Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • تحقیق حدیث من خرج فی طلب علم فھو فی سبیل اللہ

    امام ترمذی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۷۹ھ)نے کہا:
    حدثنا نصر بن علي، قال:حدثنا خالد بن يزيد العتكي، عن أبي جعفر الرازي، عن الربيع بن أنس، عن أنس بن مالك، قال:قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:
    ’’من خرج فى طلب العلم فهو فى سبيل اللّٰه حتي يرجع‘‘۔هذا حديث حسن غريب ورواه بعضهم فلم يرفعه۔
    [سنن الترمذی ت شاکر:۔۵؍۲۹، رقم۲۶۴۷]
    اس کی سند میں کئی علتیں ہیں:
    پہلی علت: خالد بن یزید العتکی کا ضعف
    اس کی سند میں موجود خالد بن یزید العتکی ضعیف ہے۔
    امام أبو زرعۃ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۶۴)نے ’’لا بأس به‘‘ کہا ہے ۔[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۳؍۳۶۱]
    لیکن:
    امام عقیلی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۲۲)نے کہا:
    ’’ لا يتابع على كثير من حديثه ‘‘۔
    ’’اس کی اکثر حدیثوں پر متابعت نہیں کی جاتی ہے ‘‘۔
    [الضعفاء للعقیلی، ت د مازن:۲؍۲۳۳]
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸)نے کہا:
    ’’يروي عن أبي جعفر الرازي ضعف‘‘۔
    ’’یہ ابو جعفر رازی سے روایت کرتا ہے اور ضعیف قرار دیا گیا ہے‘‘۔
    [المغنی فی الضعفاء للذہبی، ت نور:۱؍۲۰۷]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲) نے کہا:
    ’’ صدوق يهم ‘‘۔
    ’’یہ سچا ہے اوروہم کا شکار ہوتا ہے‘‘۔
    [تقریب التہذیب لابن حجر:رقم:۱۶۹۲]
    تحریر التقریب کی مؤلفین (دکتور بشار عواد اور شعیب الأرنؤوط)
    ’’ضعيف يعتبر به ‘‘۔
    ’’یہ ضعیف ہے اور( متابعات وشواہد میں)قابل التفات ہے‘‘۔
    [تحریر التقریب:رقم:۱۶۹۲]
    دوسری علت: أبو جعفر الرازی کی ربیع سے روایت:
    ابو جعفر الرازی جب ربیع بن انس سے روایت کرے تو وہ روایت ضعیف ہوتی ہے ، چنانچہ:
    امام أبو زرعۃ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی۲۶۴)نے کہا:
    ’’شيخ يهم كثيرا‘‘۔
    ’’یہ شیخ ہے اور بہت زیادہ وہم کا شکار ہوتا ہے‘‘۔
    [ الضعفاء لابی زرعہ الرازی:۲؍۴۴۳]
    امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی۳۵۴)نے کہا:
    ’’كان ممن ينفرد بالمناكير عن المشاهير لا يعجبني الاحتجاج بخبره إلا فيما وافق الثقات‘‘۔
    ’’یہ مشہور لوگوں سے منکر روایات کے بیان میں منفرد ہوتا ہے اس کی حدیث سے حجت پکڑنا مجھے پسند نہیں الایہ کہ ثقہ رواۃ سے اس کی تائید مل جائے ‘‘۔
    [المجروحین لابن حبان:۲؍۱۲۰]
    امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی۳۵۴)نے یہ بھی فرمایا:
    ’’والناس يتقون حديثه ما كان من رواية أبي جعفر عنه لأن فيها اضطراب كثير ‘‘۔
    ’’محدثین نے ربیع بن انس سے ابو جعفر کی روایات سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ ان میں بہت اضطراب ہوتا ہے‘‘۔
    [الثقات لابن حبان ط االعثمانیۃ:۴؍۲۲۸]
    تیسری علت:
    بعض رواۃ نے اسے مرفوع بیان ہی نہیں کیا ہے جیساکہ اس روایت کی تخریج کرنے بعد خود امام ترمذی رحمہ اللہ نے وضاحت فرمائی چنانچہ کہا:
    ’’ورواه بعضهم فلم يرفعه ‘‘۔
    ’’اور بعض دوسرے رواۃ نے جب اسے بیان کیا تو اسے مرفوع نہیں بیان کیا ‘‘۔
    [سنن الترمذی ت شاکر:۵؍۲۹، رقم:۲۶۴۷]
    ان تین علتوں کے سبب یہ روایت ضعیف ومردود ہے اور ایسی روایت سے استدلال منہج سلف کے خلاف ہے۔
    اب رہی بات یہ کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیاتھا لیکن بعد میں اسے حسن قرار دیا ۔
    تو عرض ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے’’ صحیح الترغیب ‘‘میں بھی اس کی سند کو ضعیف ہی قرار دیا ہے البتہ’’ صحیح الترغیب‘‘ میں موجود اس سے ماقبل والی حدیث کو اس کے معنی میں مان کر اسے حسن لغیرہ کہہ دیا ہے ۔
    چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
    حسن لغيره…الذي فى الترمذي:(۲۶۴۹)حسن غريب، وكذا فى تحفة المزي۔لكن فيه (أبو جعفر الرازي)، وهو سيء الحفظ، لكن يشهد له حديث أبي هريرة الذى قبله، إلا أن يقال: إن هذا خاص بالمسجد النبوي۔وهو بعيد۔واللّٰه أعلم
    یہ روایت حسن لغیرہ ہے ، (سنن ترمذی۲۶۴۹) میں حسن غریب ہے اور ایسے ہی تحفۃ الاشراف میں ہے ، لیکن اس کی سند میں (أبو جعفر الرازی)ہے اور یہ برے حافظہ والا ہے ، لیکن ماقبل میں جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے وہ اس کے لیے (معنوی )شاہد ہے الا یہ کہ یہ کہا جائے کہ ماقبل کی حدیث مسجد نبوی کے ساتھ خاص ہے اور یہ بعید ہے واللہ اعلم۔
    [صحیح الترغیب والترہیب :۱؍۱۴۶]
    معلوم ہوا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ماقبل والی حدیث کے سہارے اس روایت کی تضعیف سے رجوع کیا ہے۔
    لیکن سچائی یہ ہے کہ ماقبل والی حدیث اس سے بھی گئی گزری بلکہ منکر ہے امام دارقطنی جیسے ماہر علل نے بھی اس پر نقد کیا ہے اور وہ شاہد بننے کے قابل ہی نہیں ، علامہ البانی رحمہ اللہ کی اس کی علت پر آگاہی ہوجاتی تو علامہ البانی رحمہ اللہ بھی اسے شاہد نہ بناتے کیونکہ اس درجہ کی منکر روایت علامہ البانی رحمہ اللہ کے اصول سے بھی شہادت کے باب میں مفید نہیں ہے ۔
    ملاحظہ ہو یہ روایت:
    امام ابن ماجۃ رحمہ اللہ (المتوفی۲۷۳)نے کہا:
    حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال:حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن حميد بن صخر، عن المقبري، عن أبي هريرة، قال:سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يقول:’’من جاء مسجدي هذا، لم يأته إلا لخير يتعلمه أو يعلمه، فهو بمنزلة المجاهد فى سبيل اللّٰه، ومن جاء لغير ذلك، فهو بمنزلة الرجل ينظر إلى متاع غيره‘‘۔
    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’ جو شخص میری اس مسجد میں صرف خیر (علم دین)سیکھنے یا سکھانے کے لیے آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کے درجہ میں ہے، اور جو اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے آئے تو وہ اس شخص کے درجہ میں ہے جس کی نظر دوسروں کی متاع پر لگی ہوتی ہے‘‘۔
    [سنن ابن ماجہ: ۱؍۸۲،رقم:۲۲۷]
    اس حدیث کی سند بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح جان کر ہی ترمذی والی روایت کے لیے اسے شاہد بنایا ۔
    لیکن علل کے ماہر امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس میں موجود علت کی نشاندہی کردی ہے ۔ کماسیاتی۔
    شعیب الأرنؤوط اور ان کی ٹیم نے امام دارقطنی رحمہ اللہ کے نقد کو سامنے رکھتے ہوئے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے:
    ’’حدیث ضعیف ‘‘،’’ یہ حدیث ضعیف ہے ‘‘۔
    دیکھئے :[سنن ابن ماجہ :۱؍۱۵۴،ت الأرنؤوط]
    اس کی سند میں حمید بن صخر ہے۔ یہ حمید بن زیاد أبی صخر ہے۔
    بعض ائمہ نے دونوں کو الگ الگ مانا ہے اور اکثر نے ایک ہی مانا ہے لیکن بہرصورت اس پر جرح موجود ہے۔
    یہ گرچہ ثقہ ہے لیکن بعض ائمہ ناقدین نے اس پرکلام کیا ہے اس لیے یہ مختلف فیہ ہے :
    امام ابن شاہین رحمہ اللہ (المتوفی۳۸۵)نے اسے مختلف فیہ رواۃ میں ذکر کیا ہے ۔
    دیکھیں:[المختلف فیہم للحافظ ابن شاہین:ص:۲۸]
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸)نے کہا:
    ’’مختلف فیہ ‘‘۔
    ’’یہ مختلف فیہ ہے‘‘۔
    [الکاشف للذہبی ت عوامۃ:۱؍۳۵۳]
    امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۳)نے اس کی توثیق کی ہے لیکن ساتھ ہی تضعیف بھی کی ہے، چنانچہ کہا:
    ’’ضعیف‘‘۔’’ یہ ضعیف ہے ‘‘۔
    [الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:۳؍۲۲۲،وإسنادہ صحیح]
    امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی۲۴۱) نے اسے :’’لیس بہ بأس ‘‘۔کہا لیکن دوسری جگہ اس کی تضعیف بھی کی ہے۔
    چنانچہ حمدان بن علی الوراق کہتے ہیں:
    ’’سئل أحمد بن حنبل عن حميد بن صخر، فقال:ضعيف‘‘۔
    ’’امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے حمید بن صخر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہیں نے کہا:یہ ضعیف ہے‘‘۔
    [الضعفاء للعقیلی، ت د مازن:۲؍۲۸،وإسنادہ صحیح]
    امام نسائی رحمہ اللہ (المتوفی۳۰۳)نے کہا:
    ’’لیس بالقوی‘‘۔’’ یہ قوی نہیں ہے‘‘۔[الضعفاء والمتروکون للنسائی:ص:۳۳]
    دوسری جگہ امام نسائی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ دیکھیں:[الکامل لابن عدی طبعۃ الرشد:۳؍۴۰۱]
    امام عقیلی رحمہ اللہ (المتوفی۳۲۲)نے ضعفاء میں ذکر ہے۔دیکھیں:[الضعفاء الکبیر للعقیلی:۱؍۲۷۰]
    امام ابن شاہین رحمہ اللہ (المتوفی۳۸۵)نے کہا:
    ’’صاحب علم بالتفسير، وليس له حديث كثير۔ولعل يحيي وقف من روايته على شيء أوجب هذا القول فيه‘‘۔
    ’’یہ تفسیر کا علم رکھتے تھے لیکن ان کے پاس حدیث بہت زیادہ نہیں ہے ، اور امام یحییٰ ان کی روایات میں بعض پر واقفیت کے بعد یہ بات (تضعیف والی)کہی ہے‘‘۔
    [المختلف فیہم :ص:۲۸]
    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حمید بن صخر پر ائمۂ فن نے جرح بھی کررکھی ہے اس لیے ایسا متکلم فیہ راوی اگر اپنے سے اوثق کے خلاف روایت کرے گا تو اس کی روایت مردود قرار پائے گی ۔
    اور یہاں یہی صورت حال ہے چنانچہ حمید بن صخر سے کئی گنا ثقہ راوی عبید اللہ بن عمر ہیں جو کہ صحیحین سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں اور بالاتفاق ثقہ وثبت ہیں۔
    ہماری معلومات کے مطابق کسی ایک بھی محدث نے ان پر کوئی جرح نہیں کی ہے۔
    چنانچہ:
    امام ابن سعد رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۰)نے کہا:
    ’’وكان ثقة كثير الحديث حجة ‘‘۔
    یہ ثقہ اور بہت زیادہ احادیث والے اور حجت ہیں‘‘۔
    [الطبقات لابن سعد ت عبد القادر:۵؍۴۳۵]
    امام عجلی رحمہ اللہ (المتوفی۲۶۱)نے کہا:
    ’’مدني ثقة ثبت ‘‘۔
    ’’یہ مدنی ، ثقہ اور ثبت ہیں ‘‘۔
    [معرفۃ الثقات للعجلی:۲؍۱۱۲]
    امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی۳۵۴)نے کہا:
    ’’وكان من سادات أهل المدينة وأشراف قريش فضلا وعلما وعبادة وشرفا وحفظا وإتقانا‘‘۔
    ’’یہ اہل مدینہ کے سادات اور قریش کے اشراف میں سے تھے ، فضل وعلم ، عبادت وشرف اور حفظ واتقان کے اعتبار سے‘‘۔
    [الثقات لابن حبان ط االعثمانیۃ:۷؍۱۴۹]
    امام أبو یعلی الخلیلی رحمہ اللہ (المتوفی۴۴۶)نے کہا:
    ’’حافظ ،متقن، ثقة، متفق عليه، مخرج فى الصحيحين ، روي عنه الأئمة الكبار‘‘۔
    ’’یہ حافظ ، متقن ، ثقہ ہیں ان پر سب کا اتفاق ہے ، صحیحین میں ان کی احادیث ہیں اور کبار ائمہ ان کے شاگرد ہیں‘‘۔
    [الإرشاد فی معرفۃ علماء الحدیث للخلیلی:۱؍۲۹۳]
    امام ذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸)نے کہا:
    ’’المدني الفقيه الثبت ‘‘۔
    ’’آپ مدنی فقیہ اورثبت ہیں ‘‘۔
    [الکاشف للذہبی ت عوامۃ:۱؍۶۸۵]
    دوسری جگہ فرمایا:
    ’’الإمام، المجود، الحافظ ‘‘۔’’ آپ امام ، مجود اورحافظ ہیں‘‘۔
    [سیر أعلام النبلاء ط الرسالۃ :۶؍۳۰۴]
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲)نے کہا:
    ’’ثقة ثبت قدمه أحمد بن صالح على مالك فى نافع ‘‘۔
    ’’یہ ثقہ وثبت ہیں اور امام احمد بن صالح المصری نے نافع سے روایت کرنے میں ان کو امام مالک پر بھی فوقیت دی ہے‘‘۔
    [تقریب التہذیب لابن حجر:رقم:۴۳۲۴]
    غرض یہ کہ عبید اللہ بن عمر بہت بڑے ثقہ راوی حافظ ، متقن ، فقیہ اور امام الائمہ ہیں۔
    اور انہوں نے اسی روایت کو سعید المقبری سے روایت کیا تو اس میں تابعی کعب الاحبار کا قول نقل کیا ،چنانچہ:
    امام ابن أبی شیبۃ رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۵)نے کہا:
    حدثنا ابن نمير، عن عبيد اللّٰه بن عمر، عن سعيد بن أبي سعيد، عن عمر بن أبي بكر، عن أبيه، عن كعب الأحبار، قال: أجد فى كتاب اللّٰه: ما من عبد مؤمن يغدو إلى المسجد ويروح ، لا يغدو، ويروح إلا ليتعلم خيرا، أو يعلمه، أو يذكر اللّٰه ، أو يذكر به إلا مثله فى كتاب اللّٰه كمثل المجاهد فى سبيل اللّٰه۔
    کعب الاحبار تابعی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ:’’ میں اللہ کی کتاب (تورات) میں پاتا ہوں کہ:جو بندہ صبح وشام مسجد جائے خیر سیکھنے یا سکھانے یا ذکر وذکار کی خاطر تو اللہ کی کتاب (تورات ) میں اس کی مثال مجاہد فی سبیل اللہ سے بیان کی گئی ہے‘‘۔
    [مصنف ابن أبی شیبۃ۔سلفیۃ:۱۳؍۳۱۹]
    معلوم ہوا کہ یہ کعب الاحبار کی بیان کردہ ایک اسرائیلی روایت ہے جسے حمید بن صخر نے مرفوع حدیث بنادیا۔
    امام ابن عدی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۶۵)نے اس کی اسی روایت کو’’ الکامل فی ضعفاء الرجال ‘‘میں ذکر کیا ہے۔
    اور آپ اس کتاب میں اکثر راوی کی منکر روایات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ دیکھیں:[الکامل لابن عدی طبعۃ الرشد:۳؍۴۰۲]
    نیز علل کے ماہر امام دارقطنی رحمہ اللہ نے حمید بن صخر کی روایت پر نقد کرتے ہوئے اسے’’ ثقہ وثبت ‘‘عبید اللہ بن عمر کے خلاف بتلا یااور عبید اللہ بن عمر کی روایت کو درست قراردیا۔
    چنانچہ علل دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی۳۸۵)کے الفاظ ہیں:
    وسئل عن حديث المقبري، عن أبي هريرة، قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم : من جاء مسجدي هذا، لم يأته إلا لخير يتعلمه، أو يعلمه، فهو بمنزلة المجاهد فى سبيل اللّٰه ۔فقال:’’ اختلف فيه على سعيد المقبري، فرواه أبو صخرة حميد بن زياد، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة، عن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم۔وخالفه عبيد اللّٰه بن عمر فرواه عن سعيد المقبري، عن عمر بن أبي بكر بن عبد الرحمٰن بن الحارث، عن كعب الأحبار قوله۔ ورواه ابن عجلان، عن سعيد المقبري، عن أبي بكر بن عبد الرحمٰن، عن كعب الأحبار قوله، وقول عبيد اللّٰه بن عمر أشبه بالصواب‘‘۔
    ترجمہ: امام دارقطنی سے حدیث : المقبری، عن أبی ہریرۃ، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :’’من جاء مسجدي هذا، لم يأته إلا لخير يتعلمه، أو يعلمه، فهو بمنزلة المجاهد فى سبيل اللّٰه‘‘۔کے بارے میں پوچھا گیا تو امام دارقطنی نے فرمایا:
    ’’اس حدیث کو سعید المقبری سے روایت کرنے والوں میں اختلاف واقع ہوا ہے چانچہ ابو صخرہ حمید بن زیاد نے اسے (عن سعید المقبری، عن أبی ہریرۃ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم)کی سند سے بیان کیا ہے ، اور اس کے برخلاف عبیداللہ بن عمر نے اسے (عن سعید المقبری، عن عمر بن أبی بکر بن عبد الرحمن بن الحارث، عن کعب الأحبار )کی سند سے کعب الاحبار کے قول کے طور پر بیان کیا ہے۔ اور ابن عجلان نے اسے (عن سعید المقبری، عن أبی بکر بن عبد الرحمن، عن کعب الأحبار)کی سند سے کعب الاحبار کے قول کے طور پر بیان کیا ہے۔ لیکن عبید اللہ بن عمر کی روایت ہی قرین صواب ہے‘‘۔
    [علل الدارقطنی= العلل الواردۃ فی الأحادیث النبویۃ :۱۰؍۳۸۰]
    اب اس مخالفت پر اتنے بڑے ماہر امام کی طرف سے محاکمہ سامنے آجانے کے بعد کوئی بد منہج ہی ہوگا جو اس اسرائیلی روایت کو حدیث رسول سمجھنے کی جسارت کرے۔
