-
قبر کی زیارت کی مشروعیت عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ:مَرَّ النَّبِيّﷺ بِامْرَاَةٍ تَبْكِي عِنْدَ قَبْرٍ، فَقَال: اِتَّقِي اللّٰهَ وَاصْبِرِي۔ قَالَتْ: إِلَيْكَ عَنِّي، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِيبَتِي۔ وَلَمْ تَعْرِفْهُ، فَقِيلَ لَهَا: إِنَّهُ النَّبِيُّﷺ، فَاَتَتْ بَابَ النَّبِيّﷺ، فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَهُ بَوَّابِينَ، فَقَالَت: لَمْ اَعْرِفْك۔ فَقَال: إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْاُوْلٰي‘‘
ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیںنبی ﷺ کا گزر ایک عورت پر ہوا جو قبر پر بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: کہ اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ وہ بولی جاؤ جی پرے ہٹو۔ یہ مصیبت تم پر پڑی ہوتی تو پتہ چلتا۔ وہ آپ کو پہچان نہ سکی تھی۔ پھر جب لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ نبی کریم ﷺ تھے، تو وہ (گھبرا کر) نبی کریم ﷺ کے دروازہ پر پہنچی۔ وہاں اسے کوئی دربان نہ ملا۔ پھر اس نے کہا میں آپ کو پہچان نہ سکی تھی۔ (معاف فرمائیے) تو آپ نے فرمایا: صبر تو جب صدمہ شروع ہو اس وقت کرنا چاہیے‘‘۔
[صحیح البخاری:۱۲۸۳]
راویٔ حدیث کا مختصر تعارف: ان کا نام انس بن مالک الخزرجی ہے،ان کی کنیت ابوحمزہ ہے ،دس سال تک انہوں نے رسول اللہﷺ کی خدمت کی ، ان سے۱۲۸۶حدیثیں مروی ہیں،جس میں۱۶۸حدیثیں متفق علیہ ہیں،۸۳حدیثیں بخاری کی ہیں،۹۱مسلم کی ہیں۔ صحابۂ کرام میں سب سے زیادہ صاحب اولاد یہی تھے،ان کی والدہ کے کہنے پر رسول اللہ ﷺنے ان کے لیے دعا کیا تھا :’’اللهم بارك فى ماله وولده واطل عمره واغفر ذنبه‘‘’’اے اللہ تو ان کے مال ،اولاداورعمر میں اضافہ فرمااور ان کے گناہوں کو معاف کردے ‘‘۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہاکرتے تھے کہ نبی ﷺنے میرے لیے چار چیزوںکی دعا کی تھی ،جن میں تین تو قبول ہوگئیں، وہ اس طرح کہ انس ابن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس ایک باغیچہ تھا جو سال میں دو بار پھل دیتا تھا، سوسے زیادہ اولاد انہوں نے اپنی پشت سے دیکھیں اور سوسال سے زیادہ انہیں عمر ملی ۔ چوتھی دعا مغفرت کی تھی ۔ بصرہ کے یہ آخری صحابی ہیں۔سنہ ۹۳ھ میں ان کا انتقال ہوا۔
مستنبط مسائل:۱
۔ عورت و مرد ونوںکے لیے قبر کی زیارت مشروع ہے،ہاںبکثرت عورت کو قبر کی زیارت سے منع کیا گیا ہے۔
۲۔ رسول اللہ ﷺ کے تواضع کا علم ہوتاہے کہ دنیا کے ایک عظیم انسان ہونے کے باوجود بھی کسی کو آپ نے دربان نہیں رکھا ہے،بلکہ جو بھی آپ سے ملنا چاہے وہ براہ راست مل سکتاتھا۔۳
۔ اصل صبر صدمہ پہنچتے ہی ہے ۔۴
۔ مصیبت سے دوچار شخص کو اس مصیبت پر صبر کی نصیحت کرنا چاہئے۔ساتھ ہی ساتھ تقویٰ کی بھی۔ ۵
۔ نبی ﷺ کے اخلاق کا علم ہوتا ہے کہ خیر کی طرف دعوت دینے پر بھی اس خاتون نے سخت اندازمیں آپ سے گفتگو کیا۔ ۶
۔ جہالت کے سبب انسان سے صادر ہونے والی غلطی پر مواخذہ نہیں ہے ،جیسا کہ وہ خاتون آپ کو پہچان نہیں سکی تھیں ، اس وجہ سے انہوں نے غیر مناسب اندازمیں آپ سے بات کی ۔۷
۔ قبر کے پاس رونا یہ صبر کے منافی ہے، اسی وجہ سے رسول اللہﷺ نے کہا:’’اتَّقِي اللّٰهَ وَاصْبِرِي‘‘۔