-
یوم عرفہ ترجمہ و اضافہ :رضوان اللہ عبد الروف سراجی ؔ(استاد:مرکز امام بخاری تلو لی)
محترم قارئین ! یوم عرفہ بھی با برکت اور قابل احترام دنوں میں سے ایک ہے ،یہ دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت محبوب ، پاکیزہ اور بلند و بالا ہے ، اس دن کی بابت اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:
’’خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاء ُ يَوْمِ عَرَفَةَ وَخَيْرُ مَا قُلْتُ اَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي : لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ‘‘
’’سب سے بہترین دعا یوم عرفہ کی دعا ہے، اور میں نے اب تک جو کچھ (بطور ذکر)کہا ہے اور مجھ سے پہلے جو دوسرے نبیوں نے کہا ہے ان میں سب سے بہتر دعا یہ ہے:’’لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ‘‘’’اللہ واحد کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے (ساری کائنات کی)بادشاہت ہے، اسی کے لیے ساری تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘[جامع الترمذی :۳۵۸۵]
یہ دن عظمت و رفعت کا حامل اور قربت الہٰی کا بہت بڑا ذریعہ ہے کیوں کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے روزہ مشروع کیا ہے جس کا بہت بڑا ثواب اوربلند مقام ہے ، بطور فخر اس دن کے لئے یہی کا فی ہے کہ وہ حج کا ایک رکن ہے ، اس کے بغیر حج پورا نہیں ہوگا ، نو ذی الحجہ کو سورج کے طلوع ہونے سے پہلے حاجی مقام عرفہ کو روانہ ہوتا ہے، وہاں دن بھر دعائیں کرتا اور ظہر و عصر کی نماز بالقصر ایک ساتھ پڑھتا ہے ،جسے عرفہ ملا تو اس کا حج ہوگیا اور جسے نہیں ملا اس کا نہیں ہوا۔
اس کا مطلب یہ ہر گز نہ سمجھا جا ئے کہ مقام عرفہ میں پہونچ جانے سے حج ہوگیا بلکہ حج کے دوران تو آپ کو کئی مقام پر جانا ہے لیکن حج کی روح عرفات میں وقوف ہے کیونکہ اس کے فوت ہو جانے سے حج فوت ہو جاتا ہے،جب اس نے عرفہ کا وقوف پا لیا جو حج کا ایک رکن ہے توحج کے فوت ہو جانے سے مامون و بے خوف ہو گیا، یہ مطلب نہیں کہ اس کا حج پورا ہو گیا اور اسے اب کچھ اور نہیں کرنا ہے، ابھی تو طواف افاضہ جوحج کا ایک اہم رکن ہے باقی ہے بغیر اس کے حج کیسے پورا ہو سکتا ہے؟
رہی بات ایام منیٰ کی تو یہ تین دن ہیں ، اگر کو ئی دو ہی دن میں واپس ہو جاتا ہے تو کو ئی حرج نہیں ہے اور اگر کو ئی تیسرے دن بھی حاضری دیتا ہے تو بھی کو ئی حرج نہیں ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں:
{ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِي اَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقَي وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوا اَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ}
’’اور اللہ تعالیٰ کی یاد ان گنتی کے چند دنوں (ایام تشریق)میں کرو، دو دن کی جلدی کرنے والے پر بھی کوئی گناہ نہیں، اور جو پیچھے رہ جائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، یہ پرہیزگارکے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم سب اسی کی طرف جمع کئے جاو گے‘‘[البقرۃ:۱۰۳]
یہ بات ہر مومن جانتا ہے کہ دین اسلام کی تکمیل اور اتمام نعمت یعنی نعمت ہدایت عرفہ کے دن مقام عرفہ ہی میں ہوئی ہے اور یہی وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے بطور دین اسلام کو پسند کیا اوروہ آیت کریمہ نازل کیا جو کامل ، شافی اور کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حجۃ الوداع کے موقع پرمقام عرفہ میں فر مایا:
{ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا}
’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنا انعام پور اکردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا ‘‘[المائدہ:۳]
یوم عرفہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انسان بتوفیق الہٰی اس کا ذکر ہمیشہ کرتا ہے ،اس دن کے مقام سے لوگوں کوآشنا کرتا اور خود آشنا ہوتا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مناسک حج کے بیان میں اس کا تذکرہ بایں الفاظ کیا:
{فَإِذَا اَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُم ْ}
’’جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام کے پاس ذکر الٰہی کرو اور اس کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی، حالانکہ تم اس سے پہلے راہ بھولے ہوئے تھے‘‘[البقرۃ :۱۹۸]
اوریہ بات ہمیںمعلوم ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے صرف ایک حج کیا ہے جسے ہم حجۃ الوداع کے نام سے جانتے ہیں ، اس حج میں آپ ﷺ نے مقام عرفہ میں ایک خطبہ دیا جو بڑا جامع خطبہ تھا ،جسے ہم خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے جانتے ہیں ، اس میں ارشادات نبوی ﷺ،حکمت ربانی اور وہ بنیادی باتیں مذکور ہیںجو امت کی اصلاح میں معاون ثابت ہوتی ہیں بلکہ تمام انسانیت کے لئے مشعل راہ ہیں ،یہاں تک کہ اگر ان کی پاسداری ایک انسان کر لے تو اللہ تعالیٰ اسے اس ز مین کا وارث بنا دے گا ۔
چونکہ مضمون یوم عرفہ سے متعلق ہے اور وہ خطبہ بھی مقام عرفہ میں عرفہ کے دن ہی آپ ﷺنے دیا تھا بنا بریں مندرجہ ذیل سطور میں اسی خطبہ کے مشتملات ملاحظہ کریں ۔
۱۔ سماجی امن کا اہتمام : خطبہ حجۃ الوداع میں آپ ﷺنے سب سے پہلے سماجی امن و امان کی طرف توجہ دیا ہے،چونکہ سماجی امن اسی وقت قائم ہوگا جب انسان کی تین چیزیں محفوظ رہیں گی اور وہ تین چیزیں (۱) جان (۲)مال (۳)اورعزت ہیںاور نبی ﷺنے خطبہ کی ابتدا ہی میںان تینوں کی حفاظت پر زور دیا۔جیسا کہ فرمایا:
’’فَإِنَّ دِمَاءَ كُمْ وَاَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هٰذَا، فِي شَهْرِكُمْ هٰذَا، فِي بَلَدِكُمْ هٰذَا، إِلٰي يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ، اَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟قَالُوا:نَعَمْ، قَالَ:اللّٰهُمَّ اشْهَدْ، فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الغَائِبَ ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ اَوْعَي مِنْ سَامِعٍ، فَلَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ‘‘
’’ بس تمہارا خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس مہینہ اور اس شہر میں ہے، تاآنکہ تم اپنے رب سے جا ملو، کہو کیا میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں،آپ ﷺنے فرمایا اے اللہ!تو گواہ رہنا اور ہاں!یہاں موجود غائب کو پہنچا دیں کیونکہ بہت سے لوگ جن تک یہ پیغام پہنچے گا سننے والوں سے زیادہ (پیغام کو)یاد رکھنے والے ثابت ہوں گے اور میرے بعد کافر نہ بن جا نا کہ ایک دوسرے کی (ناحق)گردنیں مارنے لگو‘‘[صحیح بخاری :۱۷۴۱]
مذکورہ حدیث میں اللہ کے رسول ﷺنے سب سے پہلے انسانی جان کے تحفظ کی بات کی ، ایک انسان کسی کو جان سے نہیں مار سکتا ،یہ جتنا بڑا جرم ہے اسی حساب سے اسے سزا دی جا ئے گی اور ہر جرم کی سزا اسلام نے متعین کی ہے ،بلا وجہ آپ کاکسی کو قتل کرنا یاکسی ایسے جرم کی پاداش میں قتل کرنا جس پر قتل کی سزا نہ ہو تو حرام اور نا جا ئز ہے ۔
۲۔امانت داری: خطبہ حجۃ الوداع میں نبی ﷺنے امانت داری کی ترغیب دی اور خیانت سے روکاہے۔
۳۔سودکی حرمت کا اعلان : خطبہ حجۃ الوداع میں اللہ کے رسول ﷺنے سود کو حرام قرار دیا ۔جیسا کہ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:
’’ اَلَا وَإِنَّ كُلَّ رِبًا فِي الجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، لَكُمْ رُءُ وسُ اَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ غَيْرَ رِبَا العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ ‘‘
’’سن لو! جاہلیت کا ہر سود باطل ہے تم صرف اپنا اصل مال (اصل پونجی)لے سکتے ہو، نہ تم کسی پر ظلم و زیادتی کرو گے اور نہ تمہارے ساتھ ظلم و زیادتی کی جائے گی، سوائے عباس بن عبدالمطلب کے سود کے کہ اس کا سارا کا سارا معاف ہے‘‘[جامع الترمذی:۳۰۸۷،حسن]
۴۔شیطانی شکنجے سے بچنے کی تاکید: خطبہ حجۃ الوداع میں نبی ﷺنے شیطانی شکنجے سے بچنے کی تاکید کی ، فرمایا کہ:
’’اَلَا إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ اَيِسَ اَنْ يُعْبَدَ فِي بَلَدِكُمْ هٰذَا اَبَدًا، وَلَكِنْ سَيَكُونُ لَهُ طَاعَةٌ فِي بَعْضِ مَا تَحْتَقِرُونَ مِنْ اَعْمَالِكُمْ، فَيَرْضَي بِهَا‘‘
’’سن لو! شیطان اس بات سے ناامید ہو گیا ہے کہ اب تمہارے اس شہر میں کبھی اس کی عبادت کی جائے گی، لیکن عنقریب بعض کاموں میں جن کو تم معمولی جانتے ہو، اس کی اطاعت ہو گی، وہ اسی سے خوش رہے گا‘‘[سنن ابن ماجۃ: ۳۰۵۵]
اور ایک دوسرے مقام پر بایں الفاظ آیا ہے:
’’إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ اَيِسَ اَنْ يُعْبَدَ بِاَرْضِكُمْ هٰذِهِ، وَلٰكِنَّهُ قَدْ رَضِيَ مِنْكُمْ بِمَا تَحْقِرُونَ‘‘
’’شیطان اس بات سے ناامید ہو گیا ہے کہ اب تمہارے اس زمین میں اس کی عبادت کی جائے گی لیکن وہ تم سے راضی ہوگیا ہے اس سے جسے تم معمولی جانتے ہو‘‘[مسند احمد:۸۸۱۰]
۵۔حسن معاشرت : خطبہ حجۃ الوداع میں نبی ﷺنے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی عزت کرنے کی ترغیب دی کیوں کہ بیویوں پر شوہروں کااور شوہروں پر بیویوں کا حق ہے۔ جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺنے فر مایا:
’’ فَاتَّقُوا اللّٰهَ فِي النِّسَائِ، فَإِنَّكُمْ اَخَذْتُمُوهُنَّ بِاَمَانِ اللّٰهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللّٰهِ ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ اَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ اَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذاَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ‘‘
’’اور تم لوگ اب ڈرو اللہ سے کہ عورتوں پر زیادتی نہ کرو اس لیے کہ ان کو تم نے اللہ تعالیٰ کی امان سے لیا ہے اور حلال کیا ہے تم نے ان کے ستر کو اللہ تعالیٰ کے کلمہ سے اور تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ تمہارے بچھونے پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں (یعنی تمہارے گھر میں)جس کا آنا تم کو ناگوار ہو، پھر اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسا مارو کہ ان کو سخت چوٹ نہ لگے (یعنی ہڈی وغیرہ نہ ٹوٹے، کوئی عضو ضائع نہ ہو، حسن صورت میں فرق نہ آئے کہ تمہاری کھیتی اجڑ جائے)اور ان کا حق تمہارے اوپر اتنا ہے کہ روٹی ان کی اور کپڑا ان کا دستور کے موافق تمہارے ذمہ ہے‘‘[صحیح مسلم:۱۲۱۸]
اور جامع الترمذی میں بایں الفاظ ہے :
’’اَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَائِ خَيْرًا، فَإِنَّمَا هُنَّ عَوَانٌ عِنْدَكُمْ، لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَالِكَ، إِلَّا اَنْ يَاْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ، فَإِنْ فَعَلْنَ فَاهْجُرُوهُنَّ فِي المَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، فَإِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا، اَلَا إِنَّ لَكُمْ عَلٰي نِسَائِكُمْ حَقًّا، وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا، فَاَمَّاحَقُّكُمْ عَلٰي نِسَائِكُمْ فَلَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ، وَلَا يَاْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِمَنْ تَكْرَهُونَ، اَلَا وَحَقُّهُنَّ عَلَيْكُمْ اَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ وَ طَعَامِهِنَّ ‘‘
’’سنو! عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو، اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں، تم اس (ہمبستری اور اپنی عصمت اور اپنے مال کی امانت وغیرہ)کے علاوہ اور کچھ اختیار نہیں رکھتے (اور جب وہ اپنا فرض ادا کرتی ہوں تو پھر ان کے ساتھ بدسلوکی کا جواز نہیں ہے) ہاں اگر وہ کسی کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب کریں (تو پھر تمہیں انہیں سزا دینے کا حق ہے) پس اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں سے علاحدہ چھوڑ دو اور انہیں مارو لیکن اذیت ناک مار نہ ہو، اس کے بعد اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو پھر انہیں سزا دینے کا کوئی اور بہانہ نہ تلاش کرو، سنو! جس طرح تمہارا تمہاری بیویوں پر حق ہے اسی طرح تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے،تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر ایسے لوگوں کو نہ روندنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو، اور تمہارے گھر میں ایسے لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے،سنو! اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لباس اور پہنے میں اچھا سلوک کرو‘‘[جامع الترمذی:۱۱۶۳،حسن]
میاں بیوی کو چاہئے کہ اس فرمان الہٰی اور تعلیمات نبوی ﷺکو لازم پکڑیں۔
۶۔کتاب و سنت کو لازم پکڑو: خطبہ حجۃ الوداع میں نبی کریم ﷺنے ہمیں کتاب و سنت کو لازم پکڑنے کی تعلیم دی کیوں کہ یہی اسلام اور اسلام کی بنیاد ہے ۔جیسا کہ نبی کریم ﷺنے فر مایا:
’’يَا اَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ فَلَنْ تَضِلُّوا اَبَدًا: كِتَابُ اللّٰهِ،وَسُنَّةُ نَبِيِّهِ‘‘
’’اے لوگو ! میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم نے اسے پکڑ لیا توکبھی گمراہ نہیں ہو گے ، وہ ہے اللہ کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت ‘‘[صحیح مسلم :۱۲۱۸]
۷۔ خطبہ حجۃ الوداع میں نبی ﷺنے ہمیں یہ پیغام بھی دیا کہ اسلام نے ہمیں جو اخوت کی تعلیم دی ہے وہ ہمہ وقت اور سب کے ساتھ ہے ، کالا و گورا ،امیر و غریب اور صاحب منصب یا صاحب نسب ہو نے سے یہ بدل نہیں جا ئے گا ، کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ جیسا کہ آپﷺنے فر مایا:
’’ ثُمَّ قَالَ:اسْمَعُوا مِنِّي تَعِيشُوا، اَلَا لَا تَظْلِمُوا، اَلَا لَا تَظْلِمُوا، اَلَا لَا تَظْلِمُوا، إِنَّهُ لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ‘‘
’’ مجھ سے سن کر زندگی گزارو ، خبردار ظلم نہ کرو ،، خبردار ظلم نہ کرو،، خبردار ظلم نہ کرو،کسی انسان کا مال اس کی اجازت کے بغیرلینا حلال نہیں ہے‘‘[مسند احمد :۲۰۶۹۵]