-
صفر، بدشگونی اور اسلام صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے اور اس کی کوئی خصوصی فضیلت ثابت نہیں ہے لیکن قدیم و جدید دور میں اس مہینے کو منحوس اور برا سمجھنے کا غلط عقیدہ موجود رہا ہے، ساتھ ہی کسی چیز سے بدشگونی لینا یا اس کو منحوس سمجھنا بھی کسی نہ کسی شکل میں پہلے بھی موجود تھا اور اب بھی موجود ہے، موسیٰ علیہ السلام کے دور میں مصیبت کے نزول کے وقت لوگ ان سے کہتے تھے کہ تمہاری وجہ سے ہم پر یہ مصیبت آئی ہے، صالح علیہ السلام کے زمانے میں ان کی قوم کے درمیان بدشگونی موجود تھی، سورہ یس میں انطاکیہ والوں نے اللہ کے تین رسولوں کو اپنے لیے منحوس سمجھا، خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں عربوں کے یہاں بھی نحوست کا یہ عقیدہ موجود تھا اور اس کی کئی شکلیں انہوں نے اختیار کی ہوئی تھیں بلکہ صفر کے مہینے کو خصوصی طور سے ان لوگوں نے منحوس قرار دے رکھا تھا۔
لیکن جب اسلام آیا تو اللہ نے اپنے نبی ﷺ کے ذریعے اس غلط عقیدے پر رد کیا اور سرے سے نحوست اور بدشگونی کے عقیدے کا بائیکاٹ کرتے ہوئے کہا کہ نفع نقصان والی ذات اللہ کی ہے، وہی جس کو چاہے فائدہ دے اور جس کو چاہے نقصان سے دوچار کر دے، خود نبی ﷺنے احادیث کے ذریعے نام لے کر اس مہینے کے تعلق سے فرمایا:’’وَلَا صَفَرَ‘‘ یعنی صفر کا مہینہ منحوس نہیں ہے، مزید اسی حدیث میں آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا : ’’وَلَا طِيَرَةَ‘‘کہ بدشگونی کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
یاد رکھیں کہ کوئی دن، مہینہ، سال، وقت، جگہ، چیز یا انسان منحوس نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی کسی چیز سے بدشگونی لینا چاہیے بلکہ آپﷺنے ایک حدیث کے اندر تین مرتبہ فرمایا کہ بدشگونی لینا شرک ہے اور جو بندہ بھی بدشگونی کے غلط عقیدے میں ملوث ہوتا ہے تو اللہ پر توکل کا درست عقیدہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ انسان اس کو نفع نقصان کا مالک سمجھ بیٹھتا ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نحوست کا عمل برا عقیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کی ذات سے بدگمانی بھی ہے، اس لیے کہ اس نے اللہ کے بجائے کسی اور کو نفع نقصان کا مالک سمجھ لیا اور بندہ جب اللہ کی ذات سے بدگمان ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جس کا اسے اندیشہ ہوتا ہے۔
ایک بات سمجھنے کی یہ ہے کہ عرب کے لوگ شوال کے مہینے کو بھی منحوس سمجھتے تھے، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس حوالے سے فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے میری شادی شوال کے مہینے میں ہوئی اور اسی مہینے میں رخصتی بھی ہوئی، تو بتاؤ کہ مجھ سے زیادہ نبی ﷺ کس سے محبت کرتے ہیں؟ پتہ یہ چلا کہ نحوست کا یہ عقیدہ انسان کے اپنے دماغ کی پیداوار ہے، حقیقت اور شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور یہی معاملہ صفر کا بھی ہے۔
سماج میں بدشگونی لینے کی مختلف شکلیں موجود ہیں جیسے کسی خاص نمبر کو منحوس سمجھنا، صفر کے مہینے کے ابتدائی تیرہ دن کو منحوس سمجھنا اور اس کو تیرہ تیزی کا نام دینا اور اس کی بے برکتی کو ختم کرنے کے لیے چنے ابالنا، اس مہینے کے آخری بدھ (چہار شنبہ) کو منحوس سمجھنا کیونکہ اسی دن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیماری کا آغاز ہوا تھا، اس مہینے میں شادی بیاہ نہ کرنا، کالی بلی کو منحوس سمجھنا، الو کی آواز سے ڈرنا، پتہ نہیں کس کا چہرہ دیکھ لیا تھا، شادی کے قریب یا اس کے بعد کسی حادثے کی وجہ سے بہو یا داماد منحوس سمجھنا، کسی کی وجہ سے فائدہ یا نقصان کا عقیدہ، کسی ایکسیڈنٹ کی وجہ سے گاڑی کو بیچ دینا یا ڈرائیونگ چھوڑ دینا وغیرہ، یہ اور ان جیسے بہت سے بدشگونی والے غلط عقائد سماج میں لوگوں کے درمیان پائے جاتے ہیں۔
محترم قارئین! عقیدہ کا درست ہونا سب سے اہم چیز ہے اور شیطان کی کوشش بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ انسان کے عقیدے کو بگاڑ دے، اس لیے کوشش یہ کریں کہ اپنے عقائد کی اصلاح کریں، اس قسم کے غلط عقائد سے توبہ کریں، نفع نقصان کا مالک صرف اللہ ہے، وہی چاہے تو نفع یا نقصان ہو، اس کی اجازت اور مرضی کے بغیر ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا، نحوست یا بدشگونی کا خیال ذہن میں آئے تو اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیں، توکل علی اللہ سے اپنے آپ کو جوڑیں اور یاد رکھیں کہ جو انسان اس غلط عقیدے سے بچ جائے تو وہ اتنا بڑا خوش نصیب ہے کہ اللہ ان ستر ہزار لوگوں میں شامل کر دے گا جنہیں بنا حساب کتاب کے جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔
اللہ ہمیں اس قسم کے غلط عقائد سے بچنے کی توفیق دے اور ہمیں جنت میں بنا حساب کتاب کے داخل ہونے والے خوش نصیبوں میں شامل کر دے۔ آمین
٭٭٭