-
اور جب رسول اکرم ﷺ ایک نابیناصحابی عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے اہل ایمان کے ایمان کو جلا ملتی ہے ، سیرت صحابہ کے مطالعہ سے اہل ایمان کو ایسانور ملتا ہے جس کی روشنی میں ان کے لیے شاہراہ ہدایت پر چلنا بالکل آسان ہوجاتا ہے ، سیرت صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ایسا صاف وشفاف آئینہ ہے جس میں اتباع رسول ﷺکی حقیقی تصویر پورے طورپر نظر آتی ہے ، پس جوشخص بھی محمد رسول اللہ ﷺکی حقیقی اتباع و پیروی کرکے جنت الفردوس حاصل کرنا چاہتا ہو تو اسے سیرتِ صحابہ کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنا چاہیے ۔ اس مختصر سے مضمون میں ایک نابینا صحابیٔ رسول عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کی زندگی کا ایک خوبصورت ویادگار واقعہ مع دس فوائد پیش خدمت ہے :
اَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الاَنْصَارِيُّ، اَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ، وَكَانَ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الاَنْصَارِ: اَنَّهُ اَتَي رَسُولَ اللّٰهِ ﷺَ، فَقَال: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِنِّي اَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَاَنَا اُصَلِّي لِقَوْمِي، فَإِذَا كَانَتِ الاَمْطَارُ سَالَ الوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ، لَمْ اَسْتَطِعْ اَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ فَاُصَلِّيَ لَهُمْ، فَوَدِدْتُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ، اَنَّكَ تَاْتِي فَتُصَلِّي فِيْ بَيْتِي فَاَتَّخِذُهُ مُصَلًّي، فَقَالَ: سَاَفْعَلُ إِنْ شَائَ اللّٰهُ قَالَ عِتْبَانُ: فَغَدَا رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ وَاَبُو بَكْرٍ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَاْذَنَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتّٰي دَخَلَ البَيْتَ، ثُمَّ قَالَ لِي اَيْنَ تُحِبُّ اَنْ اُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟ فَاَشَرْتُ إِلَي نَاحِيَةٍ مِنَ البَيْتِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ فَصَفَفْنَا، فَصَلَّي رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، وَحَبَسْنَاهُ عَلٰي خَزِيرٍ صَنَعْنَاهُ، فَثَابَ فِي البَيْتِ رِجَالٌ مِنْ اَهْلِ الدَّارِ ذَوُو عَدَدٍ فَاجْتَمَعُوا، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: اَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: ذَلِكَ مُنَافِقٌ، لَا يُحِبُّ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:’’لَا تَقُلْ، اَلَا تَرَاهُ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللّٰهِ؟ ‘‘قَال: اللّٰهُ وَرَسُولُهُ اَعْلَمُ، قَالَ: قُلْنَا: فَإِنَّا نَرَي وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ إِلَي المُنَافِقِينَ، فَقَالَ:’’فَإِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ عَلَي النَّارِ مَنْ قَال: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللّٰهِ‘‘۔
محمود بن ربیع انصاری نے خبر دی کہ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ جو نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے تھے اور قبیلۂ انصار کے ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بدر کی لڑائی میں شرکت کی تھی، نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ!میری بصارت کمزور ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں۔ برسات میں وادی جو میرے اور ان کے درمیان حائل ہے۔ بہنے لگتی ہے اور میرے لیے ان کی مسجد میں جانا اور ان میں نماز پڑھنا ممکن نہیں رہتا۔ اس لیے یا رسول اللہ!میری یہ خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور میرے گھر میں آپ نماز پڑھیں تاکہ میں اسی جگہ کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ان شاء اللہ میں جلد ہی ایسا کروں گا۔ عتبان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ چاشت کے وقت جب سورج کچھ بلند ہو گیا تشریف لائے اور نبی کریم ﷺنے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ میں نے آپ کو اجازت دے دی۔ آپ بیٹھے نہیں بلکہ گھر میں داخل ہو گئے اور دریافت فرمایا کہ اپنے گھر میں کس جگہ تم پسند کرتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ نبی کریم ﷺ وہاں کھڑے ہو گئے اور (نماز کے لیے)تکبیر کہی۔ ہم نے بھی (آپ کے پیچھے)صف بنا لی۔ نبی کریم ﷺ کو خزیرہ ( ایک قسم کی ڈش) کے لیے جو آپ کے لیے ہم نے بنایا تھا روک لیا۔ گھر میں قبیلہ کے بہت سے لوگ آس پڑوس سے آ آ کر جمع ہو گئے۔ ان میں سے ایک صاحب نے کہا مالک ابن دخنش کہاں ہیں؟ اس پر کسی نے کہا کہ وہ تو منافق ہے اللہ اور اس کے رسول سے اسے محبت نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ نہ کہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ انہوں نے اقرار کیا ہے کہ لا إلہ إلا اللہ یعنی اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور اس سے ان کا مقصد صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ ان صحابی نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔
راوی نے بیان کیا کہ ہم نے عرض کیا (یا رسول اللہ!) لیکن ہم ان کی توجہ اور ان کا لگاؤ منافقین کے ساتھ ہی دیکھتے ہیں۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا:لیکن اللہ نے دوزخ کی آگ کو اس شخص پر حرام کر دیا ہے جس نے کلمہ لا إلہ إلا اللہ کا اقرار کر لیا ہو اور اس سے اس کا مقصد اللہ کی خوشنودی ہو۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر میں نے حصین بن محمد انصاری سے جو بنی سالم کے ایک فرد اور ان کے سردار تھے۔ محمود کی حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی۔
[صحیح بخاری:۵۴۰۱]
فوائد: ۱۔ نابینا شخص کی امامت جائز ہے کیونکہ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ بدری صحابی ہیں جو اپنی قوم بنی سالم کی امامت کیا کرتے تھے لیکن بعد میں کسی بیماری کی وجہ سے ان کی بینائی سلب ہوگئی تھی ،اور ان کے گھر اور مسجد کے درمیان ایک وادی تھی جس کی وجہ سے بارش کے موسم میں وادی پانی سے بھر جاتی تھی اور قوم کے پاس امامت کے لیے جانا بہت مشکل ہوتا تھا۔ اس لیے نبی ﷺسے درخواست کی کہ آپ میرے گھر کسی جگہ نماز پڑھ کر میرے لیے مخصوص کردیں تاکہ میں وہیں اپنی نمازیں پڑھ لیا کروں ۔
معلوم ہواکہ جو شخص عتبان بن مالک کی طرح نابینا ہو اور اس کے اور مسجد کے درمیان کا راستہ بہت لمبا اور دشوار گزار ہو تو ایسا شخص فرض نمازوں کو بھی اپنے گھر میں ادا کرسکتا ہے ۔ لیکن اگرراستہ زیادہ مشکل نہ ہوتو فرض نمازیں مسجد ہی میںباجماعت ادا کرنی چاہیے ۔
۲۔ اگر کوئی شخص کسی شخص کو اپنے گھر کسی خاص ضرورت کے تحت بلائے تو اس کے گھر پہنچتے ہی وقت ضائع کیے بغیر سب سے پہلے اس کی ضرورت پوری کرنی چاہیے ، جیساکہ نبی ﷺگھر پہنچتے ہی عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہیں: اَيْنَ تُحِبُّ اَنْ اُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟
علامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے اس بات کو ایک فصیح مثال سے اس طرح سمجھایا ہے کہ فرض کرو! کسی اہم مسئلہ کی تلاش کے لیے آپ نے کوئی کتاب کھولی، فہرست کھولتے ہی آپ کی نظر مطلوبہ سوال کے جواب کے بجائے کسی اور سوال کے جواب پر پڑ گئی اور آپ اسی کے پیچھے لگ گئے اور اس سوال کے بعد کسی اور سوال کا جواب پڑھنے لگے اصل مسئلہ جس کو تلاش کرنے کے لیے آپ نے کتاب کھولی تھی اسے فراموش کردیا تو آپ کا وہ مقصد فوت ہوجائے گا جس کے لیے آپ نے کتاب کھولی تھی ۔
۳۔ اگر کسی شخص نے ہمیں خصوصی طور پر بھی اپنے گھر بلایا ہو تو بھی اس کے گھر میں سیدھا نہیں داخل ہونا چاہیے بلکہ پہلے دستک دے کر اجازت طلب کرنی چاہیے جیساکہ رسول اللہ ﷺنے پہلے اجازت طلب کی پھر گھر میں داخل ہوئے ۔
۴۔ بسا اوقات کسی خاص موقع پر نفل نماز بھی باجماعت ادا کی جاسکتی ہے مگرہمیشہ نہیں ۔،جیسا کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے چند صحابہ کے ساتھ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر نفل نماز باجماعت ادا فرمائی ۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے’’ کتاب التہجد‘‘ میں اس روایت پر یوں باب باندھا ہے ’’ بَابُ صََلَاۃِ النَّوَافِلِ جَمَاعَۃً‘‘حدیث :۱۱۸۶)
۵۔ اگر کوئی شخص معذور ہونے کی بناپر گھر میں فرض نمازوں کے لیے کوئی جگہ خاص کرلے تو اس کا حکم اصطلاحی اور عرفی مساجد کا نہیں ہوگا کہ اس میں داخل ہوتے ہی تحیۃ المسجد ادا کی جائے ، اس میں اعتکاف کیا جائے وغیرہ بلکہ اس کاحکم صرف لغوی معنیٰ میںمسجد کے طور پر ہوگا ۔
۶۔ کسی شخص کے بارے میں بلا تحقیق منافق یا کافر یا فاسق وغیرہ کا لفظ بولنا جائز نہیں ۔
۷۔ اگرکسی صاحب ایمان کو لوگ بلا کسی دلیل و ثبوت کے محض گمان کی بناپر کافر یا منافق کہہ رہے ہوں تو اس بھائی کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے لوگوں کو اس کی برائی کرنے ،یعنی اسے منافق یاکافر وغیرہ کہنے سے منع کرنا چاہیے ۔ جیساکہ رسول اللہ ﷺنے لوگوں سے فرمایا: لَا تَقُلْ، اَلَا تَرَاهُ قَال:لَاإِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللّٰهِ؟ ’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ نہ کہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ انہوں نے اقرار کیا ہے کہ لا إلٰہ إلا اللہ یعنی اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور اس سے ان کا مقصد صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے‘‘۔
بعض لوگوں نے انہیں مالک بن دخشم کہاہے۔یہ بلااختلاف بدرکی لڑائی میں شریک تھے اورسہیل بن عمرو کافرکو انہوں نے ہی پکڑا تھا۔(صرف کلمہ کا اقرار جنت میں جانے کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کے تقاضوں کابھی پورا کرنا ضروری ہے ۔ جیساکہ ایک شاعر کہتا ہے: چوں میگوئم مسلمانم بلرزم کہ دانم مشکلات لا الٰہ را
ترجمہ : جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں ،تو لرز جاتا ہوں،کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ کلمۂ طیبہ ’’لا الٰہ الا اللّٰہ‘‘ کا اقرار کرکے اس پر عمل کرنا یعنی اس کے تمام تقاضوں کا پورا کرنا کتنا مشکل ہے ۔
۸۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ صحابۂ کرام محمد رسول اللہ ﷺسے بے پناہ محبت کرتے تھے کیونکہ جیسے صحابۂ کرام کو پتہ چلا کہ نبی ﷺعتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر آئے لوگ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف رسول اللہ ﷺسے ملاقات کرنے کے لیے دوڑ پڑے ۔
۹۔ اس واقعہ سے رسول اللہ ﷺکے تواضع کا بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ نے ایک غریب صحابی کی دعوت قبول فرمائی اور ان کے مخصوص پکوان خزیر (گوشت کا باریک قیمہ کر کے دیگ میں ڈال دیا جاتا ہے، پھر اس میں پانی ڈال کر نیچے آگ جلاتے ہیں، جب قیمہ پک جاتا ہے تو اس پر جَوکا آٹا ڈالتے ہیں،جو بہت لذیذ ہوجاتا ہے)کے پکنے کا انتظا ر کیا اور اسے کھاکر ہی گئے تاکہ مہمان نواز کو تکلیف نہ ہو۔
آج کل بہت سارے لوگ اگر دعوت میں ذراسی دیر ہوجائے یا دعوت کے انتظامات میں کوئی کمی یا نقص رہ جائے تو دعوت کی مجلس ہی سے چیختے چلاتے اور مہمان نوازکو ذلیل کرتے ہوئے بھاگنے لگتے ہیں یہ محمد رسول اللہﷺ کی سنت کے سراسرخلاف ہے ۔
۱۰۔ اگر میزبان کی دریا دلی اور فیاضی پر بھروسہ ہو اور اس سے بے تکلفی ہویا اس کے مزاج سے واقفیت ہو کہ اگر ایک دو لوگوں کو اور ساتھ لے لیں تو ناراض نہیں ہوگا تو اورلوگوں کو بھی دعوت میں لے جاسکتے ہیں ۔ جیساکہ بعض دوسری روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺکے ساتھ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی عتبان بن مالک کے گھر تشریف لے گئے تھے۔
آخر میں دعاہے کہ رب کریم ہم تمام مسلمانوں کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے فہم اور منہج کی روشنی میں اتباع رسول ﷺ کی توفیق عطا فرمائے۔آمین