-
اشاعہ (افواہ) پھیلانے کی شرعی حیثیت اشاعہ سے مراد وہ افواہیں یا سنی سنائی باتیں ہیں جو ان کی درستی یا مصدر کو جانے بغیر پھیلائی جاتی ہیں اور جو عموماً کہا، کہا گیا، سنا گیا یا دعویٰ کیا گیا جیسے الفاظ سے بیان کی جاتی ہیں اور ان افواہوں کو پھیلانے کے دوران تقریباً ان کو رد و بدل اور اضافے کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَآئَ كُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ}(۱)
ترجمہ:’’اے مسلمانو ! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لیے پریشانی اٹھاؤ‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ تفسیر احسن البیان میں لکھتے ہیں کہ:
’’شان نزول کی بحث سے قطع نظر اس میں ایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایا گیا ہے جس کی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نہایت اہمیت ہے، ہر فرد اور ہر حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کے پاس جو بھی خبر یا اطلاع آئے بالخصوص بدکردار، فاسق اور مفسد قسم کے لوگوں کی طرف سے، تو پہلے اس کی تحقیق کی جائے تاکہ غلط فہمی میں کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو‘‘۔
اسی طرح شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ:
’’یہ بھی ان آداب میں شامل ہے جن پر عقل مند لوگ عمل پیرا ہیں کہ جب ان کے پاس کوئی فاسق شخص خبر لے کر آئے تو وہ اس کی خبر کی تحقیق کرلیا کریں اور تحقیق کے بغیر اس پر عمل نہ کریں، کیونکہ اس میں بہت بڑے خطرے اور گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہے، کیونکہ جب فاسق و فاجر شخص کی خبر کو صادق اور عادل شخص کی خبر کے طور پر لیا جائے، اور اس کے موجب اور تقاضے کے مطابق حکم لگایا جائے، تو اس خبر کے سبب سے ناحق جان و مال کا اتلاف ہوگا جو ندامت کا باعث ہوگا، فاسق و فاجر کی دی ہوئی خبر سننے کے بعد اس کی تحقیق و تیبین واجب ہے، اگر دلائل اور قرائن اس کی صداقت پر دلالت کرتے ہوں تو اس پر عمل کیا جائے اور اس کی تصدیق کی جائے، اور اگر دلائل و قرائن اس کے کذب پر دلالت کریں تو اس کو جھوٹ سمجھا جائے اور اس پر عمل نہ کیا جائے‘‘۔
اس آیت کریمہ میں دلیل ہے کہ صادق و عادل کی خبر مقبول، کاذب کی خبر مردود اور فاسق کی خبر میں توقف ہے، بنا بریں سلف نے خوارج کی بہت سی روایات کو قبول کیا ہے، جو صداقت میں معروف تھے، اگرچہ وہ فاسق تھے‘‘۔
یاد رہے کہ ہم جو بھی امر اپنے اعضاء وجوارح سے انجام دیتے ہیں، ان اعضاء کے سلسلہ میں کل قیامت کے دن پوچھا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا}(۲)
ترجمہ:’’جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑو کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے‘‘۔
اس آیت کے سلسلہ میں مولانا عبد الرحمن کیلانی تفسیر تیسیر القرآن میں فرماتے ہیں کہ:
شریعت کی ایک بہت بڑی اصل یہ ہے کہ ہر شخص سے حسن ظن رکھنا چاہیے تاآنکہ اس کی کوئی بددیانتی یا غلط حرکت کھل کر سامنے نہ آجائے، ہر شخص کو چاہیے کہ بلا تحقیق کوئی بات نہ کرے، نہ ہی بلاوجہ کسی سے بدظنی رکھے جب تک پوری تحقیق نہ کرے، بلاسوچے سمجھے کسی پر نہ الزام لگائے اور نہ تہمت تراشی کرے، نہ کوئی افواہ پھیلائے نہ کسی سے بغض و عداوت رکھے، اسی طرح عدالت کے لیے بھی ضروری ہے کہ جب تک مجرم کا جرم ثابت نہ ہو اسے کسی قسم کی کوئی سزا نہ دی جائے، پھر یہ تحقیق کا سلسلہ انہی باتوں میں منحصر نہیں بلکہ وہ رسوم و رواج بھی اسی ذیل میں آتے ہیں جو آباء واجداد سے چلی آرہی ہیں ان کے متعلق یہ تحقیق کرنا ضروری ہے کہ ان کی اصل شریعت میں موجود بھی ہے یا نہیں۔
آنکھ اور کان کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ ہمیں بیشتر معلومات انہی ذرائع سے حاصل ہوتی ہیں اور دل کا کام ان میں غور و فکر کرکے کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنا ہے، گویا ایسے بدظنی رکھنے والوں، بے بنیاد افواہیں پھیلانے والوں اور تحقیق کیے بغیر ہی کسی بات کو قبول کرلینے والوں کے اعضاء سے بھی باز پرس ہوگی۔
نیز اس سلسلہ میں نبی کریم ﷺسے مروی ہے کہ:
’’كَفَي بِالْمَرْئِ كَذِبًا، أَنْ يُّحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ‘‘۔(۳)
ترجمہ:’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے‘‘۔
افواہوں اور سنی سنائی گئی باتوں کو پھیلانے کے سلسلے میں اسلام میں سخت مذمت کی گئی ہے، مسلمانوں کو سب سے پہلے خبروں کی تحقیق و تصدیق کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پرانے زمانے سے یہ بات چلتی آرہی ہے کہ لوگ ہر سنی سنائی بات کو بغیر کسی تحقیق کے پھیلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن عصر حاضر میں بالخصوص جب سے سوشل میڈیا کو عروج ملا ہے، تب سے یہ فتنہ مزید بڑھ گیا ہے اور بڑھتا جارہا ہے اور اس کی سنگینیاں بھی لوگ مشاہدہ کررہے ہیں۔
اگر ان سنی سنائی باتوں کے جمیع پہلو پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تعلق یا تو دینی یا دنیوی یا شخصیات سے ہوتا ہے:
۱۔ دینی تعلق اس طرح سے کہ سوشل میڈیا پر کسی بھی شخص کے قول کو اٹھا کر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ آیت ہے، یہ حدیث ہے، یہ فلاں کا قول ہے وغیرہ، اور لوگ بغیر کسی تحقیق کے اسے نشر بھی کرتے ہیں، یا پھر کسی کی قبر کو نبی کریم ﷺ کی قبر بناکر پیش کردیتے ہیں، یا دیگر انبیاء و صحابۂ کرام کے نام سے نشر کرتے ہیں کہ یہ فلاں نبی یا فلاں فلاں صحابی کی قبر ہے، الا یہ کہ جن قبور کے سلسلے میں صراحت کے ساتھ ہمیں معلوم ہو وہ مستثنیٰ ہیں۔
۲۔ یا دنیاوی طور پر جیسے کہ کہیں کوئی فلکیات پر پیشن گوئی کررہا ہے یا ارضیات پر پیشگوئی کرتا ہے کہ فلاں وقت یا فلاں جگہ زلزلے آئیں گے یا ایسا ہوگا ویسا ہوگا، اور لوگ اسے بغیر تحقیق کے نشر بھی کردیتے ہیں۔
۳۔ یا پھر یہ افواہ کبھی اشخاص کے سلسلے میں ہوتی ہے کہ فلاں عالم کی وفات ہوگئی جبکہ وہ زندہ ہوتے ہیں، یا کسی کو جیل میں ڈال دیا گیا، حالانکہ وہ جھوٹی خبریں ہوتی ہیں، جیسا کہ بالخصوص ائمۂ حرمین کے سلسلے میں اخوانی حضرات افواہیں پھیلاتے ہیں، اور ہمارا مسلم معاشرہ اسی کو بنیاد بناکر بغیر تحقیق کے فارورڈ کرنے لگتا ہے۔
اسی طرح کچھ منچلے قسم کے لوگ حرص و زرپرستی میں مبتلا ہوکر کچھ جھوٹی قسم کی لنکس بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں ملک کے فلاں وزیر اعظم کی جانب سے یہ انعام کے طور پر رکھا گیا ہے لہٰذا جو بھی اس میسیج کو تیس لوگوں میں فارورڈ کرے گا تو وہ انعام پانے والوں میں شامل ہوجائے گا ۔وغیرہ
بہت تو ایسے ہوتے ہیں کہ نہ رات دیکھتے ہیں اور نہ کسی کی مشغولیت کے اوقات دیکھتے ہیں، بس جو ملتا ہے اس کو بغیر تحقیق کے فارورڈ کردیتے ہیں، اور اس میں کوئی کراہت محسوس نہیں کرتے، جبکہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
{َاِذْ تَلَـقَّوْنَهٗ بِاَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِكُمْ مَّا لَـيْسَ لَـكُمْ بِهٖ عِلْمٌ وَّتَحْسَبُوْنَه هَيِّنًا وَّهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِيْمٌ} (۴)
ترجمہ: ’’جبکہ تم اسے اپنی زبانوں سے نقل در نقل کرنے لگے اور اپنے منہ سے وہ بات نکالنے لگے جس کی تمہیں مطلق خبر نہ تھی، گو تم اسے ہلکی بات سمجھتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک بہت بڑی بات تھی‘‘۔
بغیر کسی تحقیق کے افواہ پھیلانے والوں کی سزا کے سلسلے میں سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک صبح کو فرمایا:
’’کہ رات میں میرے پاس دو آنے والے آئے اور انہوں نے مجھے اٹھایا اور مجھ سے کہا کہ ہمارے ساتھ چلو میں ان کے ساتھ چل دیا، ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو پیٹھ کے بل لیٹا ہوا تھا اور ایک دوسرا شخص اس کے پاس لوہے کا آنکڑا لیے کھڑا تھا اور یہ اس کے چہرہ کے ایک طرف آتا اور اس کے ایک جبڑے کو گدی تک چیرتا اور اس کی ناک کو گدی تک چیرتا اور اس کی آنکھ کو گدی تک چیرتا، پھر وہ دوسری جانب جاتا ادھر بھی اسی طرح چیرتا جس طرح اس نے پہلی جانب کیا تھا، وہ ابھی دوسری جانب سے فارغ بھی نہ ہوتا تھا کہ پہلی جانب اپنی پہلی صحیح حالت میں لوٹ آتی، پھر دوبارہ وہ اسی طرح کرتا جس طرح اس نے پہلی مرتبہ کیا تھا(اس طرح برابر ہو رہا ہے)۔
پھر آپ ﷺ نے اس عذاب کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا اور جھوٹی خبر تراشتا، جو دنیا میں پھیل جاتی‘‘۔(۵)
اشاعہ (افواہوں)کے نقصانات:
۱۔ مسلمانوں میں سے کسی فرد یا گروہ کی بدنامی۔
۲۔ مسلمانوں کی ذلت و رسوائی اور مشکلات کے وقت میں ان کا اکیلا پڑجانا۔
۳۔ مسلمانوں کو تقسیم کرنا اور ان کے درمیان تنازعات کو ہوا دینا۔
۴۔ سچی اور جھوٹی خبروں کا خلط ملط ہوجانا۔
۵۔ لوگوں کے درمیان سے اعتماد کا ختم ہوجانا۔
۶۔ مسلمانوں کے کسی فرد یا گروہ کو بڑا نقصان پہنچنا۔
ہم افواہوں کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں…؟
۱۔ خبروں کے صحیح ہونے کے بارے میں پہلے چھان بین کریں پھر انہیں منتقل کریں۔
۲۔ عوامی معاملات کو اولیاء الامور (امراء و علماء ) کے لیے چھوڑ دیں۔
جیسا کہ قرآن میں ہے:
{وَاِذَا جَآئَ هُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَـوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ وَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَي الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓي اُولِي الْاَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْبِطُوْنَه مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُه لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا} (۶)
ترجمہ: ’’جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اس رسول(ﷺ )کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کردیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کرلیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے‘‘۔
۳۔ عوامی خبروں کے لیے سرکاری ذرائع پر انحصار کریں۔
۴۔ غیر معتبر خبروں کی طرف توجہ نہ دیں۔
۵۔ صرف مفید و تحقیق شدہ معلومات لوگوں کے درمیان منتقل کریں۔
۶۔ لا یعنی و فضول باتوں کو چھوڑ دیں۔
جیسا کہ حدیث میں ہے:’’مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْء ِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ ‘‘۔(۷)
ترجمہ:’’کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اور فضول باتوں کو چھوڑ دے‘‘۔
۷۔ اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کے سلسلے میں حسن ظن رکھیں۔
خلاصۂ کلام: افواہ یہ ایسی چیز ہے جسے ایک حاسد وحاقد شخص ایجاد کرتا ہے، اور پھر ایک احمق اسے نشر کرتا ہے، اور پھر بہت سے بے وقوف لوگ اس پر یقین کرلیتے ہیں، تو کوشش کریں کہ آپ ان تینوں میں سے نہ ہوں۔
ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ ہم بغیر کسی تحقیق کے کسی آیت کا ترجمہ یا کوئی قول یا کوئی خبر نقل و نشر نہ کریں، کیونکہ بعض دفعہ جسے آپ اچھی خبر سمجھتے ہیں اور بغیر تحقیق کے لوگوں کے درمیان پھیلانے میں جلدی کرتے ہیں، ممکن ہے کہ اس کے برعکس ہوجائے اور یہ بری خبر میں تبدیل ہوجائے، اسی طرح ہم بغیر مشاہدہ کیے کسی شخص کے بارے میں کسی کی باتوں کی تصدیق نہ کریں، کیونکہ ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں لوگ افواہیں پھیلانے کے عادی ہیں۔
……………
(۱) الحجرات : ۶ (۲) إسراء : ۳۶
(۳) صحیح مسلم : ۵ (۴) النور: ۱۵
(۵) صحیح بخاری : ۷۰۴۷ (۶) النساء :۸۳
(۷) سنن الترمذی: ۲۳۱۷صحیح
٭٭٭