-
اُمہات المومنین رضوان اللہ علیہن کے فضائل کتاب و سنت کی روشنی میں کرۂ ارض پر پیدا ہونے والی تمام عورتوں میں ’’امہات المومنین‘‘ کا طبقہ سب سے زیادہ پاکیزہ، معزز اور محترم ترین طبقہ ہے جنہیں یہ عزت و عظمت، احترام و قدردانی نبی کریم ﷺ کے عقد میں شامل ہونے کی وجہ سے حاصل ہے۔
گرچہ قرآن کریم میں کسی ایک بھی ام المومنین کا نام صراحتاً ذکر نہیں ہے، مگرامہات اورازواج کے الفاظ کا استعمال کرکے ان کی عظمت و عزت اور مقام و منزلت کو دنیا کی تمام عورتوں میں بلند کیا ہے۔
نبی کریمﷺکے اہل بیت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے مقرر کردہ محبت اور ولایت کے حقوق کے مطابق اہل سنت کے نزدیک ان کااحترام اور قدر دانی واجب ہے۔کیونکہ نبی کریم ﷺنے اپنے امتیوں کو یہ وصیت کی ہے:
’’وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللّٰهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللّٰهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللّٰهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي‘‘۔
’’میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتا ہوں، تین بار فرمایا‘‘۔
[صحیح مسلم:۶۲۲۵]
اسی وجہ سے اہل سنت ان جماعتوں سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں جو اہل بیت کے سلسلے میں افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں، اور ان سے بھی براء ت کا اظہار کرتے ہیں جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے زبان درازیاں کرتے ہیں۔
عام طور پر تمام مسلمان اور خاص طور پر اہل سنت والجماعت تمام اہل بیت اور بالخصوص امہات المومنین کے ساتھ محبت کرتے ہیں، اور انہیں تکلیف دینے اور ان کی برائی کرنے کو حرام قرار دیتے ہیں۔
اللہ کا ارشاد ہے:
{النَّبِيُّ أَوْلَيٰ بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُم}
’’پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں‘‘۔
[الاحزاب:۶]
جو نبی کریمﷺکے اہل بیت یا ازواج مطہرات میں سے کسی پر بھی طعن و تشنیع کرے گا وہ ایمانی نسب سے مردود اور دھتکارا ہوا ہوگا کیونکہ مومن کبھی بھی اپنے نبی کی بیویوں کے سلسلے میں بدزبانی نہیں کرے گا اور عقل بھی اس بات کو قبول نہیں کرتی کہ ایک اچھا بیٹا اپنی ماں پر طعن وتشنیع کرے جبکہ امہات المومنین کا حق ہم پر ہماری حقیقی ماؤں سے زیادہ ہے۔
کیا ان عورتوں سے زیادہ باعزت اور شریف مائیں ہوسکتی ہیں جن کو رسول ﷺنے اپنے لیے منتخب کیا ہو؟ بلکہ اللہ عزوجل نے خود ان کا انتخاب اپنے نبی کے لیے کیا ہے۔
چنانچہ اللہ نے اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
{لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَائُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْئٍ رَّقِيبًا}
’’اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں اور نہ (درست ہے)کہ ان کے بدلے اور عورتوں سے (نکاح کرے) اگرچہ ان کی صورت اچھی بھی لگتی ہو مگر جو تیری مملوکہ ہوں اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا (پورا)نگہبان ہے‘‘۔
[الاحزاب:۵۲]
سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{فَلَمَّا قَضٰي زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَي الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُولًا}
’’پس جب کہ زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلی ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالک بیویوں کے بارے میں کسی طرح تنگی نہ رہے جب کہ وہ اپنی غرض ان سے پوری کرلیں اللہ کا (یہ) حکم تو ہو کر ہی رہنے والا ہے‘‘۔
[الاحزاب:۳۷]
پوری دنیا کی عورتوں پر امہات المومنین کی افضلیت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء}
’’اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو‘‘۔
[الاحزاب:۳۲]
اللہ تعالیٰ نے مومنین پر ان کے ساتھ نکاح کرنے کو حرام قرار دیا ہے، جس طرح حقیقی بیٹے کو اپنی ماں کے ساتھ نکاح اور شادی کرنے کو حرام قرار دیا ہے۔اللہ کا فرمان ہے:
{وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللّٰهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللّٰهِ عَظِيمًا}
’’اور نہ تمہیں جائز ہے کہ تم رسول اللہ کو تکلیف دو اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو۔ یاد رکھو اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے‘‘۔
[الاحزاب:۵۳]
رسولﷺکو ہر اس قول و عمل سے تکلیف ہوتی ہے جس سے ازواج مطہرات کو تکلیف ہونے کا اندیشہ بھی ہو۔یہاں تک اللہ عزوجل نے مومنین کو یہ حکم دیا کہ وہ امہات المومنین کو صرف پردے کے پیچھے سے ہی مخاطب کریں۔فرمان الٰہی ہے:
{وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَائِ حِجَابٍ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللّٰهِ}
’’جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو تم پردے کے پیچھے سے طلب کرو، تمہارے اور ان کے دلوںکے لیے کامل پاکیزگی یہی ہے اور نہ تمہیں جائز ہے کہ تم رسول اللہ کو تکلیف دو‘‘۔
[الاحزاب:۵۳]
پھر جو لوگ امہات المومنین کی عصمت وعفت پر انگلی اٹھاتے ہیں ان کی پاکیزگی پر قرآنی شہادت کے باوجود الزام تراشیاں کرتے ہیں بھلا ایسے لوگوں کو کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے !
پھر آگے اللہ کا فرمان ہے:
{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَائِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَٰلِكَ أَدْنَيٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُورًا رَّحِيمًا}
’’اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں۔اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہوجایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔
[الاحزاب:۵۹]
پھر اس کے فوراً بعد اللہ عزوجل نے فرمایا:
{لَئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا}
’’اگر (اب بھی) یہ منافق اور وہ جنہوں کے دلوں میں بیماری ہے اور لوگ جو مدینہ میں غلط افواہیں اڑانے والے ہیں باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کی (تباہی) پر مسلط کردیں گے پر تو وہ چند دن ہی آپ کے ساتھ اس (شہر) میں رہ سکیں گے‘‘۔
[الاحزاب:۶۰]
اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کہ مدینہ سے بعض منافقین اور دل میں فسق و فجور کا روگ رکھنے والے لوگ راستے میں عورتوں کو چھیڑتے تھے اور جھوٹی خبریں پھیلا کر مسلمانوں کو پریشان کرتے تھے، جیسا کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان کے معاملے میں کیا۔ ان آیات میں پہلے تو عورتوں کو پردے کا حکم دیا، تا کہ ایسے بدنیت لوگوں کو دست درازی کی جرأت نہ ہو سکے۔
(تفسیر القرآن الکریم،تفسیر عبدالسلام بھٹوی)
اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کرنے والوں کو منافق اور ان جیسوں کی عادت بتائی ہے اور مومنین کو یہ تاکیدی حکم دیا ہے کہ وہ ان کی طرح نہ بنیں۔
اللہ عزوجل نے واضح طور سے بیان کردیا ہے کہ اس شخص کا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا جو قرآن اور حدیث کو چھوڑ کر سرداروں اور با اثر لوگوں کی باتوں میں آکر امہات المومنین پر الزام تراشی کرے گا ۔(اگر ایسے لوگ توبہ کرنے سے پہلے مر جائیں تو دوزخ میں جائیں گے)۔اللہ کا فرمان ہے:
{يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللّٰهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاء َنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا}
’’اس دن ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے (حسرت اور افسوس سے)کہیں گے کاش ہم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے۔اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب!ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا‘‘۔
[الاحزاب:۶۶۔۶۷]
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : (اپنے زمانے میں ) حضرت مریم علیہا السلام سب سے افضل عورت تھیں اور (اس امت میں )حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے افضل ہیں۔
[صحیح بخاری : ۳۸۱۵]
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا امت محمدیہ کی سب سے بہترین عورت ہیں۔
(فضائل امہات المومنین کا تذکرۂ عنبریں:ص: ۲۰)
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت اس سے واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺکے ساتھ شادی سے پہلے ریشم کے کپڑے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تصویر جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺکے پاس لائے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’تم مجھے تین راتوں تک خواب میں دکھائی دیتی رہی ہو، ایک فرشتہ ریشم کے ایک ٹکڑے پر تمہیں (تمہاری تصویر کو)لے کر میرے پاس آیا۔ وہ کہتا:یہ تمہاری بیوی ہے، میں تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹاتا تو وہ تم ہوتیں، میں کہتا: یہ(پیشکش) اگر اللہ کی طرف سے ہے تو وہ اسے پورا کردے گا‘‘۔
[صحیح مسلم :۶۲۸۳]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت میں یہ بھی شامل ہے کہ عطاء بن ابو رباح فرماتے ہیں کہ عائشہ رضـی اللہ عنـہا تمام لوگوں میں سب سے بڑی فقیہہ، عالمہ اور سب سے بہترین صاحب الرائے تھیں۔
(فضائل امہات المومنین کا تذکرۂ عنبریں:ص:۴۰)
مذکورہ بالا حدیث اور قول سے ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہتر سے بہتر تصویر کا مشاہدہ کرسکتے ہیں اس کے علاوہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سلسلے میں اور بھی بہت سارے اقوال اور احادیث موجود ہیں جن سے ان کی عظمت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔
اُم المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا بھی حدیث کے آئینے میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ تمنا کی کہ وہ رہن سہن میں سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کی طرح بن جائیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’میں نے کوئی عورت نہیں دیکھی جو مجھے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کی نسبت زیادہ پسندیدہ ہو کہ میں اس کے پیکر میں ہوں (اس جیسی بن جاؤں) ایک ایسی خاتون کی نسبت جن میں کچھ گرم مزاجی (بھی)تھی‘‘۔
[صحیح مسلم:۳۶۲۹]
اُم المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا فضل و کمال کچھ اس طرح ہے کہ ایک روز حضرت جبرئیل علیہ السلام رسولﷺکے پاس تشریف لائے اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’یہ بہت زیادہ روزے رکھنے والیں اور عبادت گزار خاتون ہیں اور یہ جنت میں بھی آپ کی بیوی ہوں گی‘‘۔
[مستدرک حاکم :۱۵؍۴]
بھلا جس کی نیکو کاری اور تقویٰ شعاری کی شہادت جبرئیل امین کی زبان پیش کرتی ہو اس کے فضل و کمال کا کیا پوچھنا۔
اسی طرح تمام امہات المومنین کے بارے میں حدیثیں موجود ہیں۔
لہٰذا تمام امہاتُ المومینین کے فضل و کمال کے لیے اتنا کافی ہے کہ انہیں پیارے پیغمبر کے عقد میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا اور وہ سب کے سب جنتی ہیں۔
اخیر میں اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اے اللہ ہم سب کو امہات المومنین کا احترام کرنے ،ان کی عصمتوں کا دفاع کرنے اور ان سے محبت کرنے کی توفیق عطاء فرما اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں ان لوگوں سے دور رکھ جو ان کی ناموس پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔آمین یارب العالمین