Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • دین کا بنیادی علم ہر مسلمان پر فرض عین ہے

    اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔
    پہلے نبی آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی اور رسول محمد ﷺ تک اللہ نے لوگوں کو اپنی عبادت کی حقیقت اور کیفیت سے واقف کرانے کے لیے ہر زمانہ میں انبیاء و رسل علیہم السلام کا مبارک سلسلہ جاری رکھا ہے۔
    ہمارے نبی اور رسول محمدﷺ نبوت و رسالت کی آخری کڑی ہیں،اب قیامت تک نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہو گیا ہے،اللہ کے رسول ﷺ کی وفات کے بعد تاقیامت سارے انسانوں کی رشد و ہدایت کا ذریعہ قرآن و سنت ہیں،اسی لیے اللہ کے رسول ﷺ نے قرآن و سنت کو علمی اور عملی طور پر مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا ہے۔
    وَحَدَّثَنِيْ عَنْ مَالِكٍ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا مَسَكْتُمْ بِهِمَا:كِتَابَ اللّٰهِ، وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ‘‘۔
    رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’میں تم میں دو امر چھوڑ کر جا رہا ہوں ، جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہو گے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت‘‘۔
    [مؤطا مالک روایۃ ابی مصعب الزھری:ح: ۱۸۷۴]
    قرآن و سنت کی تعلیمات اور ان کے احکامات کا تفصیلی اور تحقیقی علم ہر مسلمان پر فرض عین نہیں ہے،بلکہ اس قسم کے علم دین کا حصول علماء کرام پر ان کی علمی قابلیت و صلاحیت کے مطابق فرض کفایہ کی حیثیت سے فرض ہے ۔
    علماء اسلام علم دین کی دو قسمیں بیان کرتے ہیں:
    فرض عین اور فرض کفایہ:
    فرض عین وہ ہے جس کا حصول ہر بالغ و مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
    فرض کفایہ وہ ہے جو ایک جماعت اس کو حاصل کرے تو بقیہ لوگوں سے یہ فرض کافی اور ساقط ہو جائے گا۔
    اور اگر کسی شہر میں فرض کفایہ ادا کرنے والے نہ ہوں تو اس شہر کے سارے لوگ اس فرض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے۔
    فرض عین کی جہالت اور ناواقفیت میں کوئی بھی عاقل و بالغ مسلمان معذور نہیں سمجھا جائے گا۔
    بلکہ اس قسم کا بنیادی علم حاصل کرنا ہر مسلمان کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔
    اگر کوئی بالغ و عاقل مسلمان علماء کرام کی موجودگی کے باوجود بنیادی علم دین سے ناواقف رہتا ہے تو وہ ایک فرض عین چھوڑنے کے سبب گناہ گار ہوگا،اور درحقیقت اس ایک فرض عین بنیادی علم دین کے چھوڑنے کے سبب جہالت کی وجہ سے وہ کئی فرائض سے غفلت برتتا ہے، اور کئی گناہ کا ارتکاب بھی کرتا ہے۔
    اس لیے ہر مسلمان مرد و عورت پر دین کا اتنا بنیادی اور واجبی علم فرض عین ہے کہ جس کے ذریعے وہ کفر و شرک اور بدعت کے غلط عقائد سے بچتے ہوئے ایمان و اسلام کے صحیح عقائد کو پہچان سکے،اور اتنا بنیادی اور واجبی علم فرض عین ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنے اوپر عائد ہونے والی عبادات کو شرعی طریقے سے ادا کر سکے، اور اتنا بنیادی اور واجبی علم فرض عین ہے کہ وہ اپنے اوپر عائد ہونے والے حقوق اور معاملات میں شرعی احکام کی پابندی کر سکے۔
    مثلاً: ایمان کے چھ ارکان: اللہ پر ایمان، اس کے فرشتوں پر ایمان، اس کی کتابوں پر ایمان، اس کے نبیوں اور رسولوں پر ایمان، آخرت کے دن پر ایمان اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان سے متعلق بنیادی اور اجمالی عقائد کا حصول ضروری ہے،تاکہ اس کے عقائد صحیح ہوں،نماز ،روزہ، زکاۃ اور حج جیسے ارکان اسلام اور بڑی بڑی عبادات سے متعلق بنیادی تعلیمات اور احکامات کا حصول ضروری ہے،تاکہ اس کی عبادات شرعی احکام کے مطابق ادا ہوں۔
    اسی طرح بندوں کے حقوق اور معاملات سے متعلق بنیادی تعلیمات اور احکامات کا حصول ضروری ہے،تاکہ اس کے حقوق اور معاملات شرعی احکام کے مطابق ادا ہوں۔
    اب اس کے بعد جو شخص شرعی طور پر جائز جس میدان سے وابستہ رہ کر روز مرہ کی زندگی گزار رہا ہے،اس میدان سے متعلق شرعی احکامات کا جاننا ضروری ہے،مثلاً جو تجارت کر رہا ہے، اس کے لیے جاننا ضروری ہے کہ تجارت کی کون سی شکلیں جائز ہیں اور کون سی شکلیں حرام ہیں،کن اشیاء کی تجارت حلال ہے اور کن اشیاء کی تجارت حرام ہے۔جو زراعت سے وابستہ ہے، اس کے لیے کھیتی باڑی سے متعلق احکامات کا جاننا ضروری ہے۔اور جو بلوغت کی عمر کو پہنچے اس کے لیے بلوغت کے مسائل جاننا ضروری ہے۔مثلاً: جو نیند کی حالت میں احتلام کا شکار ہو(یعنی شرم گاہ سے منی خارج ہو) تو اس کے لیے غسل ضروری ہے،اب جو نوجوان اس مسئلے سے ناواقف ہو،اور وہ اسی حالت میں نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح نہیں ہے۔
    اور جو شادی کرنا چاہے تو اس کے لیے شادی بیاہ کے مسائل اور زوجین کے حقوق جاننا ضروری ہے،جس کے ماں باپ اور بھائی بہن بقید حیات ہیں، اس کے لیے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے حقوق جاننا ضروری ہے،اسی طرح رشتہ داروں کے حقوق اور پڑوسیوں کے حقوق اور وغیرہ وغیرہ کے حقوق جاننا ضروری ہے۔تاکہ وہ اپنے اوپر عائد ہونے والے حقوق ادا کر سکے اور آخرت کی باز پرس سے بچ سکے۔
    اس طرح ہر مسلمان کی تادم حیات اپنے فرائض و واجبات اور حقوق و معاملات کی ادائیگی کے اعتبار سے کسی نہ کسی حیثیت سے اور کسی نہ کسی صورت میں علم دین سے وابستگی رہتی ہے۔
    عمر کے جس مرحلے میں اس پر جو عبادتیں، جو حقوق، جو اخلاق اور جو معاملات واجب ہوتے ہیں، ان عبادات، حقوق، اخلاق اور معاملات کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔
    اسی طرح حلال و حرام کا اجمالی علم بھی ضروری ہے۔
    قرآن و سنت سے ثابت کون سے عقائد صحیح ہیں، اور کون سے عقائد باطل ہیں، قرآن و سنت سے ثابت کون سی عبادتیں صحیح ہیں، اور ان کی ادائیگی کے کون سے طریقے صحیح ہیں، اور کون سی عبادتیں غیر شرعی ہیں، اور عبادتوں کے کون سے طریقے غیر شرعی ہیں ، کون سے معاملات حلال ہیں اور کون سے معاملات حرام ہیں، کون سے اخلاق اچھے ہیں، اور کون سے اخلاق برے ہیں۔
    اس طرح اجمالی حیثیت سے قرآن و سنت سے ثابت نیکیوں اور برائیوں کو پہچاننے کی کوشش کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ نیکیوں کو اختیار کر سکے اور برائیوں سے بچ سکے۔اور ایک مسلمان کا سن شعور اور بلوغت کی عمر سے لے کر موت تک ایمان و اسلام کے عقائد کا جاننا ضروری ہے،اللہ کی توحید کی معرفت کے سلسلے میں قرآن و سنت میں وارد نصوص کا علم ضروری ہے،تا کہ مسلمان توحید پر قائم رہ سکے اور کفر و شرک سے بچ سکے۔
    اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {فاعلم أنه لا إله إلا اللّٰه} [محمد:۱۹]
    تم جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔
    امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کتاب العلم میں علم کی اہمیت پر اس طرح باب باندھا ہے:’’العلم قبل القول و العمل ‘‘۔’’قول و عمل سے پہلے علم ضروری ہے‘‘۔
    علم دین کے حصول کی اہمیت اور فضیلت پر قرآن و سنت کے بہت سے نصوص وارد ہیں۔
    اللہ تعالی نے فرمایا:
    {قل هل يستوي الذين يعلمون و الذين لا يعلمون إنما يتذكر أولوا الألباب}
    ’’آپ کہ دیجئے! کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے ہیں برابر ہو سکتے ہیں، یقینا عقل مند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں‘‘۔
    [الزمر:۹]
    اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو علم کی زیادتی کی دعاسکھائی ہے:
    {و قل رب زدني علما}
    ’’اور آپ کہہ دیجئے! اے میرے رب مجھے علم میں زیادہ کر دے‘‘۔
    [طٰہ:۱۱۴]
    اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
    ’’طلب العلم فريضة على كل مسلم ‘‘۔
    ’’علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘۔
    [ابن ماجۃ:ح:۲۲۴]
    اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
    ’’خيركم من تعلم القرآن و علمه‘‘۔
    ’’تم میں سب سے بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے‘‘۔
    [صحیح بخاری:۵۰۲۷]
    اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
    ” ’’نَضَّرَ اللّٰهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتّٰي يُبَلِّغَهُ ؛ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَي مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيه‘‘۔
    ’’اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے حدیث سنی پس اس (حدیث) کو یاد کیا یہاں تک کہ اس (حدیث) کو( دوسروں تک)پہنچا دیا ، بہت سے فقہ کے حامل اپنے سے زیادہ افقہ تک حدیث پہنچاتے ہیں،اور بہت سے فقہ کے حامل درحقیقت فقیہ نہیں ہوتے ہیں‘‘۔
    [سنن ابی داؤد:۳۶۶۰]
    اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
    ” ’’مَنْ يُرِدِ اللّٰهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ، وَاللّٰهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هٰذِهِ الْأُمَّةُ قَائِمَةً عَلٰي أَمْرِ اللّٰهِ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّي يَأْتِيَ أَمْرُ اللّٰهِ‘‘۔
    ’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے، تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے، اور میں تقسیم کرنے والا ہوں، اور اللہ عطا کرنے والا ہے، اور یہ امت برابر اللہ کے امر پر قائم رہے گی، ان کی مخالفت کرنے والے ان کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر آ جائے گا‘‘۔
    [صحیح بخاری:۷۱]
    علم دین قرآن و سنت کے نصوص کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکی مراد کے مطابق سمجھنے کا نام ہے،اور اسی کا نام فقہ دین(دین کی سمجھ)ہے۔
    اور اس قسم کی سمجھ قرآن و سنت کے نصوص کو فہم صحابہ کے مطابق سمجھنے سے آتی ہے۔
    اور جو علماء قرآن کی آیات کا صحیح معنیٰ و مفہوم سمجھتے ہیں اور قرآن و سنت سے ماخوذ و مستنبط علمی اصولوں اور مختلف لفظی دلالتوں کی بنیاد پر قرآن کے نصوص سے احکام و مسائل کا صحیح استنباط کرتے ہیں،اور اسی طرح جو علماء احادیث کا صحیح معنیٰ و مفہوم سمجھتے ہیں اور قرآن و سنت سے ماخوذ و مستنبط علمی اصولوں اور مختلف لفظی دلالتوں کی بنیاد پر احادیث کے نصوص سے احکام و مسائل کا صحیح استنباط کرتے ہیں،تو درحقیقت قرآن و سنت کے نصوص کا وسیع و عمیق اور صحیح علم و فہم رکھنے والے ایسے علماء ہی حقیقی فقیہ ہیں۔
    مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کے اوپر عائد ہونے والے فرائض و واجبات اور حقوق و معاملات کے اعتبار سے دین کے بنیادی واجبی، اور اجمالی علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔
    دین کا تفصیلی اور تحقیقی علم علماء کی علمی قابلیت و صلاحیت کے مطابق ساری امت کی جانب سے کفایت کر جانے کے اعتبار سے علماء کی جماعت پر فرض کفایہ ہے۔
    دین کے بنیادی علم کے حصول پر ہر مسلمان کو کھانے ،پینے اور حلال مال کمانے سے زیادہ کوشش کرنا چاہئے،کیوں کہ کھانے، پینے میں کمی اور حلال مال کمانے میں سستی کرنے سے زیادہ سے زیادہ دنیا کا کچھ معمولی سا نقصان ہو سکتا ہے،لیکن بنیادی علم دین کے حصول سے دوری برتنے سے آخرت کے ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے،کیوں کہ علم دین کے بغیر کسی بھی عمل صالح اور کسی بھی حق کی ادائیگی کا شرعی تصور بھی ناممکن ہے۔
    مسلمانوں کو دین کے بنیادی علم سے آراستہ کرنے میں مساجد کے متولیان اور ائمۂ مساجد کا کردار بہت اہم ہے، متولیان مساجد کی ذمہ داری ہے کہ وہ مساجد کے لیے ایسا امام مقرر نہ کریں، جو صرف حافظ قرآن ہو،بلکہ عالم دین امام کو منتخب کریں اور ان ائمۂ مساجد کو اچھی تنخواہ دی جائے،جس سے ان کا گزر بسر آسانی سے ہو سکے،اور تاکہ ائمۂ مساجد زیادہ تر وقت قرآن و سنت کی تعلیمات اور احکامات کا گہرا مطالعہ کرنے میں صرف کر سکیں،اور ائمۂ مساجد اپنی مسجد کے مصلی حضرات(مرد و خواتین)کو روزانہ درس قرآن و درس حدیث، ہفتہ واری اجتماع اور ماہانہ اجتماع کی صورت میں مسلمانوں کے لیے اہم اور ضروری موضوعات پر دروس دیتے ہوئے دین کے بنیادی علم سے آراستہ کرنے کی کوشش کریں،اسی طرح دینی جماعتوں کے ذمہ داران کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیہاتی، شہری اور صوبائی سطح پر اپنے دعاۃ اور ذمہ داران کو گاہے بگاہے بھیجتے ہوئے لوگوں کی دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہیں۔
    اور اسی طرح دینی مدارس کے وہ فارغین جو مساجد و مدارس اور دعوتی اداروں سے منسلک تو نہیں ہیں،لیکن اپنی تجارت اور صنعت و حرفت میں مصروف ہیں،وہ بھی علم دین کے تقاضوں میں ایک اہم تقاضے دعوت و تبلیغ دین کی ادائیگی کے سلسلے میں اپنا وقت نکالنے کی کوشش کریں،اور علماء کرام کو وقتا ًفوقتا ًانفرادی دعوت میں بھی توجہ دیتے رہنا چاہئے۔
    موجودہ دور میں جدید ٹیکنالوجی کے مفید استعمال سے بھی مسلمانوں کو دین کے بنیادی علم سے آراستہ کرنے میں مختلف کوششیں جاری رکھی جا سکتی ہیں۔اور جو مسلمان جہالت کے ساتھ زندگی گزارنے پر مطمئن ہیں،وہ روز قیامت اللہ کی گرفت اور پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے،کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
    {فاسئلوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون}
    ’’تم اہل ذکر سے سوال کرو اگر تم نہیں جانتے ہو‘‘۔
    [الانبیاء:]
    اہل ذکر سے مراد قرآن و سنت کی تعلیمات اور احکامات کا صحیح علم و فہم رکھنے والے علماء ہیں۔
    علماء کے دروس اور خطابات میں اور دینی اجتماعات میں شرکت کرتے ہوئے اور علماء کرام سے رابطہ رکھتے ہوئے علم دین حاصل کرنے کی کوشش ہر مسلمان کو تادم حیات کرتے رہنا چاہئے،کیوں کہ علم دین کا حصول عبادت ہے۔
    مسلمانوں کو دین کے بنیادی علم کے حصول پر ابھارنے کے لئے اور علم دین کی اہمیت و افادیت اور ضرورت کو اجاگر کرنے کے مقصد سے اللہ کی توفیق سے یہ مختصر سی تحریر لکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
    اللہ تعالیٰ ہم علماء کرام کو اپنے اقوال و اعمال میں اخلاص پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم علماء کرام کو اپنی دعوتی و تبلیغی ذمہ داریوں کو بقدر استطاعت اور صلاحیت تادم حیات انجام دیتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
    ٭٭٭

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings