Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی کے سبق آموز واقعات

    ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے مطابق پوری زندگی گزارے جیساکہ فرمان الہٰی ہے :
    {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيرًا}
    ’’یقینا تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود)ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے ‘‘۔
    [سورۃ الاحزاب:۲۱]
    اور اگر کوئی مسلمان محمد رسول اللہ ﷺکے اسوۂ حسنہ کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خصوصی طور پرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی سیرت کا مطالعہ کرے کیونکہ اس کائنات میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرح محمد رسول اللہ ﷺکی اتباع و پیروی کرنے والی اور محمد رسول اللہ ﷺکے اسوۂ حسنہ کے مطابق زندگی گزارنے والی جماعت چشم فلک نے نہیں دیکھا ، یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جگہ جگہ رب کائنات نے رسول کائنات محمد رسول اللہ ﷺکے اصحاب کرام کی خصوصی تعریف فرمائی ہے اور کائنات کے تما م اہل ایمان پر یہ واجب قرار دیا ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جیسا ایمان اللہ کی بارگا ہ میں پیش کریں ورنہ ان کا ایمان اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہی نہیں ہوگا ۔ ارشاد ربانی ہے:
    {فَإِنْ آمَنُوْا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِيْ شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللّٰهُ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ }
    ’’اگر و ہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منہ موڑلیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے گا اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔
    [ البقرۃ :۱۳۷]
    میں نے اپنے اس مختصر سے مضمون میں اللہ کی مدد اور اس کی توفیق سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی سیرت سے چند سبق آموز واقعات کو مستند حوالوں اور اہم فوائدکے ساتھ مع عربی متن پیش کیا ہے تاکہ ان واقعات کی روشنی میں ہمارے لیے محمد رسول اللہ کی اتباع اور پیروی کا حقیقی جذبہ پیدا ہو ، اور ہمارے لیے اسوۂ رسول ﷺکی روشنی میں زندگی گزارنا آسان ہوجائے ۔
    ۱۔ایک دیہاتی صحابی کی مثالی شہادت کاایمان افروز واقعہ :
    عَنْ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ، اَنَّ رَجُلًا مِنَ الْاَعْرَابِ جَاء َ إِلَي النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَآمَنَ بِهِ وَاتَّبَعَهُ، ثُمَّ قَالَ:اُهَاجِرُ مَعَكَ، فَاَوْصَي بِهِ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ اَصْحَابِهِ، فَلَمَّا كَانَتْ غَزْوَةٌ غَنِمَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيًا، فَقَسَمَ وَقَسَمَ لَهُ، فَاَعْطَي اَصْحَابَهُ مَا قَسَمَ لَهُ، وَكَانَ يَرْعَي ظَهْرَهُمْ، فَلَمَّا جَائَ دَفَعُوهُ إِلَيْهِ، فَقَالَ:مَا هٰذَا؟، قَالُوْا:قِسْمٌ قَسَمَهُ لَكَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاَخَذَهُ فَجَائَ بِهِ إِلَي النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَال:مَا هٰذَا؟ قَالَ:قَسَمْتُهُ لَكَ، قَالَ:مَا عَلٰي هٰذَا اتَّبَعْتُكَ، وَلَكِنِّي اتَّبَعْتُكَ عَلٰي اَنْ اُرْمَي إِلَي هَاهُنَا، وَاَشَارَ إِلَي حَلْقِهِ بِسَهْمٍ، فَاَمُوتَ فَاَدْخُلَ الْجَنَّةَ فَقَالَ: إِنْ تَصْدُقِ اللّٰهَ يَصْدُقْكَ، فَلَبِثُوا قَلِيلًا ثُمَّ نَهَضُوا فِي قِتَالِ الْعَدُوِّ، فَاُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحْمَلُ قَدْ اَصَابَهُ سَهْمٌ حَيْثُ اَشَارَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اَهُوَ هُوَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:صَدَقَ اللّٰهَ فَصَدَقَهُ، ثُمَّ كَفَّنَهُ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جُبَّةِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَدَّمَهُ فَصَلَّي عَلَيْهِ، فَكَانَ فِيمَا ظَهَرَ مِنْ صَلَاتِهِ: اللَّهُمَّ هٰذَا عَبْدُكَ خَرَجَ مُهَاجِرًا فِي سَبِيلِكَ فَقُتِلَ شَهِيدًا اَنَا شَهِيدٌ عَلٰي ذَلِكَ۔
    ترجمہ : شداد بن ہاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بادیہ نشین نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور آپ پر ایمان لے آیا، اور آپ کے ساتھ ہو گیا، پھر اس نے عرض کیا:میں آپ کے ساتھ ہجرت کروں گا، نبی اکرم ﷺ نے اپنے بعض اصحاب کو اس کا خیال رکھنے کی وصیت کی، جب ایک غزوہ ہوا تو نبی اکرم ﷺ کومال غنیمت میں کچھ لونڈیاں ملیں، تو آپ نے انہیں تقسیم کیا، اور اس کا (بھی)حصہ لگایا، چنانچہ اس کا حصہ اپنے ان اصحاب کو دے دیا جن کے سپرد اسے کیا گیا تھا، وہ ان کی سواریاں چراتا تھا، جب وہ آیا تو انہوں نے (اس کا حصہ) اس کے حوالے کیا، اس نے پوچھا:یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا:یہ حصہ نبی اکرم ﷺنے تمہارے لیے لگایا تھا، تو اس نے اسے لے لیا، (اور) نبی اکرم ﷺ کے پاس لے کر آیا، اور عرض کیا:(اللہ کے رسول!) یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:میں نے تمہارا حصہ دیا ہے، تو اس نے کہا:میں نے اس (حقیر بدلے) کے لیے آپ کی پیروی نہیں کی ہے، بلکہ میں نے اس بات پر آپ کی پیروی کی ہے کہ میں تیر سے یہاں مارا جاوں، (اس نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا) پھر میں مروں اور جنت میں داخل ہو جاوں، تو آپ نے فرمایا:اگر تم سچے ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا وعدہ سچ کر دکھائے گا، پھر وہ لوگ تھوڑی دیر ٹھہرے رہے، پھر دشمنوں سے لڑنے کے لیے اٹھے، تو انہیں (کچھ دیر کے بعد)نبی اکرم ﷺ کے پاس اٹھا کر لایا گیا، اور انہیں ایسی جگہ تیر لگا تھا جہاں انہوں نے اشارہ کیا تھا، نبی اکرم ﷺ نے پوچھا:کیا یہ وہی شخص ہے؟ لوگوں نے جواب دیا:جی ہاں، آپ نے فرمایا:اس نے اللہ تعالیٰ سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تو (اللہ تعالیٰ)نے (بھی) اپنا وعدہ اسے سچ کر دکھایا پھر نبی اکرم ﷺنے اپنے جبّے (قمیص) میں اسے کفنایا، پھر اسے اپنے سامنے رکھا، اور اس کی جنازے کی نماز پڑھی آپ کی نماز میں سے جو چیز لوگوں کو سنائی دی وہ یہ دعا تھی: اے اللہ!یہ تیرا بندہ ہے، یہ تیری راہ میں ہجرت کر کے نکلا، اور شہید ہو گیا، میں اس بات پر گواہ ہوں۔
    [سنن نسائی:۱۹۵۳،کتاب الجنائز: باب الصلاۃ علی الشہداء ]
    فوائد :
    ۱۔ مذکور ہ حدیث کے اس ٹکڑے ’’فَآمَنَ بِهِ وَاتَّبَعَهٌ‘‘پس آپ پر ایمان لے آیا، اور آپ کی اتباع کی سے ثابت ہوتا ہے کہ :دیہاتی صحابی کا ایمان اور اتباع انتہائی خالص اور اعلیٰ درجہ کا تھا ۔
    ۲۔ مذکورہ حدیث کے اس ٹکڑے ’’ اُهَاجِرُ مَعَكَ‘‘ میں آپ کے ساتھ ہجرت کروں گا،سے معلوم ہواکہ: دیہاتی صحابی اللہ سے اور محمد رسول اللہ ﷺسے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔
    ۳۔ مذکورہ حدیث کے اس ٹکڑے ’’، فَاَوْصَي بِهِ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ اَصْحَابِهِ‘‘نبی اکرم ﷺ نے اپنے بعض اصحاب کو اس کا خیال رکھنے کی وصیت کی سے یہ ثابت ہواکہ :محمد رسول اللہ ﷺاپنے اس دیہاتی صحابی کا بہت خیال رکھتے تھے ۔
    ۴۔ مذکورہ حدیث کے اس ٹکڑے ’’مَا عَلٰي هٰذَا اتَّبَعْتُكَ، وَلَكِنِّي اتَّبَعْتُكَ عَلٰي اَنْ اُرْمَي إِلٰي هَاهُنَا، وَاَشَارَ إِلَي حَلْقِهِ بِسَهْمٍ، فَاَمُوتَ فَاَدْخُلَ الْجَنَّةَ ‘‘ میں نے اس (حقیر بدلے) کے لیے آپ کی پیروی نہیں کی ہے، بلکہ میں نے اس بات پر آپ کی پیروی کی ہے کہ میں تیر سے یہاں مارا جاؤں، (اس نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا) پھر میں مروں اور جنت میں داخل ہو جاؤں‘‘اس بات پر واضح دلیل ہے کہ :دیہاتی صحابی کی زندگی کا مقصدصرف اور صرف یہی تھا کہ وہ اپنی جان ومال اللہ کی راہ میں قربان کرکے اللہ کے نزدیک شہادت سے سرفراز ہوکر اللہ کی جنت میں داخل ہوجائیں ۔
    ۵۔ مذکورہ حدیث کی اس عبارت ’’ ثُمَّ كَفَّنَهُ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جُبَّةِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَدَّمَهُ فَصَلَّي عَلَيْهِ، فَكَانَ فِيمَا ظَهَرَ مِنْ صَلَاتِهِ:اَللّٰهُمَّ هٰذَا عَبْدُكَ خَرَجَ مُهَاجِرًا فِي سَبِيلِكَ فَقُتِلَ شَهِيدًا اَنَا شَهِيدٌ عَلٰي ذَلِكَ‘‘۔
    پھر نبی اکرم ﷺ نے اپنے جبّے (قمیص)میں اسے کفنایا، پھر اسے اپنے سامنے رکھا، اور اس کی جنازے کی نماز پڑھی ،آپ کی نماز میں سے جو چیز لوگوں کو سنائی دی وہ یہ دعا تھی:اے اللہ!یہ تیرا بندہ ہے، یہ تیری راہ میں ہجرت کر کے نکلا، اور شہید ہو گیا، میں اس بات پر گواہ ہوں۔ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ :دیہاتی صحابیٔ رسول اتنے خوش نصیب تھے کہ انہیں راہ حق میں شہادت بھی نصیب ہوئی ،رسول اللہ ْﷺکا جبہ بھی بطور کفن ملا، محمد رسول اللہ نے ان کی نماز جنازہ ان کے لیے خصوصی دعا فرمائی اور اللہ کی بارگاہ میں ان کی شہادت کی گواہی بھی دی ۔
    ۲۔ایک صحابی رسول ﷺکا مثالی احساس گناہ :
    عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ:كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَائَ هُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِنِّي اَصَبْتُ حَدًّا فَاَقِمْهُ عَلَيَّ، قَالَ: وَلَمْ يَسْاَلْهُ عَنْهُ، قَالَ: وَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَصَلَّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَضَي النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، قَامَ إِلَيْهِ الرَّجُلُ فَقَالَ:يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِنِّي اَصَبْتُ حَدًّا، فَاَقِمْ فِيَّ كِتَابَ اللّٰهِ، قَال: اَلَيْسَ قَدْ صَلَّيْتَ مَعَنَا قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:’’فَإِنَّ اللّٰهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ ذَنْبَكَ، اَوْ قَالَ:حَدَّكَ ‘‘۔
    ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس تھا کہ ایک صاحب کعب بن عمرو آئے اور کہا:یا رسول اللہ!مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے۔ آپ مجھ پر حد جاری کیجئے۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ بیان کیا کہ پھر نماز کا وقت ہو گیا اور ان صاحب نے بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ ﷺ نماز پڑھ چکے تو وہ پھر نبی کریم ﷺ کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور کہا:یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے آپ کتاب اللہ کے حکم کے مطابق مجھ پر حد جاری کیجئے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ کیا تم نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر اللہ نے تیرا گناہ معاف کر دیا یا فرمایا کہ تیری غلطی یا حد (معاف کر دی)۔
    [صحیح بخاری۔حدیث: ۶۸۳۲،کتاب الحدود۔ بَابُ إِذَا اَقَرَّ بِالحَدِّ وَلَمْ یُبَیِّنْ ہَلْ لِلْإِمَامِ اَنْ یَسْتُرَ عَلَیْہِ]
    فوائد :
    ۱۔ نبی ﷺنے اس صحابی سے یہ نہیں پوچھاکہ کون سا گناہ کیا ہے ؟جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی کے ذریعہ اللہ نے نبی ﷺکو وہ گناہ بتلادیاتھاکہ وہ صغیرہ گناہ تھا ،نہ کہ کبیرہ۔
    ۲۔ مذکورہ حدیث کے اس ٹکرے’’ اِنِّي اَصَبْتُ حَدًّا، فَاَقِمْ فِيَّ كِتَابَ اللّٰهِ ‘‘مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے۔ آپ مجھ پر حد جاری کیجیے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابیٔ رسولﷺکا یہ عقیدہ انتہائی ٹھوس تھا کہ : قیامت کے دن کاعذاب دنیا کی سزا سے بہت زیادہ سخت ہوگا۔
    ۳۔ گناہ گار کے گناہ کو چھپاکر اس کی اصلاح کرنی چاہیے کیونکہ نبی ﷺنے نہ صحابی کو ڈانٹا نہ اس سے گناہ کی تفصیل ہی پوچھی ۔
    ۴۔ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہوجاتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو۔
    ۵۔ اس صحابی سے حد والا کوئی بڑا گناہ نہیں ہوا تھا اس لیے نبی ﷺنے اس صحابی پر حد نافذ نہیں کی اگر حد والا گناہ کیا ہوتا تو حد نافذ فرماتے ۔
    ۶۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم گناہوں پر اصرار نہیں کرتے تھے ۔ کیونکہ چھوٹے گناہوں پر اصرر بھی گناہ کو بڑا بنا دیتا ہے ۔
    ۷۔ اگر گناہ ہوجائے تو توبہ میں جلدی کرنی چاہیے ۔
