Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • علمائے دین اور مفکرین

    علمائے دین اورمفکرین کا عنوان دیکھ کرممکن ہے کچھ لوگ کہیں کہ علماء بھی تومفکرہوسکتے ہیں بلکہ بعید نہیں کہ یہ بھی کہہ دیاجائے کہ علماء ہی مفکر ہوتے ہیں ،اس لیے ہم سب سے پہلے اپنی مراد واضح کردینا ضروری سمجھتے ہیں ۔
    علماء سے ہماری مرادوہ گروہ ہے جس نے حصول علم کے لیے باقاعدہ مستند اہل علم کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہو یا انہی کے منہج پر ذاتی مطالعہ سے علم دین حاصل کیا ہو،اوراس کے ساتھ ہی وہ صرف اور صرف دین حق ہی کی بالادستی کے قائل ہو ۔
    جبکہ مفکرین سے ہماری مرادوہ لوگ ہیں جنہوں نے یاتودینی درس گاہوں میں قدم ہی نہیں رکھا، یا پھردرس گاہوں میں پڑھنے کے باوجود ان کے منہج میں انحراف آگیا اورمصلحت اندیشی نے انہیں کج اندیشی تک پہنچادیا ۔
    آج بدقسمتی سے دعوت وتبلیغ کے میدان میں اسی دوسرے گروہ کی مقبولیت عام ہے، بلکہ ان حضرات نے تودعوت وتبلیغ کو ایک فیشن بناڈالا ہے،اورآج کی بھولی بھالی عوام بلکہ بعض مفاد پسند اورظاہر پرست و نام نہاد اہل علم نے ایسے ہی لوگوں کودین کا اصل خادم سجھ رکھا ہے اوران کی نظرمیں علماء دین بلکہ ائمہ متقدمین تک کاکوئی خاص مقام ومرتبہ باقی نہیں رہاہے ۔
    دراصل لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ جس کام کو علماء روایتی طریقہ پر کررہے تھے عین اسی کام کے لیے مفکرین نے جدیداسلوب اختیارکیا ہے اور اس میدان میں انہوں نے علماء کو بہت پیچھے چھوڑدیاہے۔
    بالفاظ دیگر لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ علمائے دین اورمفکرین دونوں کا مشن ایک ہی ہے بس طریقہ واسلوب الگ الگ ہے۔
    لیکن یہ بہت بڑی بھول اورگمراہ کن غلط فہمی ہے ،حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کے طریقوں میں عدم یکسانیت ہونے کے ساتھ ساتھ دونوںکے مقاصد اور نصب العین میں بھی بنیادی فر ق موجود ہے ۔
    ذیل میں علمائے دین اورمفکرین کے درمیان بعض بنیادی فروق کی وضاحت کی جارہی ہے:
    ۱۔ ہرسوال کاجواب: علمائے دین اپنے کام کو اجتماعی کام سمجھتے ہیں،یعنی یہ اس تصورکے ساتھ دین کی تبلیغ کرتے ہیں کہ ہمیں جتناعلم ہے اتنادوسروں تک پہنچائیں گے اور جن امورسے متعلق ہماری معلومات ناقص ہیں انہیں اپنے سے بڑے علماء کے لیے چھوڑدیں گے،کیونکہ ایک ہی فرد کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ شریعت کا ہرمسئلہ اس کے علم میں ہو، بالفاظ دیگر یہ سمجھ لیں کہ اہل علم کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ ان میں سے ہرایک کے پاس ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا ۔
    اس کے برخلاف مفکرین کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کودین کا ٹھیکے دارسمجھ لیتے ہیں ،اور ہرمسئلہ میں رائے دیناضروری سمجھتے ہیں، ان کا تصوریہ ہوتا ہے کہ اگراس مسئلہ کا حل ہم نے پیش نہیں کیا توکون پیش کرے گا؟ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ جوکام ان سے نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ لازمی طورپرکسی اورسے وہ کام لے گا،کیونکہ اللہ نے دین کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے،مفکرین کا یہ طرزعمل نہ صرف یہ کہ انہیں متکبر ومغرور بناتا ہے بلکہ بسااوقات انہیں عمدا غلط جوابات دینے پر بھی مجبورکردیتاہے۔
    ۲۔ قائل کرنا: علمائے دین اپنی ذمہ داری صرف اسی حدتک محسوس کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے سچے دین کو انسانوں تک پہنچادیں اوران پرحجت قائم کردیں بس، باقی ہدایت کا معاملہ پراللہ پرچھوڑدیتے ہیں۔اس کے برعکس مفکرین کامشن یہ ہوتاہے کہ وہ اپنے مخاطب کوقائل کرلیں اوراسے اپنے موقف کا پابندبنالیں،علمائے دین اورمفکرین کی دعوت میں اس بنیادی فرق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ علماء کرام دین کو ایک امانت سمجھتے ہیں اوراسے جوں کاتوں پیش کرتے ہیں ، چاہے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے، جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: { وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَائَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَائَ فَلْيَكْفُرْ } ’’ اور اعلان کردیں کہ یہ سراسر برحق قرآن تمہارے رب کی طرف سے ہے۔ اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے‘‘۔ [الکھف:۲۹]
    مگرمفکرین حضرات جب یہ دیکھتے ہیں کہ دین کی فلاں بات اپنی اصل شکل میں لوگوں کے لیے ناقابل قبول ہے تو وہ اس میں پیوندکاری کرنے لگ جاتے ہیں ، اوربراہ راست قرآن وحدیث کو سمجھنے کا دعویٰ اورعلمی اختلاف کا سہارا لے کر نصوص کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگ جاتے ہیںاوردعوت کے لیے ’’جدیداسلوب ‘‘ کے نام پرتحریف سے تعطیل تک جاپہنچتے ہیں۔
    ۳۔ تبدیل دین: علمائے کرام اگر کسی اعتراض کا جواب اپنے پاس نہیں پاتے تو بلاجھجک’’لا ادری‘‘ (اس کا جواب مجھے نہیں معلوم) کہہ کربڑے علماء کی طرف احالہ کردیتے ہیں، لیکن کسی اعتراض سے مرعوب ہوکر یا اس کاجواب نہ پاکر دین کے کسی مسئلہ کا انکار تو دورکی بات اس میں ترمیم کو بھی خوفناک اورعذاب الیم کا موجب سمجھتے ہیں، اس کے برعکس مفکرین کا طرزعمل یہ ہے کہ انہوں نے ہراعتراض کاجواب دینے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ،اورفکرونظر نے انہیں اس غرورمیں مبتلاکردیا کہ اگر ہم نے اس اعتراض کا جواب نہیں دیا تو پھرکون دے گا؟اس لیے ان کی طرزفکریہ ہوتی ہے کہ دین کے جس مسئلہ پرایسااعتراض وارد ہو جس کا جواب ہمارے پاس نہ ہوتو سرے سے اس مسئلہ ہی کو دین سے نکال دو،اورپھر اسی تحریف وتعطیل کواعتراض کا جواب بنادو۔اس کی چندمثالیں ملاحظہ ہوں:
    مرتد کی سزا کاانکار: دین اسلام پر ایک اعتراض یہ ہے کہ اسلام مذہبی آزادی کا قائل نہیں ہے کہ اگرکوئی مسلم اسلام چھوڑ کردوسرا مذہب قبول کرنا چاہے تواسلام میں اس کے لیے سزائے موت ہے۔
    علمائے دین کے پاس اس اعتراض کا معقول جواب موجود ہے لیکن بدقسمتی سے مفکرین سے اس اعتراض کا جواب نہیں بن پاتا اورنتیجۃ ًوہ مرتد کی سزا ہی کاانکارکردیتے ہیں، اب آپ خود فیصلہ کریں کہ یہ تبلیغِ دین ہے یا تبدیل ِدین؟
    عورتوں کے لیے بھی حور: خواتین کو اسلام سے متنفر کرنے کے لیے یہ اعتراض بھی کیا جاتاہے کہ جنت میں مردوں کے لیے حورہے تو عورتوں کے لیے کیا ہے؟ اس کا تسلی بخش جواب بھی علمائے دین کے پاس موجود ہے مگرمفکرین حضرات سے کوئی جواب نہیں بن پڑتا تو چودہ سوسالہ اجماعی عقیدہ کو کچلتے ہوئے ’’حور‘‘ کامعنیٰ ہی بدل دیتے ہیں اور یہ کہہ کرمعترضین کو خاموش کردیتے ہیںکہ جنت میں عورتوں کے لیے بھی حورہے، اورجولوگ حور کامعنیٰ خوبصورت عورت کرتے ہیں وہ غلطی پرہیں انہیں حورکامعنیٰ ہی نہیں معلوم۔
    اسی طرح علامات قیامت کا انکار،عذاب قبرکاانکاروغیرہ وغیرہ، ان سب کے انکارکے پیچھے مفکرین کی مجبوری یہی ہے کہ وہ اپنے طے کردہ معیارکے مطابق ان چیزوں کو سمجھانے سے قاصرہیں،اس لیے اغیارکی طرف سے تبدیلِ دین کے مطالبہ کو شعوری یاغیرشعوری طور پر پوراکررہے ہیں۔
    یادرہے کہ دین میں تبدیلی کا مطالبہ عہدرسالت میں بھی کیا گیا مگراس مطالبہ کو ہرگز پورانہیں کیا گیا بلکہ اللہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا:
    { وَإِذَا تُتْلٰي عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَائَ نَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَي إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ  }
    ’’اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں جو بالکل صاف صاف ہیں تو یہ لوگ جن کو ہمارے پاس آنے کی امید نہیں ہے یوں کہتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی دوسرا قرآن لائیے یا اس میں کچھ ترمیم کردیجئے۔ آپﷺیوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کردوں بس میں تو اسی کا اتباع کروں گا جو میرے پاس وحی کے ذریعہ سے پہنچا ہے، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں۔
    [یونس:۱۵]
    آج ہماری ذمہ داری بھی یہی ہے کہ صرف تبلیغ ِ دین کا کام کریں ،تبدیلِ دین کا نہیں۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings