Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • متعالمین کا فتنہ اور اس کا علاج

    ایک چیز ہے عالم ہونا ایک چیز ہے عالم بننا۔ سو جو عالم ہے وہ علم بانٹے مگر جو عالم نہیں ہے وہ خود کو معقولات و منقولات کا امام سمجھ کر علم کے نام پر اپنی لن ترانیاں بانٹے ایسے شخص کو’’متعالم‘‘(wiseacre)کہتے ہیں۔ جھولا چھاپ ڈاکٹر جس طرح جسمانی صحت کے لیے مضر ہے اسی طرح یہ متعالمین علمی صحت کے لیے۔ نیم حکیم خطرہ جاں، نیم ملا خطرہ ایماں۔
    علامہ صالح الفوزان سے پوچھا گیا (اور یہ فتویٰ ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے)کہ عالم اور متعالم کے درمیان فرق کیسے ہو؟ تو علامہ صاحب نے فرمایا کہ یہ بہت واضح بات ہے۔ علماء لوگوںکے درمیان معروف ہیں ۔ جب کہ متعالم وہ شخص ہے جس نے علماء و مشائخ سے کسب علم نہ کیا ہو، بس کچھ کتابیں پڑھ رکھی ہوں، علم کو علماء سے نہ حاصل کیا ہو، ایسا شخص لقیط ہے نہ کہ عالم۔ لقیط اس نوزائیدہ بچے کو کہتے ہیں جو پبلک پلیس یا کوڑے دان وغیرہ میں ملے اور اس کے ماں باپ کا کچھ پتہ نہ ہو۔
    متعالمین کا امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ راسخین فی العلم کے پاس جو علمی اصالت(Scientific authenticity)ہے اس سے حسد کرتے ہیں، اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور علماء کے پاس جو علمی رسوخ ہے اس کے دشمن ہوتے ہیں۔ شاعر نے سچ ہے:
    جَهِلْتُ فَعَادَيْتُ الْعُلُومَ وَأَهْلَهَا كَذَاك يُعَادِي الْعِلْمَ مَنْ هُوَ جَاهِلُهْ
    ایسے لوگ عام طور خاص ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ خود اشتہاری اور خود توصیفی( Self glorifying)کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ خود گنگو تیلی رہتے ہیں مگر بڑے بڑے علمی راجوں کو اپنے آگے ہیچ سمجھتے ہیں۔ مثلاً ابھی ہفتہ عشرہ قبل ایک خبر یہ دیکھنے میں آئی کہ انجینئر محمد علی مرزا جو مصحف سے دیکھ کر بھی قرآن صحیح ڈھنگ سے پڑھنے سے عاجز ہے، عربی اور علمی دقائق سے نابلدیہ سب باتیں اپنی جگہ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ متعالم کے حوالے سے شرع شریف کا موقف کیا ہے۔ آئیے ایک آیت اور ایک حدیث سے اس کو سمجھ لیتے ہیں۔
    اللہ پاک نے فرمایا: {قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ}[الأعراف:۳۳]
    ’’اے محمد! ان سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں:بے شرمی کے کام، خواہ کھلے ہوں یا چھپے، اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی، اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اس نے فرمائی ہے ‘‘ (ترجمہ مودودی)
    امام عالی مقام ابن قیم رحمہ اللہ اس آیت پر کمنٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ نے محرمات کی چار مراتب بیان فرمائے ہیں۔ اور سب سے کم مرتبہ محرمات یعنی فواحش کا ذکر ابتدا میں کیا، دوسرے نمبر پر اس سے سخت محرمات یعنی ناحق ظلم و اثم کا بیان ہوا۔ پھر تیسرے نمبر پر اس سے بھی زیادہ شدید حرام کام یعنی شرک کا تذکرہ کیا۔ پھر آخر میں اللہ نے ان تمام سے بڑا گناہ ذکر کیا یعنی ’’قول علی اللہ بغیر علم‘‘(اللہ کے ذمہ ایسی بات لگانا جو اللہ نے نہ کہی ہو)
    اس سے صاف پتہ چل گیا کہ ایسے متعالمین جو اللہ کے نام پر بے سروپا باتیں کرتے ہیں ان کا انجام کیا ہوگا۔
    حدیث پاک میں پیغمبر رؤف و رحیم نے فرمایا ہے :’’الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ‘‘[بخاری :۵۲۱۹، مسلم:۲۱۲۹]
    جو چیز حاصل نہ ہو اس پر فخر کرنے والا اس شخص جیسا ہے جو فریب کے جوڑے پہنے (یعنی جھوٹا ہے)۔
    متعالمین کے حوالے سے میرے ذاتی مشاہدات اور شنیدہ حکایات تو بہت سی ہیں مگر طوالت کے خوف سے قلم انداز کرتا ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ چھٹ بھیے متعالمین ائمہ عظام تک پر کمنٹ پاس کر رہے ہوتے ہیں۔ جرأت بے جا کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر سوال کا جواب دینا فرض منصبی گردانتے ہیں ۔ ان کو نہیں معلوم کہ محض اپنے وقت کے نہیں ، عصر کے نہیں بلکہ دنیائے اسلام کے تمام ازمنہ کے تین بڑے امام:مالک، شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ بڑے فخر سے سوالوں کے جواب میں ’’لا أدری‘‘فرمایا کرتے تھے۔
    متعالم کی بعض علامات:
    ۱۔ ایسی کتابوں کو پڑھنے کا مشورہ دے جس کا اس نے خود مطالعہ نہ کیا ہو۔
    ۲۔ وہ ناخواندہ کتابوں کا حوالہ دے کر یا نام لے لے کر دھونس جمانے۔
    ۳۔ ایسے دینی مسائل میں کلام کرے جو مدت مدید مطالعہ کے متقاضی ہوں۔
    ۴۔ کبار علماء جن امور پر زبان کھولنے سے کتراتے ہوں ان مسائل پر بے تکان بولنا۔
    ۵۔ اچھوتے مسائل بیان کرے اور انوکھی تشریحات کرے۔
    ۶۔ انوکھی معلومات دینے کا مدعی ہو۔
    ۷۔ علوم و فنون کے متفقہ اصولوں میں غلطیاں نکالے۔
    ۸۔ لن ترانیاں جھاڑے۔ خود کو ہرفن مولیٰ سمجھے۔ بزبان خود اپنی تعریف میں رطب اللسان رہے۔
    ۹۔ علماء راسخین پر کلام کرے۔
    ۱۰۔ وہ ہر مسئلہ پر کچھ عمومی دلائل کا انطباق کرنے پر ہمیشہ تیار رہے۔
    ۱۱۔ قرون ثلاثہ میں جو تعامل رہا ہو اس کے برخلاف کوئی رائے دے۔
    ۱۲۔ اپنے فالوورز بڑھانے پر پورا زور صرف کرے۔
    ۱۳۔ ہر فن پر بے لاگ گفتگو کرے۔
    ۱۴۔ بدیہات اور دین سے ضروری طور پر معلوم باتوں میں بھی موشگافی کرے۔
    ۱۵۔ ہر چیز میں شک کرے اور اختلاف کو روا رکھے۔ بطور خاص صحابہ کی شان میں نازیبا کلمات کہنا جائز سمجھے۔
    ۱۶۔ خود اشتہاری کو ہدف اصلی بنا لے۔ وغیرہ وغیرہ
    یہ کچھ اوصاف ہیں جو بالعموم متعالمین میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید اوصاف بھی ہو سکتے ہیں۔ متعالمین کب کیا کر بیٹھیں اس بابت کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
    دراصل لوگوں کی علم کے لحاظ سے چار قسمیں ہیں۔
    ۱۔ عالم جو اپنے علم کا شعور رکھتا ہو۔
    ۲۔ عالم جو اپنے علم کا شعور نہ رکھتا ہو۔
    ۳۔ جاہل جس کو اپنی جہالت پتہ ہو۔
    ۴۔ ایسا جاہل جس کو اپنی جہالت کا شعور نہ ہو۔ یعنی جاہل محض۔
    سو یہ متعالمین اس آخری صنف سے ہی بلانگ (Belong)کرتے ہیں۔
    علاج: اس کا علاج ایک حرف سے ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ متعالمین اپنے اندر سے الف نکال لیں۔ یعنی متعلمین بن جائیں۔
    دوسرا علاج حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ والا ہے۔
    واقعہ یوں ہے کہ بنوتمیم کا ایک آدمی جس کا نام صبیغ بن عسل تھا۔ وہ کچھ کتابیں لے کر مدینہ آیا۔ اور لوگوں سے متشابہات قرآن کے سلسلے میں سوال کرنے لگا۔ اس کی بھنک امیر المومنین عمر بن خطاب کے کانوں میں پڑی تو انھوں نے کھجور کی کچھ ٹہنیاں تیار کیں اور اس شخص کو طلب کیا۔ جب وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور بیٹھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا:تم کون ہو؟
    اس نے کہا: اللہ کا بندہ صبیغ
    عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اور میں اللہ کا بندہ عمر ہوں۔
    پھر اس کی طرف لپکے اور کھجور کی ٹہنیوں سے اس کو پیٹنا شروع کردیا ۔ یہاں تک کہ اس کے چہرے سے خون بہنے لگا تو اس نے کہا : امیر المومنین بس کیجیے۔ وہ ساری الول جلول چیزیں اور خرافات جو میرے دماغ میں تھیں اب نکل گئیں۔ [أخرجہ الدارمی:۱؍۲۵۲، تحت رقم:۱۴۶، والآجری فی الشریعۃ:۱؍۴۸۳، تحت رقم:۱۵۳،(۵؍۲۵۵۶، تحت رقم:۲۰۶۵، واللالکائی فی شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ:۴؍۷۰۲، تحت رقم:۱۱۳۷۔۱۱۳۸،تخریج از علامہ محمد عمر بازمول]
    آخر میں حافظ کا شعر لکھ کر بات ختم کرتا ہوں:
    رموز مصلحت ملک خسروان دانند
    گدای گوشہ نشینی تو حافظا خاموش

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings