-
یزید اور جیش مغفور میں مغفرت کی نوعیت سے متعلق ایک شبہ کا ازالہ ایک صاحب نے یزید کو جیش مغفور کی بشارت سے محروم کرنے کے لیے انتہائی بھونڈی اوربھدی بات کہہ ڈالی اور وہ یہ کہ اس حدیث میں مغفرت کی بات ایسے ہی ہے جیسے بہت سارے اعمال پر مغفرت کی بشارت ہے، مثلاً:
جو سنت کے مطابق وضو کرکے مسجد میں نماز کے لئے آئے اس کے لیے مغفرت کی بات کہی گئی ہے، اسی طرح حج کرنے والے کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ جس نے حج کیا اس کے گناہ معاف ہوجائیں گے تو ان احادیث کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ہرحاجی جنتی ہے یا ہرنمازی جنتی ہے۔
جواباً عرض ہے کہ:
یہ جہالت پر مبنی بکواس ایسے ہی ہے جیسے کوئی خلفاء راشدین ابوبکر و عمر فاروق و عثمان اورعلی رضی اللہ عنہم اور بقیہ عشرہ مبشرہ والے صحابہ رضی اللہ عنہم کی بشارت جنت کے بارے میں یہ بکواس کرے کہ ان سے متعلق بشارت والی احادیث ایسے ہی ہیں جیسے اور بھی کئی دیگراعمال پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
مثلا یہ حدیث:
’’ما من مسلم يتوضأ فيحسن وضوء ه، ثم يقوم فيصلي ركعتين، مقبل عليهما بقلبه ووجهه، إلا وجبت له الجنة ‘‘۔
’’جو مسلمان وضو کرے پس اچھی طرح ہو اس کا وضو اور پھر کھڑا ہو پس دو رکعتیں نماز ادا کرے اس طرح کہ اپنے دل اور چہرہ سے پوری توجہ کرنے والا ہو تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے‘‘۔
[صحیح مسلم:۲۳۴]
اب اس جیسی روایات کی بنیاد پر کوئی خلفائے راشدین اور عشرہ ٔمبشرہ جیسے صحابہ رضی اللہ عنہم کے جنتی ہونے کی بشارت کا انکار کردے اور یہ کہے کہ ان کے لئے جنت کی بشارت ایسے ہی ہے جیسے دیگر احادیث میں حاجی اور نمازی کے لئے جنت کی بشارت ہے تو بھلا بتلائیے ایسے شخص کی جہالت میں کیا شک وشبہ رہ جاتا ہے؟
یہ منفرد شخصیات کی مثال ہوئی، اجتماعی بشارت کی مثال میں اہل بدر واہل حدیبیہ کی بشارت کو لیجئے،ان تمام صحابہ کرام کو جو بدر وحدیبیہ میں شریک ہوئے تھے ان کے لیے مغفرت کی بشارت ہے ،چنانچہ:
عن جابر، أن عبدا لحاطب جاء رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يشكو حاطبا فقال:يا رسول اللّٰه ليدخلن حاطب النار، فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:’’كذبت لا يدخلها، فإنه شهد بدرا والحديبية‘‘۔
صحابیٔ رسول جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حاطب رضی اللہ عنہ کا ایک غلام رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاطب رضی اللہ عنہ کی شکایت کرنے کے لئے حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺحاطب تو جہنم میں داخل ہو جائے گا ،تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:تو نے غلط کہا وہ جہنم میں داخل نہ ہوں گے کیونکہ وہ بدر اور حدیبیہ میں شریک ہوئے۔
[صحیح مسلم:۲۴۹۵]
ٹھیک اسی طرح ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے قاتل عمار رضی اللہ عنہ کی بابت لکھا ہے کہ:
عن جابر، أن عبدا لحاطب جاء رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يشكو حاطبا فقال:يا رسول اللّٰه ليدخلن حاطب النار، فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:’’كذبت لا يدخلها، فإنه شهد بدرا والحديبية‘‘۔
’’ ہم عمار کے لیے جنت کی گواہی دیتے ہیں اور عمار کا قاتل اگر اہل بیعت رضوان میں سے ہے تو اس کے لیے بھی جنت کی گواہی دیتے ہیں‘‘۔
[منہاج السنۃ النبویۃ :۶؍۲۰۵]
ملاحظہ فرمائیں کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ صاف کہہ رہے ہیں کہ اگر ابوالغادیہ رضی اللہ عنہ اہل بیعت رضوان میں سے ہیں تو ہم ان کے جنتی ہونے کی بھی شہادت دیتے ہیں۔
اب کوئی یہ بکواس کرے کہ اہل بدر و اہل بیعت رضوان کی مغفرت کی بات ایسے ہی ہے جیسے بہت سارے اعمال پر مغفرت کی بشارت ہے تو بھلا بتلائیے جہالت کی اس سے بڑھ کر مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟
دراصل اس طرح کی بات کہنے والا عمل سے متعلق بشارت اور شخصیت و جماعت سے متعلق بشارت کے فرق کو نہیں سمجھ پارہا ہے اور دونوں کو خلط ملط کررہا ہے ۔
دراصل قرآن وحدیث میں بشارتیں دو قسم کی ہیں :
پہلی قسم کی بشارت کا تعلق مخصوص اعمال سے ہے ۔
دوسری قسم کی بشارت کا تعلق مخصوص افراد یا جماعت سے ہے۔
بشارت کی پہلی قسم میں جن مخصوص اعمال سے متعلق بشارت ہوتی ہے ان اعمال کا تعلق کسی خاص شخصیت یا جماعت یا کسی خاص علاقہ یا کسی خاص زمانہ سے نہیں ہوتا ہے بلکہ قیامت تک پیداہونے والے تمام لوگوں کے لیے اس پر عمل ممکن ہوتاہے۔ جو بھی ان اعمال کے تقاضوں کو پورا کرے گا وہ اس بشارت کا مستحق ہوگا اور اس استحقاق کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا۔کیونکہ اللہ ہی بہترجانتا ہے کہ کس نے کماحقہ ان اعمال کو انجام دیا ہے اورکون اس کا مستحق ہے۔الغرض یہ کہ یہ بشارت اعمال سے متعلق ہوتی ہے اور اس کا مقصد اعمال کی فضیلت بتلانا ہوتا ہے ۔ جیسے حج کی فضیلت ، اورنماز وروزے وغیرہ کی فضیلت۔
لیکن بشارت کی دوسری قسم جس میں مخصوص افراد یا جماعت سے متعلق بشارت ہوتی ہے وہ صرف خاص افراد اور خاص جماعت ہی کے لیے ہوتی ہے ، اسی طرح وہ خاص زمانہ اور خاص علاقہ ہی کے لیے ہوتی ہے۔اس بشارت میں خاص زمانہ اور خاص علاقہ کے خاص افراد یا خاص جماعت کو متعین کردیا جاتا ہے ۔جیسے خلفاء راشدین اور عشر ئہ مبشرہ سے متعلق بشارت یا اصحاب بدر اور اصحاب حدیبیہ سے متعلق بشارت ،وغیرہ۔
پہلی قسم کی بشارت میں اعمال کی فضیلت طے ہوتی ہے لیکن افراد متعین نہیں ہوتے اس لیے ہر فرد کو اس کا مستحق نہیں کہا جاسکتا ہے۔
لیکن دوسری قسم کی بشارت میں افراد ہی کو متعین کردیا جاتا ہے اس لئے جن افراد کو متعین کردیا گیا ان کا اس بشارت سے خارج ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
پہلی قسم کی بشارت میں جن اعمال کی فضیلت بتائی جاتی ہے ان اعمال کی حقیقت اللہ کے علم میں ہوتی ہے اسی لیے ناممکن ہے کہ یہ اعمال کسی بھی زمانہ کسی بھی دور میں اپنی حقیقت کھوبیٹھیں ۔
دوسری قسم کی بشارت میں جن افراد یا جماعت کی فضیلت بتائی جاتی ہے ان افراد یا جماعت کی حقیقت اور ان کی پوری زندگی کے کارناموں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہوتا ہے اس لئے ناممکن ہے کہ ان میں سے کسی کے ساتھ کوئی ایسی برائی جڑ جائے جو انہیں اس بشارت سے محروم کردے کیونکہ ایسی صورت میں اللہ کے علم میں نقص لازم آئے گا جو ناممکن ہے۔
پہلی قسم کی بشارت میں شرط کی صورت میں فضیلت بیان ہوتی ہے لہٰذا جب شرط پائی جائے گی تبھی فضیلت حاصل ہوگی ۔
اور دوسری قسم کی بشارت میں خبر کی صورت میں فضیلت بیان ہوتی ہے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خبر کبھی غلط ہوہی نہیں سکتی۔
بالفاظ دیگر پہلی قسم کی بشارت میں شرطیہ بات ہوتی ہے جبکہ دوسری قسم کی بشارت میں خبرہوتی ہے۔ یہ فرق سمجھنا بہت ضروری ہے، اسی فرق کی وجہ سے پہلی قسم کی بشارت میں عمل کرنے والوں کے لیے مغفرت کا مطلب عامل کا قطعی طور سے جنتی نہیں ہوتا ہے کیوں کہ شرط کی تکمیل ٹھیک طرح سے ہوئی یا نہیں اس کا علم ہمیں نہیں ہوتا لیکن دوسری قسم کی بشارت میں مغفرت کا مطلب قطعی طور پر جنتی ہوتا ہے کیونکہ اس میں اللہ کی طرف سے خبر ہوتی ہے جو مغفرت کی قطعیت پردلالت کرتی ہے ۔
بشارت کی ان دونوں قسموں کو اچھی طرح واضح کرنے کے بعد عرض ہے کہ حدیث قسطنطنیہ میں جوبشارت دی گئی ہے وہ دوسری قسم میں سے ہے۔
یعنی اس بشارت کا تعلق مخصوص افراد و جماعت سے ہے ، اس کا مقصد مخصوص افراد اور جماعت کی فضیلت بتانا ہے ، اس کا تعلق خاص علاقہ خاص زمانہ اور خاص افراد وجماعت سے ہے ، اس میں افراد وجماعت کا تعین کردیا گیا ہے ، اس میں بتائے گئے افراد کی پوری حقیقت اللہ کے علم میں ہے ،اس میں خبر ہے جو کبھی غلط ہوہی نہیں سکتی اس لیے یہ مغفرت کی قطعیت پر یعنی ان افراد کے جنتی ہونے پر دلالت کرتی ہے جیسے اہل بدر کی مغفرت کامعاملہ ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی۷۲۸)نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’والجيش عدد معين لا مطلق‘‘۔
’’جیش (لشکر) یہ معین اورخاص عدد ہے یہ مطلق اورعام نہیں ہے‘‘۔
[منہاج السنۃ النبویۃ:۴؍۵۷۲]
اس وضاحت سے بعض لوگوں کی اس بات کی بھی تردید ہوگئی جو یہ کہتے ہیں یہاں یزید کی مغفرت مان بھی لیں تو صغائر کی مغفرت ہے کبائر کی نہیں ۔
عرض ہے کہ صغائر و کبائر کی جوبحث ہے وہ پہلی قسم کی بشارت سے متعلق ہے یعنی جن آیات واحادیث میں مخصوص اعمال پرمغفرت کی بات ہے اس سے متعلق بعض علماء نے صغائر وکبائر کی بحث کی ہے لیکن جن آیات واحادیث میں بشارت کی دوسری قسم ہے یعنی مخصوص افراد اور جماعت کی مغفرت کی بات ہے وہاں علماء نے صغائر وکبائرکی بحث نہیں کی ہے بلکہ یہاں بالاتفاق کلی مغفرت یعنی جنتی ہونا مراد ہے جیسے اہل بدر کا معاملہ ہے۔
صحیح بخاری ہی میں ایسی بہت ساری احادیث ہیں جن میں کسی خاص شخص کے لیے اللہ نے مغفرت کی بات کہی ہے اور اس سے کلی مغفرت یعنی اس کا جنتی ہونا ہی مراد ہے مثلاً (بخاری حدیث نمبر ۳۴۷۰) میں سوقتل کرنے والے شخص کا جو واقعہ بیان ہے جسے اللہ نے معاف کردیا اس کے لیے فغفرلہ کے الفاظ ہیں لیکن اس کا مطلب کلی مغفرت ہی اورجنتی ہونا ہی ہے۔
معلوم ہوا کہ جب افراد اور جماعت کے لیے مغفرت کی بات ہو تو اس سے کلی مغفرت ہی مراد ہوتی ہے اہل بدرکے لیے بھی فقد غفرت لکم ہی کے الفاظ ہیں لیکن یہاں کلی مغفرت ہی مراد ہے کوئی احمق ہی ہوگا جو یہ کہے کہ اہل بدر کی مغفرت سے مراد صرف صغائر کی مغفرت مراد ہے۔