-
علمائے کرام کی علمی لغزشوں کے بار ے میں ہمارا موقف کیا ہونا چاہئے؟ علمی پختگی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان سے علمی ودینی مسائل میں کوئی بھی لغزش نہیں ہوسکتی، بلکہ کوئی بھی انسان (سوائے انبیائے کرام کے)غلطیوں اور لغزشوں سے معصوم نہیں ہوتاہے، مگر ان لغزشوں کے سلسلے میں درج ذیل ضوابط کی پاسداری کرنا چاہیے:
(۱) کسی بات پر غلط ہونے کا حکم لگانا ہر کس وناکس کا حق نہیں، بلکہ اہل علم کا حق ہے، غیر عالم شخص تو اپنی غلطیوں کا پتہ نہیں لگا پاتا تو کسی عالم کی بات پر غلط ہونے کا حکم کیسے لگا سکتاہے!
(۲)کسی عالم کی طرف کسی لغز ش کی نسبت کسی کی کذب بیانی، غلط بیانی اور غلط فہمی کے نتیجے میں نہ ہو، بلکہ اس لغزش کا ارتکاب اس عالم سے معتبر طریقے سے ثابت ہو۔
(۳)لغزش کے ثابت ہونے کے بعد بھی ہمیں ان کی اس لغزش کے سلسلے میں صحیح موقف اپنانا چاہیے:
(الف)اس لغزش میں ان کی اتباع نہیں کی جانی چاہیے، کیونکہ وہ شرعی تعلیمات کے خلاف ہے، اور ہم بحیثیت مسلمان کسی ذات کی تقدیس نہیں کرتے، بلکہ کسی کا بھی قول اگر کتاب وسنت کے خلاف ہے تو اسے غلط اور مردود مانتے ہیں، البتہ ہر غلطی ایک ہی درجے کی نہیں ہوتی، بلکہ اس کے درجات ومراتب ہوا کرتے ہیں، اسی طرح غلطی کرنے والے بھی ایک ہی درجے کے نہیں ہوتے، بلکہ ان کے بھی درجات ومراتب ہیں، ان درجات ومراتب کی رعایت کرتے ہوئے کسی غلطی کرنے والے کے لیے عذر تلاشا جاسکتاہے، مگر غلط بہر حال غلط ہے اسے صحیح قرار دینا شرعا درست ہے نہ عقلا۔
(ب)اس لغزش کی تشہیر کرکے عام مسلمانوں کے دلوں سے ان کے مقام ومرتبہ کو گھٹانے کی ناروا کوشش نہیں کرنی چاہیے، البتہ اگر اس لغز ش کا اثر عام لوگوں پر پڑرہاہے تو اس پر اہل علم کی طرف سے اس طرح تنبیہ ہونی چاہیے کہ ان کا مقام ومرتبہ لوگوں کی نگاہوں میں باقی بھی رہے، اور اس لغزش سے لوگ دھوکہ بھی نہ کھائیں۔
(ج)ان کے ساتھ حسنِ ظن رکھنا چاہیے کہ انہوں نے جان بوجھ کر حق کی مخالفت نہیں کی ہے، اور انہیں معذور سمجھنا چاہئے، اور ان کے بقیہ صحیح اقوال وفتاویٰ سے مستفید ہونا چاہیے۔
(د)اس لغزش پر خیر خواہی کے جذبے سے شرعی اسالیب کی پابندی کرتے ہوئے اور ان کے مقام ومرتبہ کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کو نصیحت کرنا چاہیے، شاید اللہ کی توفیق سے یہ نصیحت اس لغزش سے رجوع کا سبب بن جائے۔
واضح رہے کہ ہماری گفتگو پختہ علم والے معتبر علماء سے متعلق ہورہی ہے، جن کا علم وسیع ہے، جو حق کے متلاشی ہیں، جن کا منہج قرآن وسنت کی اتباع ہے، اور جن کی لغزشیں کم یا بہت کم ہوتی ہیں، جو ان کے صواب اور درستگی کے سمندر میں تنکے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
لیکن جن کے یہاں غلطیوں کی بھرمار ہوتی ہے ان کا شمار ہی علماء میں نہیں ہوتا۔ علامہ ابن عبد البرنے جامع بیان العلم (۲؍۸۲۰)میں بعض اہل علم کا یہ قول نقل کیا ہے:
’’لا یسلم العالم من الخطأ، فمن أخطأ قلیلا وأصاب کثیرا فہو عالم، ومن أصاب قلیلا وأخطأ کثیرا فہو جاہل‘‘۔اھ۔
یعنی:’’ عالم غلطی سے محفوظ نہیں ہوتے، پس جن سے غلطیاں کم ہوتی ہیں، اورزیادہ تر باتیں درست ہوتی ہیں وہ تو عالم ہیں۔ اور جن کی بہت کم باتیں ہی درست ہوتی ہیں، اور غلطیاں زیادہ ہوتی ہیں وہ تو جاہل ہے‘‘۔
(ماخوذ از عقائد وافکار کا تحفظ کیوں اور کیسے؟)
٭ ٭ ٭