Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ:حیات وخدمات

    نام ونسب اور تاریخ ولادت:
    آپ کا نام احمد، لقب تقی الدین اور کنیت ابو العباس تھی۔
    شجرۂ نسب:
    تقی الدین ابو العباس احمد بن شیخ شہاب الدین ابو المحاسن عبد الحلیم بن مجدالدین ابو البرکات شیخ عبدالسلام بن ابو محمد عبداللہ ابو القاسم الخضر بن محمد بن الخضر بن علی بن عبداللہ بن تیمیہ الحرانی دمشقی رحمہ اللہ۔(کواکب: ص:۱۲۹، الرد الوافر ص:۵،۱بحوالہ امام ابن تیمیہ :ص :۲۵ ،ازغلام جیلانی برق،حیات شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ :ص:۵۱،ابوزھرہ مصر ی)
    ولادت با سعادت:
    آپ ۱۰ یا ۱۲؍ ربیع الاول۶۶ھ، مطابق ۱۲۶۲ء بروز دوشنبہ کو شام کے ایک گاؤں’’حران‘‘میں پیدا ہوئے۔ (مقالات شبلی: ج:۵،ص:۶۴،بحوالہ امام ابن تیمیہ اوران کے تلامذہ :ص:۴۵)
    نقل سکونت و رہائش:
    آپ کے ابتدائی چھ سال’’ حران‘‘ ہی میں گزرنے پائے تھے کہ تاتاریوں نے ’’حران‘‘پہ حملہ شروع کر دیا تو لوگ شہر سے نکل کر ادھر اُدھر بھاگنے لگے، چنانچہ آپ کے والد عبد الحلیم بھی اپنے کنبے کو لے کر دمشق کی طرف چل دیئے، ۶۶۷ھ کے آ خر میں دمشق پہنچے اور وہیں پر رہائش پذیر ہوئے۔
    خاندان ابن تیمیہ کی وجہ تسمیہ:
    بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے چھ پشت پہلے آ پ کے جد میں ’’محمد بن خضر‘‘کی والدہ کا نام ’’تیمیہ‘‘تھا جو ایک بلند پایہ عالمہ تھیں، انہی کی نسبت سے اس خاندان کا نام’’تیمیہ‘‘مشہور و منسوب ہوا۔ (انوار: ص :۱۵۹،بحوالہ امام ابن تیمیہ اور ان کے تلامذہ :ص :۸،صاحب السیف والقلم: ص:۱۶)اس کے علاوہ بھی بہت ساری روایات ہیں۔
    تعلیم و تربیت:
    آپ کی تعلیم کاآغاز ’’حران‘‘ہی میں ہوا لیکن اصل تعلیم کا آغاز دمشق میں’’دارالحدیث السکریہ‘‘سے ہوا جہاں آپ کے والد عبد الحلیم بن تیمیہ رحمہ اللہ شیخ الحدیث تھے، آپ نے بچپن ہی میں قرآن مجید حفظ کرلیا تھا، دار الحدیث السکریہ کے علاوہ مدرسہ حنبلیہ میں بھی آپ نے تعلیم حاصل کیا، ان دونوں مدرسوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد دیگر علمی مراکز سے بھی استفادہ کیا اور مختلف اساتذہ سے تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ، تاریخ ،اسماء الرجال، فلسفہ، منطق وادب اور صرف ونحو کا درس حاصل کیا، آپ نے قرآن مجید حفظ کرنے کے علاوہ امام حمیدی کی کتاب ’’الجمع بین الصحیحین‘‘بھی حفظ کیا، (امام ابن تیمیہ اور ان کے تلامذہ: ص:۴۹)
    اور بعض سوانح نگاروں نے یہاں تک لکھا ہے کہ آپ تقریباً صحاح ستہ کی تمام حدیثوں کے حافظ بھی تھے اور امام الجرح والتعدیل علامہ’’ ذہبی رحمہ اللہ‘‘کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:’’کل حدیث لا یعرفہ ابن تیمیہ فلیس بحدیث‘‘’’جس حدیث کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نہیں جانتے وہ حدیث ہے ہی نہیں‘‘(انوار:۲؍۲۶۹،بحوالہ امام ابن تیمیہ بحیثیت ایک عظیم محدث:۱۵)
    ۶۸۳ھ تک آپ نے وہ تمام علوم حاصل کئے جو رائج تھے، کوئی بھی ایسا علم نہ تھا جس کو آپ نے حاصل نہ کیا ہو، ’’تفسیر‘‘آپ کا پسندیدہ موضوع تھا، تفسیر قرآن کے سلسلے میں آ پ نے بے شمار کتابوں کا مطالعہ کیا، اس فن سے آ پ کو خاص لگاؤ تھا، قرآن مجید پڑھتے رہتے اور اس میں تدبر حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہتے تھے، جیسا کہ صاحب ’’العقود الدریہ‘‘نے لکھا ہے:’’اے ابراہیم علیہ السلام کو تعلیم دینے والے مجھ کو فہم قرآن کریم عطا فرما‘‘ (العقودالدریہ :۲۶،بحوالہ امام ابن تیمیہ اور ان کے تلامذہ:۴۹)
    آپ کی تربیت چونکہ بہت ہی علمی و پاکیزہ گھرانے میں ہوئی تھی اس لیے آپ نے اپنے ذہن ودماغ کی تربیت بھی بہت ہی عمدہ طریقے سے کی تھی، لہو ولعب سے حد درجہ دور رہتے تھے۔
    قوت حافظہ:
    اللہ رب العالمین نے آپ کوغضب کا حافظہ عطا کیا تھا جس کتاب کو آپ ایک مرتبہ دیکھ لیتے وہ آ پ کو مکمل طور پر یاد ہوجاتی، چنانچہ جمال الدین ابو المظفر یوسف بن محمد العبادی العقیلی السرمدی ۷۷۷ھ لکھتے ہیں کہ:’’ابن تیمیہ کے حافظہ کا یہ عالم تھاکہ جب وہ کوئی کتاب پڑھ لیتے تو انہیں یاد ہو جاتی اور وہ اس کی عبارات اپنی تصانیف میں حافظہ سے نقل کرتے چلے جاتے‘‘
    اس کے علاوہ آپ نے ایک حکایت بھی لکھی ہے کہ ایک دفعہ ان سے ان کے والد نے کہا کہ آؤ آ ج سیر و تفریح کے لئے چلیں تو آپ نے معذرت کر دی، چنانچہ شام کو جب آپ کے والد اور بھائی سیر و تفریح سے واپس آئے اور پوچھا کہ دن بھر کیا کرتے رہے تو آپ نے ایک کتاب دکھائی اور کہا کہ میں نے اس کو مکمل طور پر یاد کر لیا ہے تو آپ کے والد نے آپ سے کہا کہ ذرا سناؤ تو سہی، تو آ پ نے پوری کتاب قوت حافظہ سے سنا ڈالی، اس پر آپ کے والد نے آپ کا بوسہ لیا اور کہا کہ اللہ تمہیں چشم بد سے محفوظ رکھے۔(الرد: ص:۷۳ ،بحوالہ امام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ:۲۷۔۲۸ ،از غلام جیلانی برق)
    صاحب ’’العقود الدریہ‘‘نے بھی آپ کے غیر معمولی قوت حافظہ کے بارے میں لکھا ہے کہ حلب کے ایک مشہور و معروف شیخ دمشق آئے اور انہوں نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا امتحان لیا اور آپ امتحان میں کامیاب ہو گئے تو شیخ حلبی نے فرمایا کہ اگر یہ لڑکا زندہ رہا تو بڑا مرتبہ حاصل کرے گا اور کہا کہ آ ج تک میری نظر سے کوئی ایسا لڑکا نہیں گزرا۔(العقود الدریہ:۴، باختصار:بحوالہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بحیثیت ایک عظیم محدث: ۱۳،حیات امام ابن تیمیہ پروفیسر ابو زھرہ بحوالہ صاحب السیف والقلم :ص:۱۹۔۲۰)
    امام ابن تیمیہ کا علمی خاندان:
    آپ کا پورا خاندان ’’حران‘‘کا ایک مشہور و معروف علمی خاندان تھا، فقہ حنبلی کا پیروکار تھا، آ پ کے خاندان میں بہت بڑے بڑے عالم و فاضل پیدا ہوئے، چنانچہ آپ کے والد شیخ عبد الحلیم شہاب الدین دار الحدیث السکریہ کے شیخ الحدیث تھے، دمشق کی جامع مسجد میں مسند درس و تدریس پر فائز تھے، آپ کے دادا مجد الدین بھی بڑ ے پایہ کے عالم تھے اور فقہ حنبلی کے ائمہ میں ان کا شمار ہوتا تھا، اور آپ کے چچا فخرالدین بہت بڑے عالم و خطیب تھے، کئی ضخیم جلدوں میں قرآن کریم کی تفسیر لکھی ہے اور آپ کے دو چھوٹے بھائی بھی تھے، زین الدین عبد الرحمن اور شرف الدین عبد اللہ، شرف الدین علم حدیث اور قواعد کے بڑے عالم تھے، گویا کہ آپ کے خاندان کے صاحب علم حضرات کا مشغلہ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف ہمیشہ ہی رہا جیسا کہ واضح ہے۔
    شیوخ واساتذہ:
    حافظ ابن قدامہ فرماتے ہیں:’’شيوخه الذين سمع منهم اكثر من مأتي شيخ‘‘(کواکب :ص :۱۳۹، بحوالہ امام ابن تیمیہ: ۲۹ ،ازغلام جیلانی برق)
    ان میں سے چند مشہور اساتذہ کے نام درج ذیل ہیں:(۱) شیخ زین الدین ابو العباس احمد بن عبد الدائم ۵۷۵ھ تا ۶۶۸ھ (۲) شیخ مجد الدین ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل ۵۸۷ھ تا ۶۶۹ھ (۳) شیخ شمس الدین ابو محمد عبد الرحمن بن ابی عمر ۵۹۷ھ تا ۶۸۲ھ (۴) شیخ سیف الدین ابو زکریا یحییٰ بن عبد الرحمن ۱۰۶ھ تا ۶۸۲ھ (۵) شیخ کمال الدین ابو نصر عبد العزیز بن عبد المنعم ۵۸۵ھ تا ۶۷۲ھ (۶) شیخ تقی الدین ابو محمد اسماعیل بن ابراہیم ۵۸۹ھ تا ۶۷۲ھ (۷) زین الدین ابو العباس احمد بن ابی الخیرسلامہ ۹۰۶ھ تا ۶۷۸ھ
    درس و تدریس اور افتاء :
    ۳؍ذی الحجہ ۶۸۲ھ کو آپ اپنے والد کی وفات کے بعد دار الحدیث السکریہ کے شیخ الحدیث مقرر کر دیئے گئے جبکہ اس وقت آ پ کی عمر ۲۱ یا ۲۲ سال تھی، اس وقت یہ قانون تھا کہ جو بھی درس و تدریس کے لئے مقرر کیا جاتا وہ دمشق کے علماء و عمائدین کے سامنے پہلا درس دیتا، چنانچہ آپ نے علماء و عمائدین کے سامنے پہلا درس ۲ ؍محرم الحرام ۶۸۲؁ھ کو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے تعلق سے دیا، آپ نے اس میں اتنے نکات بیان کئے کہ لوگ حیران رہ گئے، آپ کے اس درس میں قاضی القضاۃ اور مشائخ زمانہ موجود تھے، چنانچہ علماء آپ کے گرویدہ ہوگئے، اس لئے کہ آپ کے سمجھانے کا انداز بھی بہت عمدہ تھا، آپ ایک ہی بات کو کئی طریقوں سے بیان کرتے، آپ کا درس بہت ہی فصیح و بلیغ ہوتا، ساتھ ہی ساتھ دلائل سے مزین ہوا کرتا تھا، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس درس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
    ’’وكان درسا هائلا وقد كتبه الشيخ تاج الدين الفزاري بخطه لكثرة فوائده وكثرة ما استحسنه الحاضرون وقد اطنب الحاضرون فى شكره على حداثة سنه وصغره فإنه كان عمره إذ ذاك عشرين سنة و سنتين‘‘(البدایہ والنہایہ: ج: ۱۳،ص :۳۰۳،بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت :جلد دوم: صفحہ :۴۲) اس کے علاوہ آپ نے دمشق کی جامع مسجد میں صفر کی دسویں تاریخ سے جمعہ کے دن اپنے والد کی جگہ تفسیری درس دینا شروع کیا اور اس سلسلے کو کئی برس تک جاری رکھا، اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا، اس کہ وجہ یہ تھی کہ آپ کی تفسیر بہت ہی مبسوط ہوتی تھی،’’سورۂ نوح‘‘کی تفسیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کئی برس میں تمام ہوئی۔(مجموع الدرر ص :۶۵،بحوالہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ از یوسف کوکن عمری)
    چنانچہ آپ کو حکومت کی جانب سے فتویٰ دینے کی اجازت تھی، اس وقت آپ کی عمر ۱۷ سال تھی تو آپ نے شاتم رسول کے قتل کا فتویٰ دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک نصرانی نے رسول اقدس کی شان میں گستاخی کی تو لوگ معاملہ لے کر آ پ کے پاس آئے، چنانچہ آپ ایک شافعی عالم کے ہمراہ نائب امیر دمشق کے پاس پہنچے اور اس معاملے پر سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کیا، واپسی پر اس نصرانی کو مشتعل مسلمانوں نے پیٹ دیا، نائب امیر نے یہ سمجھا کہ عوام نے آپ اور آپ کے ساتھی کے ابھارنے پر ایسا کیا ہے تو اس نے آپ کو اور آپ کے ساتھی کو کوڑے لگا کر قید خانے میں ڈلوا دیا، علماء شاتم رسول کے مسئلے پر بحث ہی کر رہے تھے کہ ادھر امام صاحب نے قید خانے میں ایک ضخیم کتاب شاتم رسول کے قتل کے متعلق لکھ کر تیار کر دی جو آج’’الصارم المسئول علی شاتم الرسول‘‘کے نام سے مشہور ہے۔
    تلامذہ:
    آپ کے تلامذہ کی فہرست بڑی لمبی ہے ۔چند مشہور کے نام درج ذیل ہیں:
    (۱) حافظ ابن قیم رحمہ اللہ علیہ ۶۹۱ھ تا ۷۵۱ھ
    (۲) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ علیہ ۱۰۷ھ تا ۷۷۴ھ
    (۳) حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ ۷۰۴ھ تا ۷۴۴ھ
    (۴) حافظ ذہبی رحمہ اللہ ۶۷۳ھ تا ۷۴۸ھ
    (۵) شیخ ذباہی رحمہ اللہ ۶۶۶ھ تا ۷۱۱ھ
    (۶) شیخ بدر الدین ۶۷۶ھ تا ۷۳۹ھ
    (۷) احمد بن قدامہ مقدسی ۶۹۳ھ تا ۷۶۱ھ
    (۸) شیخ نور الدین ابن الصایغ ۶۹۶ھ تا ۷۴۹ھ (ماخوذ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ از یوسف کوکن عمری )
    علمی مقام اور اہل علم کی آراء :
    امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علم و فضل اور تبحر علمی کی بنیاد پر منفرد حیثیت کے حامل تھے، قوت حافظہ، تبحر علمی، وسعت علم، ذوق مطالعہ اور تحقیق و تدقیق کے میدان میں آپ کا کوئی حریف وثانی نہیں تھا، علماء اسلام نے آ پ کو شیخ الاسلام ، بحرالعلوم، سید الحفاظ، قاطع البدعۃ اور ترجمان القرآن والسنہ جیسے القابات سے یاد کیا ہے، آ پ کے علم و فضل اور بحر العلوم ہونے کا اعتراف آپ کے معاصرین نے کیا، چنانچہ آپ کے معاصرین میں بہت سارے لوگ آپ کے مخالف بھی تھے لیکن پھر بھی آپ کے علم و فضل اور تبحر علمی اور جلالت شان کے معترف تھے۔
    ابنِ دقیق العید ۷۰۲ھ لکھتے ہیں کہ میں جب ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ سے ملا تو میں نے ویسا آ دمی نہیں پایا کہ تمام علوم اس کی نظر میں ہیں جس علم کو چاہتا ہے لے لیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے چھوڑ دیتا ہے۔(کواکب :ص:۱۴۰،بحوالہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ :ص :۴۶،از غلام جیلانی برق)
    شیخ بدرا لدین محمد ماردینی نے آپ کی وفات پر ایک مرثیہ لکھا اور اس میں آپ کے علمی مقام ومرتبہ کو خوب واضح کیا ہے، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
    بحر العلوم وکنز کل فضیلۃ فی الدھرفردفی الزمان امام
    فلئن تاخر فی القرون لثامن فلقد تقدم فی العلوم امام
    (امام ابن تیمیہ :ص :۷۵،ازیوسف کوکن عمری)
    حافظ ابوالحجا ج مزی ۷۴۲ھ فرماتے ہیں کہ:’’میں نے ان جیسا کوئی نہیں دیکھا اور نہ خود انہوں نے اپنے جیسا دیکھا اور میں نے کسی کو بھی ان سے بڑھ کر کتاب و سنت کا عالم اور ان سے بڑھ کر کتاب وسنت کا متبع کسی کو نہیں دیکھا‘‘ (العقودالدریہ ؍بحوالہ امام ابن تیمیہ بحیثیت ایک عظیم محدث: ص:۱۶)
    قاضی بننے کی پیشکش اور حج بیت اللّٰہ:
    آپ کے علم و فضل کا شہرہ اس قدر پھیل چکا تھا کہ آپ کو ۶۹۰ھ میں قاضی بننے کی پیشکش کی گئی، اس وقت آپ کی عمر ۳۰ سال کو بھی نہ پہنچی تھی، آ پ نے اس منصب کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ۶۹۱ھ اور بعض روایات کی مطابق ۶۹۲ھ میں آپ شامی قافلے کے ساتھ حج بیت اللہ کے لئے روانہ ہوئے اور حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔مقالات شبلی بحوالہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ: ۵۲)
    مذہبی و سیاسی حالت:
    آپ کا زمانہ بڑا ہی پرآشوب زمانہ تھا، علمی، دینی اخلاقی، اجتماعی اور سیاسی ہر لحاظ سے، اور جس وقت آپ نے ارض شام میں قدم رکھا اس وقت خلافت عباسیہ پارہ پارہ ہو چکی تھی اور مسلمانوں کی عظمت و سطوت افسانہ بن چکی تھی، تاتاریوں کے مظالم سے ارض شام لالہ زار تھی، فرقہ واریت نے مسلمانوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کر رکھا تھا، بدعات و خرافات کا نام ایمان رکھا جاتا تھا اور ایمان کا نام بدعت، تقلید نے امت کو فکر و اجتہاد سے محروم کر رکھا تھا، لوگ سیاست کے طور طریقے سے نا واقف تھے، الغرض یہ کہ حقانیت کا آ فتاب ڈوب چکا تھا اس وقت اللہ رب العالمین نے آپ کو علم وہدیٰ کا ایک روشن ستارہ بنا کر آ سمان دمشق سے نمودار کیا جس کی ضیا پاشیوں سے دنیائے اسلام جگمگا اٹھی۔
    دعوتی کار نامے اور اس راہ میں پیش آنے والے آلام ومصائب:
    آپ نے قرآن وحدیث کو سامنے رکھتے ہوئے دعوتی کام شروع کیا، جہاں بھی آپ نے کوئی خلاف شرع کام دیکھا اس کا ازالہ قرآن واحادیث صحیحہ کی روشنی میں کیا اور لوگوں کو بتلایا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، آ پ نے اس سلسلے میں اپنی خداداد صلاحیتوں کو بھر پور استعمال کیا اور غیر اسلامی افکار پر کاری ضرب لگائی، مختلف فتنوں کے خلاف آواز اٹھائی خاص طور سے فلسفہ، علم کلام، منطق وتصوف کے جمود کی جو گرد لوگوں نے عالم اسلام پر ڈال رکھی تھی اس کے خلاف بھرپور کام کیا، لوگوں کے ذہنوں سے فلسفہ اور علم کلام کا خناس نکالا اور قرآن وحدیث کو کسوٹی بنایا اور فلسفہ علم کلام اور تصوف کے اک اک مسئلے کو اس پر پیش کیا جو چیز درست نکلی اس کو لے لیا اور جو چیز زائد نکلی اسے روند ڈالا، انہیں علمی و دعوتی کاموں میں آ پ نے اپنی پوری زندگی لگا دی اور اسی چیز نے آ پ کی شہرت پورے عالمِ اسلام میں پھیلا دی تھی، حق گوئی کے باعث آپ کے دشمنوں کی ایک ا چھی خاصی جماعت تیار ہو گئی تھی، چنانچہ آپ ۶۹۵ھ سے ۷۲۸ھ تک مسلسل سازشوں و ریشہ دوانیوں کے شکار رہے، چونکہ انہی اوقات میں آپ نے تجدید دین و ملت کا کام کیا ہے جو آ پ کا اصل مقصد تھا، سالہا سال تک آپ کو محبوس رکھا گیا، آپ پر کفر کے فتوے لگائے گئے، آپ پر دن دہاڑے حملے کئے گئے اور آپ کو قلم و روشنائی تک سے محروم کر دیا گیا، یہاں تک کہ آپ نے کوئلے کے ذریعے بہت ساری کتابیں تصنیف فرمائیں۔
    ازالۂ بدعات و منکرات اور فتنے:
    آپ خلافِ شرع کوئی کام دیکھتے تو اس کو برداشت نہ کر پاتے تھے، اللہ کے رسول ﷺ کی یہ حدیث ’’من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ…إلی آخرہ‘‘[صحیح مسلم:ج:۱،ص:۶۹]ہمیشہ سامنے ہوتی تھی، جس کے پیش نظر آپ ہمیشہ بدعات و منکرات کا قلع قمع کرنا چاہتے تھے، اپنا زیادہ تر وقت کتاب و سنت کی اشاعت و ترقی میں گزارتے تھے، آپ کے زمانے میں یہودیوں اور عیسائیوں کے اختلاط کی وجہ سے اور دوسری طرف جاہل علماء کی تعلیم سے مسلمانوں میں ایسے بدعیہ و شرکیہ اعمال رائج ہو گئے تھے جن کا منبع جہالت و بدعات اور شرک و بت پرستی سے ملتا جلتا تھا، آپ نے کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں لوگوں کو صحیح اسلامی مسائل سے با خبر کیا اور لوگوں کو اس بات سے آ گاہ کیا کہ کس طرح کتاب وسنت سے مسائل کا استنباط کیا جاسکتا ہے، چنانچہ آپ کے زمانے میں نہر غلوط کے کنارے ایک چٹان تھی جس کی لوگ زیارت کیا کرتے تھے اور نذر و نیاز بھی کیا کرتے تھے آپ نے جب سنا تو اپنے ساتھیوں کو تیار کیا اور جا کر اس چٹان کو ریزہ ریزہ کر دیا۔(تاریخ دعوت وعزیمت )
    اسی طرح سے آپ کے زمانے میں فتنے بھی بہت اٹھے مثلاً استویٰ علی العرش، فتنہء عقائد اور مشاہد قبور وغیرہ کا فتنہ آپ نے ان تمام کا مدلل و مسکت جواب دیا اور سب کے عقائد کی کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں وضاحت فرمائی۔
    تاتاریوں اور باطنیوں کے خلاف جنگ اور ابن تیمیہ کے کارنامے:
    آپ صرف بوریہ نشین عالم ہی نہیں تھے، بلکہ آپ صاحبِ سیف، مجاہد، دلیر اور باحوصلہ سپاہی بھی تھے، رجب ۷۰۲ھ میں باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ تاتاریوں نے اس مرتبہ شام پر حملہ کرنے کا عزم مصمم کر رکھا ہے تو لوگوں میں اس خبر سے اضطراب پیدا ہو گیا، لوگ شہر چھوڑ کر بھاگنے لگے اور دمشق میں اکٹھا ہونے لگے تو امام صاحب نے لوگوں کو سمجھایا اور قسم کھاتے ہوئے کہا کہ اس مرتبہ تم ضرور فتح پاؤ گے، آپ کو اس قدر یقین تھا کہ اگر کوئی کہتا ان شاء اللہ تو آ پ کہتے:کہئے :’’ان شاء اللہ تحقیقا لا تعلیقا‘‘ آپ فرماتے:ہم مظلوم ہیں اور مظلوم کی ضرور مدد ہوتی ہے۔ {ذَلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنْصُرَنَّهُ اللّٰهُ} [الحج:۶۰]اسی دوران ایک سوال اٹھا کہ تاتاری مسلمان ہیں ان سے جنگ کرنا درست نہیں تو آپ نے فرمایا کہ تاتاری خوارج کے حکم میں ہیں، خوارج ہی نے سیدنا علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کے خلاف بغاوت کی تھی، وہ اپنے آ پ کو خلافت کا حقدار سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم ان سے زیادہ عدل و انصاف قائم کرنے والے ہیں، امام صاحب نے جب یہ توضیح بیان فرمائی تو اس سے تمام لوگوں کو اطمینان ہو گیا، ۲؍رمضان ۷۰۲ھ کو شقحب کے میدان میں ایک طرف شامی ومصری فوجیں اور دوسری طرف تاتاری لشکر صف آرا ہوئیں، مسلمانوں نے جواں مردی کے ساتھ لڑائی کی اور فتح ونصرت سے کامیاب ہوئے اور تاتاریوں کے قدم اکھڑ گئے، ۷۰۵ھ میں ۲؍محرم الحرام کو باطنیوں کے خلاف جہاد کے لیے روانہ ہوئے، یہ باطنی فرقہ مسلمانوں کو سخت اذیت پہنچاتے اور تاتاریوں کو مسلم ممالک پر حملہ کرنے کی دعوت دیتے اور ان کی مدد کرتے تھے اور مسلمانوں کو دشمنوں کے ہاتھ بھیڑ بکری کی طرح فروخت کرتے، امام صاحب پر ان کا بڑا اثر پڑا، اس لئے دمشق سے روانہ ہوئے اور جرد کے علاقہ روفض اور تیامنہ کے پہاڑوں پر چڑھائی کی اور سرکش قبیلوں کی اچھی طرح سرکوبی کی اور اس پورے علاقے کو جو بہت دشوار گزار تھا صاف کروا دیا۔
    امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:’’امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی موجودگی اور شرکت سے بڑا خیر حاصل ہوا اور اس موقع پر ان کے علم و شجاعت کا بڑا ظہور ہوا، اسی کے ساتھ ان کے دشمنوں کے دل حسد اور غم سے لبریز ہو گئے‘‘(تاریخ دعوت وعزیمت:۲، ص:۵۸۔۶۵)
    شوق شہادت:
    تاتاریوں سے جب گھمسان کی لڑائی ہوئی تو آپ نے ایک امیر سے کہا کہ ذرا مجھے موت کی جگہ دکھاؤ تو اس نے آپ کو ایسی جگہ لا کھڑا کر دیا جہاں تاتاریوں کے بے پناہ تیر برس رہے تھے، اس امیر کا بیان ہے کہ آپ نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اور دعائیں مانگیں، اس کے بعد میان سے تلوار نکالی اور عقاب کی طرح دشمن کی صفوں پر جھپٹ پڑے یہاں تک کہ عصر کے قریب تاتاریوں کو شکست ہوئی اور آپ صحیح سلامت باہر نکل آئے۔(صاحب السیف والقلم :۳۸)
    جیل میں آ پ کے مشاغل:
    آپ نے اپنا زیادہ تر وقت اللہ کی عبادت میں گزارا اور جیل کے اندر جو قیدی اللہ سے غافل تھے ان کو اللہ کی طرف متوجہ کیا، جیل خانے کے اندر آپ تحقیق و تصنیف میں مشغول رہے، مخالفین کو خبر ہوئی تو لکھنے کا سامان ضبط کروا دیا، کارندے آ ئے اور قلم و روشنائی لے کر چلے گئے مگر کاغذ ساتھ لے جانا بھول گئے، آپ نے کوئلوں کی مدد سے ان صفحات پر لکھنا شروع کیا اور کئی کتابیں لکھ ڈالیں۔
    وفات:
    آپ نے اپنی زندگی میں اسّی مرتبہ قرآن مجید کا دور کیا، آپ کے بھائی کا بیان ہے کہ جب آپ نے اکیاسویں مرتبہ تلاوت شروع کی اور سورہ قمر کی آیت {ان المتقين فى جنت ونهر، فى مقعد صدق عند مليك مقتدر} [سورۃ القمر: ۵۴-۵۵] پر پہنچے تو آپ کی روح مبارک پرواز کر گئی، ۲۰ یا۲۲دن بیماری میں مبتلا رہے، ۲۸؍ذی القعدہ ۷۲۸ھ میں۶۷سال کی عمر میں وفات پائی، پہلی نماز جنازہ شیخ محمد بن تمام نے پڑھائی، اس کے بعد جنازہ جامع اموی میں لایا گیا، نماز ظہر کے بعد نماز جنازہ پڑھی گئی، شیخ علاؤ الدین تبریزی نے پڑھائی اور تیسری نماز جنازہ علامہ زین الدین عبد الرحمن موصوف نے پڑھائی، اس کے بعد بہت ساری جگہوں پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی، آپ کو آپ کے بھائی شرف الدین عبد اللہ کے پہلو میں مقبرہ صوفیہ میں سپردِ خاک کیا گیا، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً دو لاکھ مردوں اور ۱۵ہزار عورتوں نے شرکت کی تھی۔
    اوصاف حمیدہ اور اخلاق وعادات:
    آپ کی زندگی اسوۂ رسول کا ایک روشن ترین نمونہ تھی، آپ اپنے ہر قول و فعل میں کتاب وسنت کو مد نظر رکھتے تھے، فرائض و سنن کے پابند تھے، عبادت الٰہی میں مشغول رہا کرتے تھے، مطالعہ کے شوقین تھے، کسی فن کی کوئی کتاب ایسی نہیں گزری جو آپ کی نظر سے نہ گزری ہو، بڑے ہی فصیح و بلیغ خطیب تھے، حق گوئی کے اوصاف سے متصف تھے، حق بات کہنے میں کسی سے نہ ڈرتے تھے خواہ بادشاہ ہی ہو، صاحبِ قلم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ سیف بھی تھے، زہدوورع والے تھے، ایثار و سخاوت میں بھی آپ کا بڑا مرتبہ تھا، آپ نے پوری زندگی شادی نہیں کی، عفو و درگزر کے وصف سے بھی متصف تھے، بہت سارے لوگوں نے آپ کی مخالفت کی لیکن آپ نے کسی سے بھی بدلہ نہ لیا بلکہ معاف کر دیا، وضع قطع اور لباس میں آپ عام آ دمی کی طرح تھے، آپ کو آپ کے تبحر علمی کی بنیاد پر امتیاز کیا جاتا تھا، میانہ روی آپ کا شعار تھا۔
    تصنیفات اور ان کی خصوصیات:
    آپ نے ۱۷سال کی عمر میں قلم سنبھالا اور ۴۵سال تک رواں دواں رہا، آپ کی تصانیف کچھ منفرد خصوصیات رکھتی ہیں جو اس عصر کی تمام تصانیف سے ان کو نمایاں طور پر ممتاز کرتی ہیں، جس کو مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے تاریخ دعوت وعزیمت جلد دوم میں ذکر کیا ہے ۔مختصراً پیش ہے:(۱) ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ہر تصنیف سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس کتاب کا مصنف مقاصد شریعت کا رازداں ہے۔
    (۲) آپ کی کتابوں میں زندگی نظر آ تی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کتابیں کسی علمی گوشہ یا الگ تھلگ جزیرہ میں نہیں لکھی گئی ہیں بلکہ عین زندگی کے میدان اور عوام کے بیچ میں لکھی گئی ہیں۔
    (۳) آپ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس پر اتنا مواد اور مسالہ جمع کر دیتے ہیں جو بیسیوں کتابوں اور سیکڑوں صفحات میں منتشر ہوتا ہے، ان کی ہر کتاب دائرۃ المعارف کی حیثیت رکھتی ہے اور طالب علم کو بہت ساری کتابوں سے مستغنی کردیتی ہے۔
    (۴) آپ کی کتابیں عام کلامی و فقہی تصنیفات سے اس لحاظ سے بھی ممتاز ہیں کہ ان میں اس موضوع کی کتابوں کی طرح خشکی، پیچیدگی اور متون کی شان نہیں ہے جن میں عموماً ہر لفظ بندھا ٹکا اور قانونی ہوتا ہے، ابن تیمیہ کی تصنیفات میں سلاست، عربیت اور کہیں کہیں (بلا قصد) بلاغت وادبیت اور خطابت کی شان پیدا ہوجاتی ہے۔
    آپ کی چند مشہور تصنیفات درج ذیل ہیں:
    (۱) اقسام القرآن
    (۲) منہاج السنۃ النبویۃفی نقص کلام الشیعہ و القدردیہ
    (۳)الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح
    (۴) الفرقان بین اولیاء الرحمن و اولیاء الشیطان
    (۵)السیاسۃ الشرعیہ فی اصلاح الراعی والرعیہ
    (۶)النبوات
    (۷)اقتضاء الصراط المستقیم فی الرد علی اصحاب الجحیم
    (۸) اتباع الرسول لصحیح العقول
    (۹) عقیدۃ الحمویۃ الکبریٰ
    (۱۰) الصارم المسئول علی شاتم الرسول
    (۱۱)الرد علی الاخنائی
    (۱۲) اقسام القرآن
    (۱۳)اقامۃ الدلیل علی ابطال التحلیل

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings