-
تکبر شریعت کی عدالت میں تکبر کے لغوی معانی بڑائی کے ہیں، اور اصطلاح میں تکبر اس کو کہتے ہیں جس میں انسان اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے بڑا اور حقیر سمجھتا ہے۔
تکبر کے دو جزء حدیث میں بیان کئے گئے ہیں، رسولﷺ کا ارشاد ہے:
’’تکبر:حق کو قبول نہ کرنا اورلوگوں کو حقیر سمجھنا ہے‘‘۔
[صحیح مسلم :۲۶۵]
اللہ تعالیٰ غرور و تکبر کرنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے، جبکہ عاجزی وانکساری کرنے والوں کو سربلند کرتا ہے، تکبر وغرور کا نتیجہ دونوں جہان میں صرف اور صرف ذلت ورسوائی ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ابلیس کی ذلت کی وجہ بیان فرمائی ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کیا جب اللہ تعالیٰ نے اس کو فرشتوں کی جماعت کے ساتھ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، تو اس نے انکار اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا۔
[سورہ بقرہ : ۳۴]
بلاشبہ تکبر ایسا گناہ ہے جو اللہ کی طرف رجوع سے روکتا ہے، اور جب تکبر کرنے والا اپنے گناہ پر ہمیشگی برتتا ہے تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے، تکبر کی وجہ سے متقی وپرہیزگار لوگ بھی فساق وفجار کے زمرے میں شامل ہو جاتے ہیں۔
تکبر کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں، بسا اوقات انسان اپنے کثرت علم کی بنا پر تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے بہتر و افضل سمجھنے لگتا ہے حالانکہ علم پر تکبر کے نتیجے میں ہی شیطان کو ذلت ورسوائی ملی۔
شہرت کی بلندی بھی پل بھر کا تماشا ہے جس ڈال پہ بیٹھے ہو وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے
بعض اوقات انسان اپنے حسب ونسب، مال ودولت اور اپنے عہدے ومنصب پر تکبر کرنے لگتا ہے، اور وہ یہ گمان کرنے لگتا ہے کہ یہ ساری چیزیں مجھے اپنی طاقت وقوت سے ملی ہیں، لہٰذا وہ اپنے آپ پر فخر کرنے لگتا ہے اور دوسرے لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، وہ متکبرانہ چال چلتا ہے اور یہ پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کی تعظیم وتکریم کریں اور وہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ اپنا رعب ودبدبہ قائم رکھے، متکبر چاہتا ہے کہ جب بھی وہ کسی مجلس سے گزرے تو لوگ اس کے احترام میں کھڑے ہوں حالانکہ ایسے ہی متکبر لوگوں کے بارے میں اللہ کے نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:’’جو شخص اپنے احترام میں لوگوں کے کھڑے ہونے کو پسند کرے تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے‘‘۔[سنن ترمذی :۲۷۵۵، صحیح]
قرآن مجید میں بھی تکبر کرنے والوں کے سلسلے میں سخت وعیدیں آئی ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : {أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوي لِّلْمُتَكَبِّرِينَ}
’’کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم نہیں ہے‘‘؟
[سورہ زمر:۶۰]
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
{ولاَ تَمْشِ فِيْ الْاَرْضِ مَرَحاً اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الجِبالَ طوْلاً}
’’اور زمین میں اکڑ کر نہ چل کہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے‘‘۔
[سورۃ بنی اسرائیل :۳۷]
تکبر کے بارے میں حدیث میں ہے کہ:’’عزت اللہ عزوجل کا تہبند ہے اور کبریائی اس (کے کندھوں)کی چادر ہے، جو شخص ان (صفات) کے معاملے میں اس کے مدمقابل میں آئے گا، وہ اسے عذاب دے گا‘‘۔
[صحیح مسلم :۶۶۸۰]
تکبر کرنے والے کو اللہ تعالیٰ نیچے گرا دیتا ہے، اس کا کوئی مقام نہیں ہوتا، دنیا والوں کی نگاہوں میں بھی حقیر سے حقیر تر ہوتا جاتا ہے، پھر اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی نہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں، نبی اکرمﷺنے فرمایا:
’’تین (قسم کے لوگ) ہیں جن سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ان کو پاک فرمائے گا (ابو معاویہ) نے کہا:نہ ان کی طرف دیکھے گا) اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے:بوڑھا زانی، جھوٹا حکمران اور تکبر کرنے والا عیال دار محتاج‘‘۔
[صحیح مسلم :۱۰۷]
ایک دوسرے مقام پر اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ :
’’جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہو گا، وہ جنت میں داخل نہ ہو گا، ایک آدمی نے کہا : انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ خود جمیل ہے، وہ جمال کو پسند فرماتا ہے، تکبر: حق کو قبول نہ کرنا اورلوگوں کو حقیر سمجھنا ہے‘‘۔
[صحیح مسلم :۲۶۵]
اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا :’’جو صرف اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عزت وسربلندی عطا فرماتا ہے‘‘۔
[صحیح مسلم :۶۵۹۲]
یاد رکھیے: کبریائی و بڑائی صرف اور صرف اللہ ربّ العزت کے لیے ہے کیونکہ وہی اپنی ذات و صفات میں یکتا و کامل ہے، اس کی ذات ہر لحاظ سے کامل ومکمل ہے اس لئے عظمت و کبریائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کو زیب دیتی ہے اور اسی کے شایان شان ہے، لہٰذا بندوں کو چاہیے کہ تواضع و انکساری کو اپنا شیوہ بنائیں کیوں کہ تواضع و انکساری باعزت اور شریف لوگوں کی عادات و اطوار ہیں اور تکبر وغرور برے لوگوں کی عادت وخصلت، تکبر و غرور جیسی مہلک و موذی بیماری سے اللہ ہمیں محفوظ رکھے اور ہمارے اندر تواضع وانکساری کی صفت پیدا کر دے۔آمین
خاکساری سے نہیں گھٹتی کسی کی عزت وہ تکبر ہے جو پستی میں ملا دیتا ہے