Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • استقامت وثبات قدمی کے دس قواعد (قسط:۱)

    راہ استقامت وثبات قدمی ہماری زندگی کا شمع نور ہے ، راہ استقامت پر قائم رہنے کا مطلب ہے کہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ اسلام کے اوامر و نواہی پر جمے رہیں، استقامت کمالِ ایمان کی علامت ہے، اس لیے اس مرتبہ پر بہت ہی کم لوگ پہنچ پاتے ہیں کیونکہ یہ مشکل امر ہے،استقامت اور میانہ روی کا راستہ دشوار ہے۔
    رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
    ’’سورہ ہود نے مجھے بوڑھا کردیا ہے‘‘۔ [جامع الترمذی: تفسیر القرآن، حدیث:۳۲۹۷]
    کیونکہ اس سورت کی آیت نمبر۱۱۲میں آپ کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے یہ ایسی ذمہ داری تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
    ’’اس نے مجھے قبل از وقت بوڑھا کردیا ہے‘‘۔
    اس لیے حدیث میں ایک دوسری صورت بتائی گئی ہے کہ اگر پورے طور پر سداد اوراستقامت حاصل نہ ہو تو کم ازکم اس کے قریب قریب تو رہو۔
    اسی طرح عمل کی توفیق پر خوش ہو جاؤ اور یہ خوشی صرف استقامت ہی میں نہیں بلکہ اس کے قریب رہنے سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔بشارت حوصلہ بڑھانے کا ایک طریقہ ہے۔اس سے عابد کی ہمت بلند ہوتی ہے اور اس کے عزم میں ایک نیا وَلولہ اور نئی طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔استقامت وثبات قدمی اختیار کرنے میں دنیا وآخرت کی سعادت اور کامیابی ہے ،لہٰذا جسے دنیا وآخرت کی سعادت اور فائز المرامی کا شوق ہو وہ استقامت اختیار کرنے کے لیے سعی پیہم اور جہدِ مسلسل کرے ۔آئیے ذیل کے سطور میں شیخ عبد الرزاق البدر حفظہ اللہ کی کتاب(عشرقواعد فی الاستقامۃ )سے ملخصا استقامت کے کچھ قواعد بیان کرتے ہیں ۔
    پہلا قاعدہ : استقامت وثبات قدمی الٰہی انعام اور ربانی تحفہ ہے ۔ یعنی استقامت ،عزیمت وثبات قدمی اللہ تعالیٰ کا خاص انعام واکرام ہے ۔صراط ِمستقیم کی طرف رہنمائی اور توفیق اللہ کے ہاتھ میں ہے ،لہٰذا صدق دل سے اخلاص وسچائی کے ساتھ رب تعالیٰ سے استقامت طلب کریں ۔
    اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت ساری آیتوں میں سیدھے اور صحیح راہ کی ہدایت دینے کو اپنے طرف منسوب کیا ہے، ہر چیز پر اللہ قدرت رکھتا ہے، اللہ کے ہی ہاتھ میں بندے کادل ہے، جس بندہ کے دل کو سیدھا رکھنا چاہتا ہے رکھتا ہے اور جس بندہ کے دل کو ٹیڑھا کرنا چاہتاہے کرتا ہے ۔ یعنی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے ۔ لیکن اس کا یہ فیصلہ یوں ہی نہیں ہوجاتا بلکہ عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے، گمراہ اسی کو کرتا ہے جو خود گمراہی میں پھنسا ہوتا ہے اور اس سے نکلنے کی وہ سعی کرتا ہے نہ نکلنے کو وہ پسند ہی کرتا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد مقامات پرفرمایا:
    {وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوْا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيارِكُمْ مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيْلٌ مِّنْهُمْ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا يُوْعَظُوْنَ بِهِ لَكَانَ خَيْرا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا،وَإِذَا لَّـَاتَيْنَـٰهُم مِّن لَّدُنَّآ أَجْرًا عَظِيْماً۔ وَلَهَدَيْنَـٰهُمْ صِرَٰطاً مُّسْتَقِيماً}
    ’’اگرہم ان پر یہ فرض کردیتے ہیں کہ اپنی جانوں کو قتل کر ڈالو،یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ،تو اسے ان میں سے بہت ہی کم لوگ حکم بجا لاتے اور اگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقینایہی ان کے لیے بہتر اور زیادہ مضبوطی والا ہو ،اور تب تو انہیں ہم اپنے پاس سے بڑا ثواب دیں۔اور یقیناانہیں راہ راست دکھا دیں۔
    [النساء:۶۶-۶۸]
    {وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيَاتِنَا صُمٌّ وَّبُكْمٌ فِي الظُّلُمٰتِ مَن يََّشَإِ اللّٰهُ يُضْلِلْهُ وَمَن يَّشَأْ يَجْعَلْهُ عَليٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ}
    ’’اور جو لوگ ہماری آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں وہ تو طرح طرح کی ظلمتوں میں بہرے گونگے ہو رہے ہیں اللہ جس کو چاہے سیدھی راہ پر لگا دے‘‘۔
    [الأنعام :۳۹]
    نبی کریمﷺ کثرت سے یہ دعا کرتے تھے۔
    ’’يَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلٰي دِيْنِكَ ‘‘۔
    ’’اے دلوں کو پھیرنے والے!میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ‘‘۔
    حضرت ا م سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں اے اللہ کے رسول ﷺ!کیا دل بھی الٹتا پلٹتا ومتغیر ہوتا رہتا ہے ۔ تو اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ۔اے ام سلمہ!کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے جس کا دل اللہ کی انگلیوں میں سے اس کی دوانگلیوں کے درمیان نہ ہو، تو اللہ جسے چاہتا ہے (دین حق پر)قائم و ثابت قدم رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کا دل ٹیڑھا کر دیتا ہے۔[رواہ الترمذی :۳۵۲۲]
    دوسرا قاعدہ: استقامت کی حقیقت و ماہیت سیدھے اور صواب راستے و صحیح اور مضبوط منہج کو لازم پکڑنا ہے ۔
    استقامت کی حقیقت کی معرفت کے لیے صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے اقوال وآراء وارشادات پر نظر ڈالتے ہیں ، اور استقامت وثبات قدمی کا صحیح معنیٰ ومفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
    ۱۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے
    { إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَـامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَأَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوْعَدُوْنَ}
    [فصلت :۳۰]
    اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک وکفر نہیں کیا ۔
    ۲۔ عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس آیت کو منبر پر پڑھا اور کہا کہ رب تعالیٰ کی قسم استقامت اختیار کرنے والے وہ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوگئے ،اور لومڑیوں کی طرح اِدھر سے اُدھر دوڑتے نہ پھرتے۔
    ۳۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ: جو لوگ لاالہ الاللہ کے معانی و مفاہیم تقاضے وشروط کو تسلیم کیا اور اس پر عمل پیرا ہوئے وہی لوگ استقامت وثبات قدمی والے ہیں۔ اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ استقامت سے مراد یہ ہے کہ آپ فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں بلکہ فرائض کے قیام کے لیے ہمیشہ ڈٹے اور جمے رہیں ۔
    ابن رجب رحمہ اللہ نے یہ سارے اقوال جامع العلوم والحکم میں ذکر کرنے کے بعد استقامت کی تعریف یوں بیان کیا ہے :
    ’’والاستقامة هي سلوك الصراط المستقيم، وهى الدين القيم من غير تعريج عنه يمنةً ولا يسرةً، ويشمل ذلك فعل الطاعات كلها، الظاهرة والباطنة، وترك المنهيات كلها كذلك‘‘۔
    یعنی : ’’اِستقامت کا مفہوم یہ ہے کہ اُس واضح راستے پر ، مضبوطی کے ساتھ سیدھا سیدھا دائیں بائیں مڑے یا کِسی بھی طرف مائل ہوئے بغیر چلا جائے اور وہ راستہ (اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺکی طرف سے ) قائم شدہ دِین ہے ، اور اِس دِین میں (اللہ اور رسول اللہ ﷺکی طرف سے حکم کیے گئے) ہرکام کو ظاہری اور باطنی طور پرکرنا اور اِسی طرح ہر اُس کام سے باز رہنا شامل ہے جس سے منع کیا گیا ‘‘۔
    اسی طرح ابن القیم رحمہ اللہ نے استقامت کی تعریف یوں بیان کیا ہے :
    ’’فالاستقامة كلمة جامعة، آخذةٌ بمجامع الدين، وهى القيام بين يدي اللّٰه علٰي حقيقة الصدق، والوفاء‘‘۔
    ترجمہ : ’’لفظ استقامت ایک جامع کلمہ ہے جو دین کے تمام گوشے کو شامل ہے، یعنی صدق و وفا کے ساتھ اور صبر و شکیبائی کامظاہرہ کرتے ہوئے مکمل طور پر شریعت اسلامیہ پر عمل کیا جائے‘‘۔
    بحوالہ:[ تہذیب مدارج السالکین]
    تیسرا قاعدہ: اصل استقامت دل کی استقامت ہے ۔
    دل میں کج روی ہوتو پورا جسم کج روی اور ٹیڑھاپن کا مظاہرہ کرے گا ۔
    امام احمد نے مسند احمد میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’کسی آدمی کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا، جب تک کہ اس کا دل درست نہیں ہوتا‘‘۔
    [المسند:۱۳۰۴۸،وحسنہ الألبانی فی الصحیحۃ:۲۸۴۱]
    اصل استقامت یہ ہے کہ انسان کادل مستقیم ہوں ۔ (دل میں غلاظت اور کجی نہ ہو )جب دل میں استقامت اور درستی ہوتی ہے تو ساراجسم بھی درست اور سالم ہوتا ہے اس لیے کہ پورا جسم دل کے تابع ہوتا ہے۔
    حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے فرمایا:’’ استقامت وثبات قدمی یہ ہے کہ دل میں توحید مضبوط ہو اور دل توحید پر ثابت قدم رہے ۔ لہٰذا جب دل اللہ تعالیٰ کی معرفت ،خشیت ،محبت اور امید و توکل پر جم جائے تو جسم کا پورا حصہ دل کا فرمانبردار ومطیع ہوکر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت وبندگی پر جم جاتا ہے اس لیے کہ دل اعضاء و جوارح کا بادشاہ ہے اور بدن کے حصے دل (بادشاہ )کا لشکر ہیں، اگر بادشاہ صحیح اور سیدھے راہ پر چلے گااور ثابت قدم رہے گا تو فوج اور رعایا بھی صحیح ہوں گے اور ثابت قدم رہیں گے‘‘ ۔
    بحوالہ :[ جامع العلوم والحکم:ص:۳۸۶]
    امام ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے ’’إغاثۃ اللہفان من مصاید الشیطان‘‘کے مقدمہ میں لکھا ہے: کہ جب یہ بات واضح ہے کہ دل ہی اعضاء و جوارح کے لیے بادشاہ کی طرح ہے جس کی بادشاہت فوج اور رعایا پر ہوتی ہے، چنانچہ بادشاہ کافرمان اور آرڈر ہی کے تحت قلم رو چلتا ہے، فوج ولشکر سب اس کے ماتحت ہوتے ہیں تو دل جسم کے اعضاء کے لیے حاکم ہے ۔ دل ہی سے بدن کے دوسرے حصے ٹھیک ہوتے ہیں یا بگڑتے ہیں ۔ دل کے ارادے اور عزائم کے پابند دوسرے اعضاء جسم ہوتے ہیں ۔ نبی ﷺ نے فرمایا:’’سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا، سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے‘‘۔
    خلاصۂ کلام یہ کہ دل ہی مالک ہے اور اسی کی حکومت ہے دیگر اعضاء و جوارح پر ۔ دل ٹھیک ہے تو بدن کے دوسرے حصے بھی ٹھیک ہے دل کے استقامت کے بغیر کوئی کام صحیح سے انجام نہیں پاتا ۔
    چوتھا قاعدہ : بندۂ مسلم سے مکمل طور پر استقامت مطلوب ہے اوراگر پورے طور پر سداد اوراستقامت حاصل نہ ہو تو کم ازکم اس کے قریب قریب تو رہیں ۔
    اور نبی کریم ﷺ نے ان دونوں کو یکساں بیان کیا ہے یعنی مکمل طور پر استقامت وثبات قدمی کو لازم پکڑے اور اگر اتنا نہ ہوتو استقامت کے بالکل قریب رہے۔
    استقامت کے باب میں سداد مطلوب ہے اور سداد یہ ہے کہ آپ سنت کو حاصل کریں ،سنت پر عمل پیرا ہوں ۔
    عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ لِيْ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:’’قُلِ اللّٰهُمَّ اهْدِنِيْ وَسَدِّدْنِيْ، وَاذْكُرْ بِالْهُدٰي هِدَايَتَكَ الطَّرِيْقَ، وَالسَّدَادِ سَدَادَ السَّهْمِ‘‘۔
    علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مجھ سے فرمایا :’’کہ میں اللہ کے حضور یہ دعا کروں ،اے اللہ! میری رہ نمائی فرما اور راہ راست پر چلا۔یعنی اے اللہ!میری رہنمائی فرما، مجھے توفیق دے اور تمام امور میں راہ راست پر چلا‘‘۔
    [رواہ مسلم:۲۷۲۵]
    ’’الہُدٰی‘‘لفظ کا معنیٰ ہے : حق کی تفصیلی اور اجمالی معرفت اور ظاہری و باطنی طور پر اس کے اتباع کی توفیق۔
    جب کہ’’السّداد‘‘لفظ کے معنیٰ ہیں : توفیق اور تمام کاموں میں استقامت کے ساتھ حق پر قائم رہنا۔ قول، فعل اور اعتقاد میں سیدھے راستے پر گامزن رہنا۔
    چوں کہ معنوی چیز محسوس طریقے سے واضح ہوتی ہے، اس لیے یہ دعا کرتے وقت اپنے دل میں اس بات کو مستحضر رکھو کہ تم اس شخص کی طرح ہدایت مانگ رہے ہو، جو سفر پر نکلا ہوا ہو کہ وہ بھٹکنے سے بچنے اور بہ سلامت جلدی منزل تک پہنچنے کے لیے ذرا بھی دائیں بائیں منحرف نہیں ہوتا۔
    اسی طرح تم تیر چلاتے وقت اس بات کا دھیان رکھتے ہو کہ وہ بہ سرعت صحیح نشانے پر جا لگے۔ جب کوئی شخص کسی چیز کو نشانہ بناکر تیر چلاتا ہے، تو تیر کو بالکل سیدھا رکھتا ہے۔ اسی طرح تم اللہ سے کہہ رہے ہو کہ وہ تم کو تیر کی طرح سیدھا رکھے۔ اس طور پر تم اپنے سوال میں ہدایت کی انتہا او راہ راست کے کمال کو مانگنے والے ہوجاؤ گے۔
    اللہ سے راہ راست پر قائم رہنے کی دعا کرتے وقت اپنے دل میں اس پس منظر کو مستحضر رکھو، تاکہ راہ راست پر چلتے وقت تم درست نشانے پر چلنے والے تیر کی عملی تصویر بن سکو۔
    اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ انسان کو ہمیشہ ہدایت اور صراط مستقیم کا طلب گار ہونا چاہیے۔
    بندہ سے مطلوب ہے کہ وہ ہمہ وقت یہ کوشش کرے کہ وہ سداد(یعنی مکمل استقامت وحق پر چلنے کی)کوشش کرے ، اور نبی ﷺ کے طریقے پر عامل ہونے کی سعی کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہوتو مکمل استقامت وسداد کے بالکل قریب قریب رہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :{ فَاسْتَقِيمُوْا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوْهُ وَوَيْل لِّلْمُشْرِكِيْنَ } [فصلت :۶]
    اس آیت میں استقامت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے بعد استغفار طلب کرنے کا بھی حکم دیا ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ سے تقصیر وکمی ضرور بضرور ہوگی چاہے وہ کتنا بھی کوشش کرے ۔
    نبی ﷺنے بتلا دیا ہے کہ لوگ مکمل استقامت وثبات قدمی پر قائم نہیں ہوسکتے ہیں، جیسا کہ مسند احمد وابن ماجہ میں ہے۔ ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’راہ استقامت پر قائم رہو ، تم ساری نیکیوں کا احاطہ نہیں کر سکو گے، اور تم جان لو کہ تمہارا بہترین عمل نماز ہے، اور وضو کی محافظت صرف مومن کرتا ہے‘‘۔ دیکھئے: [مسند الإمام أحمد:۲۲۳۷۸،وسنن ابن ماجہ:۲۷۷،وصححہ الألبانی فی إرواء الغلیل :۴۱۲]
    محترم قارئین! زندگی بے بندگی شرمندگی ہے ،یہ حقیقت ہے کہ زندگی آمد برائے بندگی ہے ۔ اپنی زندگی اسلامی تعلیمات وارشادات کے مطابق گزارنے کے دوران نفس انسانی ایسی ایسی خواہشات کے چنگل میں گھر جاتی ہے کہ انسان کے قدم لڑکھڑانے کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ تلبیس ابلیس اور شیطان کا بہکاوا اور دنیا کی چمک دمک انسان کو رب کی یاد سے غافل کرنے کا سبب بنتے ہیں اور وہ اللہ و رسول ﷺکے حقوق کو کماحقہ ادا کرنے سے قاصر رہنے لگتا ہے، یا ادا نہ کرنے کی روش اپنا لیتا ہے۔ عبادات وطاعات کے نظام میں اسلام نے جس ترتیب اور دوام کا مطالبہ کیا ہے اس میں کچھ ڈھیلاپن اور سستی درآتی ہے۔ عقائد میں گڑبڑی اور معاشرتی زندگی میں خاندان اور معاشرے کے خلاف شریعت کام ،غیر شرعی رسوم و رواج کے سامنے اسے سرنڈر کرنے کا کہا جاتا ہے۔ ایسا نہ کرنے پر سماجی ومعاشرتی بائیکاٹ ودوری کی دھمکی دی جاتی ہے، رشتہ داری توڑ دینے کا خوف دلایا جاتا ہے، بے یارومددگاراور اپاہج بناکر چھوڑ دئیے جانے کا شورہوتا ہے ، وقت کے ناروا تقاضوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، دین وشریعت پر عمل کرنے کو دقیانوسیت سے تعبیر کیا جاتا ہے، ماڈرن بننے کا مشورہ دیا جاتا ہے ،مولویانہ رنگ کو ذرا کم کرنے کی نصیحت کی جاتی ہے، بدعات و خرافات کا جواز منوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔آج کچھ ایسے ہی حالات اور ماحول ہے ۔ایسے وقت میں مرد مومن کی شان یہ ہے کہ وہ استقامت وثبات قدمی کے مفہوم ومعانی اور حقیقت کو سمجھے۔سلف کے نقش قدم پر چلنا سنت اور شریعت کو حرزجان بنانا اور اسلامی تعلیمات و راہ حق پر جم جانا ہی کامیابی ہے ۔اے دلوں کے پھیرنے والے!ہمارے دل کو اپنے دین پر جما دے۔ اے ہمارے پروردگار!ہمیں ہدایت دے دینے کے بعد ہمارے دلوں میں کجی (گمراہی) نہ پیدا کر۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ثبات قدمی واستقامت وعزیمت کی دولت سے نوازے ۔ فتنہ وفساد سے محفوظ رکھے اور استقلال ،حزم وحکمت سے نوازے۔ آمین
    جاری……

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings