Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کی شرعی خلافت پر ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما کا استنباطِ قرآنی

    صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے نبی ﷺکی صحبت کے لیے چُنا ہے اور جن کو حفاظت شریعت کا پہلا زینہ بنایا ہے، جن کی سب سے بڑی سعادت مندی یہ ہے کہ بروز قیامت صحابۂ کرام کے علاوہ دیگر مومنین کو دخولِ جنت کے بعد جس نعمت (رضائِ الٰہی) کا حصول ہوگا وہی نعمت ان صحابۂ کرام کو دنیا میں عطا کی جا چکی ہے، رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔
    اللہ رب العزت نے فرمایا :
    {وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ}
    ’’ اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے‘‘۔
    [التوبۃ:۱۰۰]

    آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کے متعلق فرمایا:
    ’’لا تسبوا اصحابي ،فلو ان احدكم انفق مثل احد ذهبا ما بلغ مد احدهم ،ولا نصيفه‘‘۔
    ’’میرے صحابہ کو گالی یا بُرا نہ کہنا، (جان لو کہ )تم میں سے کوئی بھی اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی(صدقہ و خیرات میں) خرچ کرلے تووہ اُن (صحابہ) میں سے کسی بھی ایک کے مکمل یا آدھے مُد (آدھا کلو یا پاؤ کلواناج کے خرچ کرنے کی فضیلت و مقام) تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔
    [صحیح بخاری:۳۶۷۳]

    نیز آپ ﷺنے فرمایا:
    ’’سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہیں‘‘۔(متفق علیہ)
    لہٰذا صحابۂ کرام سے محبت کرنا اور اُن کا ظاہری و باطنی طور پر عملاً احترام کرنا، صحابہ سے بغض و عداوت رکھنے والوں سے نفرت و عداوت رکھنا، صحابہ کے باہمی ظاہری اختلافات میں خاموشی اختیار کرنا اور ہر قسم کی منفی رائے دہی سے اجتناب کرنااور یہ عقیدہ رکھنا کہ تمام صحابہ عدول ہیں اور اللہ کے یہاں انتہائی معزَّز اور اجر و ثواب والے ہیں اور اُن کی سیرت و کردار کو زبانی و عملی طور پر اپنانا ہر مسلمان پرفرض و واجب ہے۔
    عمومی طور پر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جو بھی فضائل قرآن مجید کی آیات اور احادیث میں وارد ہیں ان میں خال المومنین اور کاتبِ وحی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حبر الامۃ و مفسر امت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی شامل ہیں۔
    سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان خوش نصیب شخصیات میں شامل ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کو واجب کردیا ہے، نبی کریم ﷺکا فرمان ہے:
    ’’أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا‘‘۔
    ’’میری امت کا وہ پہلا لشکر جو سمندری جہاد کرے گا ان کے لیے جنت واجب ہے‘‘
    [صحیح بخاری:۲۹۲۴]
    آپ وحی لکھتے تھے یعنی کاتبین وحی میں سے ہیں۔
    [ دلائل النبوۃ للبیہقی :ج:۲، ص:۲۴۳]
    اسی طرح عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ہوش سنبھالا ہی تھا کہ انہیں نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں وقف کردیاگیا، سفر و حضر میں آپﷺ کے ساتھ رہتے اور جب بھی آپ ﷺ وضو کا ارادہ فرماتے فوراً وضو کا پانی حاضر کردیتے، جب آپ ﷺ نماز شروع کرتے تو یہ بھی آپ ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہوکر نماز شروع کردیتے، سفر کے دوران کئی مرتبہ ان کو نبی کریم ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا، غرض یہ کہ ہر لمحہ آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں کمر بستہ رہے۔
    فضل وکمال کے اعتبار سے ابن عباس رضی اللہ عنہ اس عہدِ مبارک کے ممتاز ترین علما ء میں سے تھے ،ان کی ذات ایسی زندہ کتاب خانہ تھی جس میں تمام علوم ومعارف بہ ترتیب جمع تھے، قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ، ادب اور شاعری وغیرہ کوئی ایسا علم نہ تھا جس میں ان کو یدِ طولیٰ حاصل نہ رہا ہو۔ بالخصوص قرآن پاک کی تفسیر وتاویل میں جو مہارت اورآیات ِقرآنی کے شانِ نزول اورناسخ و منسوخ کے علم میں جو وسعت ان کو حاصل تھی وہ کم کسی کے حصہ میں آئی ۔
    ویسے رسول اللہ ﷺنے اپنے کئی اصحاب کو دعائیں دی ہیں لیکن جن دو ہستیوں کو علم کی دعا دی ان میں یہ دونوں اصحاب شامل ہیں۔
    نبی کریم ﷺ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو دعا دیتے ہوئے فرمایا :
    ’’اَللهم عَلِّم معاويةَ الكتاب والحساب، وقِهِ العَذاب ‘‘۔
    ’’اے اللہ!معاویہ کو کتاب و حساب سکھا اور اُسے عذاب سے بچا‘‘۔
    [مسند احمد]
    اسی طرح مزید دعا فرمائی کہ:
    ’’اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا، وَاهْدِ بِهِ ‘‘۔
    ’’اے اللہ! انہیں ( معاویہ کو) ہادی مہدی بنادے اور ان کے ذریعے سے لوگوں کو ہدایت دے‘‘۔
    [ سنن ترمذی: ۳۸۴۲، وقال حسن غریب]
    اسی طرح عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے فضائل میں آتا ہے وہ کہتے ہیں : کہ رسول اللہ ﷺنے مجھے اپنے سینہ سے لگایا، اور یہ دعا فرمائی:
    ’’اَللّٰهُمَّ عَلِّمْهُ الْحِكْمَةَ، وَتَأْوِيلَ الْكِتَابِ‘‘۔
    ’’اے اللہ! اس کو میری سنت اور قرآن کی تفسیر کا علم عطافرما‘‘۔
    [ سنن ابن ماجہ:۱۶۶ ، صحیح]

    اصل واقعہ :
    ظاہر ہے کہ دعانبی ﷺ ان دونوں اصحاب کو ملی ہے، اور دونوں ہی علم و حکمت میں صحابۂ کرام میں مشہور تھے، چنانچہ جب ذو النورین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل ہوا تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی کے دربار میں آیت ِقرآنی سے استنباط کرتے ہوئے نصیحت کی کہ آپ قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ سے جلدی بدلہ لے لیں جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل آیت ۳۳ کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ اللہ اس جانب اشارہ کرتے ہوئے واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ :
    {وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّٰهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا}
    ’’اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کردیا ہرگز ناحق قتل نہ کرنا اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مار ڈالا جائے ہم نے اس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے کہ پس اسے چاہیے کہ مار ڈالنے میں زیادتی نہ کرے بیشک وہ مدد کیا گیا ہے‘‘۔
    اگر کوئی شخص ناحق دوسرے کے ہاتھوں قتل کیا گیا ہے تو اس کے وارثوں کو اللہ تعالیٰ نے قتل پر غالب کر دیا ہے ۔ اسے قصاص لینے اور دیت لینے اور بالکل معاف کر دینے میں سے ایک کا اختیار ہے ۔
    ایک عجیب بات یہ ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کریمہ کے عموم سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی سلطنت پر استدلال کیا ہے کہ وہ بادشاہ بن جائیں گے اس لیے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ انتہائی مظلومی کے ساتھ شہید کئے گئے تھے ۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے طلب کرتے تھے کہ وہ قاتلین عثمان سے قصاص لیں اس لیے کہ یہ بھی اموی تھے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی اموی تھے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس میں ذرا وقت طلب کر رہے تھے ۔ ادھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا مطالبہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے یہ تھا کہ ملک شام ان کے سپرد کر دیں ۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تاوقتیکہ آپ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو نہ دیں میں ملک شام کو آپ کی زیر حکومت نہ کروں گا ،چنانچہ آپ نے مع کل اہل شام کے بیعت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے انکار کر دیا ۔ اس جھگڑے نے طول پکڑا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے حکمران بن گئے ۔
    اسی طرح معجم طبرانی میں یہ روایت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رات کی گفتگو میں ایک دفعہ فرمایا کہ آج میں تمہیں ایک بات سناتا ہوں نہ تو وہ ایسی پوشیدہ ہے نہ ایسی اعلانیہ ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ، اس وقت میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ آپ یکسوئی اختیار کر لیں ، واللہ اگر آپ کسی پتھر میں چھپے ہوئے ہوں گے تو نکال لیے جائیں گے لیکن انہوں نے میری نہ مانی ۔ اب ایک اور بات سنو اللہ کی قسم (سیدنا) معاویہ (رضی اللہ عنہ) تم پر بادشاہ ہو جائیں گے ، اس لیے کہ اللہ کا فرمان ہے :
    ’’جو مظلوم مار ڈالا جائے ، ہم اس کے وارثوں کو غلبہ اور طاقت دیتے ہیں ۔ پھر انہیں قتل کے بدلے میں قتل میں حد سے نہ گزرنا چاہیے الخ‘‘۔
    سنو یہ قریشی تو تمہیں فارس و روم کے طریقوں پر آمادہ کر دیں گے اور سنو تم پر نصاریٰ اور یہود اور مجوسی کھڑے ہو جائیں گے اس وقت جس نے معروف کو تھام لیا اس نے نجات پالی اور جس نے چھوڑ دیا اور افسوس کہ تم چھوڑنے والوں میں سے ہی ہو تو مثل ایک زمانے والوں کے ہوجاؤگے کہ وہ بھی ہلاک ہونے والوں میں ہلاک ہو گئے ۔ [طبرانی کبیر:۱۰؍۳۲۰]

    خلاصہ :
    من سب الصحابة ومعاوية
    فهو كلب من كلاب هاوية !
    ترجمہ : جو صحابہ اور معاویہ رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہے تو وہ جہنم کے کتوں میں سے ایک کتا ہے۔
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings