-
طلاق ثلاثہ سے متعلق سعید بن المسیب رحمہ اللہ کی ایک روایت کی تحقیق سحنون بن سعید التنوخی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۴۰)نے کہا:
عن أشهب عن القاسم بن عبد اللّٰه أن يحيي بن سعيد حدثه أن ابن شهاب حدثه أن ابن المسيب حدثه أن رجلا من أسلم طلق امرأته علٰي عهد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ثلاث تطليقات، فقال له بعض أصحابه إن لك عليها رجعة، فانطلقت امرأته حتي وقفت علٰي رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ، فقالت:إن زوجي طلقني ثلاث تطليقات فى كلمة واحدة فقال لها رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: ’’قد بنت منه ولا ميراث بينكما‘‘
سعید بن المسیب نے بیان کیا کہ اسلم کے ایک شخص نے اپنی بیوی کو عہد رسالت میں تین طلاق دے دی ، تو اس کے بعض ساتھیوں نے کہا کہ تم رجوع کرسکتے ہو ، تو اس کی بیوی نکل پڑی یہاں تک کہ اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی اورکہا :میرے شوہر نے ایک ہی جملے میں مجھے تین طلاق دے دی ہے ؟ تو اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:’’تم اس سے جدا ہوچکی ہو اورتم دونوں کے مابین میراث جاری نہیں ہوگی‘‘[المدونۃ:۲؍۵]
یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے ۔
اس کی سند میں موجود القاسم بن عبد اللہ یہ القاسم بن عبد اللہ بن عمر بن حفص العدوی العمری ہے۔
امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی:۲۴۱)نے کہا:
’’کان یکذب ‘‘’’ یہ جھوٹ بولتا تھا‘‘[العلل ومعرفۃ الرجال لأحمد، ت وصی:۳؍۱۸۶]
نیز کہا: ’’کذاب، کان یضع الحدیث ‘‘ ’’یہ بہت بڑا جھوٹا ہے ، یہ حدیث گھڑتا تھا ‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۷؍۱۱۱،وإسنادہ صحیح]
امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۳)نے کہا:
’’کذاب خبیث ‘‘ ’’یہ بہت بڑا جھوٹا اور خبیث ہے ‘‘[المجروحین لابن حبان، تزاید:۲؍۲۱۲،وإسنادہ صحیح]
امام عجلی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۶۱)نے کہا:
’’متروک الحدیث ‘‘’’ یہ متروک الحدیث ہے‘‘[معرفۃ الثقات للعجلی:۲؍۲۱۰]
امام أبو زرعۃ الرازی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۶۴)نے کہا:
’’لا یساوی شیئا، متروک الحدیث، منکر الحدیث ‘‘’’ یہ کسی کام کا نہیں ہے ، یہ متروک الحدیث اور منکر الحدیث ہے‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۷؍۱۱۱]
امام أبو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۷۷)نے کہا:
’’متروک الحدیث‘‘ ’’یہ متروک الحدیث ہے‘‘[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۷؍۱۱۱]
ان ائمہ کے علاوہ اور بھی بہت سے ائمہ نے اس پر سخت جرح کی ہے ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲)نے بھی کہا ہے:
’’متروک‘‘ ’’یہ متروک ہے‘‘[تقریب التہذیب لابن حجر:رقم :۵۴۶۸]
کسی بھی محدث نے اس کی توثیق نہیں کی ہے۔افسوس ہے کہ ایک صاحب اس جھوٹے ، کذاب اور وضاع حدیث کی یہ روایت پیش کرنے کے بعد یہ بحث کرنے لگے کہ یہ روایت گرچہ مرسل ہے لیکن سعید بن المسیب کی مرسل روایات صحیح ہوتی ہیں۔ سبحان اللہ !
محترم ! پہلے سعید بن المسیب تک اس کی سند کو ثابت تو کیجئے ! پھر مرسل کی بحث شروع کیجئے ۔
واضح رہے کہ سعید ابن المسیب کی صرف وہ مرسل احادیث صحیح ہوتی ہیں جو دوسروں کے یہاں متصل سندوں سے ثابت ہوتی ہیں ، کیونکہ ان کی اکثر مرسل احادیث ایسی ہیں جنہوں نے دوسرے رواۃ کے متصل سندوں سے روایت کررکھا ہے ۔اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے بعض محدثین نے کہا ہے کہ ان کی مرسل احادیث صحیح ہوتی ہیں ، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کی جس مرسل روایت کی کوئی متصل سند موجود ہی نہ اسے بھی صحیح تسلیم کرلیا جائے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے کہ سعید بن المسیب کی مرسل روایات صحیح ہوتی ہیں لیکن یہ علی الاطلاق نہیں ہے ۔
امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی:۴۵۸)اسی چیز کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’فالشافعي رحمه اللّٰه، يقبل مراسيل كبار التابعين إذا انضم إليها ما يؤكدها، وقد ذكرنا فى كتاب المدخل من أمثلتها بعضها، وإذا لم ينضم إليها ما يؤكدها لم يقبله سواء كان مرسل ابن المسيب أو غيره۔وقد ذكرنا فى غير هذا الموضع مراسيل لابن المسيب لم يقل بها الشافعي حين لم ينضم إليها ما يؤكدها‘‘
’’امام شافعی رحمہ اللہ کبار تابعین کی مرسل روایات کو اس وقت قبول کرتے ہیں جب اس کے ساتھ ایسی چیزیں بھی ہوں جو اس کی تائید کرتی ہوں ، اور ہم نے کتاب المدخل میں اس کی بعض مثالیں پیش کی ہیں ، اور جب مرسل روایات کے ساتھ ان کی تائید کرنے والی چیزیں نہ ہوں تو امام شافعی نے ایسی مرسل روایات کو قبول نہیں کیا ہے ، چاہے یہ سعید بن المسیب کی مرسل روایت ہو یا کسی اور کی ہو ، اور ہم نے دوسری جگہوں پر سعید ابن المسیب کی ایسی مرسل روایات ذکر کی ہیں جنہیں امام شافعی رحمہ اللہ نے قبول نہیں کیا ہے کیونکہ ان کی تائید کرنی والی دوسری چیزیں موجود نہیں ہیں ‘‘ [مناقب الشافعی للبیہقی:۲؍۳۲]
معلوم ہوا کہ سعید ابن المسیب کی مرسل ہو یا کسی اور تابعی کی مرسل ہو کسی کی بھی مرسل روایات کو علی الاطلاق کسی نے بھی صحیح نہیں کہا ہے ۔
بہر حال یہاں تو سعید بن المسیب کی طرف منسوب یہ مرسل روایت ثابت ہی نہیں ہے ، کیونکہ اس کی سندمیں جھوٹا اور حدیث گھڑنے والا راوی موجود ہے۔
اس لئے یہ روایت بلا شک وشبہ موضوع و من گھڑت ہے۔
٭٭٭