-
فقہ اہل الحدیث(۱)، اصول وقواعد ،مراجع و مصادر (اول) نوٹ: یہ علامہ عزیر شمس رحمہ اللہ کا مکتب توعیہ الجالیات الغاط ،سعودی عرب کے زیر اہتمام پیش کیاگیا محاضرہ ہے ، جسے افادہ عامہ کی خاطرتحریری شکل میں منتقل کردیا گیا ہے۔بالکل اخیر میں بعض اضافات میں نے کیا ہے،بعض علماء کے سن وفات شیخ نے نہیں ذکر کیا تھا ،جسے میں نے بعد میں ذکر کیاہے،جو میں نے سن وفات ذکر کیا ہے ،اس کی تمیز کے لیے’’المتوفی ‘‘لکھا گیا ہے اورجو شیخ نے سن وفات ذکر کیاہے اس کے ساتھ میں’’وفات ‘‘یا ’’ت‘‘لکھا گیا ہے۔آفاق احمد۔
دراصل یہ موضوع کافی طویل ہے اور اس میں کافی علمی باتیں ہیں ،لیکن بڑے آسان انداز میں کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا،بہت ساری باتیں آپ لوگوں کو معلو م ہوں گی ، ابھی ناظم پروگرام نے مجھے ’’بقیۃ السلف‘‘ کہہ دیا ہے ،حالانکہ ایسا نہیں ہے، ابھی کئی ایک ہمارے سامنے بقیہ السلف ہیں ،ڈاکٹر اقبال کیلانی ہمارے سامنے موجود ہیں ، انہوں نے پوری زندگی فقہ السنہ کی خدمت کی ہے ۔
جو موضوع مجھے دیا گیا ہے وہ ہے’’فقہ اہل الحدیث ، اصول وقواعد ،مراجع و مصادر‘‘ہے ۔
فقہ اہل حدیث سے متعلق لوگوںکے بیچ بہت سی غلطیاں ہیں اور بہت سے سوالات ہیں ۔مثلاً کیا اہل حدیث کی الگ سے کوئی فقہ بھی ہے اور فقہ مذاہب اربعہ جو معروف ہیں ان کے مقابلہ میں فقہ اہل الحدیث کی کیا حیثیت ہے؟کیا ان کے الگ سے کچھ اصول فقہ ہیں ؟ان کی مدون کی گئی فقہ کی کتابیں کہاں پائی جاتی ہیں ،فقہ اہل حدیث اور فقہ مذاہب اربعہ میں کیااختلاف ہے ؟اور کیا فقہ اہل حدیث پر عمل کرنے سے امت کے اندر تفرقہ مزید پیداہوتاہے ؟یا یہ کہ اگر ہم فقہ مذاہب اربعہ میںخود کو مقید کرتے ہیں توکیا ضروری ہے کہ اس سے اتحاد واتفاق پیداہوگا؟اور پھر فقہ اہل حدیث ہے کہیں تو اس کی خصوصیات کیا ہیں ؟ا س کے بنیادی مصادر ومراجع کیاکیاہیں ؟کون سے اصول ہیں جن پر وہ عمل کرتے ہیں ؟اس طرح کے کئی سوالات ہیں جو آج سے نہیں بلکہ سو سال سے تقریباً ،جو غیر اہل حدیث ہمارے بھائی ہیں ان کی طرف سے کئے جاتے رہے ہیں ۔اور ہر زمانہ میں علماء اہل حدیث نے اس کا جواب دیا ہے ،جیسے علامہ اسماعیل سلفی رحمہ اللہ ۔ان کی ایک کتاب’’تحریک آزادی فکر اور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی‘‘(۲) ہے۔اس کتاب کو لوگوں نے دیکھا اور پڑھا ہوگا ،اس میں ایک قانون داں نے ان سے کچھ اس طرح کے سوالات کئے تھے ۔اور ان سوالات کا اتنا معقول جواب علامہ اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے دیا تھا کہ اگر آپ ان دس سوالات کے جوابات پڑھ لیں تو کئی سارے اشکالات و اعتراضات کے جواب آپ کومل جائیں گے ۔اور فقہ اہل حدیث سے متعلق جو غلط فہمیاں ہیں وہ بھی دور ہوجائیں گی۔
میں آپ کو سب سے پہلے یہ بتاتاہوں کہ اہل الحدیث یا حدیث کی طرف نسبت کرنے والے صرف علماء ہی نہیں ہوتے ہیں جو صرف حدیث کے پڑھنے ،پڑھانے اورتصنیف و تالیف کا کام کرتے ہیں ۔بلکہ اہل حدیث سے مراد وہ لوگ ہیں جو حدیث کے ان دس بارہ چیزوں میں سے کسی میں بھی لگے ہوں ۔
سب سے پہلے میں ذکر کرتاہوں روایت اور حفظ حدیث ،اس میں کسی کو اشکال نہیں ہے کہ الحمد للہ روایت اور حفظ حدیث میں اہل الحدیث ہی نے سب سے بڑا رول اداکیاہے ۔
دوسری چیز کتابت اور تدوین حدیث ،حدیث کے لکھنے اور اس کی تدوین کا کام یہ بھی اہل الحدیث ہی نے کیاہے ۔
پھر اس کے بعد نقد حدیث یعنی حدیث کی چھان پھٹک ،کھرے کھوٹے کے درمیا ن فرق کرنا کہ کونسی صحیح حدیثیں ہیں اور کونسی ضغیف حدیثیں ہیں ۔یہ بھی اہل الحدیث ہی کامیدان ہے ۔
اس کے بعد ایک میدان آتا ہے فقہ الحدیث یعنی حدیث سے کیا مسئلہ مستنبط ہوتا ہے ،اور اسی پر آج میری گفتگو ہوگی۔
اس کے بعد نمبر آتاہے عمل بالحدیث کا ، اس میں صرف علماء ہی نہیں بلکہ وہ تمام لوگ شامل ہیں جو اہل علم کی تحقیق کے مطابق صحیح حدیثوں پر عمل کرتے ہیں۔
اس کے بعد شرح حدیث کا نمبر آتا ہے یعنی کہ حدیث کی سند اور متن وغیرہ پر بات کرنا ،ایک حدیث لے لیجئے’’إنما الاعمال بالنیات‘‘اب اس حدیث کے کئی پہلو ہیں جن پر علماء نے بحث کیاہے ،شرح حدیث کا ایک سلسلہ ہے امام خطابی(المتوفی:۳۸۸)کے ’’معالم السنن‘‘(۳)سے لے کر آج تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔موجودہ دور یعنی بیسویں صدی یا انیسویں صدی کے اخیر میں جب ہم پہنچتے ہیں تو دویا تین کا م کا اور اضافہ ہوجاتا ہے، جیسے ترجمہ کتب حدیث یعنی حدیث کی کتابوں کا ترجمہ جیسے نواب صدیق حسن خان قنوجی رحمہ اللہ کے زمانہ میں یہ کام ہوا، اور پھر ان کی طباعت کے لیے کئی پریس موجود تھے جیسے دہلی میں، امرتسر میں، لاہور میں ،ترجمہ کے ساتھ ساتھ کئی ساری شرحیں بھی ارود میں لکھی گئیں ،تاکہ اہل زبان آسانی کے ساتھ سمجھ سکیں ۔(جیسے کتب ستہ ،مشکوہ،ریاض الصالحین،بلوغ المرام ، اربعین ۔اور ابھی اسی صدی میںایک شاندار کام اور ہواہے وہ یہ کہ یہ ساری ترجمہ کی گئی کتابوںسے آن لائن بھی استفادہ کرنا آسان ہوگیا ہے ۔ ایک ویب سائٹ کا نام :موسوعۃ القرآن و الحدیث ،ابن منیر۔ویب سائٹ کی لنک یہ ہے https://islamicurdubooks.com/۔یہاں پر آپ کو کئی ایک حدیث کی کتابیںاردو،ہندی اورانگلش میںآسانی کے ساتھ مل جائیںگی اور حدیث نمبر یا حدیث کے کسی لفظ کے ذریعہ سے وہ پوری حدیث بھی تلاش کرسکتے ہیں۔آفا ق احمد
اب تو انگلش اور دوسری زبا ن میں بھی ترجمے ہورہے ہیں ،یہ شرف بھی اہل الحدیث کو ہی لوٹتا ہے اس کے علاوہ موجودہ دور میں ایک اور کام حدیث کا ہواہے وہ ہے’’ احیاء کتب حدیث‘‘ ،(حدیث سے متعلق تراث سلف )ایک ایک کتاب جو دنیا کے مختلف کونوں میں موجود تھی اس کو نکال کرکے ،ایڈٹ کرکے شائع کرنے کا کام ،یہ کا م بھی اہل الحدیث نے ہی کیاہے ،اب جو نام پہلے صرف کتابوں میں آتے تھے جیسے طبرانی،امام طبرانی کی(المتوفی:۳۶۰ہـ)،بیہقی (۴)وغیرہ کے ان سب کی کتابیں بھی دنیامیں موجود ہیں ،آج سے سو سال پہلے یہ صورت حال نہ تھی ،پہلے اگر کسی کے پاس کتب ستہ ، مشکوٰۃ ،بلوغ المرام موجود ہوتی تھی تو وہ یہ سمجھتاتھاکہ الحمدللہ میرے پاس اچھی خاصی کتابیں موجود ہیں ،’’تحفۃ الاحوذی بشرح جامع الترمذی‘‘کے مؤلف محدث عبدالرحمان مبارکپوری(۵) نے جس وقت یہ شرح لکھی تھی اس وقت ان کے پاس بہت زیادہ کتابیں نہیں تھیں ،شرح حدیث میں’’فتح الباری‘‘اور رجال کی کتابوں میں تہذیب التہذیب ،تقریب التہذیب،میزان الاعتدال وغیرہ تھیں ۔اس طرح سے بعض دوسری مساعد کتابیں تھیں،لیکن اللہ نے ان لوگوں کواتنا علم دیاتھا کہ اس علم کی بنیاد پر انہوں نے پوری پوری کتابیں لکھ ڈالیں ۔اسی طرح خدمت حدیث کے میدان میں حدیث کے جومختلف پروگرام بنائے گئے ،نیٹ کے ذریعہ یا اور بھی جو ذرائع ہوسکتے تھے ،اس اعتبار سے بھی اہلحدیثوں نے بہت بڑا کام کیا ہے۔کیونکہ اہل الحدیث کی چاہت یہ تھی کہ گھر گھر حدیث پہنچے اس وجہ سے اہل الحدیث نے یہ حدیث سے متعلق مختلف النوع خدمات انجام دیں ۔
اب آئیے فقہ الحدیث پر گفتگوکرتے ہیں۔اس باب میں سب سے پہلے ہم یہ مسئلہ حل کرتے ہیں کہ کیااہل الحدیث کے نام سے پہلے کوئی مکتب فکر تھا یا پھرجیسا کہ ہمارے بارے میں کہاجاتا ہے کہ ہم انیسویں صدی یا بیسویں صدی کی پیداوار ہیں ۔آخر کیا درست ہے؟
اگر تاریخ کی کتابیں دیکھیں ۔جیسے ابن قطیبہ الدینوری جن کی وفات سنہ ۲۷۶ھ ہے ،انہوں نے’’المعارف ‘‘کے نام سے معلومات عامہ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ،اس میں دیکھئے فقہاء اہل الحدیث ،فقہاء اہل الرائے دونوں کا ذکر کیا ہے اور ان کے نام بھی ذکر کئے ہیں ،جیسے امام ثوری ،اسحاق بن راہویہ ،اما م احمد بن حنبل ،لیث ابن سعد یہ سب فقہاء اہل الحدیث ہیں اور جب فقہاء اہل الرائے کا ذکر کرتے تو امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگرد اور دوسرے کوفہ کے علماء کے نام بیان کرتے ہیں(۶)۔
پھر آپ اور آگے بڑھئے، فرق او رمذاہب سے متعلق جو کتابیں لکھی گئیں ان میں ایک ابو منصورعبد القاہربن طا ہر البغدادی تھے ،جن کی کتا ب’’الفرق بین الفرق‘‘کے نام سے مشہور ہے ۔سن وفا ت۴۲۹ھ ہے ۔اس میں دیکھئے جہاں فقہ کا ذکر ہے وہاں پر فقہ اہل حدیث اور فقہ اہل الرائے کا ذکر ہے ۔اور اس کے بعد آئیے شہرستانی کی کتاب ’’الملل والنحل‘‘ہے ۔وفات ۵۴۸ھ میں ہے ۔اس میں انہوں نے وضاحت کے ساتھ بتایا ہے کہ جب ہم فقہ اہل الحدیث کہتے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے اور فقہ اہل الرائے کا کیا مطلب ہوتا ہے(۷)۔
اہل الحدیث نے حدیث کی خدمت کی ،اس میں مشغول رہے اور جگہ جگہ سفر کرکے کام کیا ،تفصیلات دیکھنے ہوں تو’’ابن حبان‘‘کے مقدمہ میں اور دیگر جر ح وتعدیل کے مقدمہ میں دیکھئے کہ محدثین نے حدیثوں کوجمع کرنے کے لیے کہاں کہاں کا سفرکیا،بہر حال انہوں نے حدیثوں کو جمع کرکے اس پر دوسرا کام حدیثوں پر تامل کا کیا ،اس سے مسائل کا استنباط کیا ،اور فقہ اہل الرائے فقہ اہل الحدیث سے مختلف ہے ، انہوں نے ذکر کیا ہے کہ اہل الرا ئے کو ایسا نہیں ہے کہ حدیثوں سے انہیں دشمنی تھی ،بلکہ حدیثیں انہیں کم پہنچی تھیں ،حدیث سے اشتغال ان کا کم تھا ،اس وجہ سے حدیث فہمی کاان کا طریقۂ کا ر مختلف ہے ۔وہ عام طور پر کرتے یہ ہیں کہ ان کے ائمہ اور فقہاء جو ہیں ان کے مسائل سے کچھ اصول او رقواعد مستنبط کرتے ہیں اور ان اصول وقواعد پر مسائل کی تخریج کرتے ہیں ۔اس وجہ سے ان کا طریقۂ استنباط اہل الحدیث کے طریقۂ استنباط سے بالکل الگ ہے ۔اس کی پوری تفصیل شہر ستانی نے دی ہے(۸)۔
اس کے بعد اور آگے آئیے ۔علامہ ابن خلدون ہیں ان کی وفات سنہ ۸۰۸ھ ہے ،ان کا تاریخ کا مقدمہ بڑا مشہور ہے ،’’مقدمہ ابن خلدون‘‘نام سے ،اس میں باب الفقہ جب آپ پڑھیں گے ،اس میں انہوں نے اپنے زمانہ تک فقہ کا جو ارتقاء ہوا ہے اس کاجائزہ لیا ہے۔اس میں انہوں نے جب تیسری صدی ہجری کا ذکر کیاہے بلکہ دوسری ہی صدی ہجری کا تو اس میں انہوں نے کہا ہے ’’فانقسم الفقہ علی طریقتین‘‘ طریقۂ اہل الحدیث ،طریقۂ اہل الرائے ،پھر دونوں کی خصوصیات انہوں نے ذکر کیاہے(۹)۔پھر بعد میں آئیے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (ت:۱۱۷۶ھ)کی ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘پڑھیں گے تو اس کی جلد اول میں ایک باب ہے’’بَاب الْفرق بَین اہل الحَدِیث وَاَصْحَاب الرَّاْی‘‘(۱۰)پھر اس میں انہو ں نے فقہ اہل الحدیث کی خصوصیات ،طریقۂ استنباط او ر ان کے بڑے بڑے اعلام کا بھی ذکر کیاہے ،اسی طرح فقہ اہل الرائے اور ان کے طریقۂ استنباط کا ذکر کیا ہے ۔بلکہ اس میں ایک بہت اہم نکتہ یہ بیان کیاہے کہ اہل الحدیث کا مطلب یہ نہیں کہ وہ رائے کو اور قیاس کو نہیں مانتے ہیں،اہل الحدیث ظاہر یہ کی طرح قیاس کے منکر نہیں ہیں بلکہ وہ کسی مسئلہ میں یہ دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی مرفوع حدیثیں کیا ہیں اور صحابہ کے آثار کیاہیں ان سب کو جمع کرنے اور تحقیق کرنے کے بعد وہ کسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں ،دوسری چیز یہ کہ وہ پہلے سے مسائل فرض نہیں کرتے ہیں اورجب تک کہ واقع نہیں ہوجاتاہے اس وقت تک اس مسئلہ سے متعلق کوئی رائے نہیں دیتے ہیں ،تیسری چیز انہوں نے یہ ذکر کیاہے کہ جب وہ کسی مسئلہ میں قرآن وحدیث اور آثا رسلف نہیں پاتے ہیں تو وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کونسی اصل موجود ہے جس پر قیاس کرکے مسئلہ کاحل نکالا جا سکتا ہے ۔یعنی قیاس کے منکر نہیں ہیں ۔اس کے مقابلہ میں ظاہر یہ جو ہیں وہ قیاس کے منکرہیں ۔ظاہریہ کا کہنا ہے کہ قیاس سے کسی مسئلہ کا حل پیش کرنا بالکل ہی غلط ہے۔جیسا کہ ابن حزم(المتوفی۴۵۶ھ)وغیرہ نے کہا ہے۔پھر اہل الرائے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اہل الرائے کے یہاں ایسا نہیں ہے کہ وہ حدیث سے دشمنی رکھتے ہیں ،بلکہ وہ طریقۂ استنباط میں محدثین کے طریقہ پر نہیں ہیں ۔بلکہ وہ اپنے ائمہ کے اصول وقواعد پر مسائل کی تخریج کرتے ہیں ۔اور بتایا ہے انہوں نے کہ اہل حدیث اور اہل الرائے میں فرق طریقۂ استنباط میں ہے ۔اہل الحدیث کے یہاں قیاس اس وقت باطل ہے جب وہ نص کے مقابل میں ہو ۔
آپ نے دیکھا کہ دوسری صدی ہجری سے لے کر میں نے ذکر کیا کہ ہر دو رمیں اہل الحدیث مکتب فکر موجود رہا ہے ،خصوصاً فقہ کے باب میں ،علامہ اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے اپنی کتا ب’’تحریک آزادیٔ فکر ‘‘اور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی‘‘اہل الحدیث کی دیگر میدانوں میں خدمات مثلا ًعقیدہ ،سیرت وغیرہ میں جو ان کا طریقہ کاررہا ہے اس کا ذکر کیاہے ۔تو اس سے یہ پتہ چل گیا کہ اہل الحدیث اور اس پر کا م کرنے والے علماء ہر دور میں موجود رہے ہیں اوریہ انیسویں صدی یا بیسویں صدی کی پیداوار نہیں ہیں ۔
اب آئیے اس مسئلہ پر کہ اگر اہل حدیث کی فقہ ہے تو کونسی کتابیں ہیں ،اور فقہ مذاہب اربعہ اور فقہ اہلحدیث کے مابین کیافرق ہے؟
فقہ اہل حدیث میں دلیل کی بنیا دپر جو لچک ہے اتنی کسی اور فقہ میں نہیں ہے۔اسی طرح آپ دیکھیں اہل الرائے جو اصول او رقاعدہ بناتے ہیں وہ کبھی اس سے خروج نہیں کرتے ہیں ،جبکہ اہل الحدیث کا معاملہ ایسا نہیں ہے ،اسی طرح اہل الحدیث کے یہاں جو قاعدہ بنایا گیا اس کی بنیاد پر مسائل کا وہ استنباط کرتے ہیں اور کو ئی مسئلہ حدیث کے ،صحابہ کے عمل کے خلاف نہیںہوتا ہے اور اہل الرائے کے یہاں دیکھیں گے کہ وہ کسی قاعدہ سے کوئی مسئلہ نکالتے ہیں تو کیا پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی صریح حدیث کے خلاف ہے ،صحابۂ کرام کا عمل اس کے خلاف ہے ،لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا اصول ہے اس وجہ سے ہم اس کے مطابق مسائل بیا ن کریں گے اور مدون کریں گے ،اسی طرح فقہ اہل الرائے کے بارے میںعموما ًہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ فقہاء کوفہ اور فقہاء احناف ہیں ، جب کہ ایسا نہیں ہے ہر مذہب میں حتیٰ کہ مذہب حنفی میں بھی جو حدیث کی طرف مائل تھے تو وہ فقہ اہل الرائے کے مطابق نہ رہ گئے ،مثلاً مولانا عبدالحئی لکھنوی مرحوم کو دیکھ لیں (ت۱۳۰۴ھ)انہوں نے شرح وقایہ کی ایک شرح لکھی’’السعایۃ فی کشف ما فی شرح الوقایۃ‘‘کے نام سے، ’’السعایۃ‘‘اگر آپ پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ اس کی شرح کے بجائے اس پر رد ہے ۔اس میں اکثر مسائل کو انہوں نے جو ترجیح دی ہے وہ محدثین کے منہج کے مطابق دی ہے ،اور انہوں نے خود اپنی کتاب ’’النافع الکبیر لمن یطالع الجامع الصغیر‘‘،’’السعایۃ‘‘کے مقدمہ میں ،إمام الکلام فیما یتعلق بالقراء ۃ خلف الإمام میں صاف طور پر حدیث کو ترجیح دی ہے ۔ان کی باتوں کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے:
کہ میں جتنا گہرائی میں اترتا جاتاہوں ،اتنا ہی معلوم ہوتے جاتا ہے کہ جتنے مسائل میں اہل الحدیث اور احناف کا اختلاف ہے ،اس میں مجھے اہل الحدیث کا مسلک ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔(۱۱)مولانا عبد الحئی لکھنوی جو چودہویں صدی ہجری کے عالم ہیں ،ان سے پہلے ایک عالم ابن ابی العزالحنفی گزرے ہیں (ت۷۹۲ھ)انہوں نے بھی ہدایہ کی شرح لکھی ہے ،جواسے پڑھے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ یہ تواس کی شرح نہیں بلکہ اس پر رد ہے(۱۲)۔ ایک عالم تھے اکمل الدین بابرتی انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے ’’النکت الظریفۃ فی ترجیح مذہب ابی حنیفۃ لاکمل الدین البابرتی‘‘ پھر اس کے رد میں ابن العز الحنفی نے ایک کتاب لکھی’’الاتباع ‘‘۔ بعد میں اسی کتاب کومولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانوی رحمہ اللہ نے اپنی تحقیق و تعلیق کے ساتھ چھاپا ہے(۱۳) ۔
کہنا یہ ہے کہ یہ بھی حنفی تھے ،متقدمین میں دیکھ لیجیے یا متاخرین میں ، جن لوگوں نے بھی حدیث پڑھا اور پھر دونوں میں موازنہ کیا ہے ،اس کے بعد انہوں نے حدیث کو مان لیا ،تو وہ سب اہل الرائے کے دائرے سے نکل گئے ،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی مثا ل ہمارے سامنے ہے جو بارہویں صدی ہجری ہی کے ہیں ،جب وہ حدیث پڑھنے۱۱۴۳ھ میں حرمین آئے اور۱۱۴۵ھ میں یہاں سے واپس گئے تو سب سے پہلے یہاں سے جانے کے بعد انہوں نے یہ کام کیا کہ یہاں پورا ماحول جو حنفی فقہ کا تھا ۔ انہوں نے مؤطا امام مالک پڑھانا شروع کیا ،تاکہ اس سے لوگوں کے اندر حدیث کا شوق پیدا ہو اور دلائل کی روشنی میں حدیث کو سمجھنے کا موقع بھی ملے ،پھر انہوں نے اس کی دوشرحیں لکھیں ،عربی اور فارسی میں ،المصفی میں انہوں نے۸۰ فیصدمسائل میں حنفی فقہ کی مخالفت کی ہے ،اوریہ میری رائے نہیں ہے بلکہ ایک پروفیسر تھے ڈاکٹر محمد مظہر بقا ،ام القریٰ یونیورسٹی کے پروفیسربھی تھے انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے ’’اصول فقہ اور شاہ ولی اللہ‘‘ اس کتاب کے اندر انہو ں نے جائزے کے بعد یہ سب کچھ لکھا ہے۔(۱۴)
اب آئیے اس چیز کی طرف کہ اہل الحدیث کی اگر فقہ ہے تو وہ کونسی کتابیں ہیں ،کیا چیز یں انہوں نے مدون کیں ؟
اہل الحدیث کا کام یہ تھا کہ انہوں نے دین کے مختلف شعبوں میں عہد اول کی چیز یں پوری ایمانداری کے ساتھ منتقل کیں ،اور پوری ریسرچ اورتحقیق کے بعد انہوں نے یہ کا م کیا۔چنانچہ اہل الحدیث نے اس منہج پر کاربند رہ کر جو کتابیں مثلاً کتب الزہد ،کتب السیرۃ ،کتب التاریخ وغیرہ جمع کی ہیں ان سے آپ بے نیاز کبھی بھی نہیں ہوسکتے ہیں۔امام دارقطنی نے سنن دارقطنی میں ایک اثر نقل کیا ہے کہ’’اہل العلم یکتبون ما لہم وما علیہم ،واہل الاہواء لا یکتبون إلا ما لہم‘‘(سنن الدارقطنی:۱؍۲۷) یعنی اہل الحدیث،حدیث سے جو مسئلہ نکل رہا ہے وہ مسئلہ ان کے موافق ہے یا مخالف وہ سب لکھتے ہیں۔اور اہل الرائے صرف وہی نقل کرتے ہیں جوان کے موافق ہو۔
فقہ کی کتابیں انہوں نے کس طریقہ سے مدون کیں ؟ تو سب سے پہلے یہ سمجھیں کہ فقہ کس چیز کا نام ہے ،فقہ دراصل قرآن و حدیث سے استنباط کا نام ہے ۔پہلی دو سری صدی میں فقہ اپنے وسیع معنیٰ میں تھا ،بعد میں وہ احکام کے دائرہ میں محدود ہوگیا۔
خاص معنیٰ کو سامنے رکھ کر کے سب سے پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ پورا تراث محفوظ رکھا کہ صحابہ کافہم کیا تھا ، تابعین کا فہم کیاتھا ۔چنانچہ سعید بن منصور کی کتاب ’’سنن سعید بن منصور‘‘ہے (ت۲۲۷ھ) (۱۵)دوسرے نمبر پر دیکھیں: مصنف ابن ابی شیبہ(وفات :ھ۲۳۵)ہے(۱۶)۔پورا ریکارڈ موجود ہے ہر ہر مسئلہ میں کسی صحابی اور تابعین نے کیاکہا اورکیا عمل کیا،اسی طرح عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی(ت۲۱۱ھ)ہیں(۱۷)،گویاکہ فقہ کا پورا مادہ محدثین نے جمع کرکے رکھ دیا ،اسی طرح ایک فقہ کی کتاب ہے ، ’’معرفۃ السنن والآثارللبیہقی‘‘ (ت۴۵۸ھ)(۱۸)اسی طرح ایک کتاب امام ابوجعفر الطبری (ت:۳۱۰ھ)کی ہے’’تہذیب الآثار وتفصیل الثابت عن رسول اللّٰہ من الاخبار‘‘امام طبری نے اپنی اس کتاب میںبہت کچھ جمع کردیا ہے ۔ اب ہمارا کام ہے کہ ہم انہیں دیکھیں کہ فقہ السلف کیاتھا۔
ابھی بعد میں یہ کوشش ہوئی ہے کہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین کی فقہ کو الگ الگ مدون کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ جیسے فقہ ابن عمر(۲۰) ،فقہ ابن مسعود ،فقہ عمربن الخطاب۔ایک صاحب ہیں محمد منتصر القطانی ہیں ،انہوں نے’’معجم فقہ السلف عترۃ وصحابۃ وتابعین‘‘کے نام سے صحابہ اورتابعین کے فقہ کو اکٹھا جمع کرکے رکھ دیا ہے(۲۱)۔
یہ ہمارے یہاں جامعہ ام القریٰ سے شائع ہے۔تو اس طرح کی کوششیں ہوئی ہیں اور ان سب کا ماخذ یہی آثار کی کتابیں ہیں ۔
بعض اضافات:آفاق احمد
۱۔ ’’السعی الحثیث إلی فقہ اہل الحدیث‘‘دکتور لقمان السلفی رحمہ اللہ،فقہ اہل الحدیث پر ایک شاندار کتاب ہے ۔یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے ۔
۲۔ اس کتاب کا عربی میں بھی ترجمہ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری رحمہ اللہ نے کیا ہے ۔’’ حرکۃ الانطلاق الفکری، وجہود الشاہ ولی اللّٰہ الدہلوی فی التجدید‘‘، للشیخ محمد إسماعیل السلفی رحمہ اللہ۔
۳۔ یہ سنن ابو داؤد کی شرح ہے۔کتب ستہ کی شروحات میں پہلی شرح یہی مانی جاتی ہے،مزید معالم السنن کے حوالہ سے جانکاری کے لیے دیکھیں :(الإمام الخطابی وآثارہ الحدیثیۃ ومنہجہ فیہا،مؤلف الکتاب:احمد بن عبد اللہ بن حمد الباتلی)یہ ماجسترکا رسالہ ہے جو۱۲۰۰صفحات پر مشتمل ہے اور ’’عمادۃ البحث العلمی، جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، الریاض، سنۃ۱۴۲۶ہ سے مطبوع بھی ہے ۔
۴۔ مراد امام ابو بکر البیہقی الشافعی(المتوفی۴۵۸ھ)۔ان کی کئی ایک کتابیں ہیں ،انہی میں سے ایک کتاب ’’السنن الکبری‘‘بھی ہے۔یہ کتاب ان چار کتابوںمیںسے ایک ہے جن کے بارے میں بعض علماء نے کہا ہے کہ جس کے پاس یہ چار کتابیں موجود ہیں گویا کہ اساس شریعت پر امہات کتب موجود ہیں ۔
۱۔السنن الکبری للبیہقی ۔۲۔ المغنی لابن قدامۃ ۔۳۔ المحلی لابن حزم ۔۴۔ التمید لابن عبد البر۔دیکھیں :[السنن الکبریٰ البیہقی- ت الترکی: مقدمۃ: ص:۶۲]
۵۔ سنن ترمذی کی کئی لوگوں نے شرحیں لکھیں ہیں ،لیکن جو جامعیت اور مقبولیت اسے ملی وہ کسی اور شرح کو نہ مل سکی ،بطو ر خاص اس شرح کا مقدمہ بڑا اہم ہے ۔ان کی سوانح حیات پر کئی ایک نے کتابیں لکھی ہیں ،مثلاً مولانا عبد الرحمان محدث مبارکپوری حیات و خدمات(المتوفی۱۳۵۳ھـ)،تالیف فاضل دیوبند مولانا عین الحق قاسمی حفظہ اللہ، ۳۶۰صفحات پر یہ کتاب مشتمل ہے ۔
۶۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں۔[المعارف لابن قتیبہ:ص:۴۹۴۔۵۲۷،محقق :ثروت عکاشۃ]
۷۔ اصحاب الحدیث: وہم اہل الحجاز، ہم: اصحاب مالک بن انس، واصحاب محمد بن إدریس الشافعی، واصحاب سفیان الثوری، واصحاب احمد بن حنبل، واصحاب داؤد بن علی بن محمد الاصفہانی۔ وإنما سموا: اصحاب الحدیث، لان عنایتہم: بتحصیل الاحادیث، ونقل الاخبار، وبناء الاحکام علی النصوص، ولا یرجعون إلی القیاس الجلی والخفی ما وجدوا: خبراً، او اثراً۔[الملل والنحل:۲؍۱۱]
اصحاب الرای: وہم اہل العراق ہم: اصحاب ابی حنیفۃ النعمان بن ثابت۔ومن اصحابہ: محمد بن الحسن، وابو یوسف یعقوب بن إبراہیم بن محمد القاضی، وزفر بن الہذیل، والحسن بن زیاد اللولوی، وابن سماعۃ، وعافیۃ القاضی، وابو مطیع البلخی، وبشر المریسی۔
وإنما سموا اصحاب الرای، لان اکثر عنایتہم: بتحصیل وجہ القیاس، والمعنی المستنبط من الاحکام، وبناء الحوادث علیہا، وربما یقدمون القیاس الجلی علی آحاد الاخبار۔ وقد قال ابو حنیفۃ: علمنا ہذا رای، وہو احسن ما قدرنا علیہ؛ فمن قدر علی غیر ذلک فلہ ما رای، ولنا ما راینا۔[الملل والنحل:۲؍۱۲]
۸۔ اس حوالہ سے شہرستانی کی پوری عربی عبارت ۹نمبر پر میں نے لکھ دی ہے ۔
۹۔ تفصیل کے لیے دیکھیں :[تاریخ ابن خلدون :۱؍۵۶۴]
۱۰۔ تفصیل کے لیے دیکھیں ۔[حجۃ اللہ البالغۃ :۱؍۲۵۴]
۱۱۔ ایک کتاب ہے ’’مسلک احناف اور مولانا عبد الحئی لکھنوی‘‘مصنف علامہ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ،ناشر: ادارہ علوم اثریہ، فیصل آباد۔
اس میں صاحب کتاب نے کئی سارے ان مسائل کا ذکر کیاہے ،جن مسائل میںعلامہ عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ نے احناف سے اختلاف کرکے اہل الحدیث کے مسائل کوقوی دلائل کی بنیاد پر راجح قرار دیاہے ۔
۱۲۔ التنبیہ علی مشکلات الہدایۃ لابن اَبی العِزّ الحنفی (المتوفی :۷۹۲ھ)
۱۳۔ ہفت روزہ’’الاعتصام خاص بیاد مولانا عطاء اللہ بھوجیانوی :ص۸۱۲۔مقالہ کا نام:مولانا کی اشاعتی خدمات۔مضمون نگار:مولانا مطیع اللہ سلفی(مبارکپور )۔ نیز اسی شمارہ میں کئی ایک اور علماء نے بھی اس کا تذکرہ کیاہے۔مثلاً خود علامہ عزیر شمس کا مقالہ جو اسی شمارہ میںہے اس میںبھی اس کا ذکر ہے اسی طرح دکتور عبد الرحمن بن عبد الجبار فریوائی نے بھی اس شمارہ میںموجود مقالہ میںاس کتاب کا ذکر کیاہے۔
۱۴۔ یہ کتاب ۵۳۳صفحات پر مشتمل ہے۔اور ریختہ نامی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
۱۵۔ المحقق: حبیب الرحمن الاعظمی، الناشر:الدار السلفیۃ الہند، الطبعۃ: الاولیٰ،۱۴۰۳ھ،۱۹۸۲م
۱۶۔ المحقق: کمال یوسف الحوت، الناشر: مکتبۃ الرشد الریاض، الطبعۃ: الاولیٰ،۱۴۰۹، عدد الاجزاء ۔۷
۱۷۔ المحقق: حبیب الرحمن الاعظمی، الناشر:المجلس العلمی الہند، یطلب من:المکتب الإسلامی بیروت، الطبعۃ: الثانیۃ،۱۴۰۳، عدد الاجزاء:۱۱
18- المحقق: عبد المعطی امین قلعجی، الناشرون: جامعۃ الدراسات الإسلامیۃ (کراتشی – باکستان)، دار قتیبۃ (دمشق -بیروت)، دار الوعی (حلب – دمشق)، دار الوفاء (المنصورۃ – القاہرۃ) الطبعۃ: الاولی، 1412ہـ – 1991م، عدد الاجزاء : 15
۱۹۔ المحقق: محمود محمد شاکر، الناشر: مطبعۃ المدنی القاہرۃ، عدد الاجزاء :۱
۲۰۔ فقہ ابن عمر کے علاوہ ابن عمر کی فقہ ایک موسوعہ کی شکل میں بھی مرتب ہوچکی ہے ۔موسوعۃ فقہ عبداللہ بن عمر عصرہ وحیاتہ ،مؤلف:محمد رواس قلعہ جی صفحات۷۶۵،فقہ کے خاص ابواب پر بھی ابن عمر کی فقہ اب مرتب ہوچکی ہے ۔’’فقہ عبداللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما فی احکام الزکاۃ و الصیام جمعا و دراسۃ وتوثیقا،بحث مقدم لنیل درجۃ الماجستیر فی الفقہ الإسلامی‘‘، إعداد، الطالب؍خان محمد عبد السلام ، جامعۃ ام القریٰ۔صفحات:۵۱۵
اسی طرح دوسرے صحابہ اور تابعین کی بھی فقہ موسوعہ کی شکل میںدکتور محمد رواس قلعجی رحمہ اللہ نے مرتب کردیا ہے۔جن میںسے بعض کے نام یہ ہیں۔
۱۔ موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب، ۲۔ موسوعۃ فقہ عثمان بن عفان، ۳۔موسوعۃ فقہ ابی بکر الصدیق ، ۴۔موسوعۃ فقہ علی بن ابی طالب ، ۵۔ موسوعۃ فقہ عبد اللہ بن مسعود ، ۶۔ موسوعۃ فقہ عبد اللہ بن عباس ، ۷۔موسوعۃ فقہ ابراہیم النخعی ۔ ان کے علاوہ کئی ایک موسوعات ان کی اور بھی ہیں۔
عنوان: معجم فقہ السلف عترۃ وصحابۃ وتابعین ، مؤلف:العلامۃ محمد المنتصر باللہ الکتانی ، تحقیق واعتنی: خالد بن إبراہیم عیتانی، مجلدات۴، الصفحات:۲۰۸۹، طبعۃ:دار ابن الجوزی.
جاری ہے ……
٭٭٭