Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • قرض سے متعلق چار اہم باتیں

    قیامت کے دن اللہ رب العالمین بندوں سے دوطرح کے حقوق سے متعلق سوال کرے گا، ۔(۱) حقوق اللہ ۔(۲) حقوق العباد ۔اور حقوق العباد میں قرض کا معاملہ بہت زیادہ سنگین ہے مگر اس کے باوجود مسلم معاشرہ میں قرض کے لین دین کا معاملہ دن بدن بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے ، جس طرح کسی ضرورت مند کو قرض دینا پھر ادائیگی کے لیے مقروض پر آسانی کرتے ہوئے اسے مہلت دینا ،یا اللہ کی رضا کے لیے تنگدست و بدحال مقروض کے قرض کو معاف کردینا اللہ کے نزدیک بڑے اجروثواب کاکا م ہے بالکل اسی طرح لوگوں سے قرض لے کر اسے ہڑپ کرجانا یا قرض کا مال جان بوجھ کر واپس نہ لوٹانا بہت بڑا گناہ ہے جس کی وجہ سے قیامت کے دن نیکیوں کا پہاڑ لے کر جانے والے بہت سارے مسلمان مفلس ہوجائیں گے اور اپنی بے شمار نیکیاں قرض خواہوں کو دے کر ان کے گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر لاد کر جہنم رسید ہوجائیں گے ۔میں نے اپنے اس مختصر مضمون کوچار اہم نکات پرتقسیم کیا ہے۔
    ۱۔ قرض کب اور کتنا لیاجائے؟
    ۲۔ قرض کامعاملہ کس قدر سنگین ہے ؟
    ۳۔ نہ لوٹانے کی نیت سے قرض لینے والوں کا بھیانک انجام ۔
    ۴۔ قرض کی دائیگی کی ایک مسنون دعا۔
    قرض کب اور کتنا لیاجائے:
    (أ) جہاں تک ممکن ہوقرض لینے سے بچیں ، جو کچھ اللہ رب العالمین نے عطا فرمایا ہے اسی میں گزر بسر کرنے کی کوشش کریں۔
    عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، اَنّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَال:’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ اَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللّٰهُ بِمَا آتَاهُ ‘‘۔
    عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’وہ انسان کا میاب و بامراد ہو گیا جو مسلمان ہو گیا اور اسے گزر بسر کے بقدر روزی ملی اور اللہ تعا لیٰ نے اسے جو دیا اس پر قناعت کی تو فیق بخشی‘‘۔
    [صحیح مسلم:۱۰۵۴]
    علامہ نووی رحمہ اللہ کفاف کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
    ’’اَلْكَفَافُ الْكِفَايَةُ بِلَا زِيَادَةٍ وَلَا نَقْصٍ وَفِيْهِ فَضِيْلَةُ هٰذِهِ الْاَوْصَافِ وَقَدْ يُحْتَجُّ بِهِ لِمَذْهَبِ مَنْ يَّقُوْلُ: اَلْكَفَافُ اَفْضَلُ مِنَ الْفَقْرِ وَمِنَ الْغِنٰي‘‘۔
    ’’کفاف ایسی روزی کو کہتے ہیں جو ضرورت کے بالکل مطابق ہو نہ کم ہو نہ زیادہ اور جو لوگ کہتے ہیں کہ کفاف فقر اور غنی سے بہتر ہے وہ اسی حدیث رسول سے استدلال کرتے ہیں‘‘ ۔
    [شرح النووی علی مسلم :ج:۷،ص:۱۴۴۔۱۴۵]
    ملا علی قاری رحمہ اللہ’’ وَقَنَّعَهُ اللّٰهُ بِمَا آتَاهُ ‘‘کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
    اَيْ: جَعَلَهُ قَانِعًا (بِمَا آتَاهُ)اَيْ: بِمَا اَعْطَاهُ إِيَّاهُ، بَلْ جَعَلَهُ شَاكِرًا لِمَا اَعْطَاهُ رَاضِيًا بِكُلِّ مَا قَدَّرَهُ وَقَضَاهُ۔
    اس بندہ کو اللہ نے جو کچھ عطا کیا اس پراسے قناعت کی توفیق سے بھی نواز دیا یعنی جو کچھ نعمتیں اسے عطا کیں اس پر اسے اللہ کا شکر اداکرنے کی توفیق بخشی اور جتنی روزی اس کی تقدیر میں لکھی تھی اسے اس پر راضی کردیا ۔
    [مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح :ج :۸،ص:۳۲۳۴،ترقیم الشاملۃ]
    (ب ) ہمیشہ اپنے سے غریب و تنگدست لوگوں کی طرف دیکھیں ۔
    عن ابي هريرة رضي اللّٰه عنه عن النبى ﷺ قال :’’انظروا إلى من هو اسفل منكم، ولا تنظروا إلى من هو فوقكم، فهو اجدر ان لا تَزْدَرُوا نعمة اللّٰه عليكم‘‘۔
    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’اس شخص کی طرف دیکھو جو تم سے نیچے ہے اور اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہے یہ زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی اس نعمت کو حقیر نہ جانو جو تم پر ہے‘‘۔
    [سنن ترمذی:۲۵۱۳،صحیح]
    فوائد:
    ۱۔ اگر کوئی شخص صرف انہیں لوگوں کی طرف دیکھے گاجنہیں دنیا کی نعمتیں اس سے زیادہ دی گئی ہیں تو خطرہ ہے کہ اس کے دل میں خالق کا شکوہ پیدا ہو جائے یا اس شخص پر حسد پیدا ہو جائے۔ اور یہ دونوں چیزیں اس کی بربادی کا باعث ہیں۔ حدیث میں اس کا علاج بتایا گیا ہے۔ جب وہ ان لوگوں کو دیکھے گا جو دنیاوی نعمتوں میں اس سے بھی نیچے ہیں اس کا دل خالق کے شکر، اپنی حالت پر صبر و قناعت اور دوسرے بھائیوں پر رحم سے بھر جائے گا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہیں جانے گا۔
    ۲۔ اپنے سے نیچے سے مراد وہ ہے جو دنیاوی نعمتوں میں اس سے کمتر ہے۔ اگر تندرست ہے تو بیماری میں مبتلا لوگوں کی طرف دیکھے اس سے اسے اللہ کی عطا کردہ صحت پر شکر کی نعمت حاصل ہو گی۔ اگر بیمار ہے تو انہیں دیکھے جو اس سے بھی زیادہ بیمار ہیں بلکہ ان کے اعضاء ہی نہیں ہیں وہ اندھے بہرے، لنگڑے یا کوڑھی ہیں۔ اس سے اسے اپنی عافیت کی قدر معلوم ہو گی۔ اگر تنگدست ہے تو انہیں دیکھے جو اس سے بھی بڑھ کر فقیر ہیں جنہیں محتاجی نے سراسر ذلیل کر دیا ہے۔ یا وہ قرض کے خوفناک بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ غرض دنیا کی کسی آزمائش میں مبتلا ہو اسے اپنے سے بڑھ کر مصیبت میں مبتلا لوگ ہزاروں کی تعداد میں مل جائیں گے ان کے حال پر غور کرے گا تو اسے شکر، صبر اور قناعت کی نعمت حاصل ہو گی۔
    دین کے معاملات میں ہمیشہ ان لوگوں کو دیکھے جو اس سے اوپر ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    {وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ }
    ’’اور اسی (جنت)میں ہی ایک دوسرے سے بڑھ کر رغبت کریں وہ لوگ جو ایک دوسرے کے مقابلے میں کسی چیز میں رغبت کرتے ہیں‘‘۔
    [المطففین:۲۶]
    اور فرمایا:
    {فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ }
    ’’پسں نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو‘‘۔
    [المائدہ:۴۸](شرح بلوغ المرام الشیخ عبدالسلام بن محمد بھٹوی حفظہ اللہ حدیث:۱۲۳۷)
    (ج) جتنی رقم آسانی سے ادا کرسکتے ہوں اپنی کمائی وطاقت کے حساب سے اتنا ہی قرض اداکرنے کی نیت سے لیں۔
    عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:’’مَنْ اَخَذَ اَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيْدُ اَدَاء َهَا اَدَّء اللّٰهُ عَنْهُ‘‘۔
    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا‘‘۔
    [صحیح بخاری :۲۳۸۷]
    علامہ مُظہری رحمہ اللہ مذکورہ روایت کے تحت رقمطراز ہیں کہ :
    ’’مَن استقرضَ قرضًا عن احتياج، وهو يقصد ان يودِّيَه، ويجتهد ويُبالغ فى طلب شيء ٍ يودِّي به ذلك القرضَ اعانه الله على ادائه، وإن لم يتيسر له ما يودِّي ذلك الدَّينَ حتي يموتَ، المَرجوُّ من الله الكريم ان يُرضيَ خصمَه بفضله‘‘۔
    ’’جو کوئی شخص ضرورت کے وقت کسی شخص سے قرض لیتا ہے اور اس کا ارادہ مکمل طور سے یہی ہوتا کہ وہ قرض خواہ کا مال استطاعت ہوتے ہی ادا کردے گااور پھر اس کے لیے پوری کوشش اور جد وجہد بھی کرتا ہے تو ایسے شخص کے قرض کی دائیگی میں اللہ بھی مدد فرماتا ہے ، اگر مقروض شخص مرنے سے پہلے قرض خواہ کا قرض ادا نہ کرپائے تو بھی اللہ سے قوی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے قرض خواہ کو راضی کردے گا ‘‘۔
    [المفاتیح فی شرح المصابیح :ج:۳،ص:۴۶۷]
    ۲۔قرض کامعاملہ کس قدر سنگین ہے:
    عَنْ اَبِي قَتَادَةَ ، اَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اَنَّهُ قَامَ فِيهِمْ فَذَكَرَ لَهُمْ اَنَّ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ وَالْإِيمَانَ بِاللّٰهِ اَفْضَلُ الْاَعْمَالِ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ:يَا رَسُولَ اللّٰهِ، اَرَاَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ تُكَفَّرُ عَنِّي خَطَايَايَ؟، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’نَعَمْ، إِنْ قُتِلْتَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ وَاَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ‘‘، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:’’كَيْفَ قُلْتَ؟‘‘، قَال:اَرَاَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ اَتُكَفَّرُ عَنِّي خَطَايَايَ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’نَعَمْ، وَاَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ، إِلَّا الدَّيْنَ فَإِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ لِي ذَلِكَ‘‘۔
    ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ انہوں نے نبی ﷺ سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ آپ ﷺصحابۂ کرام میں (خطبہ دینے کے لیے)کھڑے ہوئے اور انہیں بتایا:’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا (باقی) تمام اعمال سے افضل ہے۔ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا:اللہ کے رسولﷺ!آپ کیا فرماتے ہیں؟ اگر میں اللہ کی راہ میں صبر و ثبات اور طلب ثواب کی نیت سے شہید کر دیا جاؤں کہ میں پیچھے نہ ہٹ رہا ہوں بلکہ پیش قدمی کر رہا ہوں تو کیا میری اس شہادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ میرے تمام گناہ معاف کر دے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا :ہاں۔ جب وہ واپس لوٹنے لگا تو آپ ﷺنے اسے آواز دے کر فرمایا کہ قرض کے علاوہ سب گناہ معاف ہو جائیں گے۔یہ بات مجھے ابھی ابھی جبرئیل نے بتائی ہے‘‘۔
    [صحیح مسلم:۱۸۸۵،فواد عبد الباقی ]
    ’’سُبحان اللّٰهِ! سُبحان اللّٰهِ ما اُنْزِلَ من التَّشديدِ۔! قال: ففرَقْنا وسكَتْنا، حتَّي إذا كان الغَدُ، ساَلتُ رسولَ اللّٰهِ فقُلنا: ما التَّشديدُ الَّذي نُزِّلَ ؟ قال: فى الدَّيْنِ ، والَّذي نفسي بيدِه لَو قُتِلَ رجلٌ فى سبيلِ اللّٰهِ ثمَّ عاشَ، ثمَّ قُتِلَ ثمَّ عاشَ، ثمَّ قُتِلَ وعليهِ دَيْنٌ ما دخل الجنَّةَ حتّٰي يَقضيَ دَيْنَه‘‘۔
    [صحیح الترغیب:۱۸۰۴]
    ایک دن رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’سبحان اللہ، سبحان اللہ کس قدر سخت وعید نازل ہوئی ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :وہ سخت وعید کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:وہ قرض کے بارے میں ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا :مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی آدمی اللہ کی راہ میں شہید ہو جائے، پھر زندہ ہو جائے، پھر جہاد میں شہید ہو جائے، پھر زندہ ہو جائے، اس کے بعد زندہ ہو جائے، پھر فی سبیل اللہ شہید ہو جائے اور اس کے ذمے قرضہ ہو تو جنت میں اس وقت تک نہیں جائے گاجب تک اس کا قرض نہ ادا ہو جائے‘‘۔
    [مسند امام احمد:ص:۲۹۰، ج:۵۔صحیح]
    ۳ ۔ نہ لوٹانے کی نیت سے قرض لینے والوں کا بھیانک انجام:
    عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:’’مَنْ اَخَذَ اَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ اَدَاء َهَا اَدَّي اللّٰهُ عَنْهُ، وَمَنْ اَخَذَ يُرِيدُ إِتْلَافَهَا اَتْلَفَهُ اللّٰهُ‘‘۔
    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’ جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کر دے گا‘‘۔
    [صحیح بخاری:۲۳۸۷]
    مذکورہ روایت کی شرح کرتے ہوئے الشیخ الطبیب احمد حطیبۃ فرماتے ہیں :
    ’’(ومن اخذ اموال الناس يريد إتلافها) ليس المقصود ان ياخذ اموال الناس فيحرقها او يقطعها لا، وإنما هو شخص ياتي شخصاً فيقول له:اعطني هذا المال وساعطيه لك بعد كذا، وفي نفسه انه لا يريد إرجاعه، فهذا مهما تكلم وعاهد ومهما كتب ورقة وهو فى نيته عدم إرجاع هذا المال فهذا ينوي الإتلاف، فيدخل فى قوله:(اتلفه اللّٰه)، فينتظر مصيبة تحصل له من اللّٰه سبحانه وتعالٰي، ولن يعجز اللّٰه تبارك وتعالٰي، فقد تجد الإنسان شاباً طويلاً عريضاً وفجاة جاء ه مرض من امراض السرطان فمات، فاللّٰه بالمرصاد‘‘۔
    ’’(جو شخص لوگوں کا مال ’’بطور قرض‘‘ اس نیت سے لیتا ہے کہ اسے تباہ وبرباد کردے گا)اس کا یہ معنی ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ لوگوں کا مال لے کر اسے جلادے گا یا کاٹ دے گا بلکہ ایسے شخص کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی مالدار شخص کے پاس جاکر کہتا ہے آپ مجھے اتنا مال دے دیجئے عنقریب میں آپ کو اتنی اتنی مدت کے بعد واپس لوٹا دوں گا،جبکہ اس کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ اس مال کو واپس نہیں لوٹا ئے گا،تو ایسا شخص قرض لیتے وقت زبانی طور پر خواہ کتنا مضبوظ عہدو پیمان کرلے ،کتنی مضبوط دستاویز لکھ کر دے دے ان سب باتوں کے باوجود اس کے دل میں یہی نیت ہوتی ہے کہ وہ قرض کا مال واپس نہیں دے گا اسے برباد کردے گا تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے شخص کے مال کو برباد کردیتا ہے ، پس ایسے شخص کو چاہیے کہ اللہ کی طرف سے آنے والی مصیبت یا عذاب کا انتظار کرے ، اور ایسا شخص اللہ کو ہرگز عاجز نہیں کرسکتا ،کبھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک لمبے چوڑے قد وقامت کے نوجوان کو اچانک کینسر کا مرض لاحق ہوجاتا ہے اور وہ مرجاتا ہے ، پس اللہ گھات میں ہے‘‘ ۔
    [شرح الترغیب والترہیب للمنذر للشیخ الطبیب احمد حطیبۃ:ج:۳۱،ص:۵]
    ۴۔ قرض کی دائیگی کی ایک مسنون دعا :
    قرض کی ادائیگی کی دعا :
    اَللّٰهم اكْفِنِي بحلالك عن حرامك، واَغْنِنِي بفضلك عَمَّنْ سِوَاكَ۔
    عن على رضي اللّٰه عنه ان مُكَاتَبًا جاء ه فقال: إني عَجَزْتُ عن كتابتي فَاَعِنِّي، قال: الا اعلمك كلمات عَلَّمَنِيهِنَّ رسولُ اللّٰه ﷺ لو كان عليك مثلَ جبلٍ دَيْنًا اَدَّاهُ اللّٰه عنك؟ قل: اللّٰهم اكْفِنِي بحلالك عن حرامك، واَغْنِنِي بفضلك عَمَّنْ سِوَاكَ۔
    علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مکاتب غلام نے ان کے پاس آ کر کہا کہ میں اپنی مکاتبت کی رقم ادا نہیں کر پا رہا ہوں، آپ ہماری کچھ مدد فرما دیجیے تو انہوں نے کہا:کیا میں تم کو کچھ ایسے کلمے نہ سکھا دوں جنہیں رسول اللہﷺ نے ہمیں سکھائے تھے؟ اگر تیرے اوپر پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو تو تیری جانب سے اللہ اسے ادا فرما دے گا، انہوں نے کہاکہو :’’اللہم اکفنی بحلالک عن حرامک واغننی بفضلک عمن سواک‘‘ ’’اے اللہ!تو ہمیں حلال دے کر حرام سے کفایت کر دے، اور اپنے فضل (رزق، مال و دولت)سے نواز کر اپنے سوا کسی اور سے مانگنے سے بے نیاز کر دے‘‘۔
    [سنن ترمذی:۳۵۶۳،حسن]
    آخر میں دعاگوہوں کہ رب العالمین ہم تمام مسلمانوں کو رزق حلال نصیب فرما ،جو روزی تو نے ہمیں دے رکھی ہے اس میں برکت عطا فرما اس پر قناعت کرنے کی توفیق عطا فرما ، قرض کے فتنے سے پوری زندگی ہماری حفاظت فرما اور ہم سب کو خاتمہ بالخیر نصیب فرما آمین یا رب العالمین ۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings