-
سوشل میڈیا کے فوائد و نقصانات سوشل میڈیا عہد جدید کے مخترعات میں سے ہے، اور ترقی کا ایک عظیم شاہکار ہے،سوشل میڈیا سماج کے ہر فرد کا جزء لا ینفک اور اس کی ذات کا ایک حصہ بن گیا ہے، اس کا استعمال ایک زمانہ کر رہا ہے،خورد و کلاں،اصاغر و اکابر،صنف قوی اور صنف نازک غرض ہر کس و نا کس کے ہاتھ میں ایک عدد موبائل ضرور ہوتی ہے اس کے خرید میں نہ غربت و افلاس مانع ہوتا ہے نہ تقویٰ اور بے راہ روی کا خدشہ حائل ہوتا ہے، سوشل میڈیا کا استعمال بذاتہ شجر ممنوعہ نہیں ہے بلکہ اس کی حلت و حرمت کا انحصار طریقۂ استعمال پر ہے اگر اس کا استعمال مفضی الی الحرام اور مفضی الی ترک الفریضہ ہو تو نا جائز ہے بصورت دیگر جائز ہے،اس کا استعمال داخل جنت بھی ہے اور واصل جہنم بھی،مگر ظاہر سی بات ہے فہم و بصیرت سے عاری عقل اور خوف و خشیت سے خالی دل رکھنے والا شخص اس کے اچھے استعمال کی سعادت سے محروم ہی رہتا ہے۔
سوشل میڈیا کے فوائد و ثمرات بھی مسلم ہیں اور اس کے نقصانات و مضرات سے بھی کسی کو مجالِ انکار نہیں، سوشل میڈیا کے فوائد و ثمرات کی فہرست بہت طویل ہے، وہ امور جو بذریعۂ کرامت و معجزہ کے انجام پا سکتے تھے انہیں سوشل میڈیا انجام دے رہا ہے، سوشل میڈیا خبر رسانی اور فراہمیٔ اطلاعات کا ایک مفید اور موثر ذریعہ ہے،اس کے ذریعہ رسائل و خطوط اور پیغامات چشم زدن میں عالمی سطح پر بھیجے جا سکتے ہیں، سوشل میڈیا نے ابلاغ اور خبر رسانی کے لئے قریہ نوردی، میلوں کے سفر اور مہینوں کے انتظار جیسے دقت طلب قیود و شروط سے ہمیں آزاد کردیا ہے ،سوشل میڈیا کی وجہ سے دور دراز علاقوں میں قیام پذیر اعزاء و اقرباء، دوست و احباب اور سماج والوں کے رابطہ میں رہنا، ان کا دیدار کرنا، سماجی اور ملکی حالات و کوائف سے باخبر رہنا، آن لائن شاپنگ کرنا، آن لائن تعلیم حاصل کرنا، آن لائن میٹنگ کرنا اور آن لائن پروگرامز کا انعقاد کرنا ،اسی طرح تجارتی امور انجام دینا ممکن ہوگیا ہے،سوشل میڈیا سے دینی خدمات بھی لیے جاسکتے ہیں، علمائے کرام کے اہم موضوعات اور تقاریر سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، قابل قلمکاروں کے پر مغز نگارشات اور تخلیقات کو پڑھا جاسکتا ہے، علمی اور مستند کتابوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے، علماء کے شہرہ آفاق اور مایہ ناز تصانیف تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ذریعے حدیثیں نشر کی جاسکتی ہیں، مآخذ و مصادر تلاش کئے جا سکتے ہیں، حدیث کے صحت و سقم میں تمیز کی جا سکتی ہے، مسائل کا استخراج کیا جاسکتا ہے، ایک اور بڑا فائدہ یہ کہ منبر ومحراب نہ ملنے کی صورت میں بھی اپنی صلاحیتوں کو منصہ شہود پر لایا جاسکتا ہے، متلاشیانِ حق کی رہنمائی کی جا سکتی ہے جو بقول نبی ﷺ ’’فواللّٰه لأن يهدي اللّٰه بك رجلا واحداً خير لك من أن يكون لك حمر النعم‘‘ (بخاری)ایک عظیم اجروثواب ہے ۔
آج جب کہ نت نئے فتنے سر اٹھا رہے ہیں، باطل افکار و نظریات کی حامل جماعتیں اور تنظیمیں فکری یلغار کر رہی ہیں، شکوک و شبہات کے ذریعے کم سواد اور سادہ لوح مسلمانوں کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کی سعیٔ پیہم کر رہی ہیں، زبان کے جادو اور الفاظ کے طلسم کے ذریعے اسلام کے صاف و شفاف تعلیمات سے بدظن کر رہی ہیں ایسے پرفتن حالات میں سوشل میڈیا کے ذریعے علماء کے رابطے میں رہ کر ایک ایک قدم پر ان کی رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے دین اسلام کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جا سکتا ہے، خصوصاً یوٹیوب اور فیس بک وغیرہ کے ذریعے بیک وقت ہزاروں لوگوں کو دین اسلام سے روشناس کرایا جا سکتا ہے آپ ﷺ نے بھی دعوت دین کے لیے میڈیا کا استعمال کیا ،اس کے لیے اُس زمانے کے سب سے اعلیٰ میڈیا صفا پہاڑی کو اپنی اولین دعوت توحید کے لیے استعمال کیا، اسی طرح آپ ﷺ ایام حج میں مکہ آئے ہوئے حجاج کے پاس اور اس علاقے کے مشہور بازار عکاظ ، ذو المجاز اور مجنہ جاکر دعوت دین کا فریضہ انجام دیتے ۔ یہ تو تھے سوشل میڈیا کے فوائد جو ایک مخصوص دائرے میں رہتے ہوئے ہوئے اسے استعمال کرنے کی صورت میں حاصل ہوتے ہیں مگر حد سے تجاوز کرنے کی صورت میں اس کے بہت سارے نقصانات بھی ہیں سوشل میڈیا کا کثرت استعمال تعلیم کو بہت متاثر کرتا ہے، اسباق یاد نہ کرنے ہوم ورک نہ کرنے میں سوشل میڈیا کا بڑا دخل ہوتا ہے،اسی طرح سوشل میڈیا کی وجہ سے وقت کا ضیاع ہورہا ہے ، بصارتیں کمزور ہو رہی ہیں، عبادتیں متاثر ہورہی ہیں، نمازیں موخر ہو رہی ہیں، عبادتوں میں ریا و نمود کی آمیزش ہو رہی ہے، سماج سے قطع تعلقی ہو رہی ہے،مجلسوں سے دلچسپی ختم ہو رہی ہے، بڑوں کی حکم عدولی ہورہی ہے،ذکر و اذکار کی جگہ گانوں اور گیتوں نے لے لیا ہے، مخرب اخلاق فلمیں اور ڈرامے اخلاقی قدروں کو منہدم کر رہے ہیں، فحش اور عریاں تصاویر کے ذریعے ہیجان انگیز ماحول قائم کیا جا رہا ہے، ناجائز تعلقات بھی اسی کی رہین منت ہیں،خلوتیں گناہوں کی لپیٹ میں آ رہی ہیں، حالانکہ آپﷺنے تنہائی میں گناہ کرنے والوں کو سخت وعید سنائی ہے کہ ایسے لوگوں کے حسنات کو اللہ تعالیٰ ذرات میں تبدیل کر دے گا،اسی طرح دینی و اصلاحی دروس سے بے رغبتی اور علماء کی صحبت سے دوری اسی سوشل میڈیا کا نتیجہ ہے، حصول علم کے لئے محض مطالعہ کو کافی سمجھا جا رہا ہے جو بہت ہی مضر ہے کیونکہ بعض مسائل بہت لطیف ہوتے ہیں اور فہم و ادراک کے عمومی سطح سے بلند ہوتے ہیں اسی لیے سلف صالحین صحفیوں کو ناپسند کرتے تھے، اسی طرح خود تراشیدہ اور موضوع احادیث نشر کرنا اور بغیر تحقیق آثار و احادیث کو پھیلانے کا کام بھی اسی سوشل میڈیا سے لیا جاتا ہے حالانکہ یہ بہت بڑی جسارت ہے، اس بارے میں بہت سخت وعید وارد ہوئی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص مجھ پر عمداً جھوٹ بولتا ہے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے‘‘(بخاری )اسی طرح اور دیگر کئی سارے نقصانات ہیں جو سوشل میڈیا کے بے جا استعمال سے جنم لیتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ہم سب کو سوشل میڈیا کا اچھا استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین