-
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتابوں کا تعارفی سلسلہ قسط :(۸) عقیدہ ہی پر لکھی گئی کتاب شیخ الاسلام کی کتاب ’’الإخنائية‘‘او الرد على الإخنائي‘‘ کاتعارف پیش خدمت ہے:
سب سے پہلے علامہ اخناء مالکی کامختصر تعارف پیش خدمت ہے:
علامہ اخناء کا مختصر تعارف:
نام : تقي الدين ابو عبد الله محمد بن ابي بكر بن عيسيٰ بن بدران السعدي المصري المعروف باين الإخنائي المالكي۔
اخناء نسبت کی تحقیق:
إِخْنَا: بالكسر، ثم السكون، والنون، مقصور،بلدة من قرب الإسكندرية من الغربية۔ [معجم البلدان :۱؍۱۲۴]
ولادت:سنہ۶۵۸ھ
علماء کی نظر میں:قال ابن فرحون:’وكان من عدول القضاة و خيارهم‘‘۔
وفات: سنہ ۷۵۰ھ
مزید تفصیل کے لیے رجوع کریں۔
(۱) [الدرر الکامنۃ فی اعیان المائۃ الثامنۃ:۵؍۱۴۵۔۱۴۶]
(۲) [معجم المولفین :۹؍۱۱۶]
سبب تالیف :
علامہ اخناء کے نبی ﷺ کے قبر کی زیارت کی مشروعیت کے جوازپر لکھنے کے بعد لوگوںنے شیخ الاسلام سے اس کے جواب کامطالبہ کیا ،جس مطالبہ کے بعد شیخ الاسلام نے یہ جواب تیار کیا۔
کتاب کے نام کی تحقیق:
یہ کتاب ’’الرد على الإخنائي و استحباب زيارة خير البرية الزيارة الشرعية‘‘کے نام سے بھی مطبوع ہے ۔لیکن یہ نام نہ تو شیخ الاسلام نے اور نہ ہی آپ کی سیرت پرلکھنے والے آپ کے شاگرد ابن عبدالہادی نے ذکر کیاہے۔اس وجہ سے یہ ناسخ کی غلطی ہے۔
[ص:۶۸]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے کئی ساری جگہوں پر ’’الإخنائية‘ ہی ذکر کیاہے ۔[العقود الدریۃ:ص:۳۷۷]
سن تالیف:
ابن عبد الہادی رحمہ اللہ نے ذکر کیاہے :
وَفَاة الشَّيْخ رَحمَه اللّٰه بالقلعة وَمَا كتب بهَا قبل مَوته۔
ثمَّ إِن الشَّيْخ رَحمَه اللّٰه تَعَالٰي بَقِي مُقيما بالقلعة سنتَيْن وَثَلَاثَة اشهر واياما ثمَّ توفّي إِلَي رَحْمَة اللّٰه ورضوانه وَمَا برح فِي هَذِه الْمدَّة مكبا على الْعِبَادَة والتلاوة وتصنيف الْكتب وَالرَّدّ على الْمُخَالفين۔
وَكتب علٰي تَفْسِير الْقُرْآن الْعَظِيم جملَة كَثِيرَة تشْتَمل نفائس جليلة ونكت دقيقة وَمَعَان لَطِيفَة وَبَين فِي ذَلِك مَوَاضِع كَثِيرَة اشكلت على خلق من عُلَمَاء اهل التَّفْسِير۔
وَكتب فِي الْمَسْاَلَة الَّتِي حبس بِسَبَبِهَا عدَّة مجلدات مِنْهَا كتاب فِي الرَّد على ابْن الاخنائي قَاضِي الْمَالِكِيَّة بِمصْر تعرف بالاخنائية وَمِنْهَا كتاب كَبِير حافل فِي الرَّد على بعض قُضَاة الشَّافِعِيَّة وَاَشْيَاء كَثِيرَة فِي هَذَا الْمَعْني اَيْضا۔
[العقود الدریۃ من مناقب شیخ الإسلام احمد بن تیمیۃ:ص:۳۷۷]
ابن عبد الہادی رحمہ اللہ کی اس پوری عبارت کاخلاصہ یہ کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ جب آخری بار دمشق کے قید خانہ میںداخل کئے گئے اور اس میں ہی ان کا انتقال ہوا ،اس دوران انہوں نے جو کتابیں لکھیں ان میں سے ایک کتاب یہ بھی ہے یعنی ’’الردعلی الاخنائیہ ‘‘۔
مؤلف کا منہج :
مخالفین اور مبتدعین پر رد کے وقت شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے بڑا منفرد اور علمی اسلوب اپنایا ہے ، کتاب میںپورا منہج نصوص کتاب وسنت ،اجماع اور قیاس پر ہی مبنی ہے ،شیخ الاسلام کی کتابوں میںجابجا آپ کو کتا ب وسنت کی روشنی میں سلف صالحین کے بنائے گئے قواعد سے استدلالات نظر آئیں گے ، شیخ الاسلام کسی بھی مسئلہ میںرد کرتے ہوئے کوئی بھی ایسی نئی بات نہیںکرتے کہ سلف میںسے کسی نے پہلے وہ بات نہ کہی ہو ،جیسا کہ اما م مالک رحمہ اللہ کا کہنا بھی ہے ’’إياك ان تتكلم فى مسالة ليس لك فيها إمام‘‘ شیخ الاسلام کا یہی طریقہ کا ر ساری کتابوںمیں ہے ،جیسے: ’’منهاج السنة النبوية فى نقض كلام الشيعة القدرية‘‘’’بيان تلبيس الجهميةو تاسيس بدعهم الكلامية‘‘الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح‘‘’’الرد على البكري فى الاستغاثة‘‘۔ وغیرہ۔
’’الرد علی الإخنائی ‘‘کا تعارف:
یہ کتاب دراصل امام اخناء کی زیارت قبر انبیاء کے جواز پر لکھی گئی کتاب پر رد ہے ، شیخ الاسلام نے علامہ اخناء مالکی پر رد کرنے سے تقریباً دس سال پہلے بھی اس کے جوازکے قائلین پر رد کیاتھا۔اور اسی مسئلہ کا جواب دینے کے سبب انہیںجیل کی صعوبتوںسے بھی گزرناپڑا تھا۔
کتاب کاموضوع:
قبروں کی زیارت کتاب وسنت سے مشروع ہے یانہیں ،بطورخاص قبر نبوی کی زیارت اور انبیاء کے قبروں کی زیارت کے جواز یا عدم جوازپر مفصل بات کی گئی ہے۔
شیخ الاسلام نے ایک جامع مقدمہ سے اس کتاب کی شروعات کی ہے،جس میں قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔اورانہوں نے اس کا سبب تالیف بیان کیا ہے ، اس کے بعد پھر انہوںنے قبروںکی زیارت کے لیے سفر کرنے کے جواز پر معترض نے جن غیر صحیح دلائل کا سہارا لیا ہے ، اس پر رد کیا ہے،صحیح عقیدہ کے بگاڑ پر اس مسئلہ کے جواز کے اثرات کو ذکر کیاہے ، اس کے بعد صحیح دلائل اور بڑے علماء کے اقوال کی روشنی میں اس کی حرمت کو بیان کیاہے ،نبی اکر م ﷺ کی حدیث ہے :
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَي ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: المَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الاَقْصٰي‘‘۔
[صحیح البخاری:۱۱۸۹]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں۔ (یعنی سفر نہ کیا جائے) ایک مسجد الحرام، دوسری رسول اللہ ﷺ کی مسجد (مسجد نبوی) اور تیسری مسجد الاقصیٰ یعنی بیت المقدس‘‘۔
مستفاد: (http://saaid.org/monawein/taimiah/28.htm
اس کتاب کی طبعات:
اس کتاب کی سب سے بہتر او رعمدہ طباعت ، طبعۃ ( دار الخراز ) تقع فی (۵۲۵) صفحۃ۔تحقیق : احمد بن مونس العنزی۔ مقابلۃ علی(۳)مخطوطات وبعض الطبعات،کطبعۃ الرئاسۃ العامۃ لإدارات البحوث العلمیۃ والإفتاء ،والطبعۃ التی بہامش الرد علی البکری۔ایضاً الکتاب مخدوم بـ(۳) فہارس علمیۃ علی النحو التالی:
۱۔ فہرس الرسوم وتخطیطات الحرم المدنی،۲۔فہرس المصادر ،۳۔فہرس الموضوعات۔نال المحقق علی إحراجہ درجۃ الماجستیر من جامعۃ الملک سعود بالریاض .(http://saaid.org/monawein/taimiah/28.htm)
فوائد علمیہ:
۱۔ صحابہ وتابعین اور ائمہ سلف کے درمیان بالکل بھی اس مسئلہ میں اختلاف نہیں تھا کہ صالحین کے آثار وقبور کی زیارت کا قصد منع نہیں ہے ۔ جیسے کوئی کوہ طور کا سفر کرے جہاں موسیٰ علیہ السلام کی اللہ سے بات ہوئی تھی ،گرچہ اللہ نے اس کا نام وادیٔ مقدس یا مبارک خطہ رکھاہے۔’’لاتشدالرحال‘‘ کے حوالہ سے ایک اثر ابن تیمیہ نے مؤطا امام مالک سے پیش کیاہے:
قَالَ اَبُو هُرَيْرَةَ: فَلَقِيتُ بَصْرَةَ بْنَ اَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيَّ، فَقَالَ:مِنْ اَيْنَ اَقْبَلْتَ؟ فَقُلْتُ: مِنْ الطُّورِ، فَقَال: لَوْ اَدْرَكْتُكَ قَبْلَ اَنْ تَخْرُجَ إِلَيْهِ مَا خَرَجْتَ إليه، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلي اللّٰه عَلَيه وَسَلم، يَقُول: لا تُعْمَلُ الْمَطِيُّ، إِلَّا إِلَي ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: إِلَي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَإِلَي مَسْجِدِي هَذَا، وَإِلَي مَسْجِدِ إِيلِيَائَ، اَوْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ يَشُكُّ ايهما قال‘‘۔
[مؤطا مالک روایۃ ابی مصعب الزہری:۱؍۱۷۷،وقد صحح إسناد الحدیث الالبانی و قال علی شرط الشیخین،الإرواء:۴؍ ۱۴۲]
۲۔ جو لوگ قبر نبوی کی زیارت کے لیے سفر کرنے کو جائزقراردیتے ہیں،ان کے یہاں زیارت کرنے والا نماز قصر کرے گا اور جو لوگ عدم جوازکے قائل ہیں وہ عدم قصر کی بات کرتے ہیں، تمام اختلافات سے بچتے ہوئے صحیح اور درست موقف یہ ہے کہ قصر نہیںکرے گا ،کیونکہ یہ سفر ،سفر معصیت ہے ۔
۳۔ قبر نبوی کی زیارت کے لیے سفر کرنے والوں کے من جملہ دلائل میں سے ایک یہ بھی حدیث ہے:’’مَن زارَني بعد مَوتي، فكانَّما زارَني فى حياتي‘‘۔ تو یہ یاد رکھیں کہ یہ اور اس جیسی دیگر روایتیں باطل ہیں۔ نیز دیگر جواز کے قائلین کے دلائل میں سے بعض ایسی بھی ہیں جن کی موضوع سند تک نہیں ملتی ہے ۔
اضافہ: آفاق احمد
(السلسلۃ الضعیفۃ:۱۰۲۱)باطل۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر گفتگو کرنے کے بعد کہا ہے جو مزید تفصیل جاننا چاہتے ہوں وہ رجوع کریں حافظ ابن عبد الہادی کی کتا ب ’’الصارم المنکی فی الرد علی السبکی:۱۰۰‘‘ کی طرف ۔
[سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ واثرہا السیء فی الامۃ:۳؍۹۰]
۴۔ قبر نبوی کی زیارت کے لیے سفر کرنا تو بہت دور کی بات امام مالک نے تو یہ بھی ناپسند کیاکہ آدمی کہے کہ میںنے قبر نبوی کی زیارت کی ہے،اگر یہ لفظ ان کے یہاں معروف ہوتا ،یا یہ عمل مشروع ہوتا یا نبی کریم ﷺسے ثابت ہوتا تو مدینہ کے اتنے بڑے عالم اسے ناپسندیدگی کی نظر سے نا دیکھتے۔
۵۔ قبروں کی زیارت کے جواز پر سب سے پہلے حدیثیں گھڑنے والے اہل بدعت میںسے روافض اور ان کے جیسے وہ لوگ ہیں جو مساجد کی عظمت کو گھٹا کرکے ان قبروں کی عظمت کو بڑھاتے ہیں۔
۶۔ سب سے پہلے دین ابراہیمی کو بدلنے والا یا مکہ میںسب سے پہلے بت نصب کرکے شرک کو فروغ دینے والاشخص عمر وبن لحی ہے جو قبیلۂ خزاعہ کا تھا ،جو شہر بلقاء سے بت لاکر کعبہ کے گرد نصب کردیتا ہے۔
۷۔ خلفاء راشدین کے زمانہ میںبھی صحابہ مسجد نبوی میںجاتے ،نمازادا کرتے ،نبی پردرود بھیجتے اور داخلہ کے وقت نبی پر سلام بھیجتے ،لیکن کوئی بھی صحابی حجرہ کے بغل میںکھڑا نہیںہوتاتھااور اس وقت حجرہ مسجد سے الگ تھا۔
۸۔ حجرہ کومسجد میں ولید بن عبد الملک کی خلافت میں شامل کیا گیااور اس وقت مدینہ میںموجود عام صحابہ کاانتقا ل ہوچکا تھا،مدینہ میں وفات پانے والے آخری صحابی جابر بن عبد اللہ ہیں،جن کا انتقال ولید کی خلافت سے پہلے عبد الملک کی خلافت میں ہوا ہے۔جابر بن عبد اللہ کا انتقال سنہ ۷۰ھ کے آس پا س ہوا ،اور ولید مسند خلافت پر سنہ ۸۰ھ میں بیٹھا اور اس کا انتقال سنہ ۹۰ھ میں ہوا ،گویا کہ مسجد نبوی کی تعمیر اورحجرہ کو اس میں شامل سنہ۷۰ھ ۸۰ھ کے درمیان میں ہوا ہے۔
۹۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے مسجد نبوی کی توسیع کی مختصر تاریخ بھی بیان کی ہے۔
شروحات،تحقیقات،حواشی ،تعلیقات:
۱۔ الرد على الاخنائي قاضي المالكية۔
المؤلف: تقي الدين ابو العباس احمد بن عبد الحليم بن عبد السلام بن عبد اللّٰه بن ابي القاسم بن محمد ابن تيمية الحراني الحنبلي الدمشقي (ت ۷۲۸ه)
المحقق: الداني بن منير آل زهوي،الناشر: المكتبة العصرية ۔بيروت،الطبعة:الاوليٰ۱۴۲۳هـ،عدد الصفحات:۲۵۳۔
۲۔ الرد على الاخنائي ،المحقق:فواز بن محمد العوضي،الناشر:مكتبة النهج الواضح – الكويت۔
۳۔ الإخنائية (او الرد على الإخنائي)المحقق: احمد بن مونس العنزي،دار النشر:دار الخراز – جدة۔
۴۔ كتاب الرد على الإخنائي،المحقق: الشيخ عبد الرحمٰن بن يحيي المعلمي اليماني۔
اس موضوع سے متعلق بعض كتابيں:
۱۔ زيارة القبور والاستنجاد بالمقبور للمصنف، وهى موجودة في(مجموع الفتاويٰ)
۲۔ شفاء الصدور فى زيارة المشاهد والقبور تاليف مرعي بن يوسف الكرمي الحنبلي، نشر بمكتبة الباز بمكة المكرمة.
۳۔ الصارم المنكي فى الرد على السبكي لابن عبد الهادي، نشر بموسسة الريان ببيروت۔
۴۔ تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد لمحدث العصر العلامة محمد ناصر الدين الالباني رحمه اللّٰه۔
۵۔ تنبيه زائر المدينة إلى الممنوع والمشروع فى الزيارةللعلامة صالح بن غانم السدلان- حفظه الله تعالي- نشر بدار بلنسية بالرياض۔
۶۔ اوضح الإشارة فى الرد على من اجاز الممنوع من الزيارة للعلامة المحدث احمد بن يحيي النجمي- حفظه اللّٰه ورعاه- نشر بمكتبة الغرباء الاثرية بالمدينة النبوية۔
۷۔ رفع المنارة لتخرج احاديث الزيارة لمحمود سعيد ممدوح۔
۸۔ زيارة القبور الشرعية و الشركية للبركوي۔
۹۔كشف الستر عما ورد فى السفر إلى القبر للشيخ حماد الانصاري۔
جاری ہے ……