-
اہل حدیث کب سے ہیں؟ برصغیر ہند وپاک میں جماعت اہل حدیث کے متعلق بعض جبہ ودستار والے ایک مدت سے عوام الناس میں یہ باور کرانے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں کہ یہ جماعت تاریخی اعتبار سے محض سو ڈیڑھ سو سال پرانی ہے ، اُس سے قبل ان کا کوئی وجود تھا نہ ان کی کوئی نشانی تھی ۔
لہٰذا ہم اس مضمون میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ جماعت اہل حدیث کا وجود کب سے ہے اور خود کی تاریخ اور وجود پر پردہ ڈال کر جماعت اہل حدیث کے وجود اور تاریخ کی تعیین کرنے والے اصحاب جبہ ودستار کے دعوے کی حقیقت کیا ہے ؟
قارئین کرام ! کسی بھی جماعت کے وجود کی تاریخ معلوم کرنے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں ۔
پہلا اور صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس جماعت کے منہج ،عقائد ،اصول اور اعمال کو دیکھا جائے کہ وہ منہج ،عقائد ،اصول اور اعمال دور ِجدید میں وقوع پذیر ہوئے ہیں یا پھر وہ عہدِ نبوت اور دور صحابہ وتابعین کے منہج، عقائد، اصول اور اعمال کے موافق اور مشابہ ہیں ۔
کیونکہ اصحاب رسول ﷺ ہمارے لیے معیارِ حق ہیں اور ان کے معیار ِایمان اور معیارِ حق ہونے پر قرآن مجید کی آیات اور احادیثِ رسول ﷺگواہ ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا وَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ } ’’ اگر یہ لوگ اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو یہ ہدایت پا جائیں گے اور اگر منہ پھیر لیں تو یہ صریح مخالفت میں ہیں ‘‘۔
[البقرہ:۱۳۷]
مزید فرماتا ہے:{ وَمَن يُّشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰي وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلّٰي وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاء تْ مَصِيرًا } ’’ اور جس کے پاس ہدایت واضح ہو گئی اس کے باوجود وہ رسول کی مخالفت کرتا ہے اور مومنوں کے راستے کو چھوڑ کر دوسری راہ پر چلتا ہے تو ہم بھی اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس کی طرف وہ خود پھرتا ہے اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے اور جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے ‘‘۔
[النساء:۱۱۵]
آیت ِکریمہ میں مومنین سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جو دین ِاسلام کے سب سے پہلے پیرو کار اور اس کی تعلیم کا مکمل نمونہ تھے اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی اور گروہ مومنین کا موجود نہ تھا جو یہاں مراد ہو سکے ۔ اس لیے رسول اللہ ﷺکی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کی پیروی دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے ۔
اور اتباع ِرسول ﷺ کے ساتھ اتباع مومنین کا حکم دے کراللہ نے یہ واضح کر دیا کہ اتباع و اطاعت رسول ﷺ کی وہی شکل معتبر ہوگی جو اصحابِ رسول ﷺ کے منہج، اصول اور اعمال اور سیرت و کردار میں جلوہ گر ہے اس کے علاوہ جو بھی راستہ ہے وہ ناقابلِ اعتبار ہے ۔
دوسرا اور غیر معتبر طریقہ یہ ہے کہ اس جماعت کے نام کے وجود کی تاریخ معلوم کی جائے کہ وہ کب سے مشہور اور مستعمل ہے ۔ گرچہ یہ طریقہ معتبر نہیں ہے مگر مطالبہ اس کا بھی کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ’’اہل حدیث ‘‘ ایک غیر مانوس نام تھا جس سے ماضی قریب میں لوگ آشنا ہوئے ہیں ۔
قارئین کرام ! جہاں تک رہی بات پہلے طریقہ کی تو کوئی بھی شخص یہ قطعاً ثابت نہیں کر سکتا کہ جماعت ’’اہل حدیث ‘‘کا کوئی ایک عقیدہ عہدِ نبوت اور عہدِ سلف صالحین کے عقائد سے متصادم ہو ، بلکہ ان کے ہر عقیدے کا ثبوت قرآن وسنت کے نصوص اور عہدِ خیر القرون میں واضح طور پر ملے گا ، خواہ اس کا تعلق ایمانیات سے ہو یا پھر رب العزت کی ذات وصفات اور افعال وغیرہ سے ۔
اور اس جماعت کے اصول بھی وہی ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تھے کہ جب کسی چیز کی دلیل اور کسی بات کا ثبوت اللہ اور اس کے رسول سے مل جائے تو کسی شیخ اور امام کی بات تو دور خود صاحبِ رسالت کے یاروں کی بات بھی معتبر تسلیم نہیں کی جائے گی ۔
جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
’’ تَمَتَّعَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ : نَهَي أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ عَنِ الْمُتْعَةِ ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَا يَقُولُ عُرَيَّةُ؟ قَالَ: يَقُولُ: نَهَي أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ عَنِ الْمُتْعَةِ ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أُرَاهُمْ سَيَهْلِكُونَ أَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَقُولُ: نَهٰي أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ !‘‘
’’ نبی اکرم ﷺ نے حج ِتمتع کیا، عروہ بن زبیر کہنے لگے کہ ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما تو حج ِتمتع سے منع فرما رہے ہیں ! ابن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا کہ عروہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ لوگوں نے کہا وہ کہہ رہے ہیں کہ ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما حج ِتمتع سے منع فرما رہے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لگتا ہے یہ لوگ ہلاک ہو کر رہیں گے ، میں کہتا ہوں کہ نبی ﷺنے کہا اور یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر وعمر نے منع کیا ہے ‘‘۔
[مسند أحمد – ت شاکر – ط دار الحدیث : ۳؍۳۵۲، رقم : ۳۱۲۱ وإسنادہ صحیح ]
سوال ہے کہ برِّ صغیر میں اہل حدیثوں کے علاوہ کیا کوئی ایسی جماعت یا فرقہ ہے جس کے ٹھیکیدار یہ اعلان کرنے کی جرأت کر سکیں کہ ہم اپنے بزرگوں اور اماموں کی ان تمام باتوں کو رد کرنے کے لیے تیار ہیں جو قول اللہ اور قولِ رسول کے مخالف اور متصادم ہوں؟
افعال اور عبادات کی طرف بڑھتے ہیں جن میں سب سے اہم نماز ہے اور اللہ کے فضل سے بر صغیر میں صرف جماعت اہل حدیث ہی وہ جماعت ہے جس کی نماز رسول اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام کی نماز کے موافق اور مشابہ ہے ۔
قارئین کرام ! یہ چند شواہد اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اس جماعت کا وجود سو دو سو سال پہلے سے نہیں بلکہ اس وقت سے ہے جس وقت سے حدیث کا وجود ہوا ہے اور اس دور سے ہے جس دور کو زبان رسالت نے ’’ خير القرون قرني ثم الذين يلونهم ‘‘ کہا ہے ۔
اور اگر اِس پر دل مطمئن نہ ہو تو پھر پیارے رسول ﷺ کی زبانی سن لیں کہ جس سے بہتر شاہد اور دلیل کوئی اور نہیں ہو سکتی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَي الْحَقِّ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، حَتّٰي يَأْتِيَ أَمْرُ اللّٰهِ وَهُمْ كَذَالِك‘‘۔
’’ میری امت کی ایک ’’ جماعت ‘‘ ہمیشہ حق پر قائم رہے گی ، ان کو رسوا کرنے والے انہیں نقصان نہیں پہنچا پائیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے گا اور وہ اسی طرح حق پر قائم ہوں گے ‘‘۔
[ صحیح مسلم – ت عبد الباقی : ۳؍۱۵۲۳ ، رقم : ۱۹۲۰]
یعنی ایک جماعت عہد نبوت سے لے کر قیامت کی صبح تک حق پر قائم رہے گی اور درمیان میں ایک لمحہ کے لیے بھی یہ زمین اس جماعت سے خالی نہیں ہوگی بصورت دیگر ’’ لَا تَزَالُ ‘‘ کا مفاد ہی باطل قرار پائے گا ۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہاں جماعت سے حنفیہ ،مالکیہ، شافعیہ ،حنابلہ اور ظاہریہ ولیثیہ وغیرہم تو مراد ہو نہیں سکتے کیونکہ عہدِ نبوی اور عہد ِصحابہ میں ان کا وجود ہی نہیں ہوا تھا ۔
پھر کون سی جماعت مراد ہے؟
خود تعیین نہ کرکے عہدِ نبوت سے قریب کے کچھ ائمۂ دین اور حدیث شناسوں سے پوچھ لیتے ہیں ۔
عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ (م ۱۱۸ – ت ۱۸۱ ) کہتے ہیں :’’هُمْ عِنْدِي أَصْحَابُ الْحَدِيثِ ‘‘۔’’میرے نزدیک وہ اصحاب الحدیث یعنی اہل حدیث ہیں’’۔
یزید بن ہارون رحمہ اللہ ( م ۱۱۸ – ت ۲۰۷) کہتے ہیں :’’ إِنْ لَمْ يَكُونُوا أَصْحَابَ الْحَدِيثِ، فَلَا أَدْرِي مَنْ هُمْ ‘‘۔ ’’اگر وہ اہل حدیث نہیں تو مجھے نہیں پتہ کہ یہ کون لوگ ہیں‘‘؟
امام احمد بن حنبل ( م ۱۶۴ – ت ۲۴۱) فرماتے ہیں :’’ إِنْ لَمْ يَكُونُوا أَصْحَابَ الْحَدِيثِ، فَلَا أَدْرِي مَنْ هُمْ
’’اگر وہ اہل حدیث نہیں تو مجھے نہیں پتہ کہ یہ کون لوگ ہیں‘‘؟
علی بن مدینی ( م ۱۶۱ – ت ۲۳۴) کہتے ہیں :’’ هُمْ أَصْحَابُ الْحَدِيثِ‘‘۔
’’یہ اہل الحدیث ہیں‘‘۔
امام البخاری (م ۱۹۴ – ت ۲۵۶) کہتے ہیں:’’ یَعْنِی أَصْحَابَ الْحَدِیثِ‘‘۔ دیکھیں :[ شرف أصحاب الحدیث للخطیب البغدادی ، ص : ۲۶ – ۲۷]
معلوم ہوا کہ جماعت ’’ اہل حدیث‘‘ بلا شک وشبہ عہد نبوی ﷺ سے موجود ہے اور قیامت کے دن تک باقی رہے گی ۔ان شاء اللہ
چونکہ اصحابِ جبہ وقبہ نہ تو مذکورہ ائمہ پر کچھ نکیر کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی تفسیر کو ہضم کر سکتے ہیں سو ان کے سامنے صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے اور وہ یہ کہ یہاں تو ’’ اہل ِحدیث اور اصحاب ِحدیث ‘‘ سے صرف محدثین مراد ہیں ۔
جواب میں ہم کہیں گے کہ بیشک ’’ اہلِ حدیث اور اصحابِ حدیث ‘‘ سے محدثین مراد ہیں مگر صرف نہیں ۔ بلکہ اس میں وہ تمام لوگ داخل ہیں جو نبی اکرمﷺاور صحابہ وتابعین کے منہج اور نقش ِقدم پر قائم ہیں اور بلا چوں چراں حدیث پر عمل کرنے والے ہیں ۔
ابن قتیبہ (ت ۲۷۶) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ فأما أصحاب الحديث فإنهم التمسوا الحق من وجهته، وتتبعوه من مظانه، وتقربوا من اللّٰه تعالٰي، باتباعهم سنن رسول اللّٰه ﷺ، وطلبهم لآثاره وأخباره، برا وبحرا، وشرقا وغربا‘‘۔
’’ رہی بات اہل ِحدیث کی تو انہوں نے حق کو اس کے راستے سے تلاش کیا اور اس کی جستجو و تتبع وہیں پہ کیا جہاں سے حق پائے جانے کی توقع ہو ، اور تقرب الہٰی کے لیے سنت ِرسول ﷺ کی اتباع کی اور بحر و بر اور شرق و غرب ہر جگہ سے آپ ﷺ کے احادیث و آثار کی تلاش و جستجو کی ‘‘۔
[ تأویل مختلف الحدیث : ۱؍۱۲۷]
جبکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ نحن لا نعني بأهلِ الحديثِ المُقتَصِرين علٰي سماعِه أو كتابتِه أو روايتِه، بل نعني بهم كُلَّ من كان أحَقَّ بحِفظِه، ومَعرفتِه وفَهمِه ظاهرًا وباطنًا، واتِّباعِه باطنًا وظاهرًا‘‘۔
’’ ہم اہل ِحدیث سے صرف حدیث لکھنے سننے اور روایت کرنے والے ہی کو مراد نہیں لیتے ، بلکہ ہر وہ شخص جس نے حدیث کی حفاظت کی اور اس پر عمل کیا اور اس کی ظاہری وباطنی معرفت حاصل کی اور اس کی ظاہری اور باطنی طور پر اتباع وپیروی کی تو وہ اہلِ حدیث کہلانے کا زیادہ حقدار ہے ‘‘۔
[ مجموع الفتاویٰ : ۴؍۹۵]
اور اگر آپ صرف محدثین ہی پر بضد ہیں تو پھر چند سوالوں کا جواب عنایت کر دیں ۔
۱۔ کیا امام ابو حنیفہ اور ان کے دونوں شاگردان امام محمد اور امام یوسف نیز دیگر فقہاء ومفسرین رحمہم اللہ ’’طائفہ منصورہ اور فرقہ ناجیہ ‘‘میں داخل ہیں کہ نہیں؟ کیونکہ یہ ائمہ محدثین میں سے نہیں تھے ۔
۲۔ نبی اکرم ﷺاور صحابہ وتابعین کے منہج اور نقش قدم پر چلنے والے وہ حضرات جو علماء حدیث میں سے نہیں ہیں ان کا شمار کس جماعت اور گروہ میں ہوگا؟
۳ ۔ خود آپ اور آپ کے علماء’’طائفہ منصورہ اور فرقہ ناجیہ ‘‘میں شامل ہیں یا نہیں؟ کیونکہ آپ قطعا ً’’ محدث‘‘ نہیں ہیں ۔
والدِ محترم ’’ عبد الغفار المدنی ‘‘ حفظہ اللہ مسائل کے استنباط میں اہل حدیث کے منہج پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ جماعت: ’’ فإن خير الحديث كتاب اللّٰه وخير الهدي هدي محمد صلى اللّٰه عليه وسلم وشر الأمور محدثاتها وكل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة وكل ضلالة فى النار ‘‘پر کلی طور سے قائم ہے ، عقیدہ سے لے کر اعمال تک کسی بھی مسئلہ کو دیکھ لیجئے ہر ایک کی دلیل کتاب اللہ اور احادیث صحیحہ میں ملے گی۔ ہاں اگر کوئی مسئلہ ایسا ہے کہ اس کی دلیل کتاب وسنت میں صراحتاً موجود نہیں ہے تو آثارِ صحابہ میں دیکھے گی اور اگر وہاں بھی موجود نہیں ہے تو تابعین کے اقوال پر نظر کرے گی ۔ اگر کوئی دلیل مل گئی تو خیر ہے ورنہ ائمۂ اربعہ کے اقوال کی طرف رجوع کرے گی اور جو قول کتاب وسنت سے زیادہ قریب ہو گا اس کو لے لے گی ۔ اب اس سے بڑھ کر ایک سچے مسلمان کے لیے اور کیا چاہئے ۔
اور اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن وحدیث تو ہر فرقے کے لوگ مانتے ہیں پھر اہل حدیث کے لیے یہ خصوصیت کیوں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک شروع میں ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر فرقہ اور ہر جماعت بزعم خود قرآن وسنت ہی کی پیروی کرتی ہے اور انہی کو اصول ِشرع اور واجب الاتباع قرار دیتی ہے۔ اور اپنے آپ کو سوائے رسول اللہ ﷺکے کسی کا متبع نہیں مانتی ۔ لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ سوائے اہل حدیث کے سارے فرقے کے لوگ اپنے اپنے دعوؤں میں جھوٹے ہیں ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس جماعت کے علاوہ سارے فرقوں نے حدیث نبوی کو بالکل ساقط الاعتبار قرار دیا ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اہل حدیث کی طرح کسی فرقے نے حدیث نبوی کو رائے وقیاس اور اجتہاد و استنباط پر امتیازی فوقیت نہیں دی ہے ۔ ہر ایک نے حدیث کے صحیح ہونے کے باوجود اس کے تسلیم کرنے میں کچھ نہ کچھ چوں وچرا کیا ہے ۔ کسی نے کہا کہ یہ حدیث قیاس کے خلاف ہے، کسی نے یہ کہہ کر حدیث کو ٹھکرادیا کہ یہ قرآن کے معارض ہے، کسی نے کہا یہ عقل کے خلاف ہے، کسی نے یہ کہہ کر حدیث کو چھوڑ دیا کہ ہمارے امام نے اس حدیث کو نہیں لیا ہے ، غرضیکہ ہر ایک نے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈھ نکالا، جیسا کہ ہر فرقے کی کتب اصول سے ظاہر ہے۔ اور اپنی نسبت نبی کریم ﷺکی طرف کرنے کے بجائے غیروں کی طرف کر دیا جیسے حنفی، شافعی، مالکی، وغیرہ ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک کے سامنے حدیث نبوی کے علاوہ کوئی باطنی چیز حائل ہے جو اسے حدیث تک پہنچنے سے روکے ہوئے ہے۔ لیکن اس کے برخلاف اہل حدیث نے نہ تو اپنے آپ کو کسی اور کی طرف منسوب کیا اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی متابعت میں کسی کی قیاس ورائے کی موافقت کی شرط لگائی ہے۔ بلکہ بعینہٖ اسی طرح آپ کی اتباع کی جس طرح آپ نے اتباع کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور جس طرح صحابۂ کرام نے آپ کی اتباع کی تھی ۔ الحمد للہ اہل حدیث نے آیت کریمہ : ’’ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ‘‘ [الحجرات : ۱] پر کلی طور پر قائم رہ کر احادیث نبویہ کو بھی وحی الٰہی اور قرآن کی تفسیر و تشریح تصور کر کے اس کے مطابق عملی زندگی کی بنیاد رکھی۔ اور اعتقاداً وعملًا ذرا بھی حدیث نبوی سے تجاوز کرنا گوارہ نہیں کیا۔ صحیح حدیث کے ہوتے ہوئے نہ تو کسی امتی کی مخالفت کی پرواہ کی اور نہ کسی ضعیف حدیث پر اپنے استدلال کی بنیاد رکھی۔ اس کی شہادت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہر مذہب اور ہر فرقہ نے اپنے اپنے مذہب کے مخصوص مسائل کو مدون کیا۔ اور ان کتابوں کو اپنے مذہب کی بنیادی کتابیں قرار دیا۔ اور دوسرے مذاہب کی کتابوں کو دوسرے مذہب سے تعبیر کیا۔ لیکن اہل حدیث نے نہ تو مخصوص مسائل کو الگ کیا اور نہ ان میں تصنیف کر کے ان کتابوں کو اپنے فرقے کی مخصوص کتابیں قرار دیا۔ بلکہ ان کی ساری جدوجہد اور ساری کوششیں احادیث کو جمع کرنے اور ان کی شرح و بیان پر صرف ہوئیں۔ انہوں نے اقوال الرجال کے بجائے اقوال الرسول کو رواج دیا۔ ایسی کتاب سے ہمیشہ الگ رہے جس میں حدیث نبوی کی مخالفت پائی جاتی ہو ۔ ( اہل حدیث کا تعارف ص : ۱۵ – ۱۷)
جہاں تک رہی بات دوسرے طریقے کی تو مذکورہ جواب کے بین السطور میں اس کا بھی جواب موجود ہے کہ یہ مقدس لقب ’’ اہل حدیث ‘‘ کب سے مشہور اور متداول ہے اور چونکہ دوسرا طریقہ معتبر اور درست نہیں ہے لہٰذا اس کی مزید تفصیل میں جانا مناسب نہیں ہے ۔
قارئین کرام ! بر صغیر کی اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور سے نا بلد یا اپنی خواہشات اور تعصب کو تاریخ سمجھنے والے بارہا یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ ’’ بر صغیر ‘‘میں سب سے پہلے ’’ حنفی مسلک ‘‘ آیا ، لہٰذا ضروری ہے کہ آپ ’’ اہل حدیث ‘‘ کی روشن اور تابناک تاریخ سے واقفیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی جان لیں کہ بر صغیر میں سب سے پہلے کس جماعت اور کس مسلک کا ورود ہوا ؟
بر صغیر کی اسلامی تاریخ پر نظر رکھنے والے اس بات سے ضرور واقف ہوں گے کہ اسلام کی پہلی کرنیں سن ۱۵ ہجری ہی میں اس کی سطح ارض پر ابھرنے لگیں تھی اور پھر تاریخ کے ایک خاص تسلسل کے ساتھ پوری تیزی سے لمحہ بہ لمحہ پھیلتے اور نمایاں ہوتی چلی گئیں ۔
جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ ’’ہند ‘‘ میں محمد بن قاسم کے ورود کا تذکرہ کرنے کے بعدفرماتے ہیں :
’’وقبل ذلك قد كان الصحابة فى زمن عمر وعثمان فتحوا غالب هذه النواحي ودخلوا فى مبانيها، بعد هذه الأقاليم الكبار، مثل الشام ومصر والعراق واليمن وأوائل بلاد الترك، ودخلوا إلى ما وراء النهر وأوائل بلاد المغرب، وأوائل بلاد الهند‘‘
’’سندھ میں محمد بن قاسم کی فتوحات سے پہلے عمر اور عثمان رضی اللہ عنہا کے ادوار میں صحابہ نے اطراف کے بیشتر علاقے فتح کر لیے تھے۔ وہ شام، مصر، عراق، یمن اور اوائل ترکستان کے وسیع و عریض اقالیم میں پہنچے اور علاقہ ماوراء النہر، اوائل بلاد مغرب و افریقہ اور اوائل بلاد ہند میں بھی داخل ہوئے‘‘
[ البدایۃ والنہایۃ ط السعادۃ : ۹؍۸۸ ]
چنانچہ مشہور اسلامی مورخ اور محقق قاضی اطہر مبارکپوری نے اپنی کتاب ’’ العقد الثمین فی فتوح الہند ومن ورد فیہا من الصحابۃ والتابعین‘‘ اور’’ خلافت راشدہ اور ہندوستان ‘‘ اور غازی عزیر نے اپنی کتاب ’’ کیا اقلیم ہند میں اشاعت ِاسلام صوفیا کی مرہون منت ہے ؟‘‘ میں تاریخی حوالوں کے ساتھ سترہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کا تذکرہ کیا ہے جن کے ورود مسعود سے بر صغیر کی زمین بہرہ ور ہوئی ہے ۔
جبکہ دور حاضر کے مشہور مورخ محمد اسحاق بھٹی نے ( بر صغیر میں اہل حدیث کی آمد’’اور‘‘بر صغیر میں اسلام کے اولین نقوش ) میں حوالوں کے ساتھ ’’پچیس ‘‘ صحابۂ کرام ،’’ بیالیس ‘‘ تابعین عظام اور ’’اٹھارہ‘‘ تبع تابعین کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے جن کے اقدام مبارکہ کی قدم بوسی سر زمین ہند کو حاصل ہوئی ہے ۔
جن میں’’ عثمان بن أبی العاص الثقفی رضی اللہ عنہ‘‘ جنہوں نے ہندوستان کے تین شہروں میں جہاد کیا ۔
[ جمہرۃ أنساب العرب لابن حزم : ۱؍۲۶۶]
اور ان کے دو بھائی’’ حکم بن أبی العاص الثقفی رضی اللہ عنہ ‘‘ جو گجرات کے شہر ’’ بھڑوچ‘‘ کی مہم پر تشریف لائے تھے ۔
[ فتوح البلدان للبلاذری : ۱؍۴۱۶]
اور مغیرۃ بن أبی العاص الثقفی رضی اللہ عنہ جو سندھ کے شہر ’’دیبل ‘‘کی طرف لشکر کشی کرنے آئے ۔
[ فتوح البلدان للبلاذری : ۱؍۴۱۶] قابل ذکر ہیں ۔
جبکہ تابعین عظام میں’’ مہلب بن أبی صفرۃ ‘‘ ،’’سنان بن سلمۃ بن المحبق الہذلی‘‘
[ تاریخ الإسلام – ت تدمری ۴؍۱۲ – ۱۸]. سعد بن ہشام بن عامر الأنصاری جو عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اُس وقت کے ہندوستان میں ’’ مکران‘‘ نامی جگہ میں شہید ہوئے ۔ دیکھیں:[ التاریخ الکبیر للبخاری – ت المعلمی الیمانی ۴؍۶۶] اور’’ راشد بن عمر بن قیس الازدی ‘‘[ فتوح البلدان ۱؍۴۱۸] نیز ’’ محمد بن قاسم رحمہ اللہ ‘‘ قابل ذکر ہیں جو ’’ ولید بن عبد الملک ‘‘ کے دور حکومت میں (سنہ ۹۰ ھ) میں سر زمین ہند تشریف لائے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا وہ پچیس صحابہ ٔکرام جو یہاں آئے وہ حنفی تھے؟ کیا وہ کسی ذی اکرام امام فقہ کے مقلد تھے؟ کیا ان کے بعد یا ان کے زمانے میں برصغیر میں تشریف لانے والے بیالیس تابعین کسی لائق صد احترام شخصیت کے حلقہ تقلید سے وابستہ تھے؟ ہرگز نہیں۔وہ براہ راست نبی ﷺکی احادیث مبارکہ پر عمل پیرا تھے اور آپ کے فرامین اقدس پر عامل اور ان کے اولین مبلغ تھے اور اسی متاع گراں بہا کی رفاقت میں انہوں نے اس نواح کا رخ فرمایا تھا۔ ان کا مرکز عمل صرف قرآن اور حدیث تھے۔ اس کے علاوہ عمل کے لیے کوئی بات کبھی ان کے حاشیہ خیال میں نہیں آئی۔ یہ وہ دور ہے جب فقہی مسالک کا کہیں نام و نشان نہ تھا اور کسی قابل تکریم امام فقہ کا اس عالم آب و گل میں کوئی وجود نہ تھا۔ صحابہ کا پہلا کارواں برصغیر میں ۱۵ہجری میں آیا۔حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اس سے ۶۵ سال بعد ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۱۵۰ ہجری میں انہوں نے سفر آخرت اختیار فرمایا۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ۹۳ہجری میں رونق آراے بزم وجود ہوئے اور ۱۷۹ہجری میں وفات پائی ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ۱۵۰ ہجری میں اس جہان ہست و بود میں نمودار ہوئے اور ۲۰۴ ہجری میں یہ آفتاب علم غروب ہو گیا ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ۱۶۴ ہجری میں ہوئی اور ۲۴۱ ہجری میں وہ عالم جاودانی کو تشریف لے گئے ۔ واضح الفاظ میں کہنا چاہیے کہ صحابۂ کرام کے زمانے میں نہ حنفی تھے نہ مالکی نہ شافعی تھے نہ حنبلی ۔ خالص فرامین پیغمبر اور حدیث رسول کا سکہ چلتا تھا، کسی امام فقہ کی تقلید کا ہرگز کوئی تصور نہ تھا۔ جب ائمۂ فقہ کی پاک باز ہستیاں دنیا میں موجود ہی نہ تھیں تو تقلید کیسی اور کس کی؟( بر صغیر میں اسلام کی آمد ، ص : ۶۲ – ۶۳)
مشہور عرب سیاح ’’ ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن البناء البشاری المقدسی ‘‘ ( متوفی ۳۸۰) اپنی کتاب’’ أحسن التفاسیر فی معرفۃ الأقالیم ‘‘میں ’’ ملتان ‘‘ کے مذاہب کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ أكثرهم أصحاب الحديث ورأيت القاضي أبا محمد المنصوري داؤديا إماما فى مذهبه وله تدريس وتصانيف‘‘ [ أحسن التفاسیر فی معرفۃ الأقالیم ص : ۴۸۱]
’’ان میں اکثر اہل حدیث ہیں اور یہاں مجھے قاضی ابو محمد منصوری سے ملنے کا اتفاق ہوا جو مذہب داؤد ظاہری کے امام تھے ‘‘۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت ِاہل حدیث ’’ برصغیر ‘‘ میں کوئی نئی جماعت نہیں ہے ۔ بلکہ یہ جماعت اس وقت بھی موجود تھی جب کہ ’’تقلید شخصی ‘‘ کی وبا نے پھیلنا شروع کیا تھا ۔
جیسا کہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اعْلَم أَن النَّاس كَانُوا قبل الْمِائَة الرَّابِعَة غير مُجْمِعِينَ على التَّقْلِيد الْخَالِص لمَذْهَب وَاحِد بِعَيْنِه ‘‘
’’ جان لو کہ چوتھی صدی ہجری سے پہلے لوگ کسی ایک مذہب کی خالص تقلید پر یکجا نہیں ہوئے تھے ‘‘
[حجۃ اللّٰہ البالغۃ:۱؍۲۶۰]
قارئین کرام ! اخیر میں ایک سوال ہماری طرف سے بھی ہے کہ کیا ’’ اہل حدیث ‘‘ کی تاریخ پر سوال اٹھانے والوں نے کبھی اپنا ’’ برتھ سرٹیفکیٹ ‘‘دیکھا ہے؟
نہیں دیکھا تو ہم دکھائے دیتے ہیں ۔
’’ فرقہ دیوبندیہ‘‘ کا آغاز مدرسہ دیوبند کی ابتدا کے ساتھ ہوا جس کی بنیاد ۳۱ مئی ۱۸۶۶ء کو پڑی تھی ۔
لہٰذا اس اعتبار سے ان کی پیدائش کو صرف ۱۵۸ سال اور ۱۳ دن ہوئے ہیں ۔
جبکہ ’’ فرقہ بریلویہ ‘‘ کے بانی احمد رضا خان بریلوی چودہ جون ۱۸۵۶ عیسوی میں پیدا ہوئے تھے ۔
جس سے ان کی وجود کو تقریبا ً۱۶۷ سال ۹ مہینے ۳۰ دن سے بھی کم ہوئے ہیں ۔
اور اگر وہ اپنی تاریخ ’’ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ‘‘ سے شروع کرتے ہیں تب بھی ہم سے سو سال بعد کے ہیں جبکہ وہ حقیقی معنوں میں ’’امام ابو حنیفہ ‘‘ کے متبعین ہیں ہی نہیں ۔
کیونکہ انہوں صاف لفظوں میں اعلان کر دیا ہے :
’’ لا يحلُّ لِمَنْ يُفتي من كتبي أنْ يُفتي حتي يعلم من أين قلتُ ‘‘
’’ میری کتابوں سے فتویٰ دینے والے کے لیے فتویٰ دینا اس وقت تک حلال نہیں ہو سکتا جب تک وہ یہ نہ جان لے کہ میں نے یہ بات کہاں سے کہی ہے ‘‘۔
[ الانتقاء فی فضائل الثلاثۃ الائمۃ الفقھاء لابن عبد البر:ص:۱۴۵]
مزید فرماتے:
’’ لا ينبغي لمن لم يعرف دليلي أن يفتي بكلامي ‘‘۔
’’جوشخص میری دلیل کا علم نہ رکھتا ہو اس کے لیے میری کلام کا فتویٰ دینا جائز نہیں نہیں ہے‘‘۔
[حجۃ اللّٰہ البالغۃ ۱؍۲۶۸]
حتیٰ کہ اپنے شاگرد رشید ’’ ابو یوسف‘‘ سے کہتے ہیں :
’’ ويحك يا يعقوب! لا تكتب كلَّ ما تسمع مني، فإني قد أري الر أى اليوم وأتركه غدًا، وأري الر أى غدًا وأتركه بعد غد ‘‘۔
’’ اے یعقوب ! تیری خرابی ہو ۔ میری ہر بات نہ لکھا کر میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے ۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے تو پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے ‘‘۔
[ تاریخ ابن معین – روایۃ الدوری ۳؍۵۰۴ ، وتاریخ بغداد وذیولہ ط العلمیۃ ۲۲؍۷۴ ، والتصحیح والترجیح علی مختصر القدوری ۱؍۲۰]
قارئین کرام ! کیا وطن عزیز میں ہے کوئی حنفیت کا علمبردار جو ’’امام ابو حنیفہ‘‘ کے ان اقوال پر عمل پیرا ہو؟
بلکہ دعویٰ تو یہ ہے:
’’ الأَصْل أَن كل آيَة تخَالف قَول أَصْحَابنَا فَإِنَّهَا تحمل على النّسخ أَو على التَّرْجِيح وَالْأولَي أَن تحمل على التَّأْوِيل من جِهَة التَّوْفِيق ‘‘.
’’ ہر وہ آیت جو ہمارے فقہاء کے قول کے خلاف ہو گی اسے یا تو نسخ پر محمول کیا جائے گا یا ترجیح پر محمول کیا جائے گا اور بہتر یہ ہے کہ اس آیت کو تاویل پر محمول کیا جائے تا کہ توافق ظاہر ہو جائے‘‘۔
[ أصول الکرخی:ص: ۱۸]
اسی طرح لکھتے ہیں:
’’ الأصل أن كل خبر يجيء بخلاف قول أصحابنا فإنه يحمل، على النسخ أو على أنه معارض بمثله ‘‘.
’’ بیشک ہر اس حدیث کو جو ہمارے اصحاب (یعنی فقہاء احناف) کے خلاف ہو گی ، نسخ پر محمول کی جائے گی یا یہ سمجھا جائے گا کہ یہ حدیث اس جیسی کسی دوسری حدیث کے خلاف ہے ‘‘۔
[ أصول الکرخی:ص: ۱۸]
قارئین ذی وقار! یہ حقیقی ’’حنفیت‘‘ نہیں ہے بلکہ حقیقی حنفیت اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا منشا علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ احناف کے جلیل القدر فقیہ ابن ہمام کے شیخ ’’ ابن شحنۃ‘‘رحمہ اللہ سے ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
’’إِذا صَحَّ الحَدِيث وَكَانَ على خلاف الْمَذْهَب عمل بِالْحَدِيثِ وَيكون ذَلِك مذْهبه وَلَا يخرج مقلده عَن كَونه حنفيا بِالْعَمَلِ بِهِ فقد سح عَن ابي حنيفَة انه قَالَ إِذا صَحَّ الحَدِيث فَهُوَ مذهبي ‘‘۔
’’ جب صحیح حدیث ملے اور وہ حدیث ہمارے مذہب کے خلاف ہو پھر حدیث ہی پر عمل کیا جائے گا اور وہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہوگا اور اس صحیح حدیث پر عمل کرنے کی وجہ سے کوئی حنفیت سے نہیں نکلے گا کیونکہ امام صاحب کا فرمان ہے کہ جب حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہو گا ‘‘۔
[ المستخرج علی المستدرک للحاکم للعراقی : ۱؍۱۵، وحاشیۃ ابن عابدین : ۱؍۶۸ ]
لہٰذا ہمارے وجود پر سوال اٹھانے والوں اور مجمع عام میں ہماری تاریخ دہرانے والوں کو چاہیے کہ لوگوں کو گمراہ کرکے اپنی عاقبت تباہ نہ کریں اور مسلک بچانے کے لئے دین کو داؤ پر نہ لگائیں ۔