Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • صحیح مسلم کی ایک حدیث میں بعض مدرج الفاظ اور شوال کے روزوں سے متعلق بعض اہل علم کا اس سے استدلال

    امام مسلم رحمہ اللہ (المتوفی:۲۶۱)نے کہا:
    حدثنا أحمد بن عبد اللّٰه بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا يحيي بن سعيد، عن أبي سلمة، قال: سمعت عائشة رضي اللّٰه عنها، تقول:’’كان يكون على الصوم من رمضان، فما أستطيع أن أقضيه إلا فى شعبان، الشغل من رسول اللّٰه ﷺ، أو برسول اللّٰه ﷺ‘‘
    ابوسلمہ نے کہا:میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ فرماتی تھیں کہ:’’ مجھ پر جو رمضان کے روزے قضا ہوتے تھے تو میں ان کو قضا نہ کر سکتی تھی مگر شعبان میں اور وجہ اس کی یہ تھی کہ میں مشغول ہوتی تھی رسول اللہ ﷺکی خدمت میں (اور فرصت نہ پاتی تھی)‘‘[صحیح مسلم:رقم:۱۱۴۶]
    اس حدیث کے اخیر میں جو یہ الفاظ ہیں کہ: الشغل من رسول اللّٰه ﷺ، أو برسول اللّٰه ﷺ‘‘
    ’’اور وجہ اس کی یہ تھی کہ میں مشغول ہوتی تھی رسول اللہ ﷺکی خدمت میں (اور فرصت نہ پاتی تھی)‘‘
    انہیں الفاظ کے سبب بعض اہل علم نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نفلی روزے رکھتی ہی نہیں تھی ، پھر اسی بنیاد پر یہ اہل علم ان لوگوں پر رد کرتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے پتہ چلتاہے کہ رمضان کے قضاء والے روزوں سے پہلے شوال کے روزے رکھ سکتے ہیں ، چنانچہ شیخ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’فلا يظن بها أن تصوم النوافل، وتؤخر الفرائض، ما دامت تفطر لأجل حاجة الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم إلى أهله، فكونها تفطر فى النوافل من باب أولي‘‘
    ’’اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ فرض روزوں کو مؤخر کرکے نفل روزے رکھتی تھیں ، جبکہ فرض روزے وہ اس لئے چھوڑتی تھیں کہ اللہ کے نبی ﷺکو ان کی ضرورت پڑتی تھی ، لہٰذا وہ نفل روزوں کو بدرجۂ اولیٰ چھوڑتی ہوں گی‘‘[فتاویٰ نور علی الدرب لابن باز:۱۶؍۴۴۵]
    عرض ہے کہ:
    اس استدلال کی عمارت جن الفاظ پر کھڑی ہے وہ الفاظ اصل حدیث میں ثابت ہی نہیں ہیں نہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ سے نہ ہی ان کے کسی شاگرد کے الفاظ سے بلکہ یہ الفاظ نچلے راوی یحییٰ بن سعید کے ہیں جو انہوں نے اپنے گمان واندازے سے کہے ہیں ، چنانچہ صحیح بخاری میں صراحت ہے:
    ’’قال یحیٰی:الشغل من النبیﷺ‘‘
    ’’یحییٰ نے کہا کہ یہ نبی کریم ﷺکی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے تھا‘‘[صحیح البخاری:رقم:۱۹۵۰]
    حافظ ابن حجررحمہ اللہ بخاری کی شرح میں فرماتے ہیں:
    ’’ووقع فى رواية مسلم المذكورة مدرجا لم يقل فيه قال يحيي فصار كأنه من كلام عائشة أو من روي عنها‘‘
    ’’ اورمسلم کی مذکورہ روایت میں یہ الفاظ مدرجا ًواقع ہوئے ہیں ان میں راوی نے یہ نہیں کہا کہ :ایسا یحییٰ نے کہا ہے ، جس سے ایسا لگتاہے کہ یہ کلام اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا یا ان کے شاگرد کا ہے‘‘ [فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۴؍۱۹۱]
    امام ابن قیم رحمہ اللہ (المتوفی:۷۵۱)فرماتے ہیں:
    ’’هذه اللفظة مدرجة فى الحديث من كلام يحيي بن سعيد قد بين ذالك البخاري فى صحيحه ‘‘
    ’’یہ الفاظ حدیث میں مدرج ہیں اور یہ یحییٰ بن سعید کا قول ہے ، اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں بیان کردیا ہے‘‘[عون المعبود مع حاشیۃ ابن القیم:۷؍۲۴]
    صاحب تحفۃ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’وهذه الزيادة مدرجة من قول يحيي بن سعيد الأنصاري كما بينه الحافظ فى الفتح ‘‘
    ’’اور یہ اضافہ مدرج ہے جو یحییٰ بن سعید انصاری کا قول ہے جیساکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے فتح الباری میں بیان کیا ہے‘‘[تحفۃ الأحوذی:۳؍۴۱۵]
    علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وہی عند البخاری من قول یحییٰ بن سعید،فہی مدرجۃ ‘‘
    ’’اور بخاری میں ہے کہ یہ یحییٰ بن سعید کا قول ہے اس لئے یہ الفاظ مدرج ہیں‘‘[إرواء الغلیل،۴؍۹۸]
    واضح رہے امام مسلم رحمہ اللہ اس بات سے غافل نہیں ہیں کہ یہ الفاظ مدرج ہیں بلکہ انہوں نے خود اس روایت کے بعد دیگر روایات نقل کرتے ہوئے ان الفاظ کے ادراج کو بہت اچھی طرح واضح کردیا ہے چنانچہ امام مسلم رحمہ اللہ مدرج والی روایت کے فوراً بعد کہتے ہیں:
    ’’وحدثنيه محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن جريج، حدثني يحيي بن سعيد، بهذا الإسناد، وقال:فظننت أن ذالك لمكانها من النبى ﷺيحيي يقوله۔وحدثنا محمد بن المثني، حدثنا عبد الوهاب، ح وحدثنا عمرو الناقد، حدثنا سفيان، كلاهما عن يحيي بهذا الإسناد، ولم يذكرا فى الحديث الشغل برسول اللّٰه ﷺ‘‘
    ’’اور محمدبن رافع نے ہم کو اور ان کو عبدالرزاق نے اور ان کو ابن جریج نے اور ان کو یحییٰ بن سعید نے اسی سند سے بیان کیا اور اس میں یحییٰ بن سعید کے الفاظ ہیں:میراگمان ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺکی وجہ سے ایسا کرتی تھی ، یہ یحییٰ بن سعید ہی کا قول ہے ۔ اور ہم کو محمدبن مثنی نے اوران کو عبدالوھاب نے ، نیز ہم کو عمروالناقد نے اور ان کو سفیان نے بیان کیا، دونوں کو یحییٰ بن سعید نے اسی سند سے یہ روایت بیان کیا اور ان دونوں کی روایت میں نبی ﷺ کے ساتھ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی مشغولیت والے الفاظ نہیں ہیں‘‘[صحیح مسلم :۳؍۸۰۳]
    ملاحظہ فرمائیں ! کہ کتنے واضح لفظوں میں امام مسلم رحمہ اللہ نے وضاحت فرمادی ہے کہ مشغولیت والے الفاظ اصل حدیث کا حصہ نہیں ہیں بلکہ امام یحییٰ بن سعید کا اپنا گمان ہے جیساکہ ان کا یہ صراحتاً بیان بھی امام مسلم نے نقل فرمادیا ہے۔
    اور صحیح مسلم کی یہ اہم خوبی ہے کہ اس میں امام مسلم رحمہ اللہ علل وشذوذ وادراج وغیرہ کی طرف بھی اشارہ کردیتے ہیں جیساکہ انہوں نے مقدمہ میں صراحت بھی کی ہے۔
    حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے مزید تفصیل پیش کرتے ہوئے ان الفاظ کو مدرج ثابت کرنے کے بعد آخرمیں کہا:
    ’’وفي الحديث دلالة على جواز تأخير قضاء رمضان مطلقا سواء كان لعذر أو لغير عذر لأن الزيادة كما بيناه مدرجة فلو لم تكن مدرجة لكان الجواز مقيدا بالضرورة‘‘
    ’’اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ رمضان کے قضاء روزوں میں تاخیر کرنا مطلقاً جائز ہے چاہے کوئی عذر ہو یا نہ ہو ، کیونکہ مشغولیت والے الفاظ کا اضافہ مدرج ہے جیساکہ ہم نے بیان کردیا ہے ، اور اگر یہ الفاظ مدرج نہ ہوتے تو قضاء روزوں میں تاخیر کا مطلقاً جواز نہ ہوتا بلکہ اسے ضرورت کے ساتھ مقید کیا جاتا‘‘[فتح الباری لابن حجر، ط المعرفۃ:۴؍۱۹۱]
    معلوم ہوا کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے تاخیر قضاء کو عذر سے مقید کرنا درست نہیں ہے۔
    اور رہی یہ روایت:
    عن عبد اللّٰه البهي، عن عائشة قالت:’’ما كنت أقضي ما يكون على من رمضان إلا فى شعبان، حتي توفي رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم‘‘
    عبداللہ البہی روایت کرتے ہیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’میں رمضان کے قضاء روزے شعبان میں ہی مکمل کرتی تھی یہاں تک کی اللہ کے رسول ﷺکی وفات ہوگئی ‘‘[سنن الترمذی ت شاکر : رقم:۷۸۳]
    تو یہ سیاق اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے دوسرے شاگرد ابو سلمہ کے بیان کے خلاف ہے جوکہ کتب ستہ کے ثقہ شاگرد اور بہت بڑے امام ہیں ، جبکہ عبداللہ البہی کو امام ابوحاتم نے مضطرب الحدیث کہا ہے ۔[علل الحدیث لابن أبی حاتم: ۲؍۴۸]
    مزید یہ کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے عبداللہ البہی کے سماع میں اختلاف ہے ، امام احمد، امام ابن مہدی، امام دارقطنی اور امام ابن ابی حاتم سماع کے قائل نہیں ہیں ۔[مسائل أحمد روایۃ أبی داؤد السجستانی:ص:۴۵۴، المراسیل لابن أبی حاتم ت الخضری:ص:۱۱۵، الإلزامات والتتبع للدارقطنی، ت دار الآثار:ص:۵۶۰، علل الحدیث لابن أبی حاتم:۲؍۴۸]
    امام بخاری نے تاریخ میں سماع ذکر کیا ہے مگر تاریخ میں ان کے منہج کے مطابق ہر جگہ ان کا اثبات سماع مقصود نہیں ہوتا ، قدرے تفصیل ہماری یزید والی کتاب میں ہے، البتہ متعدد محدثین نے اس طریق پر صحت کا فیصلہ کیا ہے، واللہ اعلم۔
    نیز روایت کے الفاظ میں عہد رسالت میں وفات رسول تک ایک فعل کی حکایت ہے جس سے نبی ﷺکے اقرار کی دلیل لینا مقصود ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بعد میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمل بدل گیا ہو اور اگر بدل بھی گیا ہو تو یہ ایک اختیاری معاملہ ہوسکتا ہے یہ اس بات کی صریح دلیل نہیں کہ عہد رسالت والا معاملہ کسی عذر ہی کی بناپر تھا ۔
    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ عمل کسی عذر کی بنا پر تھا ، لہٰذا اس بنیاد پر یہ استدلال کرنا بھی غلط ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا اس دوران دیگر نفلی روزے بھی نہیں رکھتی تھی۔
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’لأن عائشة أخبرت أنها كانت تقضي رمضان فى شعبان،ويبعد أن لا تكون تطوعت بيوم، مع أن النبى ﷺكان يصوم حتي يقال:لا يفطر،ويفطر حتي يقال:لا يصوم،وكان يصوم يوم عرفة وعاشوراء ،وكان يكثر صوم الاثنين والخميس، وكان يصوم ثلاثة أيام من كل شهر‘‘
    ’’کیونکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ کہا ہے کہ وہ شعبان میں رمضان کی قضاء کرتی تھیں ، اور یہ بات بہت بعید ہے کہ انہوں نے اس سے پہلے کسی دن بھی نفلی روزہ نہیں رکھا ، جبکہ اللہ کے نبی ﷺکثرت سے نفلی روزے رکھتے تھے ، یہاں تک کہ کہاجاتا کہ اب آپ روزہ رکھنا بند ہی نہیں کریں گے ، اور جب روزہ رکھنا بند کردیتے تو کہا جاتا اب آپ روزہ نہیں رکھیں گے ، نیز آپ ﷺعرفہ اور عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے ، پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے ، اور ہر ماہ میں تین دن کا روزہ رکھتے تھے‘‘[شرح العمدۃ لابن تیمیۃ :کتاب الصیام:۱؍۳۵۸]
    اور ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس دوران نفل روزے رکھنا ثابت بھی ہے چنانچہ قاسم بن محمد کہتے ہیں:
    ’’أن عائشة أم المؤمنين كانت تصوم يوم عرفة‘‘
    ’’اماں عائشہ رضی اللہ عنہا عرفہ کے دن کا روزہ رکھتی تھیں‘‘[موطأ مالک ت عبد الباقی : رقم:۱۳۳،وإسنادہ صحیح]
    بلکہ بعض روایات سے اشارہ ملتاہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا عرفہ کے علاوہ دیگر نفلی روزے بھی رکھتی تھیں چنانچہ:
    امام ابن أبی شیبۃ رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۵)نے کہا:
    حدثنا غندر، عن شعبة، عن أبي قيس، عن هزيل، عن مسروق، عن عائشة قالت:’’ما من السنة يوم أحب إلى أن أصومه من يوم عرفة‘‘
    ’’اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پورے سال میں عرفہ کے دن سے زیادہ پسندیدہ کوئی اوردن نہیں ہے جس میں میں روزہ رکھوں‘‘[مصنف ابن أبی شیبۃ، ت الشثری:۶؍۱۱۰،وإسنادہ صحیح وأخرجہ علی بن الجعد فی مسندہ :رقم:۵۲۷، والطبری فی تہذیب الآثار:۱؍۳۶۵، والبیہقی فی شعب الإیمان:۵؍۳۱۵،من طرق عن شعبہ بہ]
    اس روایت سے اشارہ ملتا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نہ صرف عرفہ کا روزہ رکھتی تھیں ، بلکہ دیگر نفلی روزے بھی کثرت سے رکھتی تھیں ، اور یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا عرفہ وغیرہ کا روزہ وفات رسول کے بعد رکھتی تھی کیونکہ وہ اس دن کے روزے کو سب سے زیادہ محبوب بتارہی ہیں پھر کیسے ممکن ہے کہ اس محبوب روزے کو عہد رسالت میں ترک کرتی ہوں ۔
    لہٰذا ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا رمضان کے قضاء والے روزے کو شعبان تک مؤخر کرتی تھی لیکن اس دوران وہ دیگر نفلی روزے رکھتی تھی ، بلکہ بعید نہیں رمضان کے قضاء روزوں میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ وہ اس دوران نفلی روزے رکھتی تھی کیونکہ ان میں تاخیر کی گنجائش نہ تھی اس طرح قضاء والے روزے مؤخر ہوتے جاتے بالآخر شعبان میں ان کی بھی قضاء کرلیتیں ، واللہ اعلم۔
    خلاصۂ کلام یہ کہ:
    اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺکی خدمت کے سبب رمضان کے قضاء روزوں کو مکمل نہیں کرپاتی تھی ، لہٰذا اس بنیاد پر یہ کہنا بھی درست نہیں کہ وہ اس دوران دیگر نفلی روزے نہیں رکھتی تھی۔ لہٰذا جو اہل علم اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے اس طرزعمل سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ قضاء روزوں سے پہلے نفلی روزے رکھے جاسکتے ہیں مثلاً شوال کے روزے ، تو یہ استدلال درست ہے ، واللہ اعلم۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings