-
کیا ماہ محرم تمام مہینوں سے افضل ہے؟ الحمد للّٰہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علٰی من لا نبی بعدہ، اما بعد!
امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب النسائی رحمہ اللہ (المتوفی۳۰۳ھ) فرماتے ہیں:
اَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُدْرِكٍ، قَال:حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ حَمَّادٍ، قَال:حَدَّثَنَا اَبُو عَوَانَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ الْاَوْدِيِّ، قَالَ:حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ، قَالَ:حَدَّثَنِي اُهْبَانُ ابْنُ امْرَاَةِ اَبِي ذَرٍّ، قَالَ:سَاَلْتُ اَبَا ذَرٍّ قُلْتُ:اَيُّ الرِّقَابِ اَزْكَي؟ وَاَيُّ اللَّيْلِ خَيْرٌ؟ وَاَيُّ الْاَشْهُرِ اَفْضَلُ؟ فَقَالَ اَبُو ذَرٍّ: سَاَلْتُ رَسُولَ اللّٰه صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَاَلَتْنِي وَاُخْبُرُكَ كَمَا اَخْبَرَنِي قُلْتُ:يَا رَسُولَ اللّٰهِ اَيُّ الرِّقَابِ اَزْكَي؟ وَاَيُّ اللَّيْلِ خَيْرٌ؟ وَاَيُّ الْاَشْهُرِ اَفْضَلُ؟ فَقَالَ لِي: اَزْكَي الرِّقَابِ اَغْلَاهَا ثَمَنًا، وَخَيْرُ اللَّيْلِ جَوْفُهُ، وَاَفْضَلُ الْاَشْهُرِ شَهْرُ اللّٰه الَّذِي تَدْعُونَهُ الْمُحَرَّمَ۔
(ترجمہ) حضرت اُہبان البصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کون سا غلام سب سے بہتر ہے؟ کون سی رات سب سے بہتر ہے؟ کون سا مہینہ افضل ہے؟ ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے ایسا ہی پوچھا جیساکہ آپ نے مجھ سے پوچھا ہے اور میں آپ کو وہی بتاؤں گا جو نبی کریم ﷺنے مجھے بتایا تھا ۔ میں نے کہا:اے اللہ کے رسولﷺ!کون سا غلام سب سے بہتر ہے؟ کون سی رات سب سے بہتر ہے؟ کون سا مہینہ افضل ہے؟ تو آپﷺنے مجھ سے کہا : بہترین غلام وہ ہے جو سب سے زیادہ قیمتی ہو اور رات کا بہترین حصہ درمیانی حصہ ہے اور افضل مہینہ اللہ کا مہینہ ہے جسے تم محرم کہتے ہو ۔
(تخریج)
[السنن الکبری للنسائی بتحقیق حسن عبد المنعم:۴؍۲۳۳، ح:۴۲۰۲،و التاریخ الکبیر للبخاری بحواشی محمود خلیل :۲؍۴۵، ت:۱۶۳۵]
(حکم حدیث) اس کی سند ضعیف ہے۔
(سبب) اس سند میں اہبان البصری ہیںجو کہ تابعی ہیں ،صحابی نہیں ہیں۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی۸۵۲ھ)فرماتے ہیں:
’’اهبان الغفاري، ابن اخت ابي ذرّ، تابعيّ مشهور،ذكره ابن عبد البرّ، فقال: بصريّ، لا تصحّ له صحبة، وإنما يروي عن ابي ذرّ، روي عنه حميد بن عبد الرحمن۔قلت:وزعم ابن مندة انّ البخاري قال: إن اهبان بن صيفي هو اهبان ابن اخت ابي ذرّ، والّذي رايت فى التّاريخ التفرقة بينهما، نعم وحّد بينهما ابن حبان، والصّواب التفرقة‘‘۔
اہبان الغفاری: یہ ابو ذر رضی اللہ عنہ کی بہن کے بیٹے ہیں ، مشہور تابعی ہیں، امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے موصوف کو (الاستیعاب میں) ذکر کر کے کہا : یہ بصری ہیں اور ان کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے اور انہوں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور ان سے حمید بن عبد الرحمن البصری نے روایت کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ امام ابن مندہ رحمہ اللہ نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہبان بن صفی ، یہ اہبان ابو ذر رضی اللہ عنہ کی بہن کے بیٹے ہیں ۔ میں نے امام بخاری کی تاریخ دیکھی تو آپ نے دونوں میں فرق کیا تھا ، ہاں! امام ابن حبان البستی رحمہ اللہ نے دونوں کو ایک کر دیا ہے اور درست یہ ہے کہ دونوں دو شخص ہیں ۔
[الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ بتحقیق عادل و علی:۱؍۳۹۲، ت:۵۶۵]
امام محمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی۷۴۸ھ)نے بھی آپ کو تابعی قرار دیا ہے۔دیکھیں :[تجرید اسماء الصحابۃ:۱؍۳۳، ت:۲۹۳، الناشر :دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر بیروت -لبنان]
اور آپ سے حمید بن عبد الرحمن البصری کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیااور فن جرح وتعدیل کے کسی بھی امام نے موصوف کی توثیق نہیں کی ہے لہذا یہ سند آپ کی جہالت عین کی وجہ سے ضعیف ہے۔ فیما اعلم واللہ اعلم۔
علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔دیکھیں :
[ضعیف الجامع الصغیر وزیادتہ :، ص:۱۱۵، ح:۷۹۴]
اب چند باتیں بطور فائدہ پیش خدمت ہیں :
(فائدہ نمبر:۱) رئیس المحدثین،امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ (المتوفی:۲۵۶ھ) رقمطراز ہیں:
اُهبان، ابن اُخت اَبي ذَرٍّ۔
قَالَ لِي الصَّلْتُ بْنُ مُحَمد: اَخبرني ابْنُ مَهْدِيٍّ، سَمِعَ اَبَا عَوانة، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبد اللّٰهِ، عَنْ حُميد بْنِ عَبد الرَّحمَن، عَنْ اُهبان ابْنِ اُخت اَبي ذَرٍّ، سَاَلتُ اَبَا ذَرٍّ:اَيُّ الرِّقابِ اَزكي؟ قَالَ:سَالتُ النَّبيَّ صَلي اللّٰهُ عَلَيه وسَلم، فَقَالَ: اَغلاَها ثَمَنًا، وخَيرُ اللَّيلِ جَوفُهُ، واَفضَلُ الشُّهُورِ المُحَرَّمُ۔
وَقَالَ لَنَا مُسَدد، عَنْ اَبِي عَوانة، عَنْ عَبد الْمَلِكِ، عَنْ مُحَمد بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ حُميد بْنِ عَبد الرَّحمَن، عَنْ اَبي هُرَيرةَ، عَن النبيِّ صَلي اللّٰهُ عَلَيه وسَلم۔
وعَنْ اَبِي عَوانة، عَنْ اَبِي بِشر، عَنْ حُميد، عَنْ اَبي هُرَيرةَ، عَن النبيِّ ﷺ فِي الصَّلاةِ والمُحرِم۔
وَقَالَ ابْن الْمُبَارَكِ، وغُندَر، عَنْ شُعبة، عَنْ اَبِي بِشر، عَنْ حُميد، عَن النبيِّ صَلي اللّٰهُ عَلَيه وسَلم، مُرسلٌ۔
[التاریخ الکبیر بحواشی محمود خلیل :۲؍۴۵، ت:۱۶۳۴]
راقم کہتا ہے کہ : امام ابن مہدی رحمہ اللہ کی متابعت امام یحیی بن حماد البصری رحمہ اللہ نے کر دی ہے اور یہ متابعت والی سند امام بخاری کو نہیں مل سکی۔واللہ اعلم۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیح مسلم (ح:۱۱۶۳)میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے:
(۱) حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اَبُو عَوَانَةَ، عَنْ اَبِي بِشْرٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ، عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ، وَاَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ۔
(۲) وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ يَرْفَعُهُ، قَالَ:سُئِلَ: اَيُّ الصَّلَاةِ اَفْضَلُ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ؟ وَاَيُّ الصِّيَامِ اَفْضَلُ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ؟ فَقَالَ:اَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ، الصَّلَاةُ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، وَاَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ، صِيَامُ شَهْرِ اللّٰهِ الْمُحَرَّمِ۔
اس حدیث کو امام ابو عوانہ رحمہ اللہ سے کئی ثقہ رواۃ نے بیان کیا ہے ، جن میں امام یحییٰ بن حماد البصری بھی ہیں۔
دیکھیں :[مسند إسحاق بن راہویہ بتحقیق عبد الغفور:۱؍۲۹۹، ح:۲۷۷وسندہ صحیح]
لیکن امام ابن مہدی رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کو امام ابو عوانہ سے بیان نہیں کیا ہے۔واللہ اعلم۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مرفوعاً اور مرسلا ً دونوں طرح سے مروی ہے لیکن اس کا مرفوع ہونا راجح ہے جیساکہ امام دار قطنی رحمہ اللہ نے علل میں فرمایا ہے۔
دیکھیں :[العلل الواردۃ فی الاحادیث النبویۃ بتحقیق محفوظ الرحمن السلفی:۹؍۸۹، رقم:۱۶۵۶]
نیز امام مسلم، امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان البستی وغیرہ نے بھی اسے مرفوعاً ہی صحیح قرار دیا ہے۔
دیکھیں:[صحیح مسلم:۱۱۶۳،و صحیح ابن خزیمۃبتحقیق الاعظمی:۲؍۱۷۶، ح:۱۱۳۴،وصحیح ابن حبان بتحقیق شعیب :۶؍۳۰۲، ح:۲۵۶۳،و مستخرج ابی عوانۃ بتحقیق ایمن بن عارف:۲؍۲۲۵، ح:۲۹۳۵]
(فائدہ نمبر:۲) السنن الکبری للنسائی میں اُہْبَانُ ابْنُ امْرَاَۃِ اَبِی ذَرٍّ ہے اور التاریخ الکبیر للبخاری میں اُہْبَان ابْنِ اُخت اَبی ذَرٍّ ہے اور ائمہ کرام نے اپنی کتب میں امام بخاری کی طرح ہی ان کا تذکرہ کیا ہے اور یہی راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔دیکھیں : [الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۲؍۳۰۹، ت:۱۱۵۸،و الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد البر بتحقیق البجاوی:۱؍۱۱۷، ت:۱۰۲،وجامع التحصیل فی احکام المراسیل للعلائی بتحقیق حمدی السلفی ، ص:۱۴۷، ت:۴۸،و الإنابۃ إلی معرفۃ المختلف فیہم من الصحابۃ لمغلطای بتحقیق مجموعۃ من المحققین :۱؍۹۶، ت:۶۸،و تجرید اسماء الصحابۃ للذہبی:۱؍۳۳، ت:۲۹۳، الناشر :دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر بیروت -لبنان و الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ لابن حجر بتحقیق عادل و علی:۱؍۳۹۲، ت:۵۶۵]
اب چند باتیں بطور تنبیہ پیش خدمت ہیں :
(تنبیہ نمبر:۱) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اہبان البصری کو مشہور تابعی قرار دیا ہے۔
دیکھیں :[الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ بتحقیق عادل و علی:۱؍۳۹۲، ت:۵۶۵]
راقم کہتا ہے کہ: اہبان البصری رحمہ اللہ سے صرف یحیی بن حماد البصری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور کسی بھی امام نے آپ کی توثیق نہیں کی ہے۔ جب کسی راوی کی یہ حالت ہو تو اسے مجہول العین کہا جاتا ہے۔حافظ رحمہ اللہ نے موصوف کو مشہور کیسے کہہ دیا ، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
زیر بحث حدیث کے علاوہ مجھے اہبان البصری کی اور کوئی حدیث نہیں مل سکی۔ واللہ اعلم۔
آپ رحمہ اللہ سے پہلے ائمہ کرام کی ایک جماعت نے اہبان البصری کا تذکرہ اپنی کتابوں میں کیا ہے لیکن کسی بھی امام نے ان کو مشہور قرار نہیں دیا لیکن حافظ رحمہ اللہ نے اہبان البصری کو مشہور کیوں کہا ؟ اس کا علم نہیں ہو سکا۔
(تنبیہ نمبر:۲) دکتور محمد بن عبد الکریم حفظہ اللہ (محقق تخریج الاحادیث المرفوعۃ المسندۃ فی کتاب التاریخ الکبیر للبخاری) زیر بحث حدیث کی سند پر حکم لگاتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’إسنادہ حسن‘‘۔ ’’اس کی سند حسن ہے‘‘۔[تخریج الاحادیث المرفوعۃ المسندۃ فی کتاب التاریخ الکبیر للبخاری : ص:۷۶۵، رقم:۵۲۶]
راقم کہتا ہے کہ دکتور حفظہ اللہ اہبان البصری کو تابعی مانتے ہیں -جیساکہ ان کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے- اور آپ نے ان کی کوئی توثیق پیش نہیں کی ،جب ان کی توثیق جرح و تعدیل کے کسی امام سے منقول نہیں ہے تو ان کی بیان کردہ حدیث کی سند حسن کیسے ہو جائے گی۔ آپ کا سند کو حسن قرار دینا بلا شبہ درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
خلاصۃ التحقیق : زیر بحث حدیث ضعیف ہے کیونکہ اہبان البصری رحمہ اللہ مجہول العین ہیں ۔آپ سے صرف یحیی بن حماد البصری نے روایت کیا ہے اور جرح و تعدیل کے کسی امام نے آپ کی توثیق نہیں کی ہے۔ واللہ اعلم۔