-
قدرت اور قانون اس دنیا میں شرک کی ابتداء بزرگوں کی شان میں غلوکرنے سے ہوئی ، اللہ کے نبی ﷺنے نہ صرف عام بزرگوں بلکہ خود اپنے بارے میں غلوکر نے منع فرمایاہے۔[صحیح البخاری،رقم۳۴۴۵ ]۔
لیکن افسوس کہ آج کے مسلمان بزرگان دین کی شان میں اس حدتک غلو کرتے ہیں کہ انہیں ہرچیز پرقادر سمجھنے لگتے ہیں ،جب ان سے کہا جائے کہ ہرچیز پرقدرت رکھنا اللہ کی صفت ہے تو جواب دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان کو یہ قدرتیں بخشی ہیں، اورکیا اللہ ایسانہیں کرسکتا،اللہ توہرچیزپرقادرہے ۔
مثلاًکوئی یہ کہتاہے کہ فلاں بزرگ پانی پرتیررہے تھے ،فلاں بزرگ ہوا میں اڑرہے تھے ،فلاں بزرگ نے مردے کو زندہ کردیا ، فلاں بزرگ فوت ہونے کے بعدبھی قبر سے سب کی امداد کرتے ہیں ، وغیرہ وغیرہ ۔
اب اگران سے کہا جائے کہ یہ ساری چیزیں ناممکنات میں سے ہیں،ایسانہیں ہوسکتا۔تو جواب یہ دیاجاتاہے کہ کیوں نہیں ہوسکتاہے؟کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسی باتوں پرقدرت نہیں دے سکتا؟ اللہ تعالیٰ توہر چیزپر قادرہے…!!!
دراصل یہ لوگ قدرت اورقانون کافرق بھول رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ بے شک ہرچیز پرقادرہے ،ارشادہے:
{إِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ}
’’اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
[۲؍البقرۃ:۱۴۸]۔
لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ وہ ہرچیزکرتا بھی ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے اصول اورقوانین ہیں ،ان کے مطابق وہ فیصلے کرتاہے۔
{سُنَّةَ اللّٰهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيلًا}
’’اللہ کے اس قاعدے کے مطابق جو پہلے سے چلا آیا ہے، تو کبھی بھی اللہ کے قاعدے کو بدلتا ہوا نہ پائے گا‘‘۔
[۴۸؍الفتح۲۳]۔
ترمذی کی صحیح حدیث میںہے کہ جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبد اللہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روح سے کہا: تم جوچاہے مجھ سے مانگ سکتے ہو ، انہوںنے کہا اللہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ پھرشہادت پاؤں،اللہ نے جواب دیا:میں پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ یہاں آنے والے دوبارہ دنیامیں نہیں جاسکتے۔
جابر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ:
لَقِيَنِي رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ، فَقَالَ لِي: يَا جَابِرُ مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ اسْتُشْهِدَ أَبِي، وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا، قَال: أَفَلَا أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللّٰهُ بِهِ أَبَاكَ؟ قَالَ: بَلٰي يَا رَسُولَ اللّٰهِ۔قَالَ:’’مَا كَلَّمَ اللّٰهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ، وَأَحْيَا أَبَاكَ فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا۔فَقَالَ: يَا عَبْدِي تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ قَال: يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأُقْتَلَ فِيكَ ثَانِيَةً۔قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلّ: إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُونَ۔
[ترمذی، رقم۳۰۱۰ والحدیث صحیح]۔
رسول اللہ ﷺ مجھ سے ملے اور فرمایا:جابر!کیا بات ہے میں تجھے شکستہ دل دیکھ رہا ہوں؟ میں نے کہا:اللہ کے رسول(ﷺ)!میرے والد شہید کر دیئے گئے، جنگ احد میں ان کے قتل کا سانحہ پیش آیا، اور وہ بال بچے اور قرض چھوڑ گئے ہیں، آپ نے فرمایا:کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے ملاقات کے وقت کہا؟ انہوں نے کہا:کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر پردہ کے کلام نہیں کیا (لیکن)اس نے تمہارے باپ کو زندہ کیا، پھر ان سے (بغیر پردہ کے)آمنے سامنے بات کی، کہا:اے میرے بندے!مجھ سے کسی چیز کے حاصل کرنے کی تمنا و آرزو کر، میں تجھے دوں گا، انہوں نے کہا:رب!مجھے دوبارہ زندہ فرما، تاکہ میں تیری راہ میں دوبارہ شہید کیا جاؤں، رب عزوجل نے فرمایا:میری طرف سے یہ فیصلہ پہلے ہو چکا ہے’’ أنہم إلیہا لا یرجعون‘‘ کہ لوگ دنیا میں دوبارہ نہ بھیجے جائیں گے۔
غورکریں ! کیا اللہ کواس بات پرقدرت نہیں ہے کہ شہداء کو دوبارہ دنیا میں بھیج دے؟ یقینا اس پرقدرت ہے ؟ لیکن یہ اللہ کاقانون نہیں ہے، معلوم ہوا کہ اللہ کے قوانین کے خلاف اگرکوئی بات کہی جائے تو قطعاً مکذوب ہے ۔
کچھ لوگ اس ضمن میں معجزات کو بھی پیش کرتے ہیں ،عرض ہے کہ معجزات کامطلب بھی یہی ہے کہ اللہ کے عام اصول وقوانین سے ہٹ کر کوئی چیزدکھائی جائے ،عام زندگی میں معجزہ کی نظیر نہیں مل سکتی ورنہ معجزہ معجزہ نہیں رہ جائے گا، رہی بات کرامات کی تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے اصول وقواعد ہیں جن کی تفصیل کا یہ محل نہیں ،تفصیل کے خواہشمند ، ’’شریعت وطریقت ‘‘:ازعبدالرحمن کیلانی کا مطالعہ کریں ۔
خلاصۂ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ ہرچیز پرقادرہے لیکن ہرچیزکرنا اس کاکام نہیں ہے، لہٰذا جوبات اللہ کے قوانین کے خلاف پیش کی جائے گی وہ چیز جھوٹی اورمن گھڑت تسلیم کی جائے گی۔