-
ادھار حج و عمرہ کرانا کیسا ہے؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکرم و محترم جناب مفتی آئی آئی سی کرلا ممبئی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
امید کہ بخیر ہونگے،
ایک سوال کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں مطلوب ہے…
ہم حج و عمرہ کے لئے ایسی خدمات مہیا کرنا چاہتے ہیں جس میں خاص طور پر ایسے لوگوں کے لئے سہولت فراہم کرنا ہے جو حج یا عمرہ پر جانا چاہتے ہیں ، لیکن ان کے پاس مکمل رقم جمع نہیں ہو پاتی ہے تو ہم انہیں قسط پر رقم ادا کرنے کی سہولت فراہم کریں گے۔ جتنی رقم ہے اتنی رقم آپ جمع کر ا دیں اور باقی کی رقم جو آپ کے حصے کی ہے وہ آپ کوحج و عمرہ سے آنے کے بعد قسط میں ادا کرنی ہوگی ، جس میں ان کے لئے آسانی ہو گی اور ہمیں بھی فائدہ ہو گا، ہمارا فائدہ یہ ہوگا کے جتنے زیادہ لوگ ہمارے ذریعہ سے جائیں گے ، اتنا ہمارا فائدہ ہو گا لیکن رقم ہمیں لیٹ ملے گی۔
یاد رہے اس میں سود کا کوئی معاملہ نہیں ہو گا جورقم جانے سے پہلے طے ہوگی صرف اسی رقم کو قسط میں ادا کرنا ہو گا، اور یہ سہولت ہم صرف انہی کو دیں گے جن کے پاس رقم ادا کرنے کی طاقت ہو گی جس کو ہم ان کے دستاویزات و غیرہ چیک کرنے کے بعد طے کریں گے۔
اس ضمن میں مندرجہ ذیل سوالات ہیں …:
۱۔ کیا اس طرح کا بزنس ہم کر سکتے ہیں ؟
۲۔ کیا یہ سود کی کوئی شکل ہے؟ آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس سوال کا جواب قران و حدیث کی روشنی میں عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
سائل(۱)زبیر شیخ (۲)رئیس شیخوالسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الوہاب:
جو سوال کیا گیا ہے اسکے دوسرے شق کا جواب یہ ہے کہ جو صورت درج کی گئی ہے اس میں سود کا کوئی معاملہ نہیں ہے البتہ سوال میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ اگر رقم کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی تو کیا جرمانہ ادا کرنا ہوگا ؟ اگر جرمانہ ادا کرنا ہوگا تو ایسی صورت کو علمائے کرام نے سودی معاملہ قرار دیا ہے۔
البتہ سوال کی جو پہلی شق ہے کہ :کیا اس طرح کا کاروبار جائز ہے یانہیں ؟تو اس بارے میں مندرجہ ذیل معروضات پر غور کرلیں :
حج کی بابت اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
{وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا}’’اور اللہ کی رضا کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا ان لوگوں پر فرض ہے، جو وہاں پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں‘‘[آل عمران:۹۷]
یعنی حج و عمرہ کی فرضیت کے لئے جسمانی لیاقت اور مالی قدرت ضروری ہے ، اور اگر کوئی شخص مالی استطاعت نہیں رکھتا تو اس پر حج یا عمرہ کرنا فرض نہیں ہوگا اور قیامت کے روز اس سے اس سلسلے میں کوئی بازپرس نہیں ہوگی۔
اور علمائے کرام کے یہاں مالی استطاعت سے مراد یہ ہے کہ حج یا عمرہ کا ارادہ کرنے والے کے پاس اپنی شخصی ضروریات اور جن کا نفقہ اس پر واجب ہوتا ہے ان کے جملہ اخراجات ،اللہ اور بندوں کے تمام قرضوں کی ادائیگی کے بعد اضافی رقم ہوجوبیت اللہ آنے جانے کے لئے سواری یا اس کا کرایہ ، راستے کا خرچ اور مکہ میں رہنے کے خرچ کو پورا کرے۔
چنانچہ جب حج یا عمرہ کی فرضیت کے لئے ہی مسلمان کاقرضوں سے فارغ ہونا ضروری ہے تو قرض لے کر حج یا عمرہ کرنے کی بات کیسے کہی جاسکتی ہے۔
یہاں ایک نکتہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ اگر کوئی غیر مستطیع مسلمان حج یا عمرہ کئے بغیر وفات پا جاتا ہے تو قیامت میں اس کی کوئی گرفت نہیں ہوگی لیکن اگر کوئی شخص ادھار لے کر حج یا عمرہ کرتا ہے اور ادائیگی سے پہلے اس کا انتقال ہوجاتا ہے تو مرنے کے بعد اس کی گرفت ہوسکتی ہے بلکہ شریعت نے اس امر میں نہایت سختی رکھی ہے چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
’’يُغْفَرُ لِلشَّهِيدِ كُلُّ ذَنْبٍ إِلَّا الدَّيْنَ‘‘’’شہید کے تمام گناہ معاف کردئے جاتے ہیں مگر قرض معاف نہیں کیا جاتا ‘‘[صحیح مسلم :۱۸۸۶]
اسی طرح آپﷺنے فرمایا:
’’نَفْسُ المُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّي يُقْضَي عَنْهُ‘‘
’’(قرض دار)مومن کا نفس لٹکا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کی طرف سے قرض کی ادائیگی کردی جائے‘‘ [سنن ترمذی:۱۰۷۸، سنن ابن ماجہ:۲۴۱۳]
جب یہ صورت حال ہے تو نہ تو قرض لے کر حج یا عمرہ کرنا مناسب ہے اور نہ ہی اس بات کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے کہ قرض لے کر یا ادھار پر حج یا عمرہ کرنے کے کلچر یا روایت کو فروغ دیا جائے۔اور یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ حج یا عمرہ مخصوص شرطوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے چنانچہ اسے عبادت کے طور پر ادا کیا جائے اور تفریح یا سماجی حیثیت کے اظہار کا ذریعہ نہ بنایا جائے،اور اس بات کا خدشہ ہے کہ ادھار پر حج یا عمرہ کرنے کے پیچھے ایسی کسی ذہنیت کی کرم فرمائی نہ ہو ، اللہ تعالیٰ ہمیں اعمال میں اخلاص نیت عطا فرمائے اور ریا و نمود سے محفوظ رکھے۔ آمین!
بطور تائید یہاں مشہور فقیہ عالم ابن عثیمین رحمہ اللہ کا ایک فتویٰ نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ بعض لوگ جس کمپنی میں جاب کرتے ہیں اسی کمپنی سے حج کرنے کے لئے قرض لیتے ہیں ، پھر ان کی تنخواہ سے وہ قرض قسطوں میں کاٹ لیا جاتا ہے ، تو اس معاملہ کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا: میرا خیال ہے کہ وہ شخص ایسا نہ کرے، کیونکہ اگر کوئی مقروض ہے تو اس پر حج واجب ہی نہیں ہوتا تو قرض لے کر کیسے حج کر سکتا ہے؟سو میری رائے یہ ہے کہ وہ حج کے لئے قرض نہ لے ، کیونکہ ایسی صورت میں حج اس پر واجب ہی نہیں ہے، اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رخصت و رحمت کو قبول کرے ، اور اپنے سر پر قرض کا بوجھ نہ لے پتہ نہیں اسے ادا کرنے کی مہلت ملے یا نہ ملے؟ہو سکتا ہے کہ قرض کی ادائیگی سے پہلے اسے موت آجائے اور قرض اس کے ذمہ باقی رہ جائے۔ [مجموع فتاویٰ الشیخ ابن عثیمین:۲۱؍۹۳]
کتبہٗ: عبد الشکور عبد الحق مدنی
ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب