-
محرم، ماتم اور گستاخِ صحابہ محرم عربی اور اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے جو کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے، یہ مہینہ سماج میں موجود مختلف لوگوں کے مختلف کردار کی عکاسی کرتا ہے اور کچھ ایسے نمونے ہوتے ہیں جو برساتی مینڈھکوں کی طرح نکال کر ٹر ٹر کرتے ہیں اور پھر موسم غائب تو یہ بھی غائب ہو جاتے ہیں، اس مہینے کی عظمت کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اسے نبیﷺ نے’’شہر اللہ‘‘یعنی اللہ کا مہینہ قرار دیا ہے، یہ مہینہ سال کے چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے کہ جس میں ہر قسم کے ظلم و جور سے اپنے آپ کو بچانے کا حکم دیا گیا ہے، نفلی روزوں میں سب سے افضل روزے اسی مہینے کے ہیں اور بطور خاص عاشوراء کا روزہ کہ جس کی وجہ سے پچھلے ایک سال کے گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں۔
یہ مہینہ تاریخی اعتبار سے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اسی مہینے کی دس تاریخ کو اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون اور اس کے لشکر کے ظلم و ستم سے نجات عطا کیا تھا کہ جس کی خوشی میں قوم یہود دس تاریخ کو روزہ رکھا کرتی تھی، اسی مہینے میں رسول اکرم ﷺ نے سفرِ ہجرت کا خطہ بنایا، پلاننگ کیا، مشورہ کیا اور پورا پروگرام ترتیب دیا پھر ربیع الاول میں ہجرت کے سفر پر نکل گئے۔
محترم قارئین! محرم کے مہینے میں شرعی اعتبار سے کثرت سے نفلی روزے رکھنے کے علاوہ کوئی اور عمل خصوصیت کے ساتھ ثابت نہیں ہے لیکن قوم مسلم کی حرماں نصیبی کہ علماء سوء اور پیٹ کے پجاریوں نے اس مہینے کو بدعتوں اور خرافات کا مہینہ بنا دیا ہے، چنانچہ اس مہینے کے آتے ہی آپ اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والوں میں تین طرح کے لوگ ہو جاتے ہیں:
پہلے تو وہ جو سنت پر عمل کرتے ہوئے اس مہینے کا پورا خیال رکھتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جو کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
دوسرے وہ جنہوں نے محبت صحابہ اور بطورِ خاص محبت حسین کے نام پر بدعتوں کو فروغ دے رکھا ہے، کہتے ہیں کہ اسی مہینے میں نواسہء رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ مظلومانہ طریقے سے شہید کر دئیے گئے تو ہم ان کا غم مناتے ہیں اور پھر اس کی چپیٹ اور لپیٹ میں وہ بعض صحابہ کو بھی لے لیتے ہیں۔
کسی کو بھی ظلما ًمار دینا، قتل کر دینا اور اس کی زندگی لے لینا یقینا بہت عظیم گناہ ہے، نواسہء رسول کو شہید کیا گیا جو کہ یقینا بہت دکھ اور تکلیف والی بات ہے لیکن اس کی وجہ سے ہمیں اب تک ماتم مناتے رہنے کا اختیار نہیں ہے اس لیے کہ انہی کے نانا نے مسلمانوں کو نوحہ، ماتم، سوگ منانے، گریبان پھاڑنے، غم کے نام پر سینہ کوبی کرنے اور اپنے آپ پر ظلم کرنے سے منع کیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ نوحہ کرنا جاہلیت کی رسم ہے اور یہ بھی کہ اگر نوحہ کرنے والا اپنی موت سے پہلے توبہ نہیں کرتا ہے تو قیامت کے دن وہ اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ اس کے اوپر تارکول کی شلوار اور خارش کا کرتا ہوگا۔
لیکن اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے یہ مان بھی لیں کہ نواسہء رسول کی شہادت پر ماتم کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ماتم کرنے والے کہتے ہیں تو ذرا یہ بتائیں کہ ہم دو رنگی کیوں ہیں؟ شہادت حسین پر ماتم تو سید الشہداء اور اسد اللہ یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ماتم کیوں نہیں؟ شہادت حسین پر ماتم تو خلیفۂ ثانی اور امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ماتم کیوں نہیں؟ جبکہ یہ مسلّم ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے فضیلت و مقام میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فائق و برتر ہیں، شہادت حسین پر ماتم تو سبائیوں کے ذریعہ مظلومانہ طریقے سے شہید کیے جانے والے داماد رسول، ذو النورین اور خلیفۂ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ماتم کیوں نہیں؟ کہ جن کی شہادت کی داستان آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب لے آتی ہے، کیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت شہادت نہیں؟ مزید دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ خود نبی ﷺسلم کی حیات میں بہت سے موقعوں پر بہت سے صحابہ شہید ہوئے لیکن کوئی ایک مثال بھی تاریخ میں آپ کو نہیں ملے گی کہ نبی ﷺ نے ان میں سے کسی ایک صحابی کی شہادت پر ماتم کی مجلس قائم کی ہو، نوحہ کیا ہو یا ان کی خوبیاں بیان کر کے خود کو اذیت دی ہو، ثابت یہ ہوا کہ شہادت حسین پر ماتم کے پس پردہ کہانی کچھ اور ہے ورنہ شہادت حسین پر تکلیف سبھی کو ہے۔
تیسرے وہ لوگ ہیں جو شہادت حسین کے تذکرے میں وہ باتیں ذکر کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ تاریخ بھی شرما جاتی ہے، اور یہ تذکرہ جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے ویسے ویسے صحابہ کی ذات پر داغ لگائے جانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ کبھی حضرت معاویہ زد میں آتے ہیں تو کبھی حضرت عمر، کبھی حضرت عثمان پر نشانہ سادھا جاتا ہے تو کبھی اماں عائشہ پر، کبھی ابو بکر کو مطعون کیا جاتا ہے تو کبھی کسی اور صحابی کو۔رضی اللہ عنہم اجمعین ۔جبکہ یہ وہ مقدس جماعت ہے جس کے بارے میں نبی ﷺ نے کہا تھا :
’’لَا تَسُبُّوْا اَصْحَابِیْ ،لَا تَسُبُّوْا اَصْحَابِیْ، فَوَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ ،لَوْ أنَّ أحَدَکُمْ أنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًا مَا أدْرَکَ مُدَّ أحَدِھِمْ وَلَا نَصِیْفَہٗ‘‘۔
’’میرے صحابہ کو برامت کہو، میرے صحابہ کو برا مت کہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی خرچ کرے تو وہ ان (صحابۂ کرام )میں سے کسی ایک کے دیئے ہوئے مُد بلکہ اس کے آدھے کے برابر بھی(اجر) نہیںپا سکتا‘‘۔
[صحیح مسلم:۲۵۴۰]
(واضح رہے کہ ایک مُد چھ سو گرام کا ہوتا ہے)
اور ساتھ ہی آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا :
’’مَنْ سَبَّ اَصْحَابِيْ ،فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللّٰهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ۔
’’جس نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔
[سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ:۲۳۴۰]
لیکن افسوس کہ اس حقیقت اور فضیلت کو سمجھنے کے بجائے محرم کے اسٹیج پر ہر ذاکر تاریخ کے صفحات سے وہ کہانی بیان کرتا ہے جو دوسرے ذاکر کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی ہے، سبحان اللہ! نہ محرم کے مہینے کی عظمت کا خیال، نہ اس کی حرمت کا احترام، نہ صحابہ کی عزتوں کی پرواہ، نہ اس مقدس جماعت کے تقدس سے کوئی سروکار، بس فکر ہے تو اپنے پیٹ کی، فکر ہے تو اپنے پیر و مرشد کی، مطلب ہے تو اپنی سوچ سے، مطلب ہے تو اپنے افکار و نظریات سے، افسوس صرف افسوس!اور یہ افسوس اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب یہ حرکت بعض وہ لوگ بھی کرتے ہیں جو آپ اپنے کو پکا مسلمان کہتے ہیں، جنہیں خود کو’’سنی‘‘کہلانا پسند ہے، اور جب انہیں صحابہ سے محبت کرنے والے ہم جیسے لوگ سمجھانے جائیں تو سمجھنے اور قبول کرنے کے بجائے وہ ہمیں ’’گستاخِ صحابہ‘‘کے لقب سے نواز دیتے ہیں۔
محترم قارئین! خلاصہ یہ ہے کہ یہ مہینہ بڑا محترم و مقدس ہے، حرمت والا ہے، عظمتوں سے عبارت ہے، اس مہینے میں کثرت سے نفلی روزے رکھنا چاہیے، ہر قسم کے ظلم سے بچنا چاہیے، صحابہ کی شان میں گستاخی کرنے اور کسی بھی صحابی کو برا کہنے سے بچنا چاہیے اس لیے کہ صحابہ سے محبت عین ایمان ہے، صحابہ کی جماعت پر طعن نبی ﷺ کی تربیت پر طعن ، صحابہ اللہ کا انتخاب ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ پر انگلی اٹھانا اللہ کی ذات کو برا کہنا ہے اور جو اللہ کو برا کہے یا اس کے کسی فیصلے پر انگلی اٹھائے اس سے برا کوئی نہیں، یہ میرا ایمان ہے، یہ میرا یقین ہے اور یہی منہج سلف ہے۔
اللہ ہمیں اس مہینے کا احترام کرنے اور صحابہ سے حقیقی محبت کرنے کی توفیق بخشے۔آمین