Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • ہندوستان میں علم حدیث کی اشاعت

    دسویں صدی سے پہلے ہندوستان میں باقاعدہ طور پر حدیث کے پڑھنے اور پڑھانے کا اہتمام اس طرح نا تھا جیسا کہ دسویں صدی کے بعد میں ہوا ہے ،کیونکہ دسویں صدی سے پہلے حدیث کی کتابیں درس نظامی میں نہیں پڑھائ جاتی تھیں بلکہ منطق ،فلسفہ ،فارسی ،فقہ وغیرہ کی کتابیں درس نظامی میں شامل تھیں ، اوراگر مشکا ة اور مؤطا وغیرہ کوئ اس زمانہ میں پڑھتا بھی تھا تو برکت کے لئے نا کہ سمجھنے اور عمل کرنے کےلئے،گویاکہ ہندوستان میں علم حدیث کوفروغ دسویں صدی ہجری سے ملا ہے ۔
    اس وقت حجاز میں حافظ محمد بن عبد الرحمان سخاوی(ت902ھ) کا مسند درس بچھا ہواتھا،چنانچہ ان کے بعض تلامذہ نے ہندوستان میں حدیث کی شمع اپنی حد تک روشن کرنے کی کوشش کی ،علامہ سخاوی کے انتقال کے بعد ابن حجر مکی ان کی جگہ پر بیٹھتے ہیں ، ہندوستان سے لوگ ان سے حدیث پڑھنے کے لئے جاتے ہیں  ،جن میں قابل ذکر شیخ علی متقی رحمہ اللہ ہیں ،خدمت حدیث کی تئیں انہوں نے جو کتابیں مرتب کی ہیں ان کے نام ہیں۔
    1-کنزالعمال فی سنن الأقوال
    2-منھج العمال فی سنن الأقوال
    3-غایة العمال فی سنن الأقوال
    4-مستدرک العمال فی سنن الأقوال
    (کنزالعمال فی سنن الأقوالآپ کی مشہور کتاب ہے ،یہ کتاب آپ نے 14 سال میں مکمل کی ہے ۔)
    گیارہویں صدی
    اس صدی کے محدث شاہ عبد الحق بن سیف الدین دہلوی(958ھ1052-) ہیں ،یہ پہلے حجاز کا سفر کرتے ہیں اور وہاں کے علماء سے حدیث پڑھتے ہیں ،اس کے بعد واپس آکر ہندوستان میں مشکا ة کی دو شرحیں لکھتے ہیں ۔ایک عربی میں “لمعات التنقیح ” اور دوسری فار سی میں  “اشعة اللمعات” ۔ پھراس وقت سے حدیث کا اہتمام تھوڑا بہت رواج پاتاہے ،پر مشکل یہ تھی کہ یہ حنفی تھے اس وجہ سے احادیث کی شرح اس انداز میں کرتے جس سے مذہب حنفی کی تائید ہو۔اور بعض احادیث کی ایسی تاویل کرتے جس سے ان کے مذہب کی مخالفت نہیں ہوتی ۔
    (یہی وہ شخص ہیں جو سب سے پہلی بار سفر حجازسے واپس آتے ہوئے کتب ستہ ساتھ میں لاتے ہیں) ۔
    بارہوں صدی میں علم حدیث کی اشاعت
    شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(1114ھ- 1176ھ) 1
    یہ زمانہ تقلید ،بدعت اور صوفیت کا زمانہ تھا، ایسے زمانہ میں لواء سنت کو بلند کرنا بڑا کٹھن کام تھا لیکن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بڑی جدو جہد اور حکمت کے ساتھ اس عظیم فریضہ کو انجام دیتے ہیں، سب سے پہلے یہ 1143ھ میں حرمین کا سفر کرتے ہیں ،اور وہاں دوسال تک ٹھہر کر وہاں کے علماء سے استفادہ کرتے ہیں ،وہاں ان کے مشہور اساتذہ میں ابو طاہر الکردی المدنی ہیں ،اس کے علاوہ انہوں نےاپنے اساتذہ کا ذکراپنی فارسی کی کتاب”انسان العین فی مشایخ الحرمین “میںکیا ہے۔ حرمین کے اساتذہ سے استفادہ کے بعد انہوں نےبطور خاص ابن تیمیہ کی کتابوں کا بھی مطالعہ بھی کیاہے ۔مثلا منھاج السنة ،رفع الملام عن الأئمة الأعلاموغیرہ۔
    1145ھ میں وہاں سے واپس آکر ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں قیام کرتے ہیں ،اس کے بعد انہیں یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ علم حدیث کویہاں کیسے عام کیا جائے اور حدیث کی تدریس کاکیا طریقہ کا ر ہو ،چنانچہ خدمت حدیث کے باب میں سب سے پہلے یہ مؤ طا(بروایت یحی بن یحی اللیثی) کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کی دو شرحیں لکھتے ہیں، ایک مطول اور اورایک مختصر ،مطول شرح فارسی میں جس کا نام ہے المصفی اور عربی میں مختصرشرح بنام المسوی ۔ خاص کرکےانہوں نے فارسی والی شرح میں حدیث کی تصحیح و تضعیف میں محدثین کا طریقہ اپنایا ہے اور فقہی مسائل میں کسی بھی مسئلہ کو انہوں نے راجح دلیل کی بنیاد پر کہا ہے۔اس شرح کے اندر انہوں نے %80 ٪ مسائل میں مذہب حنفی کی مخالفت کی ہے ۔گویا ان کا مقصد اصلا کتاب و سنت پر عمل کی دعوت دینا تھا۔ایسے ہی انہوں نے اپنے والد کے قائم کردہ مدرسہ میں حدیث کی کتابیں بخاری ،مسلم ،ابو داؤد ،نسائ ،ترمذی ابن ماجہ وغیرہ درس نظامی میں شامل کیا۔1176 ھ میں ان کا انتقال ہوتاہے ۔
    انہوں نے وفات سےپہلےاپنی وصیت میں محدثین ہی کے منھج کو اپنانے کی دعوت دی تھی ۔ان کا وصیت نامہ” المقالة الوضیة فی النصیحةوالوصیة “کے نام سے اہل علم کے یہاں مشہور ہے۔
    ان کی تصنیف کردہ کتابوں میں سے بڑی مشہور کتاب “حجة اللہ البالغة”ہے ۔ یہ بہت ہی شاندار کتاب ہے ۔یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے ،پہلا حصہ اصول وقواعد پر مبنی ہے اور دوسرا حصہ احادیث نبویہ میں تشریح کی حکمت کا بیا ن ہے ،اس کتاب کا جو پہلا حصہ ہے اس میں منجملہ ابواب میں سے ایک باب یہ بھی ہے” باب الفرق بین اہل الحدیث و اہل الرأی”ایسے ہی مذاہب اربعہ کے عام ہونے کی تاریخ،دین میں بدعت کیسے داخل ہوئ،اس کتاب کی تالیف کا مقصد تھا لوگوں کو کتاب و سنت سے قریب کرنا ۔
    باب الفرق بین اہل الحدیث و اہل الرأییہ باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔
    انہیں کے نقش قدم پر ان کے بیٹے شاہ عبد العزیز بھی چلے ۔
    شاہ عبد العزیز دہلوی رحمہ اللہ اپنے وقت کے جلیل القدر عالم دین تھے ،مختلف فنون میں مہارت بھی رکھتے تھے ،ان کی بھی کئ ساری مؤلفات ہیں ۔جن میں مشہور کتاب ان کی “التحفة الإثني عشرية” (بالفارسية: تحفهٔ اثنی عشریه)ہے ،روافض کے رد میں یہ ایک اہم کتاب ہے،افسوس اس کتاب کا منا سب اور مکمل ترجمہ اب تک نہیں ہوسکا ۔
    شاہ عبد العزیر رحمہ اللہ نے کتب حدیث کا اہتما م کیا ،مراتب کتب حدیث کو بیان کیا اور کتب حدیث کے طبقات کو بھی بیان کیا ۔اس باب میں انہوں نے دو کتابیں تصنیف فرمائیں ” بستان المحدثین” اور دوسری کتاب “العجالة النافعة “دوسری والی کتاب مصطلح الحدیث اوراسماءو کنی کے ضبط پر ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی وفات کے بعد سے لیکر اپنی زندگی کی آخری سانس تک( 60 سال) تک طلباء کو پڑھاتے رہے ،ان کے مشہو ر ترین شاگرد شاہ اسحاق محدث دہلوی رحمہ اللہ ہیں۔شاہ عبد العزیز کے بعد ان کے منصب پر یہی آتے ہیں ،شاہ اسحاق کے تلامذہ میں بعض اہل حدیث تھے تو بعض حنفی ۔جیسے عبد الغنی دہلوی جن کی وفات 1296ھ ہے ،اخیر عمر میں وہ مدینہ ہجرت کرگئے ۔ شاہ عبد الغنی کے شاگرد وں میں سے کئ ایک علماء دیوبند میں سےبھی ہیں ،مثلا رشید احمد گنگوہی ، مولانا قاسم نانوتوی وغیرہم ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جودیوبند کے بانیان میں شمارکئے جاتے ہیں ۔
    اہل حدیث تلامذہ میں سر فہرست اور سب سے لائق وفائق شاگرد علامہ نذیر حسین محدث دہلوی ہیں ۔
    (لوگوں نے میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ پر جہاں بہت سارے الزامات لگائے وہیں پر ایک مسئلہ لوگوں نے حضرت شاہ اسحاق سے میاں صاحب کی شاگردی کا بھی اٹھایا ۔ چنانچہ قاضی عبد الرحمان پانی پتی نے پوری ایک کتاب بنام ” کشف الحجاب ”
    لکھ ڈالی ۔ پھر اس کا جواب مولانا سعید احمد بنارسی نے بنام “ہدایة المرتاب برد مافی کشف الحجاب ” لکھ کر جواب دیا۔( میاں نذیر حسین محدث دہلوی چند الزمات کا تحقیقی جائزہ ص12)۔
    میاں نذیر حسین محدث دہلوی(1220ھ-1320ھ)2 ) )
    شاہ محمد اسحاق دہلوی کے 1258ھ میں حجاز جانے کے بعد شیخ الکل فی الکل سید میا ں نذیر حسین محدث دہلوی(1220-1320ھ) ان کا مسند درس سنبھالتے ہیں ۔تقریبا 62 سال تک یہ حدیث کا درس دیتے رہے ۔ہند اور بیرون ہند سے ہزاروں طلبہ نے ان سے کسب فیض کیا ، میاں صاحب کے یہ شاگرد جہاں جہاں گئے ، وہاں انہوں نے علم حدیث کو عام کیا ۔

    نجد سے جن لوگوں نے آکر ان سے علم حدیث حاصل کیا ان میں سعد بن حمد بن عتیق،علی بن ناصر آل وادی وغیرہم ہیں۔
    ہندوستانی تلامذہ میں سے صرف سات کا تذکرہ یہاں پر کیاگیا ہے ۔
    1-حافظ عبدالمنان وزیر آبادی 3
    2-مولانا احمد اللہ پڑتاب گڑھی 4
    3-عبد الرحمان محدث مبارکپوری 5
    4-عبد السلا م مبارکپوری 6
    5- مولانا ابراہیم آروی 7
    6-علامہ شمش الحق عظیم آبادی 8
    7-مولانا ثناء اللہ امرتسری وغیر ہم ہیں ۔ 9
    (ان تلامذہ پر سرسری نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ ان میں  سے کسی نے ادارہ قائم کئے ، کسی نے حدیث کی عظیم شروحات ترتیب دیں ، کوئ اپنے وقت کا عظیم مناظر بنا،کسی نے امام بخاری او ران کی صحیح کے دفاع میں کتاب تصنیف کرکے معترضین کا منھ بند کیا ۔)
    نواب صدیق حسن خاں قنوجی(1832ء-1890ء) 10
    ہندوستان میں اشاعت حدیث کےباب میں نواب صاحب کی بھی خدمات کا دائرہ بھی بڑا وسیع ہے ،نواب صاحب نے خدمت حدیث کے لئے کئ طریقہ اپنایا ۔مثلا یمن کے دوبڑے علماء(شیخ حسین بن محسن الیمانی الانصاری المتوفی 1327ھ اور ان کے بھائ زین العابدین بن محسن الانصاری ،یہ دونوں علامہ شوکانی کے شاگرد کے شاگرد ہیں ) کو اپنے یہاں خدمت حدیث کے لئے بلایا اور ان کے لئے ساری چیزوں کا بند وبست کیا، حدیث کی تدریس کے لئے وسائل فراہم کئے،حفظ حدیث کےمسابقہ کا اہتمام کیا،نشرکتب کے لئے مطابع کا قیام ،کتب حدیث کے اردو زبان میں تراجم،فری کتابوں کی تقسیم ،نادر و نایاب علمی کتابوں کی طباعت کا خصوصی اہتمام ،خود کو تصنیف و تالیف کے لئے فارغ رکھ کر ڈھائ سو سے زائد کتابیں لکھیں۔
    تصنیف و تالیف اور تخریج حدیث
    سنت کی نشر واشاعت کا ایک طریقہ تصنیف و تالیف بھی ہے ،جس میں حدیث کی شروحات ،تعلیقات اور حوشی وغیرہ شامل ہیں ۔ ان تمام پہلؤوں پر علماء اہل حدیث اور علماء حنفیہ دونوں نے بھی کیا ہے ۔
    (احناف اور علماء اہل حدیث دونوں کا طریقہ کا ر بالکل مختلف آپ کو ملے گا ، علماء اہل حدیث نے محدثین کے طریقہ پر کاربند رہ کر پورا کا م کیا ہے اور علماء احناف نے اس سے ہٹ کرکے سارا کام کیا ہے ۔)
    علماء اہل حدیث کی چند شروحات کا تذکرہ
    عون الباری لحل أدلة البخاری ( نواب صدیق حسن خاں قنوجی)
    السراج الوهاج في كشف مطالب مسلم بن الحجاج ( شرح مختصر صحيح مسلم للحافظ المنذري) نواب صدیق حسن خاں قنوجی
    تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي( عبد الرحمان محدث مبارکپوری)۔
    عون المعبود شرح سنن أبي داود( شمش الحق عظیم آبادی)
    سنن دارقطنی کی شرح “التعلیق المغنی “( شمش الحق عظیم آبادی)
    مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (عبيد الله الرحماني المباركفوري)
    التعلیقات السلفیہ علی سنن النسائ ( محمد عطاء اللہ بھوجیانوی)
    ان کے علاوہ سنت کی نشر واشاعت کی تئیں سینکڑوں کتابیں علماء اہل حدیث کی موجود ہیں ۔ جن کا ذکر یہاں پرطوالت کا باعث ہے۔
    علماء حنفیہ میں صحیح بخاری پر احمد علی سہارنپوری کا حاشیہ کا فی مشہور ہے۔
    ہمارے یہاں ہندوستان میں صحیح بخاری کا جو مطبوع نسخہ دو جلدوں میں متداول ہے اس پر حاشیہ احمد علی سہارنپوری ہی کا ہے ۔اسی طرح انور شاہ کشمیری کی طرف منسوب بھی صحیح بخاری کی ایک شرح بنام “فیض الباری فی شرح صحیح البخاری “بھی ہے ۔یہ شرح چار جلدوں میں ہے۔ اسی طرح یہ شرح ان کے دروس کا مجموعہ ہے جسے ان کے شاگردو ں نے جمع کیاہے۔
    اشاعت حدیث کے منجملہ طریقوں میں سے ایک طریقہ کتب احادیث کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنا بھی ہے ۔چنانچہ اس میدا ن میں بھی علماء سلف نے کافی کام کیاہے ۔ علامہ نواب صدیق حسن خاں قنوجی نے شیخ وحید الزماں حیدرآبادی( جو اصلا لکھنؤکے رہنے والے تھے ،حیدرآباد میں مقیم تھے ،میاں صاحب کے شاگرد بھی تھے۔میں صاحب کے شاگرد بھی تھے) کو حکم دیا اور انہوں نےکتب ستہ میں ترمذی کو چھوڑ کر بقیہ پانچ کتابوں کا ترجمہ کرڈالا۔ایسے ہی بعد کے علماء نے اس سلسلہ کو برقرار رکھتے ہوئے دیگر حدیث کی کتابوں کابھی ترجمہ کیا مثلا بلوغ المرام،مشکاہ المصابیح ،ریاض الصالحین اور اربعین نوویہ وغیرہ۔
    تخفیف فی الحدیث اور انکا رسنت پر ان کی خدمات
    دور جدیدکے بڑے فتنوں میں سے انکار سنت اور تشکیک فی الحدیث کا بھی فتنہ ہے ، ان دونوں فتنوں کی بھی علماء سلف نے خوب جم کر تردید کی اور ہر محاذ پر ان کی سرکوبی کے لئے کھڑے رہے ۔کئ ایک کتابیں بھی اس باب میں لکھیں۔مثلا
    صیانہ الحدیث ۔ عبد الرؤف رحمانی
    منرلة السنة۔ محمد اسماعیل سلفی
    اس کے علاوہ سینکڑو ں مقالات اور کتابیں اشاعت سنت سے متعلق علماء سلف نے تحریر فرمائیں ،جو مختلف اخبارات و جرائد کے زینت بنے اور مختلف مطابع سے شائع ہوئے۔
    بر صغیر کے علمائے اہلحدیث کی خدمات حدیث کا اعتراف علماء احناف اور دیگر علماء کی زبانی
    شیخ عبد العزیز الخولی کہتے ہیں “ہمارے اس دور میں کسی بھی اسلامی ملک میں مسلمانوں نے علم حدیث کی طرف کماحقہ توجہ نہ کی سوائے ہندوستا ن کے کہ وہاں ایسے حفاظ حدیث و اساتذہ حدیث موجود ہیں جو تیسری صدی ہجری کے طرز پر پابندی مذہب سے آزاد درس حدیث دیتے ہیں ،اور حسب ضرورت نقد روایات سے بحث کرتے ہیں ،ان لوگوں نے حدیث کی بہت سی نادر و نایات اور بیش قیمت کتابیں بھی شائع کی ہیں ،جن کی طرف اگر انہوں نے اگر توجہ نہ کی ہوتی تو اب وہ ضائع ہوگئ ہوتیں ۔
    علام سید رشید رضا مصری کہتے ہیں
    ہندوستان کے علماء اہل حدیث نے حدیث کی طرف خصوصی توجہ دی ،اگر وہ ایسا نہ کرتے تو شاید یہ علم مشرق کے ممالک سے مٹ جاتا ،جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مصر، شام، عراق او رحجاز میں دسویں صدی ہجری سے یہ علم زوال کی طرف ہے ۔
    برصغیر کے علماء نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔اور وہ جو مسلکا اہل حدیث نہ بھی تھے انہوں نے بھی اشاعت حدیث مین ان کی خدمات کا اعتراف کیاہے۔ مثلا علامہ سیدسلیمان ندوی ،مسعود عالم ندوی وغیرہم۔تفصلی کے لئے دیکھیں۔ (مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی ج 3 ص 44-11)
    حواشی و توضیحی نوٹس(آفاق احمد )
    نوٹ: اس مضمون کا اکثر حصہ علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ کے ایک انٹرویوبنام “دور علماء الحديث في الهند في حفظ السنة النبوية”( یوٹیوب پر یہ انٹرویو موجود ہےاور تحریری شکل میں بھی یہ انٹر ویو اسی نام سے موجود ہے )سے مستفاد ہے ،کہیں کہیں اضافہ بھی کیاگیاجس کی نشان دہی کے لئے اس اضافہ شدہ بات کو بریکٹ میں کردیا گیا ہے۔
    1-تفصیل کے لئے دیکھیں ۔
    1-شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان ،مولانا حکیم محمود احمد برکاتی
    2-حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی، شخصیت و حکمت کا ایک تعارف ڈاکٹر محمد یسین مظہر صدیقی
    2-مولانا عبد الحلیم شرر اور دوسرے مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ چودہویں صدی ہجری کے مجدد ہیں ۔اس جامع المجددین شخصیت نے صرف تفسیر و حدیث  ہی میں نہیں ،صرف فقہ و اصول ہی میں نہیں  ،صرف زبان و ادب ہی میں نہیں بلکہ ہر میدان میں اپنے اصلاحی اور تجدیدی کا رناموں  سے اسلام کا احیاء کیا ،اس سرزمین میں معیار الحق جیسی جامع ،امامانہ ،مجددانہ ،مصلحانہ اور فقیہانہ کتاب لکھ کر شائع کرائ جس کے اثرات سے اور ان کی ساٹھ سالہ معلمانہ خدمات سے صرف متحدہ ہندوستان اور نیپال ہی نہیں بلکہ سمر قند و بخارا ،نجد و حجاز اور مراکش وجزائر سب اثر پذیر ہوئے ۔اس مختصر سے دور میں ان کے ہاتھ پر 22لاکھ سے زیادہ لوگ تقلید اور بدعت کی راہ چھوڑ کر کتاب اللہ اور سنت رسول کے پابند بناکر اہلحدیث ہوگئے ۔(مجموعہ مقالات مولانا عبد الحمید رحمانی ج 3 ص 141)
    میاں صاحب کی خدمات کو جاننے کے لئے دیکھیں۔
    1-دبستان حدیث  اسحاق بھٹی( ص 25 -109)
    2-الحیاہ بعد الممات
    3-تفصیل کے لئے دیکھیں۔(حافظ عبد المنان وزیر آبادی، حیات،خدمات، آثار،مصنف : منیر احمد سلفی)
    4-تفصیل کےلئے دیکھیں ۔(گلستان حدیث  اسحاق بھٹی ص 152-157)
    5-تفصیل کےلئے دیکھیں ۔(دبستان حدیث اسحاق بھٹی ص182-216)
    6-تفصیل کےلئے دیکھیں ۔(گلستان حدیث  اسحاق بھٹی ص 145-150)
    7-تفصیل کے لئے دیکھیں ۔(دبستان حدیث اسحاق بھٹی ص237-246)
    8-علامہ شمس الحق عظیم آبادی کی زندگی کا سب سے بڑ اکارنامہ شروحات حدیث اور دفاع حدیث پر لوگوں کو تیار کرناہے ۔ چنانچہ شروحات حدیث میں سب سے شاندارشرح آپ کی ابو داؤد کی شرح “عون المعبو د “ہے جوچار جلدوں میں عرب و عجم میں متداول ہے۔مشہور گستاخ ڈاکٹر عمر کریم پٹنوی نے ائمہ حدیث اور بطور خاص امام بخاری پر زبان طعن دراز کیا ، تو آپ نے علامہ ابو القاسم سیف بنارسی کو اس کے جواب کے لئے تیار کیا۔اور ان کی خدمت میں مکمل طور پر علمی و مالی تعاون پیش کیا۔اسی طرح جب علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے “سیرہ النعمان”میں راس المجتہدین سید الفقہاء امیر المؤمنین فی الحدیث امام محمد بن اسماعیل بخاری کی شان میں توہین آمیز کلمات استعمال کئے اور ضرورت محسوس ہوئ کہ امام بخاری کی ایک مفصل سوانح لکھی جائے جس کا بیڑا علامہ عبد السلام صاحب محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے اٹھایا تو آپ نے اس سلسلہ میں ہر طرح کا تعاون فرمایا اور علامہ عبدالسلام محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کی انتہائ حوصلہ افزائ کی ۔علامہ سیرہ البخاری کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :” ایک بار جناب مولانا ابوطیب محمد شمس الحق صاحب عظیم آبادی سے اس کا تذکرہ ہوا ۔علامہ موصوف نے ہمت دلاکر کتابوں کا پشتارہ لگادیا اور مواد کے فراہم کرنے کے لئے دور دراز ملکوں میں خطوط بھیجے ،نسخ مطبوعہ اور قلمبند برابر میرے پاس بھیجتے رہے “۔(مجموعہ مقالات مولاناعبد الحمید رحمانی ج 2 ص 34-35)
    تفصیل کے لئے دیکھیں۔1-(دبستان حدیث اسحاق بھٹی ص 109-144)
    2-ابو طیب محمد شمس الحق عظیم آبادی حیات و خدمات محمد عزیر شمس رحمہ اللہ
    9-تفصیل کے لئے دیکھیں ۔(بزم ارجمنداں  اسحاق بھٹی ص 137-195)
    10-تفصیل کے لئے دیکھیں ۔(دبستان حدیث اسحاق بھٹی ص259-286)

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings