Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • اسلام سے عورت کی وفاداری کے بنیادی پہلو

    اسلام اپنے تمام تر محاسن سمیت اعلیٰ امتیازی شان کا حامل ہے اور کیوں نہ ہو یہ دنیا بھر کے تمام ادیان میں واحد دین حق ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے کتاب و سنت کی شکل میں محفوظ کر دیا ہے۔
    اسلام کی تعلیمات فطرت کے عین موافق ہیں جس میں ہر بنی نوع انسان کو اس کا حق حاصل ہے، جس میں نہ صرف انسان بلکہ دیگر حیوانات کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تاکید وارد ہے۔
    اسلام نے حق تلفی جیسے گھناؤنے جرم سے زمین کو پاک کیا، ظلم و ستم کی ہر صورت کا خاتمہ کیا اور احسان کی بھرپور ہدایت فرمائی، کیونکہ حقوق کی سلامتی سماج کے امن و سکون کی ضامن ہے، جب تک حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کما حقہ ہوتی رہے گی تب تک زمین امن و امان کا گہوارہ بنی رہے گی اور جب حقوق تلف ہونے لگ جائیں یا ان میں کوتاہی کا پہلو غالب آجائے تو پھر زمین فتنے و فساد سے بھر جاتی ہے جس سے زمین پر بسنے والا انسان بلکہ ہر ذی روح متاثر ہوتی ہے۔
    اسلام سے پہلے کے ناگفتہ بہ حالات منہ بولتا ثبوت ہیں کہ جب حقوق اللہ اور حقوق العباد سے غفلت اپنے عروج کو پہنچ گئی تو انسانیت ذلت و رسوائی کا نشانہ بنی عرصۂ دراز تک جہالت کے عمیق گڑھے میں بھٹکتی رہی، پھر اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو اس کا کھویا شرف بخشنا چاہا اور نبی آخر الزماں محمد ﷺکو دین اسلام دے کر مبعوث فرمایا اور ان کے ذریعہ اسے جہالت کے گڑھے سے نکال کر علم و عرفان سے روشناس کروایا اور حقوق کی معرفت عطا کی اور ان کی ادائیگی کو دونوں جہانوں کی کامرانی سے تعبیر کیا، اور اس دین حق اور اس کے متعین کردہ حقوق سے روگردانی کو گھاٹے کا سودا قرار دیا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    {وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ}
    ’’اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں سے ہوگا‘‘۔
    [آل عمران:۸۵]
    ان حقوق میں سے ایک اہم حق جو کلی طور پر فراموش کردیا گیا تھا عورت کا ہے جس کی تفصیل سے قطع نظر عنوان کے مطابق اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اسلام کی آمد کا کتنا فائدہ عورتوں کو حاصل ہوا؟
    تو مختصر یہ کہ اسلام نے عورت کی ہر صورت کو عزتوں کے تاج بخشے، ظلم و ستم کے چنگل سے نکال کر رحم وکرم کی برکھا برسائی، محرمات کی شکل میں محفوظ قلعے فراہم کیے، اس کی تکریم کی ترغیب دلائی اور ہر سلب کردہ حق دلا کر ایسا احسان عظیم فرمایا کہ تا قیامت وہ دین اسلام کے احسانات سے سبکدوش ہو سکتی ہے نہ ان کا بدلہ چکا سکتی ہے۔
    قارئین کرام ! احسان ایک گراں بار کلمہ ہے، جس کا معنیٰ و مفہوم نہایت وسیع ہے اور ہر لحاظ سے مقام ومرتبہ میں بہت اونچا ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم دیا ہے کہ:
    {وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللّٰهُ إِلَيْكَ}
    ’’اور احسان کرو جیسے اللہ نے آپ کے ساتھ احسان کیا ہے‘‘۔
    [القصص:۷۷]
    مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کی تذکیر کروائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کی بخشش سے احسان کیا ہے لہٰذاتم بھی اس کے بندوں پر صدقہ کرکے احسان کرو، یعنی انسان کو ہمیشہ احسان اٹھانے کے بعد محسن کا شکر گزار اور اس کو خوش و راضی کرنے کے ذرائع ڈھونڈنے چاہیے۔
    جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی دعا کا ذکر کیا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے بیش بہا نعمتوں سے نوازا وہ دعا کرتے ہیں :
    {رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰي وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصَّالِحِيْنَ}
    ’’اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر کی ہیں اور میرے ماں باپ پر، اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے، اورمجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں شامل کرلے‘‘۔
    [النمل:۱۹]
    اور جب یہ احسان بندوں کی طرف سے ہو تب بھی شریعت مطہرہ کی یہی تعلیم ہے، نبیﷺکا فرمان ہے:
    ’’وَمَنْ صَنَعَ إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُونَهُ فَادْعُوا لَهُ حَتَّي تَرَوْا أَنَّكُمْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ‘‘۔
    ’’اور جو تمہارے ساتھ احسان کرے اس کا بدلہ دو ۔ اگر بدلہ دینے کے لیے کوئی چیز نہ پاؤ تو اس کے حق میں دعا کرو یہاں تک کہ تم سمجھ لو کہ اس (کے احسان )کا بدلہ دے دیا ہے‘‘ ۔
    [سنن ابی داؤد :۱۶۷۲، صحیح]
    یعنی احسان، خواہ خالق کی طرف سے ہو یا مخلوق کی طرف سے ہر صورت میں محسن الیہ کے لیے شکر گزاری اور احسان مندی کا متقاضی ہے۔
    اب بڑھتے ہیں مدعا کی طرف اور وہ ہے عورت کی اسلام سے وفاداری، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے عورت پر بہت بڑا احسان کیا ہے، اگر یہ بات نہ ہوتی تو آج بھی عورت اپنے وجود کو باعث نحوست سمجھتی، ذلت کی ٹھوکریں کھا رہی ہوتی، اور ہم مسلمان عورتیں جو آج امن و امان کی فضاؤں میں سانس لیتی ہوئی خود پر رشک کرتی ہیں اس کی کوئی سبیل نہ ہوتی۔
    اللہ اکبر! یہ تصور ہی نہایت اذیت ناک ہے۔
    ہم اندازہ لگا سکتے ہیں شریعت اسلامیہ کا عورت پر کتنا بڑا احسان ہے۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ وہ اس احسان کے بدلے دین اسلام کے ساتھ کتنی وفاداری کررہی ہے؟ اور زندگی کے کن میدانوں میں اس کی بے وفائی احسان فراموشی کی صورت بنی ہوئی ہے۔
    وفا اور وفاداری یہ ایسے الفاظ ہیں جن میں غلام یا دیگر ماتحتوں کی اپنے آقا اور سرپرستوں سے مکمل غلامی اور اطاعت شامل ہوتی ہے، جہاں غداری اور بغاوت کا نام ونشان نہیں ہوتا، جس نے عطا کیا اس کے ساتھ وفا کا وعدہ ہوتا ہے۔ اور اس بے نظیر جذبہ میں پالتو جانور بھی اپنی مثال آپ ہیں جو اپنے مالک کی بھرپور تائید کرتے ہیں اور اس پر کسی دوسرے کو ترجیح نہیں دیتے اور وفاداری نبھاتے ہوئے بسااوقات انسانوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔
    وفاداری کا مطلب سمجھنے کے لیے ایک آیت کریمہ پیش خدمت ہے:
    اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی جن خوبیوں کے ساتھ مدح سرائی فرمائی ان میں ان کی وفاداری بھی کو شامل کیا، فرمایا :
    {أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِيْ صُحُفِ مُوسَيٰ۔ وَإِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَفَّيٰ}
    ’’کیا اسے اس چیز کی خبر نہیں دی گئی جو موسیٰ علیہ السلام کے اور وفادار ابراہیم علیہ السلام کی آسمانی کتابوں میں (مذکور)تھا‘‘۔
    [النجم:۳۶۔۳۷]
    یعنی مالک کی طرف سے بندے کو وفادار کا خطاب مل جانا گویا یہ اس کی ساری بندگی کے مقبول ہوجانے کا اشارہ ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی مکمل زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری سے تعبیر ہے، انہوں نے زندگی کے ہر ہر شعبہ میں ایک وفادار بندے کا کردار ادا کیا اور مالک کی وفا میں دنیا کا ہر نقصان اور خسارہ گوارا کیا۔
    تو پتہ چلا کہ وفاداری رب کی کامل اطاعت، خود سپردگی اور راضی برضا رہنے کا نام ہے اور اسلام کا مفہوم بھی یہی ہے کہ بندہ عذاب الہٰی سے بچنے اور حصول رضاء الہٰی کے لیے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے۔
    اب آئیں ہم جانتے ہیں کچھ ایسے امور جن کے ذریعہ ایک مسلمان عورت دین اسلام سے وفاداری کرنے کی کوشش کرسکتی ہے، ساتھ ان پاکیزہ اور وفا شعار عورتوں کی مثالیں بھی بطور نمونہ پیش خدمت ہیں جن کی وفاداری سے قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق جگمگاتے ہیں :
    (۱) علم دین حاصل کرنا:
    سب سے پہلے ایک مسلمان عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ دین کے اصول اور اس کے مبادیات کا علم حاصل کرے اور ان پر عمل پیرا ہو۔
    مثلاً دین کے اصول، ارکان اسلام اورارکان ایمان کو تفصیلی طور پر جانیں اور قرآن و حدیث کا علم حاصل کریں۔
    تبھی وہ ان پر عمل پیرا ہوسکتی ہیں جیسا کہ ہجرت کرکے آنے والی عورتوں سے یہ عہد لیا جاتا تھاجس کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے :
    {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَ كَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰي أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِيْنَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ}
    ’’اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں آپ کی حکم عدولی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کرلیا کریں اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے‘‘۔
    [الممتحنۃ:۱۲]
    وہ کسی معروف حکم میں رسول کی نافرمانی نہیں کرے گی۔
    یہ بظاہر ایک چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن معاشرہ کے اندر اس کو انتہائی ذمہ دار اور جواب دہ بنا دیتا ہے اور اس کو ابھارتا ہے کہ قدم قدم پر وہ اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺکی مخالفت سے بچے۔
    عہد نبوی ﷺمیں عورتوں کے اندر احکام دین معلوم کرنے کی ایسی تڑپ پیدا ہوگئی تھی کہ وہ شب و روز اس کے لیے بے چین رہتی تھیں اور اس تلاش و جستجو میں جو دشواریاں پیش آئیں وہ ان کو مایوس یا بددل نہ کرتیں، اسی لیے انصار کی عورتوں کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
    ’’انصار کی عورتیں بھی بہت خوب تھیں، دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے سلسلہ میں حیا اور شرم ان کے لیے رکاوٹ نہیں بنتی تھی‘‘۔
    [صحیح مسلم :۷۵۰]
    رسول اللہ ﷺکے پاس ایک عورت آئی اور عرض کی:آپ کی (تعلیمات اسلامیہ کی)گفتگو (کا بڑا حصہ)مرد حضرات سن لیتے ہیں، لہٰذا آپ ہمارے لیے بھی اپنی طرف سے ایک دن مقرر فرما دیں کہ ہم آپ کے پاس آیا کریں گی اور اللہ نے آپ کو جو سکھایا ہے اس میں سے آپ ہمیں بھی سکھا دیں، آپ ﷺنے فرمایا:
    تم عورتیں فلاں فلاں دن اکٹھی ہوجانا، خواتین اکٹھی ہوجاتیں تو رسول اللہﷺان کے پاس تشریف لاتے اور اللہ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا تھا اس میں سے ان کو بھی سکھایا کرتے‘‘۔
    [صحیح مسلم :۶۶۹۹]
    پتہ چلا کہ مسلمان عورت کے لیے علم دین کا حاصل کرنا نہایت ضروری ہے بلکہ یہ اس پر ایک فریضہ ہے جس کو وہ ادا کرے گی تو اسلام سے وفاداری کی ایک بنیادی دلیل ہوگی۔ اور دور حاضر میں درپیش نت نئے فتنوں اور مسائل کے باوجود علم دین سے دوری اور بے اعتنائی برتنا، اسلام سے بے وفائی کی ڈگر پر لے جاتاہے۔
    (۲) حاصل کردہ علم پر عمل کرنا:
    محترم قارئین! علم اس وقت تک بے سود رہے گا جب تک اس پر عمل پیرا نہ ہوا جائے، کیونکہ حصول علم کا مقصد رضائے الہٰی کو پانا ہے اور اس کے لیے اعمال صالحہ نا قابل تردید حقیقت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا لازمی تذکرہ کیا ہے :
    {إِنَّ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيْهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيْمَانِهِمْ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ فِيْ جَنَّاتِ النَّعِيْمِ}
    ’’بلاشبہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے ان کے ایمان کی وجہ سے ان کا پروردگار انہیں ایسے نعمتوں والے باغوں کی راہ دکھلائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی‘‘۔
    [یونس:۹]
    پتہ چلا کہ نجات صرف ایمان پر منحصر نہیں بلکہ اعمال صالحہ اس کا ایک لازمی حصہ ہے اور یہی ائمۂ سلف کے نزدیک راجح ہے کہ ایمان تصدیق ، اقرار اور عمل کا نام ہے۔
    لہٰذا علم سے آراستہ و پیراستہ ایک مسلمان عورت کے لیے اپنی وفاداری کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس پر عمل کرے تاکہ وہ اس کے ایمان میں اضافے کا سبب بنے، اور یاد رہے کہ علم کے متعلق ہر شخص اللہ تعالیٰ کے پاس مسئول ہوگا جیسا کہ نبی ﷺنے فرمایا:
    ’’لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتّٰي يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ وَعَنْ عِلْمِهِ فِيْمَ فَعَلَ وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ‘‘۔
    ’’قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیاجائے:اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا‘‘۔
    [سنن ترمذی:۲۴۱۷، صحیح]
    (۳) اہل خانہ کی علمی و عملی تربیت :
    اسلام سے وفاداری میں یہ بھی شامل ہے کہ مسلمان عورت اپنی اولاد، گھر والوں اور معاشرے کی (جہاں تک استطاعت ہے) تربیت کرنے والی ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
    {يٰا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا قُوْا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيْكُمْ نَارًا وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ}
    ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر ہے‘‘۔
    [التحریم:۶]
    عورت کی ذمہ داری صرف گھر کے کام کاج نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ گھر میں رہنے والے افراد بالخصوص اولاد کی صحیح تربیت کرنا ہے جیسا کہ ہمارے اسلاف کی ماؤں نے ان کی مثالی تربیت کی، ایک عورت نے ہی ماں کی شکل میں امام مالک جیسے بیٹے کی اسلامی تربیت کی جو نتیجتاً ’’امام دار الہجرہ‘‘ جیسے لقب سے فیضیاب ہوئے، اسی طرح امام احمد بن حنبل اپنے دور کے بڑے عالم و فقیہ، مشہور علمائے حدیث میں سے آپ کا شمار ہوتا ہے، ان کی تربیت بھی ان کی والدہ محترمہ نے کی، انہوں نے صرف ۱۰سال کی عمر میں قرآن پاک مکمل حفظ کرلیا تھا، ان کی والدہ صاحبہ ان کو صبح سویرے اٹھا دیتیں، انہیں کپڑے پہناتیں، پانی گرم کرتیں، ان کو وضو کرواتیں اور برقع پہن کر خود انہیں مسجد چھوڑ کر آتیں۔
    اس طرح تھیں ہمارے اسلاف کی مائیں جنہوں نے ان کی تربیت اس طرح کی کہ آج بھی ان کی دینی خدمات سے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔
    نیز یہ کام عورت کے لیے اس وقت ممکن ہے جب وہ خود علم دین سے آشنا ہوگی، یعنی پہلا مرحلہ حصول علم کا ہے اس کے بعد حاصل کردہ علم پر عمل کرنا، اور پھر اسلام سے وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے ان تعلیمات اسلامیہ کو آگے پہنچانا، مثلاً تعلیم و تربیت، دعوت دین، اصلاح کے کام اور درس وتدریس وغیرہ۔
    (۴) اسلام کے خلاف ہونے والے حملوں خواہ نظریاتی ہوں یا عملی، اپنی استطاعت کے مطابق ان کا جواب دینا:
    اس نقطے کو اگر ہم خیر القرون کی خواتین میں دیکھیں تو جہاد کا میدان ہمارے سامنے بالکل واضح ہے کہ جنگوں کے دوران صحابیات و سلف صالحات کس طرح مجاہدین کی مدد فرماتیں، جہاں مرد حضرات دینی ولولہ اور شوق شہادت لیے میدان جہاد میں نمایاں کارنامے انجام دیا کرتے اور باطل کا سر کچلتے وہیں ان خدمات کی بھی تفصیل معلوم ہوتی ہے جو لڑائیوں میں عورتوں کے متعلق تھیں :
    مثلاً زخمیوں کو پانی پلانا، فوج کے کھانے کا انتظام، قبر کھودنا، مجروح سپاہیوں کو معرکہ جنگ سے اٹھا لانا، زخمی سپاہیوں کی تیمار داری کرنا، ضرورت کے وقت فوج کو ہمت دلانا اور ان کی امداد کرنا ۔وغیرہ
    عصر حاضر میں بھی خواتین اسلام کا اس جذبہ کو فروغ دینے اور اپنے دین کی حمایت کی خاطر شرعی حدود میں رہ کر باطل نظریات کے خلاف ممکن بھر رد کرنا ضروری ہے۔ اس کام کے لیے زبان و قلم کو حق کے لیے تیار کریں اور جس طریقہ سے جواب کارگر ہو اس کو اپنائیں نیز اس کام کے لیے انٹرنیٹ اور اس کے مختلف پلیٹ فارمز کو بھی بروئے کار لائیں کیونکہ یہ مقامات باطل افکار و نظریات کی ترویج کا زبردست سہارا بنے ہوئے ہیں لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کا رد بھی انہی جگہوں سے ہو۔
    علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’انٹرنیٹ پر باطل سے مزاحمت جاری رکھیں یہاں تک کہ حق واضح ہو جائے‘‘۔
    (تفسیر سورۃ الشوری شریط: ۱۱)
    (۵) ہر بات میں اسلام کو مقدم رکھنا :
    دین اسلام کے ساتھ وفاداری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے متبعین کا اولین مرکز ہو خواہ اس کو ترجیح دینے میں کسی کا دنیاوی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔
    ایک مسلمان عورت کو اپنے دین سے اس قدر محبت ہو تو وہ اس کو اپنی زندگی میں ہمیشہ سب سے اوپر رکھے، ہاجرہ علیہا السلام کی طرح جنہوں نے رب کائنات کے حکم پر بے آب وگیاہ وادی کو مسکن بنانے سے پس وپیش نہیں کیا، آسیہ علیہا السلام کی طرح جنہیں رب پر ایمان اور اس کی محبت نے ظالم شوہر کی عشرتیں بھلا دیں، اور اسماء رضی اللہ عنہا کی طرح جو اپنی مشرک ماں سے صلہ رحمی پر بھی متردد رہیں تآنکہ رسالت مآب ﷺسے اجازت آئی۔
    (۶) اسلام کی خاطر اپنا مال، اولاد، جان وغیرہ قربان کرنی پڑے تو اس سے گریز نہ کرنا:
    وفاداری، قربانی کی متقاضی ہوتی ہے اور زندگی میں ایسا وقت لازمی آتا ہے جہاں بندے سے اس کی وفاداری کا ثبوت مانگا جاتا ہے، چنانچہ ایک مسلمان عورت کو ایسے وقت میں بھی باوفا ثابت ہونا چاہیے اور جب کبھی اللہ تعالی کے دین کے لیے اپنا مال، وقت، اولاد یا جو بھی نعمت کی شکل میں موجود ہے خلوص وللہیت اور اس یقین کے ساتھ پیش کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دی گئی قربانی رائیگاں نہیں ہوتی، اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں :
    {إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا}
    ’’ہم کسی نیک عمل کرنے والے کا ثواب ضائع نہیں کرتے‘‘۔
    [الکھف:۳۰]
    اولاد کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینے کا ایک معنیٰ یہ بھی ہے کہ انہیں دین اسلام کا خادم بنائے، جس طرح ام سلیم رضی اللہ عنہا نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو نبی ﷺکی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا اسی طرح انہیں دین اسلام کی تعلیم اور اس کی تدریس وتبلیغ کے لیے اپنے سے دور کرنا پڑے تو اس جدائی کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کریں۔
    اعلیٰ کردار، عظیم کارناموں اور بلند حوصلوں سے جگمگاتی اسلاف کی زندگیوں کے پیچھے بھی انہی خواتین جانباز کا زبردست کردار رہا جنہوں نے اپنی سچی لگن اور خلوص کے ساتھ اسلام سے ایسی وفاداری نبھائی کہ مسلمان قوم کو ایک سے بڑھ کر ایک حافظ، مفسر، محدث اور بے باک مجاہد دیئے۔
    آج بھی امت مسلمہ کو ایسے بہترین افراد اور ان کو تیار کرنے کے لیے ایسی عظیم مائیں درکار ہیں، اس کے لیے ہم خواتین کو ہی میدان عمل میں اترنے، اپنی ماتحتی میں بہترین ہاتھ تیار کرنے اور خود کو باوفا ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔
    اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ خواتین اسلام کو اپنے مقام و مرتبے کو پہچاننے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے نیز اس کے ساتھ سچی وفاداری نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings