-
چھوٹی سین بڑی سین صحیح ڈھنگ سے تلفظ کی ادائیگی کے ساتھ ، حروف مدہ وغیرہ کی تھوڑی سی مشق نہ یہ کہ عربی الفاظ کے معانی نہیں بدلتے بلکہ یہ ایک ایسا اسلحہ اور ہتھیار ہے کہ جس پر عمل کرنے سے ہندی اور رومن انگلش کی لکھاوٹ میںبھی چارچاند لگ جاتا ہے ، صحیح ڈھنگ سے تلفظ ادا کرنے والے اکثر ہندی اور رومن انگلش میں خطا کم ہی کرتے ہیں ، ہندوستان کے اندر بننے والے مسلم و غیر مسلم سرکاری ڈاکیومنٹ کے ناموں میں جو فحش فحش غلطیاں دیکھنے کو ملتی ہیں وہ انہیں حروف کی غلط ادائیگی کا نتیجہ ہیں ۔ ورنہ اگر حروف کی اصل ادائیگی کو جاننے والے لوگ یہ ڈاکیومنٹ دل و دماغ کی حاضری کے ساتھ بناتے تو ناموں کے اندراج میں بے شمار غلطیاں نہ ہوتیں۔زیر نظر مضمون میں قوم کی حالت زار کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ کس طرح عربی حروف کی ادائیگی میں ایک قاری غلطیاں کرجاتا ہے اور اس سے معانی و مفاہیم پر کتنا گہرا اثر پڑتا ہے ۔ پڑھیں اور اصلاح کریں۔
قرآن کریم مسلمانوں کی سب سے اہم اور مقدس کتاب ہے، اس کا سیکھنا، پڑھنا اور سمجھنا ہر مسلمان کی آرزو ہوتی ہے، اس آرزو کی تکمیل کے لیے مسلمانوں میں اس بات کا اہتمام رہا ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم کا آغاز اسی کتاب مجید سے کرتے ہیں، یہ بہت ہی مبارک ومستحسن عادت یا رواج ہے، اس پر قائم ودائم رہنا چاہیے۔
قرآن پاک کی زبان عربی ہے جو ہماری مادری زبان نہیں، لہٰذا قرآن کو سیکھنے کا مطلب ایک نئی زبان کو سیکھنا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ ہر زبان کے الگ الگ اصول وقواعد ہوتے ہیں، جن میں ایک قاعدہ حروف کے فرق کا ہے۔ ہر زبان میں کچھ نئے نئے حروف ہوتے ہیں جو عام طور سے دوسری زبانوں میں نہیں ہوا کرتے۔ مثلاً پ، ٹ،چ وغیرہ حروف عربی زبان میں نہیں ہیں۔
ہماری مادری زبان اردو ہے جو عربی، ہندی اور فارسی زبانوں کے امتزاج سے بنی ہے۔ اردو زبان میں تقریباً ۴۰؍ فیصد الفاظ عربی زبان سے ماخوذ ہیں، البتہ ان کے تلفظ کے وقت عربیت کی رنگ وبو ختم ہوجاتی ہے اور انہیں خالص فارسی یا ہندی لہجہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں چند حروف ایسے ہیں جو اردو تحریر وکتابت میں تو مستعمل ضرور ہیں لیکن تلفظ وادائیگی میں ان کا وجود نہیں، بلکہ ان کے مماثل دوسرے حروف کی طرح انہیں ادا کردیا جاتا ہے۔
ان میں سے بعض حروف مثلاً یہ ہیں:ح، خ، ع، غ، ق، ص، ط، ظ
ان حروف پر مشتمل کلمات اردو میں انہی حروف سے لکھے تو ضرور جاتے ہیں مگرتلفظ اور ادائیگی دوسرے مماثل حروف سے کی جاتی ہے۔
ملاحظہ ہوں درج ذیل کلمات اور ان کے تلفظ:حکیم ھکیم
صبر سبر
عرب ارب
ضرب زرب
خلیل کھلیل
طالب تالب
مغرب مگرب
ظالم زالم
قرآن کرآن
اس سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ ہماری بول چال میں ط اور ت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی طرح س، ص، ث اور ش میں،ج،ز، ذ، ظ اور ض میں، ع اور أ میں، ق اور ک میں کوئی فرق نہیں، بلکہ صحیح بات یہ کہ ہم ط کو ت، ص، ث اور بسا اوقات ش کو بھی س، ذ، ظ، ض کو ز اور ع کو ھمزہ یا ألف بولتے ہیں، بیشتر افراد ایسے ہیں جو ،ش کو س بولتے ہیں۔
اردو بول چال میں یہ بات بہت زیادہ معیوب نہیں سمجھی جاتی اور نہ ہی اس سے کلام میں کوئی خلل واقع ہوتا ہے یا افہام وتفہیم میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، بلکہ سامع متکلم کے الفاظ کی تمیز میں کوئی دقت محسوس کیے بغیر اس کی بات کوسمجھ لیتا ہے۔ لیکن عربی زبان کا معاملہ ایسا نہیں، اگر مذکورہ بالا طرز کلام عربی بات چیت میں اپنایا جائے تو مخل فی المقصود ہوسکتا ہے یا کم از کم سامع (عربی)اس اسلوب پر اپنی ناگواری کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جن حضرات کو عربوں سے ہم کلامی کا موقع ملا ہوگا وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوں گے۔ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ مشابہ حروف جو ہمارے کلام میں ایک دوسرے سے متمیز نہیں ہوپاتے عربی زبان میں ان حروف کے بدلنے سے معانی میں تبدیلی ہوجاتی ہے اور معنی کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے۔ ملاحظہ ہوں درج ذیل مثالیں:قَالَ:کہا کَالَ: ناپا
عَجَّلَ:جلدی کیا أَجَّلَ: تاخیر کیا
ضَلّ:گمراہ ہوا زَلّ: پھسلا
ذَلَّ: ذلیل ہوا ظَلَّ:ہمیشہ رہا، سایہ دار ہوا
أَسَرَّ:پوشیدہ رکھا أَصَر: اصرار کیا
سَحَرَ:جادو کیا سَھَرَ: رات میں جاگا
طِین:گیلی مٹی تِین: انجیر
ظاہر بات ہے کہ قرآن پاک جو عربی زبان کی سب سے فصیح وبلیغ کتاب ہے اس خصوصیت سے خالی نہیں، قرآن پاک کے الفاظ وکلمات بھی انہی حروف عربیہ سے مرکب ہیں جن کے بدل جانے سے معانی میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ یہیں سے ہمیں اندازہ لگانا چاہیے کہ قرآن کی تلاوت کے وقت اگر ان ملتے جلتے حروف میں سے ہر ایک کی ادائیگی صحیح طور پر اس طرح نہیں کرتے کہ ایک حرف دوسرے حرف سے متمیز سننے میں آئے تو قرآن کے ساتھ ہم کتنی حق تلفی کے مرتکب ہوتے ہیں، بلکہ اس طرز تلاوت کے ذریعہ قرآنی آیات کے معانی میں تبدیلی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اس پر اگر ہم سنجیدگی سے غور کریں تو اس کی نزاکت کا اندازہ بخوبی ہوگا۔
ملاحظہ ہوں چند قرآنی آیات جو ایسے حروف پر مشتمل ہیں جن کی ادائیگی میں مخرج کے فرق کا ہم عمومی خیال نہیں رکھتے اور اس طرح دو مختلف کلمات جو دو مختلف معانی پر دلالت کے لیے لائے گئے ہیں انہیں ہم ایک جیسا ادا کرتے ہیں۔ آیات ذیل کے خط کشیدہ الفاظ اور ان کے معانی کے فرق پر غور کریں:۱۔ وُجُوْهٌ يَّوْمَئذٍ نَاضِرَةٌ إِليٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ
۲۔ وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ انِّيْ أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّيْنِ
۳۔ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ، ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ، كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِيْنِ
إِنْ تَكُوْنُوْا تَأْلَمُوْنَ، فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُوْنَ كَمَا تَأْلَمُوْنَ
۴۔ وَإِذْ قَالُوْا اللّٰهُمَّ… وَإِذَا كَالُوْهُمْ…
۵۔ أَنْ تَضِلَّ إِحْدٰهُمَا… فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوْتِهَا…
۶۔ فَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ… وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوْا…
۷۔ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ… وَكَانُوْا يُصِرُّوْنَ…
۸۔ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ… وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا۔
۹۔ وَأَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الاَقْرَبِيْنَ قَالَ أَنْظِرْنِيْ إِليٰ يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ
۱۰۔ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهِ وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَائَ ذٰلِكُمْ۔
۱۱۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هٰذا القُرْآنَ مَهْجُوْراً وَتَقُوْلُوْنَ حِجْرًا مَحْجُوْرًا
۱۲۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُوْرٍ وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں بہت ہی کم افراد ایسے ملیں گے جو مذکورہ بالا متقارب الفاظ وحروف کی ادائیگی ایسے ڈھنگ سے کرتے ہوں جس سے ایک لفظ دوسرے مشابہ لفظ سے ممتاز وجداگانہ سنائی دے۔ عربی داں حضرات ان متشابہ کلمات کے معانی کے فرق کو اچھی طرح سمجھتے ہوں گے۔
اب یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیوں؟ جب ہم اپنے بچوں کی تعلیم کی ابتدا ہی تعلیم قرآن سے کرتے ہیں اور اسی کو دیگر امور کی تعلیم پر مقدم رکھتے ہیں تو اس کے باوجود اس تعلیم میں اتنا زبردست نقص کیوں رہ جاتا ہے؟
اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس کے متعدد اسباب وعلل ہمارے سامنے آئیں گے۔ لیکن یہاں ہم صرف ایک علت کی طرف اشارہ پراکتفا کریں گے جو ہمارے اعتبارسے سب سے اہم ہے اور وہ ہے ابتدائی تعلیم میں اس جانب سے لاپرواہی یا قلتِ اہتمام۔
ہم عموماً اپنے بچوں کی تعلیم کا آغاز قاعدہ بغدادی وغیرہ سے کرتے ہیں اور قاعدہ میں درج شدہ حروف تہجی کی شناخت کراتے ہیں:، ب، ت، ث الخ ان حروف کی شناخت کراتے ہوئے جب ہم مذکورہ متشابہ حروف تک پہنچتے ہیں تو بچوں کو بجائے اس کے کہ الگ الگ ان حروف کاصحیح تلفظ کرکے بتائیں ہم ان حروف کے ساتھ چھوٹا یا بڑا لگا دیتے ہیں اور یہی لقب ان حروف کے درمیان مابہ الامتیاز ہوتا ہے اور نطق دونوں حرفوں کا یکساں ہوتا ہے۔ چنانچہ س اور ش کی شناخت کراتے وقت ہم بچوں سے کہتے ہیں چھوٹی سین،بڑی سین، اسی طرح ک اورق کو چھوٹا کاف بڑا کاف کہتے ہیں۔ ہ اور ح کو چھوٹا ہ بڑا ہ کہتے ہیں۔ ث، ص،اور س میں کوئی تمیز نہیں۔ ث کو سے، ص کو ساد یا سُواد کہتے ہیں۔
اس طرح بچے ان تمام حروف کو تحریری طور پر شناخت تو ضرور کرلیتے ہیں لیکن ان کی متمیز ادائیگی نہیں کرپاتے اس لیے کہ ان کے سامنے پڑھانے والے کی طرف سے اس کا کوئی نمونہ پیش نہیں ہوتا۔ چونکہ اس امر کا تعلق نطق یا تلفظ وادائیگی سے ہے اس لیے بچے کے سامنے جب تک ان حروف کی صحیح ادائیگی نہیں کی جائے گی تب تک وہ کتاب یا قاعدہ کے ذریعہ اس خلا کو پر نہیں کرسکتا۔ اس کا تعلق سماع اور مشافہہ سے ہے اور اس حقیقت کو سمجھنے والا معلم ہی اس بیماری کودور کرسکتا ہے۔
اگر یہاں تھوڑی دیر کے لیے رک کر اس قضیہ پر غور کیا جائے تو اندازہ لگے گا کہ معمولی سی بے توجہی کی بنا پر یہ سنگین مرض وجود پذیر ہوتا ہے اور اگر آنے والے ایام میں محنت وجد وجہد کے ذریعہ اس کی اصلاح نہ کی جائے تو زندگی بھر ساتھ لگا رہتا ہے، اور ہر موڑ اور ہر موقع پر اس کے منفی نتائج سامنے آتے رہتے ہیں۔ چنانچہ رائج الوقت طریقہ تعلیم ہی کا ایک نتیجہ یہ بھی لوگوں کے تجربہ میں سامنے آیا ہوگا کہ آگے آنے والے تعلیمی مراحل میں خواہ وہ پرائمری کا ہو یا عربی تعلیم کا، جب طلبہ کو کسی عبارت کا املا کرایا جاتا ہے تو اگر وہ املا کسی امتحانی غرض سے ہے تو کاپیاں چیک کرتے وقت مدرس یا ممتحن کو بے شمار ایسی غلطیاں ملیں گی جن کا تعلق مشابہ حروف کی عدم تمیز سے ہے، مثلاً ظہیر کی جگہ زہیر، اقوام کی جگہ اکوام، خاطر کی جگہ خاتر،اصغر کی جگہ اسگر وغیرہ۔ اگر بچہ ابتدا ہی سے ان حروف کے فرق کو سمجھتا اور بذریعہ نطق ان کے درمیان تمیز کرتا تو یہ نوبت نہ آتی اور استاذ کے منہ سے صحیح طور پر ادا کیے گئے حرف کی صحیح کتابت کرتا، اسی طرح استاذ کا املاء اگر امتحانی غرض سے نہیں بلکہ کسی دوسرے فائدے کے لیے ہے جیسا کہ عام طور پر عربی جماعتوں میں ہوتا ہے تو جب اس طرح کے کلمات آتے ہیں جو ان متشابہ حروف پر مشتمل ہوں تو طلبہ فوراً وہاں استفسارانہ نظر سے استاذ کی طرف دیکھنے لگتے ہیں یا بسا اوقات جرأت کرکے پوچھ لیتے ہیں کہ فلاں حرف سے یا فلاں حرف سے؟ مثلاً اگر ثروت کا لفظ آگیا تو وہ پوچھ بیٹھیں گے کہ چھوٹی سین سے یا بڑی سین سے؟ یا صاد سے یا ثاء سے؟ اور اگر نہ بھی پوچھیں تو استاذ کو تنبیہ کردینی پڑتی ہے کہ یہ لفظ فلاں حرف سے لکھاجائے گا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ طلبہ کی اکثریت اس میں غلطی کرے گی۔
یہاں پر ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر استاذ حروف کی ادائیگی صحیح طور پر کررہا ہے تو طلبہ محض اس کی زبان سے ادا شدہ صحیح تلفظ کو سن کر سمجھ جائیں کہ یہاں کون سا حرف مستعمل ہوگا۔ لیکن یہاں تو دو چیزیں قابل غور ہیں:پہلی یہ کہ کیا استاذ بذات خود صحیح ڈھنگ سے تلفظ کررہا ہے یا نہیں؟ دوسری یہ کہ کیا طلبہ میں اس کے تلفظ کے درک کی صلاحیت ہے یا نہیں؟