Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • معذور لوگوں کا عید گاہ جانے سے متعلق علی رضی اللّٰہ عنہ کا موقف

    امام ابن أبی شیبہ رحمہ اللہ (المتوفی۲۳۵)نے کہا:
    حدثنا وکیع ، عن سفیان ، عن أبی قیس ، قال: أظنہ ، عن ہزیل:’’ أن علیا أمر رجلا یصلی بضعفۃ الناس یوم العید أربعا ، کصلاۃ الہجیر‘‘
    ہزیل بن شرحبیل فرماتے ہیں کہ:’’علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ عید کے دن کمزور لوگوں کو (جوعیدگاہ جانے سے معذرو ہیں انہیں)لے کر چار رکعات ، نماز ظہر کی طرح پڑھا دے‘‘[مصنف ابن أبی شیبۃ۔ سلفیۃ: ۲؍۱۸۵، وإسنادہ حسن، وأخرجہ الشافعی فی الأم:۷؍۱۷۶،بسند حسن ومن طریقہ البیہقی فی معرفۃ السنن والآثار: ۵؍۱۰۲،من طریق ابن مہدی ، وأخرجہ ابن المنذر فی الأوسط :۴؍۲۹۵،بسند حسن من طریق مسلم بن إبراہیم وأخرجہ البیہقی فی السنن الکبری :۳؍۴۳۴،من طریق عاصم ، ثلاثتہم (ابن مہدی ومسلم بن إبراہیم وعاصم) من طریق شعبۃ، عن محمد بن النعمان، عن أبی قیس بہ]
    اس روایت سے معلوم ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ کا موقف بھی ابن مسعود رضی اللہ عنہ جیساہی ہے ، البتہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ان لوگوں سے متعلق ہے جن کی نماز عید گاہ میں چھوٹ جائے ، جبکہ علی رضی اللہ عنہ کی روایت ان لوگوں سے متعلق ہے جو کسی عذر کی بنا پرعید گاہ جانے پر قادر ہی نہ ہوں ، بہرحال اس سلسلے میں علی رضی اللہ عنہ کا موقف یہ ہے کہ ایسے لوگ ظہر کی طرح چار رکعات نماز پڑھیں گے۔
    علی رضی اللہ عنہ کا ظہر کی طرح چار رکعات کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ عید گاہ اور اجتماع عام کے بغیر نماز عید پڑھنے کے قائل نہیں ہیں اور ایسی صورت میں وہ بدل کے طور پر چار رکعات پڑھنے کی رائے رکھتے ہیں ۔بعض روایات میں اس کی مزید صراحت بھی ہے لیکن وہ ضعیف ہیں ۔
    معلوم ہوا کہ عیدگاہ اور اجتماع عام کے بغیر نماز عید سے متعلق علی رضی اللہ عنہ کا بھی وہی موقف ہے جو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہے اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اسی کو اپنایا ہے، اور عصر حاضر میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اسی کو دہرایا ہے۔
    شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    لهذا ذهب شيخ الإسلام ابن تيمية ـ رحمه اللّٰه ـ إلى أنها لا تقضي إذا فاتت، وأن من فاتته، فلا يسنّ له أن يقضيها؛ لأن ذالك لم يرد عن النبى صلّى اللّٰه عليه وسلّم، ولأنها صلاة ذات اجتماع معين، فلا تشرع إلا على هذا الوجه۔
    فإن قال قائل: أليست الجمعة ذات اجتماع على وجه معين، ومع ذالك تقضي؟
    فالجواب: الجمعة لا تقضي، وإنما يصلي فرض الوقت، وهو الظهر، وصلاة العيد أيضاً نقول: فات الاجتماع فلا تقضي، وليس لهذا الوقت فرض، ولا سنّة أيضاً۔
    فهي صلاة شُرعت علٰي هذا الوجه، فإن أدركها الإنسان على هذا الوجه صلاها، وإلا فلا۔
    وبناء ً على هذا القول يتضح أن الذين فى البيوت لا يصلونها، ولهذا أمر رسول اللّٰه صلّى اللّٰه عليه وسلّم الناس أن يخرجوا إليها، وأمر النساء العواتق، وذوات الخدور، وحتي الحيَّض أن يشهدن الخير ودعوة المسلمين ، ولم يقل: ومن تخلف فليصلِّ فى بيته۔
    فإذا قال قائل: لماذا لا نقضيها فإن كنا مصيبين فهذا هو المطلوب، وإن كنا غير مصيبين فإننا مجتهدون؟
    فالجواب: نعم، الإنسان إذا اجتهد وفعل العبادة على اجتهاد فله أجر على اجتهاده وعلي فعله أيضاً، لكن إذا تبيّنت السنّة، فلا تمكن مخالفتها۔
    [الشرح الممتع علی زاد المستقنع: ۵؍۱۵۶]
    (ترجمہ) اسی لئے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ اگر عید کی نماز فوت ہوجائے تو اس کی قضاء نہیں کی جائے گی ، لہٰذا جس کی عید کی نماز چھوٹ جائے اس کے لئے یہ مسنون نہیں ہے کہ وہ اس کی قضاء کرے ، کیونکہ یہ چیز اللہ کے نبی ﷺسے وارد نہیں ہے ، نیز اس لئے بھی کہ یہ خاص اجتماع والی نماز ہے اس لئے یہ اس خاص کیفیت کے علاوہ کسی اور شکل میں مشروع نہیں ہے ۔
    اگر کوئی کہے کہ :کیا جمعہ بھی خاص شکل میں اجتماع والی نماز نہیں ہے ، اس کے باوجود بھی اس کی قضاء کی جاتی ہے؟
    تو اس کا جواب یہ ہے کہ جمعہ کی قضاء نہیں کی جاتی ہے بلکہ اس وقت کی فرض نماز پڑھی جاتی ہے اور وہ ظہرکی نماز ہے، اور نماز عید کے بارے میں بھی ہم یہی کہیں گے کہ اس کا اجتماع فوت ہوگیا اس لئے اس کی قضاء نہیں کی جائے گی، لیکن اس وقت نہ تو کوئی فرض نماز ہے اور نہ ہی سنت نماز ہے۔
    تو یہ ایسی نماز ہے جو اس خاص کیفیت میں مشروع ہے تو اگر کسی کو اسی کیفیت کے ساتھ یہ نماز ملے گی تو اسے پڑھے گا ، ورنہ یہ نماز نہیں پڑھے گا۔
    اس تفصیل کے بعد یہ چیز واضح ہوجاتی ہے کہ جو لوگ گھروں میں ہیں وہ عید کی نماز نہیں پڑھیں گے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی ﷺنے حکم دیا ہے کہ عید کے لئے باہر نکلا جائے اور جوان لڑکیوں ، پردہ نشین خواتین حتیٰ کہ حائضہ عورتوں کو بھی حکم دیا کہ وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں اور یہ نہیں کہا کہ جو پیچھے رہ جائیں وہ گھروں میں نماز عید پڑھ لیں۔
    اگرکوئی کہے کہ: ہم اس کی قضاء کیوں نہ کریں اگر ہم صحیح کریں گے تو یہی مطلوب ہے اور غلطی کریں گے تو یہ ہمارا اجتہاد ہوگا۔
    تو اس کا جواب یہ ہے کہ: ہاں ! ایک انسان جب اجتہاد کرے اور اجتہاد کرتے ہوئے ایک عبادت انجام دے تو اسے اجتہاد کا اور عبادت کا اجر ملے گا ، لیکن جب سنت واضح ہوجائے تو اس کی مخالفت ممکن نہیں ہے۔[الشرح الممتع علی زاد المستقنع: ۵؍ ۱۵۶]
    نوٹ:
    یہ اثر بطور فائدہ اور معلومات کے پیش کیا گیا ہے ورنہ ہم انس رضی اللہ عنہ کے موقف ہی کو راجح سمجھتے ہیں کہ گھر میں بھی عید کی نماز ہوسکتی ہے ۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings