Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • مسئلہ یہ ہے کہ بھینس کی قربانی جائز ہے یانہیں ؟

    جو لوگ بھینس کی قربانی کرتے ہیں کیا قرآن و حدیث میں اس کا کوئی ثبوت ہے ؟ بکر کہتاہے کہ اگر بھینس کی قربانی ناجائز ہے تو اس کا دودھ کیوں استعمال کرتے ہیں ؟ کیا اللہ کے رسول ﷺ نے بھینس کا دودھ پیا ہے ؟ دلائل و براہین سے واضح فرمائیں۔ مہربانی ہوگی۔ المستفقی: محمد ایوب (مقیم حال فیض آباد)۲۲؍مئی ۲۰۱۵؁ء

    نصوص شریعت پر غور کرنے کے بعد جو بات درست معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بھینس کی قربانی درست نہیں ہے، کیوں کہ اس کی قربانی کا ثبوت قرآن و سنت اور تعامل صحابہ میں موجود نہیں ہے ، اس لئے اس کی قربانی کرنا غلط ہے ۔
    قربانی ایک عباد ت ہے اور عبادت کے ثبوت کے لئے دلیل چاہئے بغیر دلیل کے عبادت ثابت نہ ہوگی اور چونکہ بھینس کی قربانی کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے شریعت میں بھینس کی قربانی درست نہ ہوگی۔
    بھینس کے وجود اور اس کی جنس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو ضرور علم تھا اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعہ ہم کو نہیں بتایا اگر دین میں اس کی قربانی موجود ہوتی تو اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہوتا اور جب بیان نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ یہ دین نہیں ہے ۔
    اسی طرح نبی ﷺ اور صحابہ کرام کے تعامل میں بھی قربانی کا کوئی ذکر نہیں ملتا، یعنی نہ نبی ﷺ نے اس کی قربانی کی نہ صحابہ نے ، پھر کس طرح اسے دین بنایا جا سکتا ہے؟
    بہیمۃ الانعام جن کی قربانی اللہ تعالیٰ نے کرنے کا حکم دیا ہے اس میں آٹھ جانور ہیں ، بھینس اس میں شامل نہیں ہے ہم کو اپنی طرف سے بھینس کا اضافہ کرنے اور اسے شامل کرنے کا کیا حق ہے ؟
    اگر یہ مان لیا جائے کہ بعض اہل لغت نے لکھا ہے کہ :’’ الجاموس نوع من البقر‘‘ [لسان العرب لابن منظور: ۶؍۴۳،مادۃ، ج م س ، وتاج العروس للزبیدی :۸؍۲۳۱] اور اسی کو لوگوں نے نقل کردیا ہے تو اس پر چند باتیں قابل غور ہیں:
    ۱۔شریعت کے مقابلے میں لغت حجت نہیں ہے ۔ کیوں کہ شریعت میں جہاں جہاں بقرۃ کا لفظ بولاگیا ہے اس سے صرف گائے ہی مراد لی گئی ہے لفظ بقرۃ سے بھینس مراد لینے کی کوئی دلیل شریعت میں موجود نہیں ہے اور شریعت کے مقابلے میں لغت حجت نہیں ہے ۔ لہٰذا از روئے لغت ایک شرعی حکم کا اثبات محل نظر ہے۔
    ۲۔اگر لغت کا اطلاق دیکھا جائے تو ’’شاۃ‘‘ کے لفظ میں ہرن اور نیل گائے وغیرہ بھی شامل ہیں ۔
    ازہری نے کہا :’’ویقال الثور الوحشی:شاۃ‘‘[تہذیب اللغۃ:۶؍۹۱۹۱، مادۃ:ش وہ]ابن سیدہ نے کہا ’’وقیل الشاۃ تکون من الضأن و المعز والظباء والبقرہ والنعام و حمر الوحش‘‘[تہذیب اللغۃ:۴؍۴۰۲۔۴۰۳، مادۃ:ش و ہ]
    ابن منظور نے کہا: ’’والشاۃ : الواحدۃ من الغنم تکون للذکر والانثی ۔ وقیل: الشاۃ تکون من الضأن والمعز والظباء والبقر والنعام و حمر الوحش ‘‘ [لسان العرب لابن منظور :۱۳؍۵۰۹، مادۃ : ش، و،ہ، تاج العروس للزبیدی:۱۹؍۵۶]
    ۳۔کیا لغت کے اعتبار سے یہ کہا جائے گاکہ ہرن او رنیل گائے چونکہ ’’شاۃ‘‘ کا جزوہے اس لئے اس کی بھی قربانی درست ہوگی؟ اور ظاہرہے کہ دین میں اس کا کوئی قائل نہیں ہے ، لہٰذا لغت کی بنیاد پر شریعت کا اتنا بڑا فیصلہ کرنا بالکل غلط ہے ۔
    ۴۔قربانی ایک عبادت ہے ۔ اگربھینس کی قربانی درست ہوتی تو شریعت میں اس کی دلیل ہوتی اور جب دلیل نہیں ہے تو معلوم ہواکہ بھینس کی قربانی چونکہ ایک عبادت ہے اس لئے درست نہیں ہے ۔
    ۵۔بھینس کا وجود اگر چہ عرب میں نہ تھا مگر اس کا علم اللہ تعالیٰ کو تھا اس کے باوجود شریعت نے اس کی جانب کوئی اشارہ نہ کیا جو اس کے مشروع نہ ہونے کی دلیل ہے ۔
    اور جب شریعت کسی لفظ کے لغوی معانی میں سے صرف ایک کو ذکر کرے اور بقیہ کو نظر انداز کردے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے باقی معانی شریعت کا مطلوب نہیں ہیں،جیسا کہ لفظ’’شاۃ‘‘ کا حال ہے ۔
    ۶۔اس بات پر اس طرح بھی غور کرسکتے ہیں کہ بھینس کی قربانی کا کم ازکم درجہ یہ ہے کہ یہ مشتبہ ہے کیونکہ انسان کو معلوم نہیں کہ اس کی قربانی ہوئی یا نہیں؟ اس لئے درع اور احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے جانور کی قربانی کی جائے جو یقینی ہو اور ایسے جانور کی قربانی سے بچا جائے جس کی قربانی یقینی نہ ہو۔
    ۷۔ ایک مزید بات یہ بھی ہے کہ اگر بھینس کی قربانی جائز ہوئی اور ہم نے قربانی نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں کبھی سوال نہ کرے گا کیوں کہ دوسرے جانور کی قربانی ہم نے کیا ہے لیکن اگر جائز نہ ہوئی اور اس کی قربانی کرتے رہے تو عمر بھر ہماری قربانی نہ ہوئی اور یہ بہت بڑا خسار ہ ہے ۔
    خلاصہ یہ ہے کہ بھینس کی قربانی درست نہیں ہے کیوں کہ اس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے ، اور لغت کی بنیاد پر اگر فیصلہ کیا جائے تو ہرن،نیل گائے وغیرہ بھی لغوی طور سے شاۃ میں داخل ہیں تو کیا ان کی بھی قربانی درست ہوگی؟
    رہ گئی بات گوشت اور دودھ کی تو وہ بالاجماع حلال ہے۔ایک تو اس لئے کہ اس کی حلت پر اجماع ہے ، اور اجماع امت شرعی حجت ہے ۔دوسرے اس لئے کہ شریعت نے اس کو حرام نہیں قراردیا ہے ، اور ماکولات میں جسے شریعت نے حرام نہیں کیا ہے وہ بالاتفاق حلال ہے اور حدیث میں ہے ’’الحلال ما احل اللّٰه والحرام ما حرم اللّٰه وماسكت عنه فهو عفو‘‘[ابوداؤد:۳۸۰۰]
    بھینس کا گوشت کھانا اور اس کا دودھ پینا عبادت نہیں ہے کہ اس کے لئے دلیل کی ضرورت ہو بلکہ اس کا تعلق معاملات سے ہے جس میں اصل یہ ہے کہ ہر چیز حلال ہے سوائے اس کے جس کو شریعت نے حرام کیا ہے ، اس لئے بلاشک و شبہ بھینس کا گوشت اور دودھ حلال ہے ۔ واللہ اعلم
    محمد جعفر انوار الحق الہندی دوماہی ’’استدراک‘‘ستمبر،اکتوبر ۲۰۱۶ء (دریاآباد)

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings