Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • عرشِ الٰہی کے سائے میں کون ہوں گے؟ قسط اول

    اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
    {يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَي النَّاسَ سُكَارَيٰ وَمَا هُمْ بِسُكَارَيٰ وَلٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيدٌ }
    ترجمہ: ’’جس دن تم اسے دیکھ لوگے توہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور تمام حمل والیوں کے حمل گرجائیں گے اور تو دیکھے گا کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے ،حالانکہ درحقیقت وہ متوالے نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے‘‘۔
    [الحج:۲]
    آج سورج کے دورہونے کے باوجود ہم اس کی گرمی اور تپش سے پریشان ہوجاتے ہیں،مزید یہ کہ اس کی تپش سے بچاؤ کے لیے بہت سارے انتظامات بھی کرتے ہیں۔ کل قیامت کے دن سورج ہم سے بے حد قریب ہوگا ،گرمی کی شدت سے ہر انسان اپنے اعمال کے بقدر پسینے میں ڈوبا ہوگا،جیسا کہ حدیث رسول ﷺ ہے۔
    مِقْدَادُ بْنُ الْاَسْوَدِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ’’تُدْنَي الشَّمْسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْخَلْقِ، حَتَّي تَكُونَ مِنْهُمْ كَمِقْدَارِ مِيلٍ – قَالَ سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ: فَوَاللّٰهِ مَا اَدْرِي مَا يَعْنِي بِالْمِيلِ؟ اَمَسَافَةَ الْاَرْضِ، اَمِ الْمِيلَ الَّذِي تُكْتَحَلُ بِهِ الْعَيْنُ – قَالَ: فَيَكُونُ النَّاسُ عَلٰي قَدْرِ اَعْمَالِهِمْ فِي الْعَرَقِ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ إِلَي كَعْبَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ إِلَي رُكْبَتَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَكُونُ إِلَي حَقْوَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُلْجِمُهُ الْعَرَقُ إِلْجَامًا قَالَ: وَاَشَارَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ إِلَي فِيهِ‘‘۔
    مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے:’’قیامت کے دن سورج تمام مخلوقات سے بالکل قریب ہوجائے گا حتیٰ کہ بعض لوگوں سے ایک میل کے فاصلہ پر ہوجائے گا۔سلیم بن عامر کہتے کہ اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم کہ میل سے مراد زمین کی مسافت ہے یا سرمہ کی سلائی۔لوگ اس دن اپنے اعمال کے بقدر پسینہ میں ڈوبے ہوں گے ۔ ان میں سے بعض ایڑی تک ، بعض گھٹنے تک ، بعض کمر تک اور بعض منہ تک ۔جیسا کہ صحابیٔ رسول نے بتلایاکہ نبی ﷺ نے ہاتھ سے منہ کی جانب اشارہ کیا‘‘۔
    [ صحیح مسلم:۲۸۶۴]
    سوال یہ ہے کہ سورج کی گرمی اور تپش سے بچاؤ کے لیے کیاکہیں سایہ میسر ہوگا؟
    اس کا سیدھا سا جواب ہے،جی ہاںسایہ تو ہوگا لیکن ہر کسی کے لیے نہیں بلکہ یہ سایہ صرف انہی لوگوں کو رحمت ِالہٰی سے ملے گا جولوگ حدیث میں ذکر کردہ اوصاف کے حامل ہوں گے ۔
    یہ مضمون انہی خوش نصیب افراد سے متعلق ترتیب دیا گیا ہے۔اللہ رب العالمین ہمیں بھی انہی خو ش نصیبوں میں شامل کرے۔ آمین یا رب العالمین
    ۱۔متن حدیث مع سند ۲۔ صحیح بخاری میں موجود اس حدیث کے رجال کاتعارف ۳۔ لطائف الاسناد ۴۔ ترجمہ حدیث مع الشرح ۵۔حدیث سے مستنبط مسائل ۶۔حدیث میں مذکورہ تعداد حصر کے لئے یابغیر حصر کے لیے؟ ۷۔ سایہ عرش کا ہوگا یا اللہ کا ؟ ۸۔ اس موضوع سے متعلق لکھی گئی کتابیں
    ۱۔ متن حدیث مع سند
    حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَي، عَنْ عُبَيْدِ اللّٰهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’ سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللّٰهُ تَعَالٰي فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: إِمَامٌ عَدْلٌ، وَشَابٌّ نَشَاَ فِي عِبَادَةِ اللّٰهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي المَسَاجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِي اللّٰهِ، اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَاَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ: إِنِّي اَخَافُ اللّٰهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَاَخْفَاهَا حَتَّي لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللّٰهَ خَالِيًا، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ‘‘۔
    [ صحیح البخاری:۱۴۲۳]
    ۲۔ صحیح بخاری میں موجود اس حدیث کے رجال کاتعارف:
    مسدد: وهو ابن مسرهد الاسدي البصري، ثقة حافظ، من العاشرة، اخرج له (خ، د، ت، س) ، توفي سنة ۲۲۸هـ.
    يحيي: وهو ابن سعيد القطان التميمي، البصري، ثقة، متقن، إمام، قدوة، من التاسعة، روي له الجماعة، وتوفي عام ۱۹۸هـ.
    عبيداللّٰه: وهو ابن عمر بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب القرشي العدوي المدني، ثقة ثبت، روي له الجماعة، من السادسة، توفي عام۱۴۳هـ.و قيل ۱۴۴ هـ وقيل ۱۴۷ هـ.
    خبيب: وهو ابن عبدالرحمٰن الانصاري الخزرجي المدني، ثقة، روي له الجماعة، من الرابعة، توفي عام ۱۳۲هـ.
    حفص: وهو ابن عاصم القرشي العدوي المدني، ثقة، روي له الجماعة، من الثالثة، توفي ۹۰ هـ قريبا.
    ابو هريرة: وهو ابن عبدالرحمٰن بن صخر الدوسي اليماني، اسلم عام خيبر، صحابي جلاليل حافظ للسنة، اكثر من روي احاديث عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، دعا له النبيه ﷺ ، توفي سنة ۵۹هـ وقيل غير ذلك.
    (تہذیب الکمال للمزی ترجمۃ:۷۶۸۱، ۱۳۹۲، ۱۶۷۸، ۳۶۶۸، ۶۸۳۴، ۵۵۹۹، جامع الکتب التسعۃ میں بھی یہ تعارف دیکھ سکتے ہیں۔
    (المتعۃ بشرح حدیث السبعۃ للشیخ ماجد بن عبد اللہ آل عثمان ،ص۹ :یہ کتاب اسی حدیث کی شرح پر مشتمل ہے)۔
    ۳۔ لطائف الاسناد
    ۱۔ فيه التحديث بصيغة الجمع فى موضعين، وبصيغة الإفراد فى موضع، وفيه العنعنة فى اربعة مواضع، وفيه القول فى موضع واحد.
    ۳۔ فيه: رواية الرجل عن خالة: وهى رواية عبيداللّٰه بن عمر عن خاله خبيب بن عبدالرحمٰن، وعن جده وهو: حفص بن عاصم.
    ۳ ۔ وفيه: ان رواته ما بين بصري وهم: مسدد، يحيي بن سعيد، والبقية مدنيون.
    ۴۔ انه من سداسيات البخاري.
    ۵۔ ان رجال إسناده،كلهم رجال الجماعة، سوي شيخه مسدد.
    ۶۔ انه مسلسل بالمدنيين، سوي مسدد، ويحيي بن سعيد القطان فبصريان.
    ۷۔ فيه ثلاثة من التابعين روي بعضهم عن بعض: عبيداللّٰه عن خبيب عن حفص.
    فيه ابا هريرة، وهو اكثر الصحابة رضي اللّٰه عنهم رواية للحديث، فقد روي(۵۳۷۴)۔
    [المتعۃ بشرح حدیث السبعۃ للشیخ ماجد بن عبد اللّٰہ آل عثمان،ص:۱۰]
    ۴۔ ترجمہ حدیث مع الشرح
    ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے (عرش کے) سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ انصاف کرنے والا حاکم ،وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جوان ہوا ہو، وہ شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہے، دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اسی پر وہ جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے، ایسا شخص جسے کسی خوبصورت اور عزت دار عورت نے بلایا لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ انسان جو صدقہ کرے اور اسے اس درجہ چھپائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ شخص جو اللہ کو تنہائی میں یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بہنے لگ جائیں۔
    ٭ شرح حديث : سبعة: اَي: سَبْعَة اصناف وليس سبعة اشخاص.
    سات طرح کے لوگ مراد ہیںنہ کہ سات افراد۔
    [ شرح صحیح البخاری للشیخ محمد بن صالح العثیمین:۳؍۷۹]
    ’’َإِنَّمَا قَدرنَا هَكَذَا ليدْخل فِيهِ النِّسَاء ، فالاصوليون ذكرُوا اَن إحكام الشَّرْع عَامَّة لجَمِيع الْمُكَلّفين، وَحكمه على الْوَاحِد حكم على الْجَمَاعَة إلاَّ مَا دلّ الدَّلِيل على خُصُوص الْبَعْض‘‘۔
    ’’اس فضیلت میںعورتیںبھی شامل ہیں،جیسا کہ اہل اصول کہتے ہیںکہ شریعت کے احکامات کے تمام مکلفین پابند ہیں،کسی ایک سے خطاب میںپوری جماعت شامل ہوگی الا یہ کہ کسی مکلف کے لیے تخصیص کی کوئی دلیل ہو‘‘۔
    [ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری:۵؍۱۷۷]
    اما م عادل: سے مراد وہ امام ہے جو اپنے رعایا کے ساتھ عدل وانصاف کر ے ،ان کے حقوق کی دیکھ ریکھ کرے ، ان کے مصالح کی رعایت کرے ، شریعت کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کرے اور دینی و دنیوی مصالح پر پوری توجہ دے ۔جیساکہ قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں۔
    ’’قال القاضي هو كل من إليه نظر فى شيء من مصالح المسلمين من الولاة والحكام‘‘۔
    ’’اس سے مراد وہ ولاۃ اور حکام ہیں جو مسلمانوں کے معاملات کی دیکھ ریکھ کرتے ہوں‘‘۔
    [شرح النووی علی مسلم :۷؍۱۲۰]
    قال ابن حجر رحمه اللّٰه:’’ويلحق به كل من ولي شيئاً من امور المسلمين فعدل فيه ، ويويده رواية مسلم من حديث عبداللّٰه بن عمرو رضي اللّٰه عنهما ورفعه 🙁 إن المقسطين عند اللّٰه على منابر من نور عن يمين الرحمٰن ، الذين يعدلون فى حكمهم واهليهم وماولوا) واحسن مافسر به العادل انه الذى يتبع امر اللّٰه تعالٰي بوضع كل شيء فى موضعه من غير إفراط ولا تفريط‘‘۔
    ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:’’اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو عدل کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات کی دیکھ ریکھ کرتے ہوں مزید اس کی تائید صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمرو سے مرفوعاً روایت سے ہوتی ہے:’’عدل کرنے والے اللہ کے ہاں رحمن عزوجل کی دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، یہ وہی لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں، اپنے اہل و عیال اور جن کے یہ ذمہ دار ہیں ان کے معاملے میں عدل کرتے ہیں‘‘۔
    عادل کی سب سے بہترین تفسیر یہ ہے جو بغیر اسراف کے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ہر فیصلہ پورے عدل کے ساتھ کرے ۔[فتح الباری لابن حجر:ح:۶۶۰]
    کتاب و سنت میں عد ل و انصاف کرنے والوں کی اس کے علاوہ اور بھی فضیلتیں ذکر کی گئی ہیں ۔
    اللہ کا فرمان ہے:
     {وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُوْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَاَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَي الْاُخْرَي فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّي تَفِيئَ إِلَي اَمْرِ اللّٰهِ فَإِنْ فَائَ تْ فَاَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ}
    [الحجرات:۹]
    ترجمہ: ’’اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑپڑیں تو ان میں میل ملاپ کرادیا کرو ،پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم سب اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو،یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے ،اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرادو،اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے‘‘۔
    عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍوٍ: قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’إِنَّ الْمُقْسِطِينَ عِنْدَ اللّٰهِ عَلٰي مَنَابِرَ مِنْ نُورٍ، عَنْ يَمِينِ الرَّحْمٰنِ عَزَّ وَجَلَّ، وَكِلْتَا يَدَيْهِ يَمِينٌ، الَّذِينَ يَعْدِلُونَ فِي حُكْمِهِمْ وَاَهْلِيهِمْ وَمَا وَلُوا‘‘۔
    عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما نے کہا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’عدل کرنے والے اللہ کے یہاں رحمان عزوجل کے دائیں جانب نور کے منبروں پر ہو ں گے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں ،یہ وہی لوگ ہو ں گے جو اپنے فیصلوں ، اپنے اہل و عیال اور جن کے یہ ذمہ دار ہیں ان کے معاملے میں عدل کرتے ہیں‘‘۔
    [صحیح مسلم :۱۸۲۷]
    وعن عياض بن حمار رضي اللّٰه عنه قال: سمعت رسول اللّٰهﷺ َوَاَهْلُ الجَنَّةِ ثَلَاثَةٌ: ’’ذُو سُلْطانٍ مُقْسِطٌ مُتَصَدِّقٌ مُوَفَّقٌ، وَرَجُلٌ رَحِيمٌ رَقِيقُ القَلْبِ لِكُلِّ ذِي قُرْبي وَمُسْلِمٍ، وَعَفِيفٌ مُتَعَفِّفٌ ذُو عِيالٍ‘‘۔
    ترجمہ :’’اہل جنت تین (طرح کے لوگ) ہیں ایسا سلطنت والا جو عادل ہے صدقہ کرنے والا ہے اسے اچھائی کی توفیق دی گئی ہے۔ اور ایسا مہربان شخص جو ہر قرابت دار اور ہر مسلمان کے لیے نرم دل ہے اور وہ عفت شعار (برائیوں سے بچ کر چلنے والا) جو عیال دارہے، (پھر بھی) سوال سے بچتاہے‘‘۔
    [صحیح مسلم :۲۸۶۵]
    ٭ وَشَابٌّ نَشَاَ فِي عِبَادَةِ اللّٰهِ:
    ( نَشَابعبادة اللّٰه َ) اي : ’’ نما وتربي لا فى معصية ، فجوزي بظل العرش، لدوام حراسة نفسه عن مخالفة ربه .‘‘
    ’’جس کی پرورش و تربیت عبادت الٰہی میںہوئی ہو نہ کہ معصیت میں،لہٰذا خود کو اللہ کی مخالفت سے مستقل بچانے کے بدلہ میںعرش کا سایہ دیا جائے گا‘‘۔
    [تحفۃ الاحوذی:۷؍۵۸]
    ’’وَفِي حَدِيث سلمَان: (افني شبابه ونشاطه فِي عبَادَة اللّٰه) . فَإِن قلت: لِمَ خص الثَّانِي من السَّبْعَة بالشباب، وَلم يقل: رجل نَشا؟ قلت: لِاَن الْعِبَادَة فِي الشَّبَاب اَشد واشق لِكَثْرَة الدَّوَاعِي وَغَلَبَة الشَّهَوَات، وَقُوَّة البواعث علٰي اتِّبَاع الْهوٰي‘‘.
    ’’سلمان رضی اللہ عنہ کا ایک موقوف اثر ہے جس نے اپنی جوانی کا ایک ایک لمحہ اللہ کی عبادت میں لگادیا ہو۔سوال یہ ہے کہ جوانی کی تخصیص کیوں کی گئی اور یہ کیوں نہیں کہا گیا کہ وہ آدمی جس نے اپنی زندگی اللہ کی عبادت میں گزاری ہو؟میرے نزدیک اس کا جواب ہے کہ جوانی میں عبادت کرنا عمر کے دیگر مرحلہ کی بنسبت زیادہ مشکل ہوتاہے کیونکہ اس میں انسان پر شہوات کا غلبہ اورگناہ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔اس وجہ سے یہ بلند اور عظیم مقام اللہ ایسے نوجوان کو دے گا‘‘۔
    [عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری:۵؍۱۷۸]
    ٭ وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي المَسَاجِدِ:
    وَمَعْنَاهُ: ’’شدَّة تعلق قلبه بالمساجد، وَإِن كَانَ خَارِجا عَنهُ، وَتعلق قلبه بالمساجد كِنَايَة عَن انْتِظَاره اَوْقَات الصَّلَوَات فَلَا يُصَلِّي صَلَاة وَيخرج مِنْهُ إلاَّ وَهُوَ منتظر وَقت صَلَاة اُخْرَي حَتَّي يُصَلِّي فِيهِ، وَهَذَا يسْتَلْزم صلَاته اَيْضا بِالْجَمَاعَة‘‘.
    ’’جس شخص کا دل مسجد سے باہر ہونے کے باوجود مسجد سے حد درجہ جڑا ہوا ہو،مسجد سے جڑا ہونے سے مراد ہے کہ وہ نماز کے اوقات کا انتظارکررہاہو،یعنی ایک نماز کی جماعت کے ساتھ ادائیگی کے بعد دوسری نماز کا باجماعت ادائیگی کا انتظار کرکے اسے بھی ادا کرے‘‘۔
    [عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری:۵؍۱۷۸]
    قال الشيخ ابن عثيمين رحمه اللّٰه :’’فهل مثله من لا يحضر المساجد، لكن قلبه معلَّق بالصلاة؛ يعني: امراة مثلًا فى بيتها قلبها معلق بالصلاة، او إنسان مريض لا يستطيع الصلاة فى المسجد لكن قلبه معلق بالصلاة… الذى يظهر لي ان الذى قلبه معلق بالصلاة، سواء كان يوديها فى البيت لعذر، او لكونه ليس من اهل الجماعة يدخل فى الحديث‘‘۔
    ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’کیااس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو مسجد میں حاضر نہیں ہوتے ہیں لیکن ان کا دل نماز کے لیے منتظر ہوتا ہے۔ جیسے عورتیں ہیں وہ مسجد میں تو نہیں آتی ہیں لیکن ان کا دل نماز کا منتظر ہوتاہے۔یا اسی طرح وہ بیمار شخص جو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کی قدرت نہیں رکھتاہے۔لیکن اس کا دل عبادت کا منتظر رہتا ہے۔
    اس مسئلہ میں جوبات میرے نزدیک راجح ہے وہ یہ کہ اس اجر میںمذکورہ دونوںلوگ شامل ہوںگے (وہ عورتیںجن کا مسجد آنا ضروری نہیںہے یاوہ لوگ جوکسی معقول عذر جیسے بیماری کے سبب مسجد نہ پہنچ سکیں)‘‘ ۔[ شرح صحیح البخاری للشیخ محمد بن صالح العثیمین:۳؍۸۴]
    ٭ وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِي اللّٰهِ، اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ:
    مَعْنَاهُ: ’’وَرجل يحب غَيره فِي اللّٰه، والمحبة اَمر نسبي فَلَا بُد لَهَا من المنتسبين، فَلذَلِك قَالَ: رجلَانِ.، وَوَقع فِي رِوَايَة حَمَّاد بن زيد: (ورجلان قَالَ كل مِنْهُمَا للْآخر: إِنِّي احبك فِي اللّٰه، فصدرا علٰي ذَلِك) . قَوْله: (اجْتمعَا علٰي ذَلِك) اَي: على الْحبّ فِي اللّٰه‘‘.
    ’’محبت ایک امر نسبی چیزہے جس میںدو لوگوںکا پایا جانا ضروری ہے۔لہٰذا دولوگ ایک دوسرے سے دنیاوی مقاصد کو بالائے طاق رکھ کر رب کی خاطر محبت کریں۔حماد بن زید کی روایت میں ہے:(دونوں نے ایک دوسرے سے کہا میں تجھ سے اللہ کی خاطر محبت کرتا ہوں۔پھر وہ اسی پر باقی رہے)۔اور نبی کے فرمان (اجْتمعَا علی ذَلِک) کا مطلب ہے۔ان کی محبت اللہ کی رضا پر برقرار بھی رہی۔اور وہ دونوں کسی دنیوی غرض کے سبب جدا بھی نہیں ہوئے‘‘۔
    [عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری :۵؍۱۷۹]
    ٭ وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَاَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ: إِنِّي اَخَافُ اللّٰهَ:
    قَوْله: ’’(وَرجل دَعَتْهُ امْرَاَة ) : وَفِي رِوَايَة اَحْمد عَن يحيي الْقطَّان: (دَعَتْهُ امْرَاَة) ، وَلمُسلم وللبخاري اَيْضا فِي الْحُدُود: عَن ابْن الْمُبَارك، وَزَاد ابْن الْمُبَارك: (إِلَي نَفسهَا) ، وَفِي رِوَايَة الْبَيْهَقِيّ فِي (شعب الْإِيمَان) ، من طَرِيق ابي صَالح: عَن ابي هُرَيْرَة: (فعرضت نَفسهَا عَلَيْهِ) ، وَظَاهر الْكَلَام اَنَّهَا دَعَتْهُ إِلَي الْفَاحِشَة، وَبِه جزم الْقُرْطُبِيّ. وَقيل: يحْتَمل اَن تكون طلبته إِلَي التَّزْوِيج بهَا فخاف اَن يشْتَغل عَن الْعِبَادَة بالافتتان بهَا، اَو خَافَ اَن لَا يقوم بِحَقِّهَا لشغله بِالْعبَادَة عَن التكسب بِمَا يَلِيق بهَا، وَالْاول اظهر لوُجُود قَرَائِن عَلَيْهِ‘‘.
    مسند احمد میں یحییٰ القطان (دَعَتْهُ امْرَاَة )کے الفاظ ہیں ۔صحیح بخاری اور مسلم میں کتاب الحدود میں ابن مبارک سے (إِلَي نَفسهَا)کے الفاظ ہیں۔ اسی طرح شعب الایمان میںبیہقی کی روایت میںابو صالح کی سند سے ابو ہریرہ رضی اللہ سے ایک روایت ہے۔(فعرضت نَفسهَا عَلَيْهِ)بظاہر تو معنی یہی سمجھ میںآتاہے کہ عورت کسی شخص کو بدکاری کی طرف دعوت دے ۔امام قرطبی نے رحمہ اللہ نے اسی پر یقین ظاہر کی ہے۔ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ وہ عورت اسے شادی کی دعوت دے لیکن وہ اس بنیاد پر اسے انکار کردے کہ عبادت اس کی کہیں شادی کے سبب متاثر نہ ہوجائے یایہ کہ کثرت عبادت کے سبب اس عورت کے حقوق اس سے پورے طور پر نہ ادا ہوسکیں ۔قرائن کی بنیاد پر پہلاقول ہی راجح ہے‘‘۔
    [ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری:۵؍۱۷۹]

    ٭ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَاَخْفَاهَا حَتَّي لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ:
    ’’إن المقصود منه المبالغة فى إخفاء الصدقة‘‘۔
    ’’اس سے مقصود یہ ہے کہ انسان حد درجہ چھپاکر کے اللہ کے راستے میںصدقہ کرے‘‘۔
    [فتح الباری لابن حجر :۲؍۱۴۷]
    ٭ وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللّٰهَ خَالِيًا، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ:
    ’’من الدمع لرقة قلبه وشدة خوفه من جلال‘‘۔
    ترجمہ: ’’دل کی نرمی اور اللہ رب العالمین کے خوف سے اس کے آنسو نکل پڑیں‘‘۔
    [ إرشاد الساری لشرح صحیح البخاری:۲؍۳۳]
    ’’(خَالِيًا)من الخلق لانه اقرب إلى الإخلاص وابعد من الرياء ‘‘۔
    ترجمہ: ’’لوگوںسے الگ تھلگ ہوکر اللہ کو یاد کرنا یہ انسان کو اخلاص کے قریب اور ریا سے دور رکھتا ہے‘‘۔
    [ إرشاد الساری لشرح صحیح البخاری :۲؍۳۱]

    جاری………

     

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings