-
منہج سلف اور اس کی ضرورت منہج عربی زبان کالفظ ہے اس کامطلب واضح راستہ ،روشن طریقہ، یا وہ طریقہ جو ظاہر وواضح اور مستقیم ہو ۔
اور سلف کی تعریف اس طرح ہے:
’’أنهم الصحابة الكرام والتابعون ،وأتباع التابعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين ‘‘۔
’’سلف سے مراد صحابۂ کرام، تابعین عظام ،اتباع تابعین اور تاقیامت احسان واخلاص واتقان کے ساتھ جو ان کی اتباع کریں‘‘ ۔
[الآثار الواردۃ عن السلف فی العقیدۃ من خلال کتب المسائل المرویۃ عن الإمام أحمد جمعا وتخریجا ودراسۃ ، ص:۳۴]
شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هم اهل القرون المفضله من الصحابة والتابعين وأتباعهم ومن اقتفي أثرهم وسار على منهجهم‘‘۔
’’سلف در اصل اہل قرون مفضلہ یعنی صحابہ تابعین و تبع تابعین سے عبارت ہے نیز جو احسان کے ساتھ ان کی اتباع کرے اور ان کے منہج پر چلے اسے بھی سلفی کہا جاتا ہے‘‘۔
[ أصول منہج السلف وأصحاب الحدیث:۱۷۰]
منہج سلف سے مراد کیا ہے ؟
منہج سلف کا مطلب ہے کہ رسول اللہﷺکے اصحاب واخیار،تابعین اور تبع تابعین کے طریقے پرعقیدہ وعمل کو قبول کیا جائے،بالفاظ دیگر منہج سلف یہ ہے کہ اسلام اوردین کے مصادر کو اسی طریقہ سے سمجھاجائے اوراس کے مطابق عمل کیا جائے ۔جس طریقہ سے رسول اللہ ﷺ نے سمجھایا ،بتایا اورعمل کیا اور جس طرح آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین عظام اور تبع تابعین (قرون مشہود لہا بالخیر)نے عمل کیا۔ یہی وہ راستہ وطریقہ ہے جس کی صحت وسلامت واستقامت کی ضمانت ہے ان کے علاوہ جو بھی راستے وطریقے ہیں وہ سب کے سب گمراہی کے راستے ہیں۔
منہج سلف وہ ضابطہ حیات ہے جس پر چل کر جنت کی ضمانت ہے،منہج سلف نفس اسلام ہے ،وہ دین جو رسول اللہ ﷺ لے کر آئے اس کی سچی تصویر وصحیح تعبیر منہج سلف یا سلفیت ہے ،یہ کوئی تحریک اور ازم نہیں ۔ بلکہ سلف کا منہج ،اور وہ خطوط ہیں جو انسان کو اس کے رب حقیقی سے جوڑتے ہیں ۔
محترم قارئین ! یہ منہج سلف ہی ہمیں بتائے گا کہ خیر کیا ہے اور شر کیا ہے ۔ حسنات کیا ہیں سئیات کیا ہیں ، صحیح افکار کیا ہیں غلط افکار کیا ہیں ۔ درست عقیدہ وغلط عقیدہ کے درمیان تفریق ،حق وباطل کی تمیز ، سیاہ سفید کاامتیازمنہج سلف کو اپنانے سے ہی پتہ چلے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کے مختلف ادیان ومذاہب ،فرق وملل میں سے صرف اور صرف خالص دین اسلام ہی معتبرہے اسی طرح افکار وخیالات ،رجحانات،تصورات وغیرہ میں صرف اسلاف کا فہم ہی مستند ومعتبر ہے ۔ فہم سلف ہی کو زندگی کے تمام مراحل وشعبہ جات میں لاگو کرنا ضروری ہے جیسا کہ رب تعالیٰ نے فرمایا: {وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيّ}’’میری طرف رجوع کرنے والوں کے راستے کی پیروی کرو‘‘۔
[لقمان:۱۵]
اور دوسری آیت :
{فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ}
[البقرۃ:۱۳۷]
’’اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے گا ، اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔
منہج سلف کی اتباع کی فضیلت :
دکتور محمد بن عمر بازمول نے فضل اتباع المنہج السلفی کے تحت لکھا ہے کہ منہج سلف اختلاف سے نجات کا واحد راستہ ہے ، ضلالت وگمراہی کی دلدل سے نکلنے کاراستہ منہج سلف ہی ہے ، منہج سلف کی طرف نسبت شرف النسبۃ الی الرسول ہے ،منہج سلف میں تشخیص ِ مرض اور اس کا علاج دونوں ہے ، مکارم اخلاق وصالحیت منہج سلف کی اتباع ہی میں ہے، منہج سلف پر چلنے سے سنت کی احیاء ہے ۔ جہنم سے دوری اور جنت میں دخول کا سبب سلفی منہج پر چلنے ہی میں ہے ۔
[المنہج السلفی تعریفہ وسماتہ ودعوتہ الإصلاحیۃ:ص:۳۴ تا ۳۵]
محترم قارئین! سلفی منہج دنیا جہاں کے لیے رحمت ہے ،جن وانس کی فلاح وبہبودی سلفی منہج پر چلنے ہی میں ہے ، کتاب وسنت واجماع سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ اگرمنہج صحابہ وسلف پر زندگی نا گزاری جائے تو انسان دیوالیہ پن اور گمراہی کا شکار ہوجائے گا ۔ اور صحیح دین سے بہت دور نکل جائے گا ۔ منہج سلف کی اتباع کی اہمیت وفضیلت کو درج ذیل امور سے سمجھئے ۔
۱۔ منہج سلف پر چلنے والا دراصل اللہ کے حکم کی بجا آوری کر رہا ہے، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
{وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ}
’’میری طرف رجوع کرنے والوں کے راستے کی پیروی کرو‘‘۔
[لقمان:۱۵]
۲۔ اس کو تسلیم کرنے والا ہدایت یافتہ ہے ،جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے :
{فَإِنْ امَنُوا بِمِثْلِ مَآ ئَ امَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا…}
’’اگر تم صحابہ جیسا ایمان لے آئے تو بالیقین تم ہدایت پا چکے‘‘۔
[البقرۃ:۱۳۷]
۳۔ ضلالت و گمراہی اور زیغ و ضلال سے سلفیت محفوظ ہے۔
’’لَا تَزَالُ طَائفةٌ مِن أُمَّتي ظاهِرِيْنَ عَلَي الْحَقِّ حَتّٰي تَقُوَمَ السَّاعَةُ‘‘۔
’’کہ میری امت کا ایک گروہ تاقیامت گمراہی سے بچ کر ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔‘‘
[صحیح مسلم:۱۹۲۳]
۴۔ {فَإِنْ ئَ امَنُوا بِمِثْلِ مَاء َ آمَنْتُمْ بِهِ، فَقَدِ اهْتَدَوا وَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِفَاقٌ}
[البقرۃ:۱۳۷]
کے تحت اس منہج پر چلنے والا اور اس کو لازم پکڑنے والا تفرق و تشتت اور افتراق و انتشار سے محفوظ ہے۔
۵۔ اس منہج کو اختیار کر نا دراصل حکم رسول کی اتباع و پیروی اور وصیت رسول کی تنفیذ ہے جیسا کہ آپ ﷺنے فرمایا :
’’عليكم بسنَّتي وسنَّةِ الخلفائِ الراشدينَ المهديِّينَ بعدي، عضُّوا عليها بالنَّواجذِ‘‘۔
’’کہ تم میرے بعد میرے اور صحابہ کے طریقے کو لازم پکڑے رہنا‘‘۔
[أخرجہ أبوداؤد فی کتاب السنۃ وصححہ الألبانی فی إرواء الغلیل:۸؍۱۰۷، رقم الحدیث :۴۶۰۷]
۶۔ ابتلاء و آزمائش فتنہ وفساد اور بدعات و خرافات کے موقع پر یہی منہج مومنوں کے لیے کمین گاہ ہے۔ فتنوں کے سیلاب میں کشتیٔ نوح منہج سلف ہی ہے۔
’’مَن بقيَ بعدي منكم فسيَري اختِلافًا شَديدًا فعليكُم بسنَّتي وسنَّةِ الخلفائِ الرّاشدينَ عضُّوا عليها بالنَّواجذِ‘‘۔
’’ کہ تم میرے بعد بہت زیادہ اختلاف اور فتنیدیکھو گے ، ایسے میں میری اورمیرے خلفاء راشدین صحابہ کی پیروی کرنا‘‘۔
[أخرجہ أبو داؤد:۴۶۰۷، والترمذی :۲۶۷۶، وابن ماجۃ:۴۲، وأحمد: ۱۷۱۴۴، مطولاً باختلاف یسیر، وابن أبی عاصم فی (السنۃ)(۵۵)واللفظ لہ ]
۷۔ منہج سلف پر تمسک کے طفیل ہواء وہوس کے بندوں،خواہش پرستوں، اور رہزنِ دین و ایماں کی چالوں اور شیطانی راستوں و ابلیسی طریقوں سے نجات ملتی ہے۔
{وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيماً فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ذَٰلِكُمْ وَصّٰكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ}
’’یہی میرا سیدھا راستہ ہے اسے چھوڑو گے تو بے شمار شیاطین کے چنگل میں جا پھنسو گے ، لہٰذا میرے سیدھے راستے ہی پر چلو‘‘
[الانعام:۱۵۳]
۸۔ علامہ البانی رحمہ اللہ کے بقول :منہج سلف کو لازم پکڑ نا دراصل عصمت کو لازم پکڑنا ہے کیونکہ منہج سلف معصوم ہے۔
۹۔ یہ منہج ومسلک زمانہ رسول سے چلا آرہا ہے اور وقوع قیامت تک رہے گا ،اس کے ماننے والے ہمیشہ حق پر قائم اور غالب رہیں گے ، مظفر و منصور رہیں گے اہل باطل اپنی تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے ، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’لَا تَزالُ طائفةٌ مِن أُمَّتي ظاهِرِين عَلَي الحقِّ حتّي تقومَ السّاعةُ‘‘۔
[أخرجہ مسلم فی الصحیح:رقم الحدیث:۱۹۲۳]
۱۰۔ یہ جماعت (ناجی) نجات یافتہ ہے ، جیسا کہ حدیث رسول ہے:
’’كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إلَّا ملَّةً وَّاحِدَةً ، قَالُوْا :مَن هيَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ ؟ قَالَ :مَا أَنا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِيْ‘‘
[أخرجہ الترمذی:۲۶۴۱،واللفظ لہ، والطبرانی:۱۴؍۵۳(۱۴۶۴۶)، والحاکم:(۴۴۴،صححہ الألبانی]
۱۱۔ اس جماعت کا عقیدہ و عمل خالص کتاب و سنت اور فہم سلف پر مبنی ہے ۔
۱۲۔ سلفی منہج شرک، کفر والحاد وزندقہ، نفاق ولادینیت سے مبرا و منزہ ہے ۔ دیکھئے تفصیل کے لیے:(منہج سلف کا تعارف صفحہ نمبر:۲۶تا ۳۵،وفصل المقال فی وجوب إتباع السلف الکرام صفحہ نمبر :۳۲تا۵۵)
منہج سلف پر چلنے کا حکم :
بلاشبہ اہل دانش وبینش کے لیے یہ چیز مخفی نہیں ہے کہ منہج سلف کی اتباع کرنا واجب ہے ،اور حق بات یہ ہے کہ سلفی منہج ہی حق ودرست ہے ۔ کتاب وسنت واجماع امت نیز اقوال صحابہ وتابعین سے منہج سلف کی حقانیت ثابت ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ}
’’اور مہاجرین اور انصار میں سے وہ اولین لوگ جنہوں نے ہجرت کرنے اور ایمان لانے میں دوسروں پر سبقت کی، اور وہ دوسرے لوگ جنہوں نے ان سابقین کی اخلاص کے ساتھ پیروی کی، اللہ ان سب سے راضی ہوگیا، اور وہ سب اللہ سے راضی ہوگئے، اور اللہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان میں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے یہی عظیم کامیابی ہے‘‘۔
[التوبۃ:۱۰۰]
علامہ عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
’’بالاعتقادات والأقوال والأعمال ،فهولاء هم الذين ساموا من الذم ،وحصلوا لهم نهاية المدح ،وأفضل الكرامات من اللّٰه‘‘۔
’’ اس کا مطلب ان کی پیروی عقائد، اقوال اور اعمال میں کرنی ہو گی، اور ایسے ہی لوگ برائی(ذم)سے محفوظ رہیں گے(یامذمت، ملامت سے بعید ہوںگے )اور ان ہی کے لیے حقیقی تعریف اور اللہ کی طرف سے بہترین نوازش ہو گی‘‘۔
[تیسیر الکریم الرحمان فی تفسیر کلام المنان للسعدی ص:۳۰۸]
شیخ احمد بن محمد بن الصادق النجار صاحب کتاب فصل المقال نے اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ :’’اللہ تعالیٰ کا سابقین اولین صحابہ تابعین واتباع تابعین اور ان کے اتباع کرنے والے کا تعریف کرنا اور ان سے راضی ہونے اور ان کے لیے عظیم ثواب کا وعدہ کرنا ان اسلاف کی فضیلت وعظمت پر دلالت کرتی ہیں ،اور اللہ تعالیٰ کا اسلاف کرام کے بارے میں رضاووعدۂ جنت کی بشارت مستلزم ہے اسلاف کے صحیح منہج پر ہونے اور ان کے درست عقیدۂ پرجمے رہنے پر ‘‘۔
[فصل المقال فی وجوب إتباع السلف الکرام ص:۲۴]
{وَمَن يُّشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَيٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّيٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاء تْ مَصِيرًا}
’’اور جو شخص راہ ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا، اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی دوسری راہ کی اتباع کرے گا، تو وہ جدھر جانا چاہے گا ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے، اور اسے جہنم میں ڈال دیں گے، اور وہ برا ٹھکانا ہوگا۔
[النساء:۱۱۵]
مؤلف کتاب’’فصل المقال‘‘نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آیت منہج سلف کی اتباع کے وجوب پر دلالت کرتی ہے ۔ علامہ ابن قیم الجوزیۃ رحمہ اللہ نے ’’إعلام الموقعین ‘‘میں منہج صحابہ کی اتباع کے وجوب پر مندرجہ ذیل دلیلیں دی ہیں ، اور ان کا وجہ استدلال بھی ذکر کیا ہے۔
۱۔ {وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَي } کہ میری طرف انابت اختیار کرنے والوں کے راستے کی پیروی کرو۔
قال ابن القيم رحمه اللّٰه: وكلُّ مِنَ الصحابة منيب إلى اللّٰه فيجب اتباع سبيله۔وأقواله واعتقاداته من أكبر سبيله، والدليل على أنهم منيبون إلى اللّٰه تعالي:أن اللّٰه تعالٰي قد هداهم وقد قال:{وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُّنِيبُ }
وجہ استدلال : ہر صحابی منیب ہے لہٰذا اس کے اقوال وافعال اور اعتقادات کی اتباع واجب ہے،اور صحابہ کے اقوال واعتقاد ان کا راستہ ہے ۔
۲۔ {وَمَن يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰي } ’’ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد جو بھی رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کے طریقے کی مخالفت کا مر تکب ہو گا…‘‘ الآیہ ۔
وجہ استدلال: جس کو یہ پسند ہو کہ وہ آخرت میں سلف کے ساتھ رہے اور اس کے لیے بھی انہی چیزوں کا وعدہ کیا جائے جس کا سلف سے کیا گیا تھا تو اسے چاہئے کہ احسان کے ساتھ ان کی اتباع کرے۔
ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ سلف کی اتباع کے وجوب سے موسوم باب کے تحت یہی دلیل دینے کے بعد فرماتے ہیں : ’’کہ جو صحابہ کے راستے کو چھوڑے اس کے لیے جہنم کا وعدہ کیا جانا اس بات پر واضح وصریح دلالت ہے کہ صحابہ کا راستہ اختیار کرنا واجب ہے‘‘۔
۳۔ دلیل الإقتران ۔’’فقرن سنة خلفائه بسنته وأمر باتباعها كما أمر باتباع سنته‘‘۔رسول اللہ ﷺنے اپنی سنت اور خلفاء کی سنت کو ایک ساتھ ذکر کیا اور ان دونوں کی اتباع کا حکم دیا‘‘۔
[إعلام الموقعین عن رب العالمین:۴؍۱۰۷، ط العلمیۃ]
منہج سلف کی اتباع کا واضح طور پر وجوبی حکم بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’کہ مذہب سلف کو ظاہر کرنا اور اس کی طرف نسبت کرنا اور اسے شعار بنانا کوئی عیب کی بات نہیں بلکہ اس کا قبول کرنا واجب ہے۔ اس لیے کہ مذہب سلف حق ہی ہوتا ہے‘‘۔
[مجموع فتاویٰ ابن تیمیۃ:۴؍۱۴۹]
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے وصیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
’’فاصبر نفسك على السنة ،وقف حيث وقف القوم وقل فيما قالوا وكف عما كفوا عنه ، واسلك سبيل سلفك الصالح فإنه يسعك ما وسعهم‘‘۔
’’تم سنت پرصبر کے ساتھ جمے وڈٹے رہو اور جہاں سلف رک گئے وہاں رک جاؤ، جو انہوں نے کہا وہی کہو جس چیز سے وہ باز آگئے تم اس سے بھی بازر ہو اور سلف صالح کے راستے پر چلتے رہو اس لیے کہ جو چیز ان کے لیے کافی ہوئی وہ بالیقین تمہارے لیے بھی کافی ہے ‘‘۔
[ الشریعۃ للآجری:۲؍۶۷۳،ن دار الوطن الریاض:]
اسی وجوب کی وجہ سے امام بربہاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اہل الحق کی جماعت صحابہ کرام کے منہج پر قائم ہے انہیں اہل السنۃ والجماعہ کے نام سے جانا جاتا ہے لہٰذا جس نے ان سے اخذ و کسب اور ان کے طریقے کو اختیار نہیں کیا اس کے گمراہ اور بدعتی ہونے میں بھی کوئی شک باقی نہیں رہتا۔
[شرح السنہ :ص: ۶۵]
ابوالقاسم التیمی رحمہ اللہ نے فرمایا :
’’وشعار أهل السنة اتباعهم السلف الصالح، وتركهم كل ما هو مبتدع محدث‘‘
’’اہل سنت والجماعت کا شعار ہر طرح کی بدعت ومحدَث سے دوری اور سلف صالحین کی اتباع کرنا ہے‘‘ ۔
[ الحجۃ فی بیان المحجۃ:۱؍۳۹۵]
امام ابن بطۃ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’فإني أجعل أمام القول إيعاز النصيحة إلى إخواني المسلمين، بأن يتمسكوا بكتاب اللّٰه، وسنة رسوله واتباع السلف الصالح من الصحابة والتابعين، ومن بعدهم من علماء المسلمين، الذين شرح اللّٰه بالهدي صدورهم، وأنطق بالحكمة ألسنتهم، وضرب عليهم سرادق عصمته، وأعاذهم من كيد إبليس وفتنته، وجعلهم رحمة وبركة على من اتبعهم۔‘‘
ابن بطۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’کہ میں اپنے تمام مسلمان بھائی کو نصیحت کرتا ہوں کہ کتاب اللہ اور سنت رسول کو مضبوطی سے پکڑیں اور سلف صالحین کے منہج پر چلیں اور ان کے بعد ان علماء کی بات قبول کریں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے کھول دیا یا وسیع کردیا ، اور جن کی زبانیں حکمتوں کے کلام نکالیں ،اور جن کو خطاء سے محفوظ رکھایاعصمت کے خیمہ میں رکھا (یعنی غلطی سے بچا)،اورابلیس کے مکروفریب وفتنہ سے پناہ دیا ،اور رحمت بنایا ان لوگوں کے لیے جو ان کی اتباع کریں اور بابرکت بنایا‘‘ ۔
[الإبانۃ عن شریعۃالفرقۃالناجیۃ:۱؍۲۱۲،۲۱۳]
محترم قارئین! اگر ہماری زندگی میں منہج سلف نہ ہو،طریقۂ سلف پر اپنے فہم کو پیش کرنے کا داعیہ نہ ہو بلکہ اپنے عقل ودانش کاغرہ ہو ’’ھم رجال ونحن رجال ‘‘کا نعرہ ہو تو آپ اپنے نفس کو شبہات،ردود وجحد وانکارتحریف نصوص کے فتنوں میں پھنسا دیں گے ۔قرآن وحدیث کی من مانی اور دل چاہی تفسیر وتشریح کردیں گے ۔اور جادۂ سلف سے کوسوں دور ہوجائیں گے ۔
اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا دین محفوظ رہے ،عقیدہ مضبوط رہے تو منہج سلف کو حرزجان سمجھئے ۔ اپنی زندگی کوانمول موتی سمجھئے دنیا وآخرت کی بھلائی فوز وفلاح صرف اور صرف منہج سلف ہی میں ہے ۔ گویامنہج سلف کی ضرورت اس لیے ہے تاکہ دین وشریعت خالص رہے ۔ ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک رہیں ، بے آموز رہیں۔
آج کے اس پر فتن دور میں اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو منہج سلف صالحین جو اللہ کی وحی سے مستفاد وماخوذ ہے، کے فہم کی توفیق فرما دے تو یہ یقینا ایک عظیم سعادت و بصیرت ہے، جو اخروی کامیابی کے لیے مطلوب ومقصود ہے ۔
فتنہ کے دور میں منہج سلف پر تمسک ہی نجات کا واحد ذریعہ ہے:
علامہ صالح الفوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں :’’کہ اس پرفتن زمانہ میں خاص طور پر ہمیں اس منہج سلف کی سخت ضرورت ہے، کیونکہ فتنے شدید ہیں، دعاۃ ضلال کی کثرت ہے، لوگوں کے مابین شر و فساد کو نشر کرنے کے وسائل کی بھی کثرت ہے، ان وسائل شر کے ذریعہ مفسدین ایک منٹ میں لوگوں کے گھروں اور ان کے بیڈروم یا بستروں تک پہنچ کر انہیں ضلالت وگمراہی ، اباحیت ، شہوات محرمہ، اور منحرف افکار کی دعوت دیتے ہیں۔ اسے وسعت نظری اور ثقافت کا نام دے کر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ تنگ نظر اور متشدد نہ رہیں، اس طرح کی باتوں سے یہ لوگ مسلمانوں کو منہج سلف اور علم سلف سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ سلف کا طریقہ خلف والوں کے طریقہ سے کہیں زیادہ اسلم واعلم اور احکم ہے، کیونکہ سلف صالحین کا علم کتاب وسنت کے چشمہ صافی سے ماخوذ علم ہے، جبکہ خلف کے علم میں آمیزش ہے، صاف چیزوں کے علاوہ بہت کچھ ملاوٹ بھی ہے، لیکن علم سلف ہر طرح کی آمیزش سے پاک وصاف ہے، سلف کی جتنی پرانی کتاب آپ دیکھیں گے اسے اتنا ہی آمیزش اور تکلفات سے پاک پائیں گے۔ چنانچہ علامہ ابن رجب رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ فضل علم السلف على علم الخلف‘‘ میں کہتے ہیں:
’’اَلسَّلَفَ كَلَامُهُمْ قَلِيْلٌ، وَعِلْمَهُمْ غَزِيْرٌ، وَالْخَلَفُ كَلَامُهُمْ كَثِيرٌ وَ عِلْمُهُم قَلِيْلٌ‘‘۔
’’سلف کا کلام تھوڑا اور مختصر ہوا کرتا تھا، حالانکہ علم بڑا وسیع تھا،جبکہ خلف کے یہاں کلام زیادہ ہے، حالانکہ علم تھوڑا ہے‘‘۔
محترم قارئین! یہی وہ منہج سلف ہے جس کو صحیح طریقہ سے سیکھنے اور جاننے کے بعد اس پر صبر کے ساتھ چلنے میں نجات ہے، اس کے بغیر ہمارے لیے نجات ممکن نہیں، منہج سلف کا علم صیح طریقہ سے حاصل کرنے سے مراد یہ ہے کہ وہ تمام آمیزش اور ملاوٹ سے پاک ہو، کیونکہ سلف کی طرف کچھ باطل چیزیں بھی منسوب کی جاتی ہیں، حالانکہ اس کا تعلق منہج سلف سے نہیں ہوتا لہٰذا اس سے ہوشیار رہیں۔
[ منہج السلف الصالح وحاجۃ الأمۃ إلیہ :ص: ۱۰۔۱۵]
معزز قارئین! جب حالات وظروف بگڑتے ہیں تو حقائق ان میں مسترد ہوجاتے ہیں ،دین کے نام پر خرافات ، واباطیل پرکشش بن جاتے ہیں ، صلح کلی ’’سب سچا سب اچھا ‘‘کا نعرہ لگتا ہے اور منہج حق ،طریقۂ سلف اور مخلص دعاۃ پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش ہوتی ہے ۔ منہج کا استخفاف واستحقار کیا جاتا ہے، اور سلفیت کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، فتنے اور بگاڑ کے اس تاریخی نبض پر ہاتھ رکھئے جب سالہا سال کی یہودی ومجوسی ، خارجی سازشیں کامیاب ہوئیں تو حضرت عمر وحضرت عثمان رضی اللہ عنہما کی شہادت کا سانحہ پیش آیا ، فتنے وفساد کے دروازے کھلے حالات دگر گوں ہوئے ،بہت سارے صحابۂ کرام باحیات تھے ،اس وقت کی اسلامی ریاست پر علمی عملی و ثقافتی طور پر ان کی مضبوط پکڑ تھی ،پھربھی خارجیت کے جراثیم پھیل گئے بہت سارے لوگوں نے خارجی فکر قبول کیا ،تشیع کے لیے بھی بہت سے قلوب واذہان زرخیز بن گئے ،جبر وقدرتشبیہ وتعطیل ،اعتزال ،تجہم وارجاء کے مسائل پیداہوگئے ، فکری اعتقادی ،عملی ہر طرح کے فتنے کھڑئے ہوگئے ،افکار وخیالات بگڑ گئے ،ذہنی انارکی اور غوغائیت ان کے دل ودماغ پر اس طرح قابض ہوئے کہ وہ گویا عقائد واعمال ،منہج صحابہ کومٹاکر ہی دم لیں گے ۔ تو ذرا سوچئے ہم غربت اسلام کے کس دور میں ہیں؟ ،عہد رسالت سے کتنے بعید ہوگئے ہیں؟ اور آج جب کہ پوری دنیا اس صحیح دین کو مٹانے کے لیے آسمان وزمین کی قلابے ملالیے ہیں ،منہج سلف کو ڈائنامائٹ کرنے کے لیے باضابطہ انجمنیں وتحریکیں اورادارئے قائم ہیں ، روز وشب ۔ علی مدار الساعۃ ۔سازشیں چل رہی ہیں فکری جنگ جاری ہے ، نوع بنوع کی اسکیمیں ،پروگرامس لانچ کئے جارہے ہیں ۔ امر واقع تو یہ ہے کہ بھانت بھانت کے فتنوں نے مسلمانوں کو صحیح دین، درست منہج سے دور کردیا ہے ، سو ایسے حالات میں ہمارا عقیدہ ہونا چاہئے کہ منہج سلف یا سلفیت ہی ہر زمان ومکان کے لیے موزوں ومناسب ہے ،اور یہ منہج اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے شمع ہدایت ہے ،امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا :’’لا یُصلحُ آخرُ ہذہ الأمۃِ إلاما أصلحَ أولَہا‘‘’’بعد کے لوگ اسی نہج پر چل کر کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں‘‘، جس نہج پر اس امت کے اولین (سلف صالحین)نے چل کر کامیابی حاصل کی۔ اس امت کے اولین کو جس پر چل کر کامیابی حاصل ہوئی وہ ہے، کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی اتباع ۔ چنانچہ اس امت کے بعد والے بھی تبھی کامیاب ہو سکتے ہیں جب اپنے سلف کے نہج پر چلتے ہوئے کامیابی کی تلاش کریں گے۔
لہٰذا ہم سب پر لازم ہے کہ منہج کے تئیں فکرمند ہوں ،اپنی اولادکو منہج سکھائیں ،عقیدے کی درستگی کریں، اوروسیع پیمانے پر منہج سلف کے نشرواشاعت کا اہتمام کریں، جیساکہ علامہ صالح الفوزان کہتے ہیں :
’’ولا يمكن إتباعهم بإحسان إلا بتعلم مذهبهم ومنهجهم وما يسيرون عليه، وأما مجرد الانتساب إلى السلف والسلفية من غير معرفة بها وبمنهجها فهذا لا يدري شيئا، بل قد يضر، لابد من معرفة منهج السلف الصالح۔
ولهذا كانت هذه الأمة تتدارس منهج السلف الصالح ويتناقلونه جيلا بعد جيل، فكان يدرس فى المساجد، ويدرس فى المدارس وفي المعاهد والكليات والجامعات، فهذا هو منهج السلف الصالح، وهذه الطريقة لمعرفتهم، أننا نتعلم منهج السلف الصالح الصافي مأخوذ من كتاب الله وسنة رسوله ‘‘۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ منہج سلف پر ہم مضبوطی کے ساتھ اس وقت تک نہیں چل سکتے ہیں جب تک ہم منہج کو اچھی طرح نہ جان لیں اور اس کا علم نہ حاصل کرلیں ۔ سلفیت کی طرف صرف نسبت سے کام نہیں چلے گا بلکہ سلفیت وسلفی منہج کادراسہ ومطالعہ کرنا ضروری ہے ،منہج کی معرفت اگر نہیں ہے تو محض سلفی نسبت کافی نہیں ہے بلکہ بغیر معرفت کے نقصاندہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس امت کے افراد علماء ودعاۃ وعوام اس منہج کو پڑھتے وپڑھاتے ،سیکھتے اور سکھاتے رہتے تھے ،اور نسل در نسل منہج سلف کو منتقل کرتے رہتے تھے، مدارس و جامعات میں پڑھائے جاتے تھے ،مسجدوں اور جمعہ کے خطبوں وغیرہ میں بیان کئے جاتے تھے ۔بلکہ غلط منہج کی تشہیر کرنے والے اور اہل بدعت کے خلاف لکھتے تھے بولتے تھے مناظرہ کرتے تھے جیساکہ امام احمد بن حنبل نے شیخ المعتزلۃ احمد بن ابی داؤد سے مناظرہ کیا ان کے شبہات وباطل افکار کا رد کیا ،عبدالعزیز کنانی نے بشرمریسی معتزلی سے بحث کرکے اس کا رد کیا ،اسحاق بن راھویہ نے صفت نزول کے منکر کارد کیا ،اور شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ نے تو پوری زندگی منہج حق اور سلفیت کے نشر واشاعت نیز مبتدعہ ،اشاعرہ ،صوفیہ وقبوریہ سے مناظرہ کرنے میں وقف کیا۔ دیکھئے :
[المدخل إلی دراسۃ العقیدۃ الإسلامیۃ للدکتور أحمد بن عبدالرحمن بن عثمان القاضی ص:۷۷۔۹۰]
اللہ تعالیٰ ہمیں منہج سلف پر چلنے اور اس کی نشر واشاعت کی توفیق عطافرمائے ۔آمین
٭٭٭