-
اجازت طلبی کی اہمیت ہمارے معاشرے میں جہاں کئی مسائل میں زندگی کا توازن بگڑ گیا ہے وہیں ’’استئذان‘‘(گھروں میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنا)کے سلسلے میں ہمارا رویہ بالکل بدل چکا ہے جبکہ’’ استئذان‘‘ شریعت اسلامیہ کا ایک خاص حکم ہے جسے آج غیر معمولی سمجھا جارہا ہے، اسلام اس کے محاسن کی اعلیٰ ترین خوبیاں بیان کرتا ہے،آئیے زیر نظر مضمون میں اس اہم صف کے حوالے سے کچھ شرعی تعلیمات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
لغوی تعریف: لفظ ’’اذن‘‘کے بہت سے معانی ہیں جن میں سے اہم یہ ہیں:جاننا، معلوم کرانا، جائز کرنا، اجازت لینا، اور آواز دینا۔[ادب الاستیذان :۱۷]
لفظ استئذان’’طلب‘‘کا معنیٰ دیتا ہے کیونکہ سین اور تاء طلب کے معنیٰ پر دلالت کرتے ہیں۔
اصطلاحی تعریف: فقہاء کی اصطلاح میں استئذان’’رکاوٹ کو توڑنا‘‘کے معنیٰ میں ہے، یعنی کسی شرعاً ممنوع چیز کے استعمال میں آزادی حاصل کرنا۔[التعریفات:۱۵]
اس معنیٰ کی روشنی میں ہم اس (اذن )کی تعریف یوں بھی کرسکتے ہیں کہ:’’کسی پوشیدہ چیز پر نگاہ پڑنے کے ڈر سے با ادب اجازت کی درخواست کرنا، یا کسی شرعی وجہ سے ممنوع چیز کو جائز کرنے کی درخواست کرنا‘‘۔[ادب الاستئذان :۱۸]
اجازت طلبی سے گھروں کو عزت ملتی ہے اور اہل خانہ کو باپردہ چیزوں پر اچانک نظر پڑنے سے جو شرمندگی محسوس ہوتی ہے اس سے انہیں بچاتا ہے، انسانی جسم ہی صرف چھپانے والی چیز نہیں ہے بلکہ کھانے پینے لباس اور گھریلو استعمالات کی چیزیں بھی چھپانے کے قابل ہوتی ہیں جن کے بارے میں لوگ اچانک نظر پڑنے کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کو باترتیب رکھنے، سجانے اور تیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ باتیں ذہنی طور پر نفسیات سے تعلق رکھتی ہیں۔
پس ہم میں سے کتنے ہیں جو یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان کو (حالات سے متاثر ہوکر)کمزوری کی حالت میں روتے ہوئے دیکھے یا وہ کسی متاثر کرنے والے واقعہ کی وجہ سے غصہ میں ہو یا کسی تکلیف سے درد محسوس کررہا ہو، چنانچہ اس حالت کو اجنبی حضرات سے چھپانا چاہتا ہو۔
یاد رکھیں ممنوع اشیاء بڑی عظمت والی ہوتی ہیں اور کون سی حرمت اس حرمت سے بڑھ کر ہو جو محمد مصطفی ﷺ کو اس بات پر آمادہ کرتی ہو کہ آپ ہر اس شخص کی آنکھ پھوڑ دینے کی اجازت دیں جو دوسرے کے گھروں میں ان کی اجازت کے بغیر جھانکتا ہے۔[صحیح مسلم :۵۶۳۸]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیحین میں مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
’’لَوْ أَنَّ اِمْرَأَ اطَّلَعَ عَلَيْكَ بِغَيْرِ إِذْنٍ فَخَذَفْتَهُ بِحِصَاةٍ فَفَقَاتَ عَيْنَهُ لَمْ يَكُنُ عَلَيْكَ جُنَاحٌ‘‘۔
’’اگر کوئی آدمی بلا اجازت تیرے گھر میں جھانکے اور تو (غصہ میں آکر )اس کی طرف کوئی کنکری پھینک کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو تجھ پر کوئی سرزنش اور گرفت نہ ہوگی‘‘۔
[صحیح البخاری:۶۹۰۲]
سور ۂ نور کی ترتیب موضوعات سے پتہ چلتا ہے کہ استئذان (اجازت طلب کرنے)کی آیات، تہمت اور زنا کی حد مقرر کرنے اور ان سے اجتناب کی آیات کے بعد وارد ہوئی ہیں۔
چنانچہ امام شوکانی رحمہ اللہ اس موضوع کے ضمن میں فرماتے ہیں:
’’جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ زنا اور تہمت کی ڈانٹ سے فارغ ہوا تو اس نے گھروں میں بلا اجازت داخل ہونے کی ڈانٹ کا ذکر چھیڑ دیا کیونکہ گھروں میں مردوزن کے اختلاط اور بلا اجازت داخل ہونے سے کبھی کبھی زنا یا تہمت کے اسباب و محرکات پیدا ہوجاتے ہیں‘‘۔[فتح القدیر:۳؍۱۹]
اجازت طلبی کی دو قسمیں ہیں : (۱) عام اجازت (۲) خاص اجازت
(۱) عام اجازت :
گھروں سے باہر جو اجازت طلب کی جاتی ہے اس کو عام استئذان کہا جاتا ہے، اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{يَـٰٓأَيُّهَا الَّذِينَ ئَ امَنُوا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰي تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلٰي أَهْلِهَا ذَٰلِكُمْ خَيْر لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ۔ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَآ أَحَدا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّيٰ يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِن قِيلَ لَكُمُ رْجِعُوا فَرْجِعُوا هُوَ أَزْكَيٰ لَكُمْ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْم۔ لَّيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَة فِيهَا مَتَـٰع لَّكُمْ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ}
[النور:۲۷۔ ۲۹]
ترجمہ: ’’اے ایمان والو ! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو یہی تمہارے لیے سراسر بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو ۔اگر وہاں تمہیں کوئی بھی نہ مل سکے تو پھر اجازت ملے بغیر اندر نہ جاؤ، اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو تم لوٹ ہی جاؤ، یہی بات تمہارے لیے پاکیزہ ہے، جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ۔ ہاں غیر آباد گھروں میں جہاں تمہارا کوئی فائدہ یا اسباب ہو، جانے میں تم پر کوئی گناہ نہیں تم جو کچھ بھی ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے‘‘۔
اس آیت ’’ لَا تَدْخُلُوْا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ‘‘میں ’’بیوت‘‘کا لفظ عام معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے یعنی جس کا کوئی خاص انسان مالک نہ ہو۔
پس اللہ تعالیٰ نے اِن گھروں سے اُن گھروں کو جدا کردیا جو کسی کی ملکیت میں نہ ہوں اور ان میں کسی کا سامان نہ ہو اور ان میں کوئی رہائش پذیر نہ ہو پس ایسے گھروں کے اندرداخل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۲) خاص اجازت :
استئذانِ خاص وہ ہے جس کا تعلق گھر کے اندرونی حصے کے ساتھ ہو، اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{يَـٰٓأَيُّهَا الَّذِيْنَ ئَ امَنُوا لِيَسْتَـْذِنكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ أَيْمٰنُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلٰثَ مَرَّٰت مِّن قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَحِيْنَ تَضَعُوْنَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيْرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآئِ ثَلٰـثُ عَوْرَات لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحُ بَعْدَهُنَّ طَوَّٰفُوْنَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلٰي بَعْض كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْـآيٰـتِ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۔ وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَـالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَـْذِنُوْا كَمَاا سْتَـأذَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ آيَـٰتِهِ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ}
[النور:۳۸، ۳۹]
ترجمہ:’’ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں (اپنے آنے کی)تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے، نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب کہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشا کی نماز کے بعد، یہ تینوں وقت تمہاری (خلوت) اور پردہ کے ہیں، ان وقتوں کے ماسوا نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر، تم سب آپس میں ایک دوسرے کے پاس بکثرت آنے جانے والے ہو (ہی)، اللہ اس طرح کھول کھول کر اپنے احکام سے بیان فرما رہا ہے، اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمت والا ہے ۔اور تمہارے بچے (بھی) جب بلوغت کو پہنچ جائیں تو جس طرح ان کے اگلے لوگ اجازت مانگتے ہیں انہیں بھی اجازت مانگ کر آنا چاہیے اللہ تعالیٰ تم سے اسی طرح اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ ہی علم و حکمت والا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے ان تین اوقات نماز فجر سے پہلے یعنی نماز کے لیے اٹھتے وقت اور دوپہر کے وقت یعنی قیلولہ کے وقت اور عشاء کی نماز کے بعد، کو علیحدگی کے اوقات بتلائے ہیں جس میں انسان مصروف ہوتا ہے۔ بخلاف ساری رات کے کہ وہ خلوت کا وقت تو ہے لیکن اس میں مصروفیت نہیں ہوتی کیونکہ ہر کوئی نیند میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے۔
ان اوقات میں غلام اور چھوٹے بچے بھی غیر لوگوں کی طرح روک دیے گئے لہٰذا وہ بھی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتے۔
اس لیے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی اجازت مانگنے کی تربیت دیں لیکن یاد رکھیں کہ جب وہ مرد و زن کی خفیہ باتوں کو پہچاننے لگیں تو اجازت مانگنا واجب اور ضروری ہوجاتا ہے اور کسی عمر کے ساتھ اس کو مقید نہیں کیا جاسکتا۔