-
گناہ کبیرہ کے مرتکب کے لیے ابدی جہنم نہیں ہے عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضى الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: “أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي فَأَخْبَرَنِي – أَوْ قَالَ بَشَّرَنِي – أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ” قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟! قَالَ: “وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ”.
أطرافه 1408، 2388، 3222، 5827، 6268، 6443، 6444، 7487 تحفة 11982 – 90/2(فيض الباري على صحيح البخاري» (3/ 3)
ترجمہ: ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( خواب میں) میرے پاس میرے رب کا ایک آنے والا (فرشتہ) آیا۔ اس نے مجھے خبر دی، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اس نے مجھے خوشخبری دی کہ میری امت میں سے جو کوئی اس حال میں مرے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس نے کوئی شریک نہ ٹھہرایا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ اس پر میں نے پوچھا اگرچہ اس نے زنا کیا ہو، اگرچہ اس نے چوری کی ہو؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگرچہ زنا کیا ہو اگرچہ چوری کی ہو۔
(صحیح بخاری :1246)
راوی کاتعارف : ان کا نام جندب بن جنادہ ہے ، کبار صحابہ میں ان کا شمارہوتاتھا،پہلے پہل اسلام لانے والوں میں سے ہیں ،کہا جاتا ہے کہ پانچویں نمبر پر انہوں نے ہی اسلام قبول کیاہے،من جملہ ان کے فضائل میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے۔
“عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” مَا أَظَلَّتِ الْخَضْرَاءُ، وَلَا أَقَلَّتِ الْغَبْرَاءُ أَصْدَقَ مِنْ أَبِي ذَرٍّ “.
(صحيح :صحیح وضعيف سنن الترمذي:3801)
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”آسمان نے کسی پر سایہ نہیں کیا اور نہ زمین نے اپنے اوپر کسی کو پناہ دی جو ابوذر رضی الله عنہ سے زیادہ سچا ہو۔
(اس حدیث سے ابوذر رضی الله عنہ کی سچائی سے متعلق مبالغہ اور تاکید مقصود ہے۔)ان سے 281 حدیثیں مروی ہیں،جن میں 12حدیثیں متفق علیہ ہیں ، 2 حدیثیں صحیح بخاری میں او ر9 1 حدیثیں صحیح مسلم میں ہیں۔مقام ربذہ میں سکونت پذیر تھے اور وہیں پر ان کا سنہ 32ھ میں حضرت عثمان کے دور خلافت میں انتقال ہوا۔کئ سارے صحابہ نے ان سے روایت کیاہے۔ (مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 93)
فوائد حدیث :
1-کلمہ طیبہ کے صدق دل سے اقرار کی فضیلت اس حدیث سے ثابت ہوتی ہے۔
2-اس حدیث میں یہ دلیل موجود ہے کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکبین کےلئے ابدی جہنمی نہیں ہے ،بلکہ وہ اگر جہنم میں داخل ہو بھی گئے تو اپنے گناہوں کی سزا پا کر آخر میں جنت میں جائیں گے۔
3-“أَتَانِي آت” سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں جیساکہ اسی حدیث ٹکڑا “بَشَّرَنِي“دلالت کررہا ہے۔دیکھیں ۔(كوثر المعاني الدراري في كشف خبايا صحيح البخاري (11/ 241)۔
4-یہ اور اس جیسی دوسری احادیث کے پیش نظر اہل سنت نے یہ اصول بنایاہے کہ گناہ کبیرہ کے سبب کوئ انسان دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتاہے۔
5-جس کا انتقال توحید خالص پر ہوا ہو وہ کبھی نہ کبھی اللہ کی رحمت سے جنت میں ضرور جائے گا۔
6-اس حدیث سے ان گمراہ لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو مرتکب کبیرہ کو دائر ہ اسلام سے خارج مانتے ہیں اور انہیں مخلد فی النار قرار دیتے ہیں ۔
7-کبیرہ گناہوں میں صرف زنا او رچوری کا ہی ذکر کیا گیاہے ،کیونکہ حقوق دو ہی طرح کے ہوتے ہیں ،حقوق اللہ ،حقوق العباد ،پہلے کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اوردوسرے کا تعلق حقوق العباد سے ۔
(منحة الباري بشرح صحيح البخاري (3/ 310)