    ۸۔ سنت کے مطابق فرض نماز ادا کرنے سے چھوٹے چھوٹے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔
    ۹۔ دین اسلا م انتہائی آسان اور ساری انسانیت کے لیے رحمت ہے۔
    ۳۔ ایک دیہاتی صحابی کے ساتھ محمد رسول اللہ ﷺکی خوبصورت ومثالی دل لگی کا واقعہ :
    عن اَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي اللّٰه عنه اَنَّ رَجُلًا مِنْ اَهْلِ الْبَادِيَةِ كَانَ اسْمُهُ زَاهِرًا، وكَانَ يُهْدِي رسول اللّٰه صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْهَدِيَّةَ مِنَ الْبَادِيَةِ، فَيُجَهِّزُهُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اَرَادَ اَنْ يَخْرُجَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’إِنَّ زَاهِرًا بَادِيَتُنَا، وَنَحْنُ حَاضِرُوهُ‘‘وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّهُ، وَكَانَ رَجُلًا دَمِيمًا، فَاَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَهُوَ يَبِيعُ مَتَاعَهُ، فَاحْتَضَنَهُ مِنْ خَلْفِهِ، وَهُوَ لَا يُبْصِرُهُ الرجلُ، فَقَالَ الرَّجُلُ اَرْسِلْنِي، مَنْ هٰذَا؟ فَالْتَفَتَ، فَعَرَفَ النَّبِيَّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ لَا يَاْلُو مَا اَلْصَقَ ظَهْرَهُ بِصَدْرِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عَرَفَهُ، وَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:’’مَنْ يَشْتَرِي الْعَبْدَ؟‘‘فَقَالَ:يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِذًا وَاللّٰهِ تَجِدُنِي كَاسِدًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’لَكِنْ عِنْدَ اللّٰهِ لَسْتَ بِكَاسِدٍ‘‘اَوْ قَال’’لَكِنْ عِنْدَ اللّٰهِ اَنْتَ غَالٍ‘‘
    ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی صحابی جن کا نام ’’زاہربن حرام ‘‘ تھا دیہات سے آتے ہوئے نبی ﷺ کے لیے کوئی نہ کوئی ہدیہ لے کر آتے تھے اور جب واپس جانے لگتے تو نبی ﷺ انہیں بہت کچھ دے کر رخصت فرماتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ زاہر ہمارا دیہات ہیں اور ہم ان کا شہر ہیں، نبی ﷺ ان سے محبت فرماتے تھے گو وہ رنگت کے اعتبار سے قابل صورت نہ تھے۔ ایک دن زاہر اپنے سامان کے پاس کھڑے اسے بیچ رہے تھے کہ نبی ﷺپیچھے سے آئے اور انہیں لپٹ کر ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا، وہ کہنے لگے کہ کون ہے، مجھے چھوڑ دو، انہوں نے ذرا غور کیا تو نبی ﷺکو پہچان گئے اور اپنی پشت نبی ﷺ کے سینے کے اور قریب کرنے لگے، نبی ﷺ آواز لگانے لگے کہ اس غلام کو کون خریدے گا؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ !آپ مجھے کھوٹا سکہ پائیں گے، نبی ﷺ نے فرمایا لیکن تم اللہ کے نزدیک کھوٹا سکہ نہیں ہو، بلکہ تمہاری بڑی قیمت ہے۔
    [مسند احمد:۱۲۶۴۸، صحیح ابن حبان: ۵۷۹۰،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ:ج :۲،ص:۴۵۲، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ]
    فوائد :
    ۱۔ مذکور دیہاتی صحابی ہدایا وتحائف کے طور پر ایسی چیزیں لاد کر محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ لاتے تھے تو جو چیزیں مدینہ میں نہیں پائی جاتی تھیں کیونکہ وہ محمد رسول اللہ ﷺسے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ہدیہ دینے سے محبت پیدا ہوتی ہے جیساکہ دوسری حدیث ہے: تہادو اتحابوا۔
    ۲۔ واقعہ مذکور میں محبت رسول ﷺکا ایک خوبصورت منظر نظر آتاہے وہ یہ کہ دیہاتی صحابی کو جب پتہ چلا کہ پیچھے سے رسول اللہ ﷺنے مجھے اپنے سینے سے ازراہ محبت کے پیچھے سے چمٹالیا ہے تو وہ اور زیادہ اپنی پیٹھ کو رسول اللہ ﷺ کے سینے سے چمٹانے لگے تاکہ ان کے دل میںمحمد رسول اللہ ﷺکی محبت اور زیادہ گہری ہوجائے اور رسول ﷺسے اور زیادہ برکت حاصل کرسکیں ۔
    ۳۔ دیگر صحابۂ کرام نے جب یہ خوبصورت منظر دیکھا ہوگا تو وہ آرزو کرنے لگے ہوں گے کہ کاش زاہر کی جگہ رسول اللہ ﷺ مجھے چمٹالیتے ۔
    ۴۔ جب وہ دیہاتی واپس ہونے لگتے تو رسول اللہ ﷺان کے لیے سامان سفر تیار کرتے یعنی ہدیہ کے جواب میں انہیں مدینہ منورہ کی کچھ خاص چیزیں عطا فرماتے جو دیہات میں نہیں ملتی تھیں ۔
    ۵۔ یہ حدیث محمد رسول اللہ ﷺکے تواضع کے بارے میں بڑی عظیم الشان حدیث ہے اس طور پر کہ زاہر بن حرام رضی اللہ عنہ السنن الکبریٰ للبیہقی کے الفاظ ’’وكان دميما ‘‘ کے مطابق بہت بدشکل تھے اس کے باوجود رسول اللہ ﷺان کی طرف بھی پوری توجہ فرماتے ان کا ہدیہ قبول فرماتے ، ان سے محبت کرتے ، ان سے دل لگی کرتے اور ان کے ہدیہ کے جواب میں انہیں بھی ہدیہ عطا فرماتے تھے ۔جب رسول اللہ ﷺنے ان کے بارے میں کہا کہ میرے اس غلام کو کون خریدے گا تو انہوں نے اپنے آپ کو حقیر سمجھتے ہوئے کہا تھا کہ: میں تو بہت سستا ہوں یعنی میری کوئی ویلو نہیں ہے تو رسول ﷺنے ان کی دلجوئی فرماتے ہوئے کہا تھا نہیں تم اللہ کے نزدیک بہت قیمتی ہو۔
    ۶۔ گھر والوں، دوستوں اور بچوں وغیرہ کے ساتھ ہنسی مذاق کوئی معیوب اور بری چیز نہیں بلکہ سنت رسول ہے ،بس شرط یہ ہے کہ ہنسی مذاق شریعت کے دائرے میں ہو ۔
    ۷۔ اللہ کے نزدیک کسی انسان کو مقام و مرتبہ محض اس کی خوبصورتی، رنگ ونسل اور قدوقامت کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت ،ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے ملتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے’’ ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقاکم ‘‘ یہ واقعہ اس بات پر بین ثبوت ہے کہ زاہر بن حرام دیہاتی صحابی اللہ اور اس کے رسول ﷺسے محبت کرنے والے اللہ کے مخلص بندے تھے ۔اسی وجہ سے انہیں اللہ کی طرف سے یہ رتبہ بلند نصیب ہوا ۔
    ۴۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی شکر گزاری کا ایک حسین منظر:
    عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: ’’إِنْ كُنَّا لَنَفْرَحُ بِيَوْمِ الجُمُعَةِ، كَانَتْ لَنَا عَجُوزٌ تَاْخُذُ اُصُولَ السِّلْقِ، فَتَجْعَلُهُ فِيْ قِدْرٍ لَهَا، فَتَجْعَلُ فِيهِ حَبَّاتٍ مِنْ شَعِيرٍ، إِذَا صَلَّيْنَا زُرْنَاهَا فَقَرَّبَتْهُ إِلَيْنَا، وَكُنَّا نَفْرَحُ بِيَوْمِ الجُمُعَةِ مِنْ اَجْلِ ذَلِكَ، وَمَا كُنَّا نَتَغَدَّي، وَلاَ نَقِيلُ إِلَّا بَعْدَ الجُمُعَةِ، وَاللّٰهِ مَا فِيهِ شَحْمٌ وَلَا وَدَكٌ‘‘۔
    ترجمہ : سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ :ہمیں جمعہ کے دن بڑی خوشی رہتی تھی کیونکہ ہماری ایک بوڑھی خاتون تھیں جو چقندر کی جڑیں لے کر اپنی ہانڈی میں پکاتی تھیں، اوپر سے کچھ دانے جَو کے اس میں ڈال دیتی تھیں۔ ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر ان کی ملاقات کو جاتے تو وہ ہمارے سامنے یہ کھانا رکھتی تھیں۔ جمعہ کے دن ہمیں بڑی خوشی اسی وجہ سے رہتی تھی۔ ہم نماز جمعہ کے بعد ہی کھانا کھایا کرتے تھے۔ اللہ کی قسم!نہ اس میں چربی ہوتی تھی نہ گھی اور جب بھی ہم مزے سے اس کو کھاتے۔
    [ صحیح بخاری حدیث :۵۴۰۳،کتاب الاطعمۃ ۔بَابُ السِّلْقِ وَالشَّعِیرِ]
    فوائد:
    ۱۔ جب مہاجرین ہجرت کرکے مدینہ میں آئے تو مدنی زندگی کا ابتدائی دور تنگدستی اور فقروفاقہ کابڑا صبر آزما دور تھا ، ایسے دور میں ایسی سادہ وپر خلوص دعوتیں بھی ان کے لیے بہت خوشگوار محسوس ہوتی تھیںاور اس پر بھی وہ صدق دل سے اللہ کا شکر ادا کیا کرتے تھے ،آج ہم لوگ بیشمار قسم کے اسٹارٹرس اور مرغن غذائیں کھاکر بھی اللہ کا شکر صحیح معنوں میں ادا کرنے کے بجائے ہمیشہ شکوے شکایتیں ہی کرتے رہتے ہیں ۔
    ۲۔ واقعہ مذکور سے معلوم ہوا کہ چقندر جیسی سبزی میں جو وغیرہ جیسی چیزیں ملا کر دلیہ بنایا جائے تو وہ مزیدار قسم کا کھچڑا بن سکتا ہے۔
    ۳۔ کسی بھی مسلمان بھائی کی دعوت کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ قبول کرنا چاہیے ۔ غریب بوڑھیا کی دعوت کو جمعہ کے صحابہ بڑی خوشدلی سے قبول کرکے کھاتے تھے
    ۴۔ دعوت میں گوشت، مچھلی اور صرف مرغن غذائوں کا ہونا ضروری نہیں ،سادہ اور عام غذائوں کی بھی دعوت کی جاسکتی ہے ۔
    ۵۔صحابۂ کرام عام طور سے جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کے بعد کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے ۔
    ۶۔ صحابۂ کرام خاص طور سے جمعہ کی نماز کے بعد عید کے دن کی طرح بہت خوش رہتے تھے اور کوئی میٹھی یالذت والی غذاشوق سے کھاتے تھے ۔
    ۷۔ پہلے زمانے کی بوڑھی خواتین بہت مہمان نواز ہواکرتی تھیں اور عمدہ قسم کے کھانے پکانے میں بھی بہت مہارت رکھتی تھیں ۔
    یہ تھے مختصر طور پر اصحاب رسول ﷺکے چندصحیح و مستند سبق آموز واقعات جن میں ہمارے لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنیم اجمعین کی محبت رسول اور اتباع رسول ﷺکی بے نظیر و روشن مثالیں موجود ہیں ،اگر ہم دونوں جہاں کی سعادت وکامرانی چاہتے ہیں تو ہمیں بھی اسی طرح محمد رسول اللہ ﷺسے محبت اور آپ ﷺکی اتباع کرنی چاہیے جیسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے کی ۔
    آخر میں دعاگو ہوں کہ رب العالمین ہم تمام مسلمانوں کو بھی اصحاب رسول ﷺکی طرح اپنے حبیب محمد رسول اللہ ﷺسے محبت او ر آپ ﷺکی حقیقی اتباع و پیروی کی توفیق عطا فرمااور خاتمہ بالخیر نصیب فرما ۔آمین یارب العالمین وبنعمتہ تتم الصالحات ۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings