-
معجزات و کرامات کی شرعی حیثیت (قسط ثانی) عبد الکریم رواب علی السنابلیالخبر :سعودی عرب
معجزات و جادوگر ،کاہن یا جنات کی کارستانیوں اور کرتب کے درمیان مزید فرق معلوم کرنے کے لئے آئیے ایک سرسری نظر ڈالئے ان کے تصرفات کی حدو بساط پر ۔
(۱) جن و شیطان کے تصرفات:
اللہ تعالیٰ نے بالمقابل انسان کے جن و شیطان کو زیادہ تصرفات کی قوت ودیعت فرمائی ہے ، انسان انہیں دیکھ نہیں سکتے جبکہ وہ انسانوں کو اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں ۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں جب ملکۂ سبا (بلقیس ) اپنے تمام لشکر اور رعایا کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف مصالحت کی نیت سے روانہ ہوئی ابھی پہنچی نہیں تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی رعایا کو حکم دیا کہ بلقیس کو تخت اس کے پہنچنے سے پہلے کون حاضر کر سکتا ہے ؟ عفریت نے کہا قبل اس کے کہ آپ اپنی مجلس سے اٹھیں میں اس کا تخت حاضر کر سکتا ہوں۔ ایک دوسرے شخص نے کہا کہ آپ پلک جھپکائیںاس سے بھی پہلے میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں۔ بہر حال بلقیس کے پہنچنے سے پہلے اس کا تخت آپ کے پاس حاضر کردیا گیا ۔ اس کا تذکرہ اللہ نے سورۃ النمل میں کیا ہے :{قَالَ عِفْرِیتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آتِیکَ بِہِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِکَ وَإِنِّی عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ أَمِینٌ}’’جناتوں میں سے ایک بڑے جن نے کہا کہ اس کا تخت میں قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں حاضر کردوں گا‘‘[النحل :۳۹]
(۲) جادوگر کے تصرُّفات :
جادو کا وجود برحق ہے ۔ اس کا ذکر احادیث نبویہ اورنصوص قرآنیہ میں ملتا ہے ۔ اس کا وجود دورسلیمان علیہ السلام سے ہے۔ جادوکے ذریعہ انسان کو بیمار کیا جا سکتا ہے جادو سے اشیاء کو غائب کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی تفصیل سورۃ البقرہ میں پائی جاتی ہے ۔
{وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّیَاطِینُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمَانَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَیَتَعَلَّمُونَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُونَ بِہِ بَیْنَ الْمَرْئِ وَزَوْجِہِ وَمَا ہُمْ بِضَارِّینَ بِہِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰہِ وَیَتَعَلَّمُونَ مَا یَضُرُّہُمْ وَلَا یَنْفَعُہُمْ} ’’اور اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے حکومتِ سلیمان میں شیاطین پڑھتے تھے۔۔۔۔۔۔پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے مردو عورت میں جدائی ڈال دیں ، دراصل وہ اللہ کی مرضی کے بغیر کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، یہ لوگ وہ سیکھتے ہیں جو انہیںنقصان پہنچا ہے اور نفع نہ پہنچا سکے ‘‘[البقرۃ:۱۰۲]
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو یہودیوں نے جادوکردیا تھا جو آپ ﷺ کے چند بال اور آپ ﷺ کی کنگھی کے چند دندانے میں کیا تھا اور اسے ذروان نامی کنویں میں جو بنوزریق کا تھا اس میں ڈال دیا۔ آپ ﷺ بیمار ہوگئے سرکے بال جھڑنے لگے ۔ چھ ماہ تک یہی حالت تھی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے معوذتین نازل فرمائی آپ ﷺ ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور یکے بعد دیگر ساری گرہیں کھلتی جاتیں ۔(تفسیر ابن کثیر ۔سورۃ الفلق)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جادو برحق ہے ،اثر دارہوتا ہے اور اس کے ذریعہ نقصان پہنچایا جاتا ہے ۔ اسی لئے آپ ﷺ نے اس سے پناہ مانگنے کی تلقین کی ہے ۔
(۳) کاہنو ں کے تصرفات:
کاہنوں کی شیطان پرستی، اٹکل پچّو مارنا اور لوگوں کو گمراہ کرنا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اس کا وجود صدیوں سے رہا ہے ۔دراصل شیطان کی رسائی سمائِ دنیا تک ہوتی ہے ۔ لہٰذا وہ وہاں پہنچ کر فرشتوں کی باتیں سننے کی کوشش کرتے ہیں ، دریں اثناء ایک شعلہ ٹوٹتا ہے جو انہیں بھسم کردیتا ہے ،بسا اوقات شعلہ کی گرفت سے شیطان بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور کبھی کبھار امرِالٰہی کا ایک آدھ حصہ اچٹ لیتے ہیں ، انہیں اچٹتی ہوئی ایک آدھ بات میں سو جھوٹ ملا کرکاہنوں کے کان میں ڈال دیتے ہیں ۔ پھر وہ کاہن اپنی طرف سے بہت سے حاشیے چڑھا کر اپنے پیروکاروں کو بتلاتا ہے اور اسی طرح جھوٹی موٹی غیب کی خبریں دے کر عوام کو دجل وفریب میں پھنسا کر گمراہ کرتے ہیں ۔ قرآن کی آیت ہے :{ ہَلْ أُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیَاطِینُ ۔تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ أَفَّاکٍ أَثِیمٍ ۔یُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَکْثَرُہُمْ کَاذِبُونَ}’’کیا میں تمہیں بلاؤں کہ شیطان کس پراترتے ہیں ، وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں ، اچٹتی ہوئی سنی سنائی پہنچا دیتے ہیں ، اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں ‘‘ [الشعراء: ۲۲۱۔۲۲۳]
اسی طرح ایک حدیث ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :’’اَلمَلاَئِکَۃُ تَتَحَدَّثُ فِی العَنَانِ – وَالعَنَانُ:الغَمَامُ ۔، بِالأَمْرِ یَکُونُ فِی الأَرْضِ، فَتَسْمَعُ الشَّیَاطِینُ الکَلِمَۃَ، فَتَقُرُّہَا فِی أُذُنِ الکَاہِنِ کَمَا تُقَرُّ القَارُورَۃُ، فَیَزِیدُونَ مَعَہَا مِائَۃَ کَذِبَۃٍ‘‘’’فرشتے کسی دنیاوی معاملات کے تعلق سے آسمان میں بات کرتے ہیں ۔شیطان ایک آدھ کلمہ اچک کر کاہن کے کان میں ڈال دیتا ہے پھر وہ لوگ اس میں سوجھوٹ ملاتے ہیں‘‘ [صحیح البخاری:۳۲۸۸]
قارئین کرام ! شیاطین ،جادوگر اور کاہن کے تصرفات کے دائرے کا جائزہ لینے کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے جن و شیاطین کو ایسی قوت بخشی ہے کہ گھنٹوں کا کام سکنڈوں میں یا میلوں کا سفر لمحوں میں طے کرسکتے ہیں یا کسی چیز کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پہنچا سکتے ہیں ۔اسی طرح جادوگر اپنے علم سے دوسروں کو مریض کرسکتا ہے اور پریشان کرسکتا ہے اور اسی طرح ایک کاہن جھوٹ پر مبنی باتوں پر اعتماد کرکے ہزاروں جھوٹ ملا کر غیب کی خبر تو دیتا ہے لیکن سرے سے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ہے ۔
لہٰذا ان تمام تصرفات کا تعلق ایسے امور سے ہے جو مخلوقات کی طاقت اور پہنچ میں ہے ،جبکہ معجزات کا تعلق ایسے امور سے ہوتا ہے جوانسان و جنات اور حیوانات کے بساط سے ماوراء ہوتا ہے۔
آئیے معجزات و کرامات کی کچھ مثالوں کاجائزہ صحیح احادیث کی روشنی میں لیتے ہیں تاکہ فرق بخوبی واضح ہوسکے۔
معجزات نبویہ کی چند مثالیں :
۱۔ چاند کے دو ٹکڑے ہونا : مشرکین مکہ نے نبی ﷺ سے حجت کی کہ اگر چاند کے دو ٹکڑے کردو تو ہم آپ کو نبی تسلیم کرلیں گے ۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ کی دعا اور اللہ کے حکم سے چاند دو ٹکڑا ہوگیا ۔ یہاں تک کہ جبل حراء ان دونوں ٹکڑوں کے بیچ دکھائی دینے لگا۔ تفصیل کے لئے دیکھئے : [صحیح البخاری:۳۸۶۸]
۲۔ آپ کی انگلیوں سے چشمہ پھوٹنا: صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام کے پاس پانی کی قلت تھی آپ کے پاس ایک چھوٹا سا چمڑے کا برتن تھا جس میں تھوڑا سا پانی تھا آپ ﷺ نے ہاتھ ڈالا اور آپ کی انگلیوں سے چشمے پھوٹنے لگے ۔ دیکھئے تفصیل : [صحیح البخاری:کتاب المغازی،باب غزوۃ الحدیبیۃ:۴۱۵۲]
۳۔ خوردونوش کی اشیاء میں اضافہ ہونا : رسول اللہ ﷺ کچھ صحابہ کرام کے ساتھ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے ، آٹے کی قلت کی وجہ سے کھانا سب کے لئے کافی نہ تھا لیکن آپ ﷺ نے د س دس کی ٹکڑیوں میں صحابہ کرام کو بلایا ۔صحابہ کرام آتے گئے اور آسودہ ہوتے گئے ۔اس طرح اس تھوڑے سے آٹے کے ذریعہ تقریباً ۷۰ سے ۸۰ صحابہ کرام شکم سیر ہوگئے ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [صحیح مسلم :کتاب الاشربۃ:۲۰۴۰]
۴۔ آپ ﷺ کا نماز کی حالت میں صحابہ کرام کو پیٹھ کے پیچھے سے دیکھنا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے میں صرف آگے دیکھتا ہوں؟واللہ تمہارے رکوع اور تمہارے خشوع و خضوع مجھ پر مخفی نہیں ہیں ، میں تم لوگوں کو اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے : [صحیح البخاری:باب الخشوع فی الصلاۃ ،ح:۴۱۸، و صحیح مسلم: باب الامر بتحسین الصلاۃ و اتمامھا والخشوع فیھا،ح:۴۲۴]
۵۔ اونٹ کا آپ ﷺ کو سجدہ کرنا : انصار کی ایک جماعت نے اپنے ایک اونٹ کی سرکشی کے تعلق سے شکایت کی کہ یہ بوجھ نہیں اٹھاتا ہے ، آپ ﷺ اونٹ کے پاس تشریف لے گئے آپ نے اس پر نگاہ ڈالی ،اونٹ آپ کے پاس آیا اور سجدہ ریز ہوگیا، آپ نے اسے کام پر لگایا پھر تیار ہوگیا ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے : [مسند احمد :ح: ۱۲۶۱۴]
۶۔ آپ ﷺ کا لعاب دہن: غزوہ ٔ خیبر کی رات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھ میں درد تھا،صبح جب آپ ﷺ نے عَلَم تھمانا چاہا تو آنکھ کی شکایت کی ۔ چنانچہ آپﷺ نے اپنا لعاب دہن لگایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ فوراً شفایاب ہوگئے ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے :[صحیح البخاری:۳۷۰۱،صحیح مسلم:۲۳۰۶]
۷۔نجاشی بادشاہ حبشہ کے انتقال کی خبر دینا : جس دن نجاشی بادشاہ کا انتقال ہوا آپ ﷺ نے اسی دن صحابہ کرام کو بادشاہ کے انتقال کی خبر دی اور صلاۃِ جنازہ کا حکم دیا ۔ [صحیح البخاری :۳۸۷۷،صحیح مسلم :۹۵۲]
۸۔ کچھ صحابہ کی شہادت کی پیشگوئی کرنا : جبل حراء پر رسول اللہ ﷺ ابوبکر، عمر ،عثمان، علی ،طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ چٹان تھوڑاہِلا ،آپ نے فرمایا ٹھہرجا،تیرے اوپر صرف نبی یا صدیق یا شہداء ہی ہیں ۔آپ ﷺ نے حضرت عمر،عثمان، علی ،طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کی شہادت کی پیش گوئی فرمائی ۔[صحیح مسلم:۲۴۱۷]
۹۔ آپ ﷺ کا ملکِ فارس کے فتح کی پیشین گوئی کرنا جو بعد میں فتح ہوا۔ دیکھئے تفصیل: [صحیح البخاری: ۳۵۹۵]
۱۰۔ آپ ﷺ کا مصر کے فتح کی پیشین گوئی فرمانا۔دیکھئے تفصیل : [صحیح مسلم :۲۵۴۳]
۱۱۔ آپ ﷺ کی پیشین گوئی کرنا کہ مدتِ خلافت صرف ۳۰ سال ہوگی ۔دیکھئے تفصیل :[صحیح ابوداؤد للالبانی : ۳۸۸۲]
۱۲۔ آپ ﷺ کی پیشین گوئی فرمانا کہ آپ ﷺ کے انتقال کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے اہل بیت میں سے فوت ہوں گی ۔دیکھئے تفصیل : [صحیح البخاری:۳۶۲۴، صحیح مسلم :۲۴۵۰]
۱۳۔ آپ ﷺ کا اس عورت کے بارے میں باخبر کرنا جو حاطب بن ابی بلتعہ کا خط اہل مکہ کے پاس لے جارہی تھی ۔دیکھئے تفصیل [صحیح مسلم:۲۴۹۴]
۱۴۔ آپ ﷺ کا پیشین گوئی کرنا کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی ۔دیکھئے تفصیل [صحیح مسلم :۲۹۱۶]
۱۵۔ پتھروں کا آپ ﷺ کو سلام کرنا: دیکھئے تفصیل : [صحیح مسلم :۲۲۷۷]
۱۶۔ آپ ﷺ کی پیشین گوئی کرنا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ دو مسلم گروہوں میں صلح کرائیں گے۔[صحیح البخاری:۲۷۰۴]
۱۷۔ شام، یمن اورعراق کے فتوحات کی پیشین گوئی فرمانا : دیکھئے تفصیل : [صحیح مسلم :۱۳۸۸]
۱۸۔ تابعی اویس قرنی کے بارے میں پیش گوئی کرنا ۔ واقعہ کی تفصیل کے لئے دیکھئے :[صحیح مسلم : ۲۵۴۲]
۱۹۔ آپ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی کہ بحری جنگوں کا آغاز ہوگا ۔ [صحیح البخاری :۲۷۸، صحیح مسلم : ۱۹۱۲]
قارئین کرام ! معجزات پر تبصرہ کرنے کے بعد آئیے کرامات کی چند مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔
کرامات کی مثالیں :
۱۔ حضرت مریم علیہا السلام کا واقعہ: حضرت زکریا علیہ السلام جب حضرت مریم علیہا السلام کے حجرے میں جاتے اور خوردونوش کی اشیاء ان کے پاس موجود پاتے تو پوچھتے یہ کہاں سے آیا ؟ تو حضرت مریم علیہا السلام فرماتیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ تفصیل کے لئے مراجعہ کیجئے :[آل عمران:۳۷]
۲۔ اصحاب کہف کا واقعہ: چند نوجوان اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے کسی غار میں جاکر پناہ گیر ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی نیند ڈالی کہ وہ مدتوں سوتے رہے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں بیدا ر کیا۔ بہرحال خوردونوش اور دیگر ضرورتوں کے بغیر ایک زمانہ تک سوتے رہنا انتہائی خلاف معمول ہے ۔ (تفصیل کے مراجعہ کیجئے سورہ کہف )
۳۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی فرمائش پر آپ کی رعایاکا ایک شخص تخت بلقیس کو پلک جھپکنے سے پہلے حاضر کردیا۔(تفصیل کے لئے مراجعہ کیجئے سورۃ النمل ۴۰)
۴۔ تین غاروالوں کے ساتھ کرامات: جب تینوں نوجوان غار میں پھنس گئے تو انہوں نے اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے اللہ سے دعائیں کیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں نجات دی۔(تفصیل کے لئے دیکھئے :صحیح بخاری :۲۲۱۵)
۵۔ ایک نیک کسان کا واقعہ: اللہ تعالیٰ نے اس کی کھیت کی سیرابی کے لئے خصوصی طور پر بادلوں کو حکم دیا اور بادلوں نے کھیت کو سیراب کیا ۔[صحیح مسلم :باب الصدقۃ فی المساکین:ح:۲۹۸۴]
۶۔ جریج راہب کا واقعہ: جریج جو ایک متقی ،نیک صالح اور عبادت گزار بندے تھے جب ان پر زنا کا الزام لگا تو انہوں نے نومولود بچے سے مخاطب ہوکرکہا کہ تمہارا باپ کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو نطق کی صلاحیت عطا فرمایا اور اس نے کہا فلاں کسان ہے ۔تفصیل کے لئے دیکھئے :[صحیح مسلم :۲۵۵۰]
۷۔ حضرت سارہ کا واقعہ: جب ظالم بادشاہ نے دست درازی کرنا چاہا تو اس کا ہاتھ شل ہوگیا لیکن پھر سارہ علیہا السلام کی دعا سے صحیح ہوگیا ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے :[صحیح مسلم :۲۳۷۱]
منکرین کرامات اور ان کی تردید:
منکرین کرامت کی تردید میں دو گروہ پائے جاتے ہیں ۔
۱۔ ایسا گروہ جو سرے سے اللہ اور رسول پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ۔ بہر حال ان کا انکارمعمولی بات ہے ۔جب ان کا ایمان ہی نہیں ہے تو ان کی تردید کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔
۲۔ معتزلہ : ان کا ماننا ہے کہ اگر کرامات کو مانتے ہیں تو نبی اور ولی میں فرق کرنا دشوارہوجائے گا۔
ان کا رد: امام طحاوی فرماتے ہیں کہ معتزلہ کا یہ قول اس وقت درست ہوگا جب ولی خارقِ عادت پیش کرتے وقت نبوت کا بھی دعویٰ کرے۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ اگر وہ نبوت کا دعویٰ کرے تو ولی نہ ہو کر جھوٹا مدعیٔ نبوت ہوجائے گا۔ [شرح عقیدۂ طحاویۃ:۷۵۲]
اہل سنت و الجماعت کا موقف: اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی نبوت کی تائید و اثبات کے لئے بہت سارے معجزات عطا فرمائے ہیں جس سے اہل ایمان کے دلوں کو ثبات اور ایمان کو جلاملتا ہے اور ساتھ ہی معاندین کے اوپر حجت قائم ہوتی ہے ۔ اہل سنت و الجماعت کا مسلک ہے کہ انبیاء کرام انسان و جنات دونوں کی طرف مبعوث کئے گئے تھے ،قرآن کی آیت ہے :{یَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ یَأْتِکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ}’’اے جنوں اور انس کی جماعت کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے رسول نہیں آئے تھے‘‘ [الانعام:۱۰۳]
لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو ایسے معجزات عطا فرمائے جسے پیش کرنے سے انس وجن دونوں قاصر ہیں۔
افراط و تفریط سے بچتے ہوئے یہ مانتے ہیں کہ اولیاء اللہ نہ ہی معصوم ہوتے ہیں اور نہ غیب جانتے ہیں اور نہ ہی کائنات میں تصرفات کا حق رکھتے ہیں ، اولیاء اللہ کی کرامات کی تصدیق کرتے ہیں ، انبیاء کرام اولیاء اللہ سے افضل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی اطاعت کو لازم قراردیا ہے لیکن اولیاء کی اطاعت لازم نہیں ہے، امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ولانفضل احدامن الاولیاء علٰی أحد من الانبیاء علیھم السلام نقول نبی واحد افضل من جمیع الالیاء‘‘’’ہم کسی ولی کو کسی نبی پر فوقیت نہیں دیتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ ایک اکیلا نبی تمام اولیاء سے بہتر ہے‘‘ [شرح العقیدۃ الطحاویۃ]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اتفق سلف الامۃ وائمتھا وسائر اولیاء اللّٰہ تعالیٰ علٰی ان الانبیاء افضل من الاولیاء ‘‘’’سلف ِ امت ،ائمہ کرام اور تمام اولیا ء اللہ کا اتفاق ہے کہ انبیاء کرام اولیاء سے بہتر ہیں‘‘ [مجموع فتاویٰ ابن تیمیۃ:ج:۱۱،ص:۲۲]
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اولیاء اللّٰہ غیر الانبیاء لیسواالمعصومین بل یجوز علیھم ما یجوز علٰی سائر عباد اللّٰہ المومنین الخ‘‘’’اولیاء اللہ انبیاء سے جدا ہیں ۔ معصوم نہیں ہیں بلکہ جس طرح دیگر اللہ کے مومن بندوں سے غلطیاں ہوتی ہیں ان سے بھی ہو سکتی ہے‘‘[ولایۃ اللّٰہ والطریق الیھا للشوکانی]
قال الطحاوی: ’’ونؤمن بما جاء من کراماتھم ،وصح عن الثقات من روایاتھم ‘‘’’اولیاء اللہ کی کرامات کے تعلق سے جو ثقہ روات سے ثابت ہے اس کی ہم تصدیق کرتے ہیں ‘‘[شرح الطحاویۃ:۲؍۷۴۶]
قارئین کرام! خلاصۂ کلام یہ ہے کہ معجزات کا ظہور انبیاء کے ہاتھوں ہوتا ہے اور اس کا تعلق ایسے امور سے ہوتا ہے جو انس و جن کی طاقت سے بالاتر ہوتا ہے ۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب’’کتاب النبوات:ص:۱۶۴‘‘ میں فرماتے ہیں :’’فآیۃ النبی لابدأن تکون خارقۃ للعادۃ بمعنی انھا لیست معتادۃ للآدمیین وذالک لأنھا حینئذ لا تکون مختصۃ بل مشترکۃ‘‘’’نبی کی نشانی (معجزہ) کا تعلق خلافِ عادت امر سے ہوگا جو انسانوں کے لئے عام بات نہیں ہوگی ورنہ یہ معجزہ عام ہو جائے گا اس کی کوئی خصوصیت باقی نہیں رہے گی‘‘
اگرانسان و جنات کی طاقت سے بالاتر نہیں ہوگا تو اس میں وہ خوارق بھی شامل ہوجائیں گے جن کا ظہور جن، کاہن یا جادوگر کے تصرفات سے ہوتا ہے چونکہ بظاہر ان کے کرتب بھی خلاف عادت ہوتے ہیں اسی طرح سائنس داں کی تحقیقات یا ماہر موسمیات اور ماہر فلکیات کی تخمینات بھی شامل ہوجائیں گے چونکہ اس میں بھی غیب کا علم ہوتا ہے لہٰذا معجزہ کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ انس و جن کے دائرۂ قدرت سے باہر ہوں اور تمام لوگوں کے لئے تا قیامت ایک چیلنج ہوتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں افراط و تفریط سے بچتے ہوئے معجزات و کرامات کو قرآن و سنت اور اہل سنت و الجماعت کے منہج کی روشنی میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
٭٭٭