    اب جب یہ بات ثابت ومتحقق ہوچکی کہ اس روایت میں غلطی ہے اور اصل متن اسرائیلی روایت ہے تو پھر ترمذی کی روایت منکر یا شاذ ٹھہری اور منکر یا شاذ روایت حسن لغیرہ کے باب میں بھی قابل قبول نہیں ہے۔ جیساکہ اس پر ائمہ فن کی تصریحات موجود ہیں۔ مثلاً:
    امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی۲۴۱)نے کہا:
    ’’الحديث عن الضعفاء قد يحتاج اليه فى وقت ، والمنكر ابدا منكر‘‘۔
    ’’ضعیف رواۃ سے روایت کی کسی وقت ضرورت پڑ سکتی ہے ، لیکن منکر روایت ہمیشہ منکر ہی رہے گی‘‘۔
    [علل أحمد روایۃ المروذی وغیرہ:ص:۱۶۳]
    امام ابن الصلاح رحمہ اللہ (المتوفی۶۴۳)نے کہا:
    ’’ومن ذلك ضعف لا يزول بنحو ذلك، لقوة الضعف وتقاعد هذا الجابر عن جبره ومقاومته۔ وذلك كالضعف الذى ينشأ من كون الراوي متهما بالكذب، أو كون الحديث شاذا‘‘۔
    کچھ ضعف ایسا ہوتا ہے جس کا ازالہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ضعف شدید اور ناقابل تلافی وتدارک ہوتاہے جیسے وہ ضعف جو راوی کے متہم بالکذب ہونے کے سبب یا حدیث کے شاذ ہونے کے سبب پیدا ہوتاہے‘‘۔
    [مقدمۃ ابن الصلاح، ت عتر: ص:۳۴،] نیز دیکھیں :[نصب المجانیق للالبانی :ص:۴۰]
    حافظ زین الدین العراقی رحمہ اللہ (المتوفی۸۰۶)نے کہا:
    ’’وإن يكن لكذب أو شذا…أو قوي الضعف فلم يجبر ذا۔
    ’’اگر حدیث کے اندر ضعف راوی کے کذب یا شذوذ یا سخت ضعف کے سبب ہو تو یہ اس کی تلافی نہیں ہوسکتی‘‘
    ۔[ألفیۃ العراقی: ص:۹۸]
    بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ بھی اسی اصول پر کاربند تھے اور اس کی جگہ جگہ وضاحت کرتے تھے چنانچہ ایک مقام پرعلامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وما ثبت خطأه فلا يعقل أن يقوي به رواية أخري فى معناها فثبت أن الشاذ والمنكر مما لا يعتد به ولا يستشهد به بل إن وجوده وعدمه سواء‘‘۔
    ’’جس روایت کا غلط ہونا ثابت ہوگیا تو اس سے اسی معنی کی دوسری روایت کو تقویت دینا غیرمعقول بات ہے ، معلوم ہوا کہ شاذ اور منکر روایت کا کوئی شمار نہیں ہے اور اس سے استشہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس کا وجود اور عدم وجود دونوں برابر ہے‘‘۔
    [صلاۃ التراویح :الألبانی :ص:۶۶]
    ملاحظہ فرمائیں یہ خود علامہ البانی رحمہ اللہ کا اصول ہے ۔
    اب اگر علامہ البانی رحمہ اللہ اس بات سے واقف ہوجاتے کہ ترمذی کی روایت میں ایسی ہی بات ہے یعنی وہ مبنی بر غلط ہے تو سوچئے کہ کیا ایک پل کے لئے بھی علامہ البانی رحمہ اللہ اس روایت کو ابن ماجہ کی روایت کے لیے شاہد بناتے ؟ ہر گز نہیں !کیونکہ یہ محدثین کا منہج ہے ہی نہیں ، یہ تو بدترین اہل بدعت کا منہج ہے کہ مطلب برا ری کے لیے ہر طرح کے کوڑ کباڑ کو اکٹھا کرکے سر پر لاد لو ۔
    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت ضعیف ومردود ہے۔
    ٭٭٭
    ٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings