پہلے الگ کردیں ، یا اسے روک لیں یہی وہ عدت ہے جس میں عورتوں کو طلاق دینے کاحکم ہے ۔
    [مسند أحمد ط المیمنیۃ:۲؍۵۴،وإسنادہ صحیح]
    یہاں عبیداللہ نے نافع کے طریق سے صرف ابن عمررضی اللہ عنہ کے طلاق ِحیض کا واقعہ نقل کیا ہے۔
    ابن عمررضی اللہ عنہ کے واقعۂ طلاق حیض سے متعلق یہ وضاحت کہ انہوں نے ایک طلاق دی تھی :
    قال عبيد اللّٰه: وكان تطليقه إياها فى الحيض واحدة غير أنه خالف فيها السنة ۔
    عبیداللہ کہتے ہیں کہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے حالت حیض میں جو طلاق دی تھی وہ ایک طلاق تھی یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اس میں سنت کی مخالفت کی تھی ۔
    [ مسند عمر بن الخطاب للنجاد: ص:۴۹،وإسنادہ صحیح]
    یہاں عبیداللہ نے نافع کے طریق سے ابن عمررضی اللہ عنہ کے واقعہ طلاق حیض کو بیان کرنے کے بعد یہ وضاحت کی کہ انہوں نے ایک طلاق دی تھی ۔
    ابن عمررضی اللہ عنہ کے واقعہ طلاق حیض سے متعلق نافع کا قول کہ اسے شمار کیا گیا تھا :
    قال عبيد اللّٰه: قلت لنافع: ما صنعت التطليقة؟ قال: واحدة اعتد بها ۔
    عبیداللہ نے کہا: میں نے نافع سے پوچھا: اس طلاق کا کیا ہوا؟ تو نافع نے جواب دیا: یہ ایک طلاق تھی جسے شمار کیا گیا۔
    [صحیح مسلم :رقم:۱۴۷۱]
    یہاں عبیداللہ نے نافع کے طریق سے ابن عمررضی اللہ عنہ کے واقعۂ طلاق حیض کو سننے کے بعد نافع سے سوال کیا جس کے جواب میں نافع نے کہا کہ اس طلاق کو شمار کیا گیا ، (یہ شمار کرنے والے ابن عمررضی اللہ عنہ تھے جیساکہ دیگرروایات میں ہے)
    ابن عمررضی اللہ عنہ کے واقعہ طلاق حیض سے متعلق یہ بیان کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے طلاق کو شمار کیا اور ان کی بیوی کا عمل کہ انہوں نے اس طلاق کی عدت نہیں گزاری :
    عبيد اللّٰه بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر: أنه طلق امرأته على عهد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وهى حائض قال: فاعتد ابن عمر بالتطليقة، ولم تعتد امرأته بالحيضة ۔
    عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے دور میں اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ، تو ابن عمررضی اللہ عنہ نے اس طلاق کو شمار کیا اور ان کی بیوی نے اس حیض سے عدت نہیں گزاری۔
    [معرفۃ السنن والآثار للبیہقی:۱۱؍۲۹، وإسنادہ حسن]
    (ب) دوسری قسم : ابن عمر رضی اللہ عنہ کے دیگر عام فتاویٰ :
    ابن عمررضی اللہ عنہ کا یہ عام فتویٰ کہ طلاق حیض کی عدت شمار نہیں ہوگی:
    عن عبيد اللّٰه بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر، فى الذى يطلق امرأته وهى حائض، قال:لا تعتد بتلك الحيضة۔
    عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں کہا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی کہ اس کی بیوی اس حیض کا شمار نہیں کرے گی۔
    [مصنف ابن أبی شیبۃ. سلفیۃ:۵؍۵ ، وإسنادہ صحیح وأخرجہ أیضا ابن الأعرابی فی معجمہ:۲؍۸۵۰، والبیہقی فی سننہ:۷؍۴۱۸ من طریق ابن معین عن عبدالوہاب بہ]
    ابن عمررضی اللہ عنہ کا یہ عام فتوی کہ طلاق حیض شمار نہیں کی جائے گی:
    عبيد اللّٰه بن عمر عن نافع مولي ابن عمر عن ابن عمر أنه قال فى الرجل يطلق امرأته وهى حائض، قال ابن عمر: لا يعتد بذلك۔
    عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دیا ، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ اس کی طلاق کا کوئی شمار نہیں ہوگا ۔
    [المحلی لابن حزم، ت بیروت:۹؍۳۷۵، أیضا :۹؍۳۸۱، وإسنادہ صحیح ، إغاثۃ اللہفان ط عالم الفوائد:۱؍۵۲، وقال المحقق : إسنادہ صحیح]
    ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ عام فتویٰ کہ غیر مدخولہ کو دی گئی بیک وقت تین طلاق تین شمارہوگی:
    عبيد اللّٰه بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر… فى الرجل يطلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، قالوا: لا تحل له حتي تنكح زوجا غيره ۔
    عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس شخص کے بارے میں کہا جو اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دے ، اس کی بیوی اس کے لیے تب تک حلال نہ ہوگی جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے۔
    [مصنف ابن أبی شیبۃ، ط الفاروق:۶؍۳۴۱،إسنادہ صحیح وأخرجہ أیضا البیہقی فی سننہ:۷؍۳۳۵،من طریق سفیان عن عبید اللّٰہ بن عمر بہ ، وأخرجہ أیضا الطحاوی فی شرح معانی الآثار، ت النجار:۳؍۵۷، من طریق محمد بن إیاس بن البکیر عن ابن عمر بہ ]
    ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فتویٰ کہ طلاق البتہ یعنی تین طلاق تین شمارہوگی:
    عبيد اللّٰه بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر،في البتة ثلاث تطليقات۔
    عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے طلاق البتہ کو تین طلاق قراردیا
    ۔ [مصنف ابن أبی شیبۃ، ط الفاروق:۶؍۳۸۷ ،رقم:۱۸۴۲۷،وإسنادہ صحیح ]
    ملاحظہ فرمائیں کہ عبیداللہ نے نافع کے طریق سے طلاق سے متعلق جو باتیں بیان کی ہیں ان کی دوقسم ہے اور ہرقسم میں چارچار طرح کی باتیں ہیں:
    پہلی قسم میں ایسی باتیں ہیں جو ابن عمررضی اللہ عنہ کے خاص واقعۂ حیض سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان میں انہوں نے :
    کبھی صرف ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واقعۂ طلاق حیض کو بیان کیا ہے۔
    کبھی اس واقعہ کے بیان کے بعد خود یہ وضاحت کی کہ اس واقعہ میں حالت حیض میں ایک ہی طلاق دی گئی تھی۔
    کبھی نافع سے اپنے سوال اور اس پر ان کے جواب کو بیان کیا کہ یہ ایک طلاق شمار کی گئی تھی (یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے)
    کبھی نافع کے طریق سے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو بیان کیا کہ انہوں نے اس طلاق کو شمار کیا اور ان کی بیوی نے اس کی عدت نہیں گزاری ۔
    دوسری قسم میں ایسی باتیں ہیں جو ابن عمررضی اللہ عنہ کے خاص واقعہ حیض سے تعلق نہیں رکھتی ہیں بلکہ طلاق سے متعلق ان کے دیگرعام فتاویٰ ہیں۔ان میں کبھی:
    ان کا یہ فتویٰ بیان کیا کہ طلاق حیض کی عدت شمار نہیں ہوگی۔
    کبھی ان کا یہ فتویٰ بیان کیا کہ طلاق حیض کو شمار نہیں کیا جائے گا۔
    کبھی ان کا یہ فتویٰ بیان کیا کہ غیر مدخولہ کو دی گی بیک وقت تین طلاق تین شمار ہوگی۔
    کبھی ان کا یہ فتویٰ کہ طلاق البتہ تین طلاق شمار ہوگی۔
    عبیداللہ کی نافع کے طریق سے بیان کردہ دونوں قسم کی ان باتوں کو ثابت شدہ مانا جاتا ہے اور کسی بات کو دوسری بات کے معارض بتا کررد نہیں کیا جاتا، مثلاً پہلی قسم یعنی واقعہ حیض سے متعلق روایات کو بنیاد بنا کر ، دوسری قسم یعنی دیگر عام فتاوی کی روایات کو رد نہیں کیا جاتا، بالخصوص غیرمدخولہ کو بیک وقت دی گئی تین طلاق کوتین شمار کرنے کا فتویٰ ، جوکہ دیگر روایات سے الگ تھلگ ہے، اسی طرح طلاق البتہ کو تین طلاق قراردینا جو کہ سب سے بالکل ہی الگ چیز ہے۔
    ایک ہی سند سے ابن عمر رض سے مروی دو متضاد اقوال کی مثال:
    رہی یہ بات کہ اسی سند یہ بھی تو منقول ہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہ نے طلاق حیض کو شمار نہیں کیا ، جیساکہ اوپر اسی سند سے منقول روایت میں اس کا ذکر ہے ۔
    توعرض ہے کہ یہ بات بھی ابن عمررضی اللہ عنہ سے ثابت ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ، لیکن اس کی بناپر اس سے متضاد ان کے دوسرے قول کو رد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ بھی ثابت شدہ ہے، اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ایک ہی سند سے کسی ایک ہی صحابی کے دو متضاد اقوال ثابت ہوں۔ بلکہ خود ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی کی مثال لیجئے کہ مختلعہ کی عدت کے بارے میں بھی ابن عمر رضی اللہ عنہ سے دو متضاد قول مروی ہے اور دونوں کے راوی نافع ہی ہیں۔
    ایک روایت میں نافع کہتے ہیں:
    وقال عبد اللّٰه بن عمر عدتها عدة المطلقة۔
    اور ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس (مختلعہ ) کی عدت مطلقہ کی عدت ہے ۔
    [موطأ مالک ت عبد الباقی: ۲؍۵۶۵،وإسنادہ صحیح]
    اور دوسری روایت میں نافع کہتے ہیں:
    عن ابن عمر قال: عدة المختلعة حيضة۔
    ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ مختلعہ کی عدت ایک حیض ہے۔
    [سنن أبی داود :رقم:۲۲۳۰،وإسنادہ صحیح]
    لہٰذا طلاق حیض میں بھی نافع ہی ان سے دو الگ الگ فتویٰ نقل کریں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔
    الغرض عبیداللہ نے نافع کے طریق سے ابن عمررضی اللہ عنہ کا جویہ فتویٰ نقل کیا ہے کہ طلاق حیض شمار نہیں کی جائے گی ، اسے بھی الگ اور مستقل فتویٰ مانا جائے گا اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی ثابت مانا جائے گا۔
    دراصل طلاق سے متعلق ابن عمررضی اللہ عنہ کا دو فتویٰ ہے ایک یہ کہ طلاق بدعت واقع نہیں ہوگی ، مثلا ًبیک وقت تین طلاق ایک ہی ہوگی ، اسی طرح حالت حیض میں دی گئی طلاق کا شمار نہیں ہوگا ۔یہی ان کا اصلی اور شرعی فتویٰ ہے ۔ لیکن ان کے والد نے جب طلاق بدعت کو بھی تعزیرا نافذ کرنے کا فرمان جاری کیا تو اس کی رعایت میں وہ طلاق بدعت کے وقوع کا فتویٰ دیتے ، یعنی بیک وقت تین طلاق کو تین بتلاتے اور طلاق حیض کو بھی شمار کرتے ۔ یہ ان کا اصلی فتویٰ نہیں تھا بلکہ سرکاری فرمان کے تحت سیاسی اور عارضی فتویٰ تھا ۔اس کی مزید وضاحت ہماری کتاب احکام طلاق میں ملاحظہ فرمائیں ۔
    اس طرح ان کے دونوں فتاویٰ میں کوئی تعارض نہیں رہ جاتا ہے ، بلکہ دونوں کے مابین اس طرح تطبیق ہوجاتی ہے کہ طلاق کے عدم وقوع کا فتویٰ ان کا اصل فتویٰ ہے ، جو ان کی روایت کردہ حدیث کے موافق ہے ، جبکہ وقوع طلاق کا فتویٰ مصلحت اور سیاسی ضرورت کے پیش نظر تھا جو عارضی اور وقتی تھا ۔ والحمدللہ
    طلاق حیض اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کے فتویٰ سے متعلق بعض اور شبہات کے جوابات کے لیے دو قسط پر مشتمل ہمارے اس مضمون کی طرف مراجعت کریں:
    (۱)طلاق حیض ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ اور شبہات کا ازالہ
    (۲)طلاق حیض ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ اور شبہات کا ازالہ

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings