Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • اولاد کی پرورش میں ماں باپ کی قربانیاں

    ماں باپ اپنی اولاد کے لیے بے لوث اور بے نظیر قربانیاں دیتے ہیں، اولاد کی خاطر اپنے آپ کو فراموش کر دیتے ہیں، اولاد کی خوشی ان کا اولین مقصد ہوتا ہے، اولاد ان کی کل کائنات ہوتی ہے، وہ اپنی پوری زندگی اولاد کے لیے وقف کر دیتے ہیں، ماں باپ اپنی اولاد کے لیے کس قدر قربانیاں دیتے ہیں اس کا اندازہ ان کے مقام سے لگایا جاسکتا ہے کیوں کہ ان کا مقام ان کی قربانیوں کا صلہ ہوتا ہے، وہ اپنی قربانیوں کے بدلے اولاد کے حسن سلوک کا سب سے بڑھ کر مستحق بن جاتے ہیں، انہیں اف تک کہنا گناہ کبیرہ ہو جاتا ہے، رب کی رضا ان کی رضا پر اور رب کی ناراضگی ان کی ناراضگی پر موقوف ہو جاتی ہے، ان سے اچھا سلوک کرنا افضل الاعمال کے درجے کو پہنچ جاتا ہے ۔
    ذیل میں ماں باپ کی قربانیاں الگ الگ طور پر قدرے تفصیل سے پیش کی جاتی ہیں:
    ماں کی قربانیاں: ماں کی زندگی قربانیوں سے معمور ہوتی ہے، ماں اپنے بچوں کے تئیں قربانیوں کے لا متناہی سلسلوں سے گزرتی رہتی ہے، بچے کی پیدائش سے لے کر وفات تک اس کے لیے تکلیفیں برداشت کرتی ہے، نو مہینے حمل اٹھاتی ہے، پھر وضع حمل جیسی جاں گسل مرحلے سے بھی گزرتی ہے، پھر دو سالوں تک اپنا خون دودھ کی شکل میں پلاتی ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ تینوں مالایطاق قربانیاں ایک صنف نازک بلا شرکت غیرے دیتی ہے، (بعض علماء نے کہا ہے کہ اسی وجہ سے ماں کا درجہ باپ سے تین گنا زیادہ ہوتا ہے )اور یہ تینوں قربانیاں غیر معمولی ہیں نو مہینے حمل اٹھائے رکھنا کوئی آسان کام نہیں، ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو جو اپنی ماں کو اذیت پہنچاتا تھا نو مہینے مشکیزہ اٹھائے رکھنے کی سزا دی، کچھ ہی وقت بعد اس کو اپنی ماں کی اس قربانی کا احساس ہوگیا اور وہ اسے تکلیف پہنچانے سے باز آگیا۔وضع حمل کا مرحلہ بھی بڑا دشوار گزار ہوتا ہے، بعض مائیں اس مرحلے سے گزرتے ہوئے موت سے بغلگیر ہو جاتی ہیں، ایک بار ایک شخص اپنی ماں کو کندھے پر سوار کرکے دور کسی شہر سے لایا اوراسی حالت میں اس نے طواف بھی کیا، اس کے بعد پوچھا کہ کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا ؟تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تجھے جنتے وقت تیری ماں کے منہ سے نکلی ہوئی ایک کراہ کا بھی حق تو نے ادا نہیں کیا۔ اور رضاعت میں تو ماں اپنا خون پلاتی ہے، جب کبھی ایک شخص کسی کو اپنا خون ڈونیٹ کرتا ہے تو وہ شخص اس خون دینے والے کا زندگی بھر احسان مانتا ہے اور ماں تو مسلسل دو سالوں تک اپنا خون دودھ کی شکل میں پلاتی ہے، ساتھ ہی بچے کی خاطر کئی پسندیدہ چیزوں سے پرہیز کرتی ہے، پھر مرحلہ آتا ہے پرورش کرنے کا جو ہزارہا قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے،ہمہ جہت توجہ کا طالب ہوتا ہے، وقت اور نیند کی قربانی مانگتا ہے جو ماں خوشی خوشی دیتی بھی ہے، ہمیشہ اپنے بچے کو اپنے سایۂ عاطفت میں رکھتی ہے، کئی بار رات آنکھوں میں کاٹتی ہے، بچے کی ذرا سی جنبش یا کھانسی اس کی نیند اڑا دینے کے لیے کافی ہوتی ہے، دن بھر گود میں لیے لیے پھرتی ہے، نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی اس بے جان سی چیز کو کبھی ایک خراش تک نہیں آنے دیتی، اس کے بول و براز کو خوشی خوشی صاف کرتی ہے، موسم سرما میں سردی سے اور موسم گرما میں گرمی سے بچا کر رکھتی ہے، اس کے دن کا اچھا برا گزر بچے کے ہنسنے اور کھیلنے پر موقوف ہوتا ہے۔
    ماں کی مامتا کئی بار اپنی انتہاکو پہنچ جاتی ہے، جب بچہ بستر پر پیشاب کر دیتا ہے تو اسے سوکھی جگہ پر سلا کر خود گیلی جگہ پر سوجاتی ہے ، جب کھانے کی کوئی چیز کم پڑ جاتی ہے تو اسے اپنی ناپسند بتا کر خود بھوکی رہ جاتی ہے مگر بچوں کو بھوکا رکھنا گوارا نہیں کرتی، کوئی بچہ باہر ہوتا ہے تو اس کے حصے کی چیز بچا کر رکھتی ہے ، بچہ جب گھر سے باہر جاتا ہے تو دروازے تک ساتھ جاتے جاتے درجنوں ہدایات اس کی جھولی میں ڈال دیتی ہے اور اس کی واپسی تک بے قرار رہتی ہے ، ماں کی شفقتوں اور قربانیوں کا سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے، بچہ تھوڑا بڑا ہوکر اسکول جانے کے لائق ہوتا ہے تو اس کے کپڑے استری کرتی ہے، صبح صبح اٹھ کر اس کے لیے ناشتہ تیار کرتی ہے، ہاتھوں سے کھلاتی ہے اور باپ کی غیر موجودگی میں اسکول تک ڈراپ کرکے آتی ہے، پھر چھٹی کے وقت ریسیو کرنے بھی جاتی ہے، گھر پر اپنی نگرانی میں ہوم ورک کراتی ہے، شرارت کرنے پر شفقت بھرے لہجے میں ڈانٹ اور جھڑک دیتی ہے، باپ کی مار سے بچاتی ہے، روتے وقت سینے سے لگاتی ہے، بہلاتی ہے، پھسلاتی ہے، چپ کراتی ہے اور بہت سارا پیار دیتی ہے، اتنا پیار کہ آپﷺبندوں سے اللہ کی محبت کو واضح کرنے کے لیے ماں کی محبت کی مثال دیتے ہیں۔
    باپ کی قربانیاں : اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ماں اپنے بچوں کے لیے ان گنت قربانیاں دیتی ہے، مگر باپ کی قربانیاں بھی ناقابل فراموش ہیں، اسی لیے اگرچہ شریعت کی نگاہ میں ماں کا مقام باپ سے بڑھ کر ہے مگر دونوں کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر ملتا ہے، اگر جنت ماں کے قدموں تلے رکھی گئی ہے تو باپ کو اس جنت کا دروازہ کہا گیا ہے، حتیٰ کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اولاد اپنے باپ کا حق ادا نہیں کرسکتی الا یہ کہ اسے غلام پائے اور خرید کر آزاد کرا دے ۔ مگر بعض دفعہ ماں کے مقام اور قربانیوں کا تذکرہ اس طور پر کیا جاتا ہے کہ باپ کا مرتبہ گھٹتا نظر آتا ہے، جب کہ باپ کا مقام بھی بہت بڑا ہے اور اس کی قربانیاں بھی ان گنت اور قابل ذکر ہیں، باپ کی قربانیوں کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ شریعت نے یتیموں کا کس قدر خیال رکھا ہے اور کس قدر ان کی طرف توجہ دی ہے اور ان کی خاص حفاظت کی ہے، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ان کے مال کے ناجائز طور پر کھانے سے روکا اور اسے ہلاک کر دینے والے گناہوں میں سے گردانا ہے، ان کا خیال رکھنے کو نفلی صوم و صلوٰۃ اور جہاد سے افضل قرار دیا ہے یہ سب کس لیے ؟ اس لیے کیوں کہ ان کے سر پر ان کے باپ کا سایہ نہیں ہوتا یعنی اگر باپ موجود ہو تو وہ اپنے بچوں کو دوسروں سے بے نیاز کر دیتا ہے، اور شریعت کی طرف سے ان کے لیے ایکسٹرا ہدایات کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
    باپ وہ ہستی ہے جو اپنے بچوں کے چہرے پر خوشی دیکھنے کے لیے خود کو ہلکان کر ڈالتا ہے، اپنے بچوں کا مستقبل تابناک بنانے کے لیے کربناک مصیبتیں برداشت کرتا ہے، ان کو رزق بہم پہنچانے کے لیے اپنے شب و روز ایک کر دیتا ہے، کڑی دھوپ میں محنت کرتا ہے، دوسروں کی ذلت آمیز باتیں برداشت کرتا ہے، اپنا سکھ چین گروی رکھ کر جان کی بازی لگا کر اپنے بچوں کی تعلیم اور ان کے نان و نفقہ اور سکنیٰ کا انتظام کرتا ہے،اس مہنگائی کے دور میں بھی اپنی ضروریات کا گلا گھونٹ کر اپنے بچوں کی خواہشات کو پورا کرتا ہے، ان کے لیے کھلونے اور من پسند چیزیں خریدتا ہے اور ان کو کھیلتا اور کھاتا دیکھ کر اپنے آپ کو سکون فراہم کرتا ہے ۔
    کسی مڈل کلاس گھرانے میں بچیوں کی پیدائش زندگی کے سفر کو بہت مشکل بنا دیتی ہے، جہیز جیسے بھاری بوجھ تلے باپ دب کر رہ جاتا ہے، یہ ایک بے جا اور ناروا رسم اس کی زندگی اجیرن بنا دیتی ہے، ایک غریب باپ کے ماتھے پر فکر و احساس کی گہری سلوٹیں چھوڑ جاتی ہے، بے چارہ غریب باپ قرض کی چکی میں پس جاتا ہے، در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے، دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے تک کی نوبت آجاتی ہے مگر اپنی بٹیا کی فکر میں یہ بھی گوارہ کرلیتا ہے۔
    ایک بہت بڑی قربانی باپ یہ دیتا ہے کہ کسب معاش کے لیے بیوی بچوں سے دور دوسرے شہر یا باہر ملک چلا جاتا ہے، ان کی خوشی کے لیے اپنی خوشی قربان کردیتا ہے ان کی محبت و رفاقت سے تشنہ لب ہو جاتا ہے، زندگی کا ایک معتدبہ حصہ ان سے الگ ہو کر گزار دیتا ہے۔
    غرض ماں باپ دونوں اپنی اولاد کے لیے بے شمار قربانیاں دیتے ہیں، جب کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ہے کہ اولاد ان کے بڑھاپے میں ان کے احسانات کا اچھا بدلہ دے گی اور دیکھنے میں بھی آتا ہے کہ جو ماں باپ اپنے بچوں کا مستقبل بنانے کے لیے اپنی پوری زندگی کھپا دیتے ہیں وہی ماں باپ عہد پیری میں در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں، اولاد کے لیے گھر بنانے والا باپ بے گھر کردیا جاتا ہے اور بقیہ زندگی اولڈ ایج ہوم میں گزارتا ہے، اولاد کی زندگی سنوارنے والے باپ کی زندگی ’’لا یموت فیھا ولا یحیی‘‘ کے جیسی ہوجاتی ہے۔ کئی بچوں کو ایک ساتھ پالنے پوسنے والے باپ کو اس کے بڑھاپے میں کئی بچے مل کر نہیں پال پاتے ہیں۔
    خدارا والدین کی اہمیت کو سمجھیں، ان کے وجود کو غنیمت سمجھیں، وقت رہتے ان کی خدمت میں جٹ جائیں، انہیں وہ مقام دیں جن کے وہ مستحق ہیں، تاکہ بعد میں کف افسوس نہ ملنا پڑے۔رب ارحمہما کما ربیانی صغیرا۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings