-
اخلاص اور فتنۂ شہرت اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:
{وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء…}
[سورۃ البینۃ :۵]
’’اور انہیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں، اسی کے لیے دین کو خالص رکھیں‘‘۔
معزز قارئین! کوئی بھی چیز جب ملاوٹ سے خالی، نہایت ستھری اور کھری ہو وہ خالص کہلاتی ہے اور اس کی اہمیت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں، اخلاص بھی ایسا ہی عمل ہے جو ہر قسم کی آمیزش سے بالاتر مکمل صاف و پاکیزہ اور اصل پر قائم ہوتا ہے۔
ائمۂ کرام نے اخلاص کی بڑی عمدہ تعریفات نقل کی ہیں، ان میں سے ابن قیم رحمہ اللہ اخلاص کے متعلق فرماتے ہیں :’’اخلاص اس عمل کا نام ہے کہ ہر نیکی کو بندوں کے مشاہدے اور نگرانی سے آزاد کیا جائے‘‘۔(مدارج السالکین)
اخلاص کی ضد ریاکاری اور طلبِ شہرت ہے یعنی نیکی کو اس کے اصل مقصد سے پھیر کر ایسی سمت میں لے جانا جہاں اس نیکی کا تعلق مخلوق اور بے بس سے جوڑا گیا ہو، مثلاً اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کی رضا چاہنا، لوگوں میں شہرت پانا، زبان زد عام ہونا، اپنی ذات کو توجہ کا مرکز بنانا اور خودپسندی کے مرض کو ہوا دینا وغیرہ۔
جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندے سے ایسے نیک عمل کا مطالبہ کیا ہے جو اخلاص وللہیت کے ساتھ انجام دیا گیا ہو، فرمایا :
{فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَائَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا}
[سورۃ الکہف: ۱۱۰]
’’جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو لازم ہے کہ وہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے‘‘۔
محترم قارئین! بندے کا اپنے رب پر ایمان لانے اور اس کی بندگی و غلامی قبول کرنے کے بعد سب سے اہم حکم یہ نافذ ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کے ساتھ پوری طرح مخلص ہوجائے یعنی ہر نیک عمل خواہ اس کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے، اس کی بجاآوری کا مقصد صرف اور صرف اپنے رب کی رضامندی اور خوشنودی بنائے، یہی اخلاص وہ بلند ترین قلبی عمل ہے جس کو ’’اعمال کی روح‘‘کہا گیا ہے، جس کا وجودقبولیتِ عمل کی اہم شرط اور فقدان عملِ صالح کے ضیاع کا سبب ہے۔
جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبیﷺکے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا، ایک شخص جنگ کو جاتا ہے وہ ثواب اور شہرت دونوں کا طلب گار ہے اسے کیا ملے گا؟ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’اسے کچھ نہیں ملے گا‘‘، اس شخص نے سوال تین دفعہ دہرایا، پھر آپﷺنے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ صرف اس عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص اس کے لیے کیا جائے اور صرف اس کی رضامندی مقصود ہو‘‘۔
[سنن نسائی:۳۱۴۲حسن صحیح]
یعنی جس طرح شرک کی موجودگی میں نیکیاں عنداللہ قبول نہیں ہوتیں اسی طرح شراکت میں بھی قبولیت سے محروم رہتی ہے کیونکہ شرک اور شراکت میں کوئی خاصا فرق نہیں ہے، شرک میں غیراللہ کی عبادت ہوتی ہے تو شراکت میں اصل مقصد یعنی رضائے الہٰی مفقود اور غیر اللہ کی رضا اور لوگوں کے درمیان مقبولیت شامل حال ہوتی ہے۔
قارئین عظام! جہاد جیسا عظیم المرتبت عمل بھی شراکت داری کی نذر ہونے سے مردود ہوکر رہ جاتا ہے تو پھر سوچنے والی بات ہے چھوٹے چھوٹے اعمال میں کس قدر احتیاط لازم ہے؟
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺکو اپنی امت پر مسیح دجال سے بڑھ کر اسی ریاکاری کا خوف تھا جس کا اظہار آپ ﷺنے کچھ ان الفاظ میں کیا ہے :
’’کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو میرے نزدیک تمہارے لیے مسیح دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے، ہم نے کہا کیوں نہیں، رسول اللہﷺنے فرمایا:’’چھپا ہوا شرک‘‘وہ یہ کہ آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے تو اپنی نماز خوبصورت بناتا ہے۔[سنن ابن ماجہ:۴۲۰۴،حسن]
ریاکاری، اخلاص کی عدم موجودگی پر ہونے والا وہ عظیم فتنہ ہے جس کی نشاندہی نبی ﷺنے فرمادی اور اظہار خوف بھی کیا اور نبی مشفق کا خوف اور امت کو آگاہی معاملے کی خطرناکی اور نقصان پر دلالت کرتی ہے، اور اس سے بڑھ کر نقصان کیا ہوسکتا ہے کہ طویل محنتوں کے بعد نیتوں کا کھوٹ اعمال کوهَبَآء ً مَّنْثُوْرًا بنادے اور تھکاوٹ کے سوا کچھ ہاتھ نہ لگے، کیونکہ اللہ تعالیٰ غنی ہے وہ ہمارے اعمال کا محتاج نہیں، اس کی شان و عظمت اس قدر بلند ہے کہ بڑے سے بڑے عمل کو بھی غیر کی حصہ داری کی صورت میں رد کردے کیونکہ اس کی ذات اس سے مبرا ہے کہ کسی عمل میں کوئی اس کا برابر ٹھہرے، جیسا کہ حدیث قدسی ہے :
’’شریک بنائے جانے والوں میں سب سے زیادہ میں شراکت سے مستغنی ہوں، جس شخص نے بھی کوئی عمل کیا اور اس میں میرے ساتھ کسی اور کوشریک کیا تو میں اسے اس کے شرک کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیتا ہوں‘‘۔
[صحیح مسلم : ۷۴۷۵]
اور اس کے برعکس ایسا قدردان ہے کہ معمولی سی نیکی کو بھی نیت کے درست اور بے لوث ہونے کی بنیاد پر قبولیت سے ہمکنار کردے۔
إِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا، حَتَّي مَا تَجْعَلُ فِي فَمِ امْرَأَتِكَ۔
’’بے شک تو جو کچھ خرچ کرے اور اس سے تیری نیت اللہ کی رضا حاصل کرنی ہو تو تجھ کو اس کا ثواب ملے گا، یہاں تک کہ اس پر بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے‘‘۔
[صحیح بخاری:۵۶]
راستے دونوں معلوم ہیں اور انجام بھی مخفی نہیں۔
اخلاص کی راہ ایسی روشن ہے کہ اس کا اجالا بڑے وسیع پیمانے پر نظر آتا ہے کہ مخلص شخص خود بھی اپنی دنیا و آخرت سنوار لیتا ہے اور بعد والوں کے لیے بھی روشن راہیں ہموار کیے جاتا ہے اور رہتی دنیا تک اس کا ذکر خیر ہوتا ہے جو کہ اس کے بے لوث اعمال کا ثمرہ ہے، اور سب سے بڑا انعام اس کو جنت کی شکل میں عطا کیا جائے گا وہ اصل کامیابی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الدھر میں جنتیوں کے جنت میں جانے کا سبب بیان فرمایا:
{وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاء ً وَلَا شُكُورًا}
[سورۃ الدھر:۸۔۹]
’’اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں، ہم تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکرگزاری‘‘۔
یعنی وہ جنتی صرف حقوق اللہ ہی نہیں حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی بالکل مخلص تھے، اللہ کی محبت اور اس کی رضا ہی ان کی مطلوب ہوا کرتی تھی نہ کہ ان کا مقصد لوگوں سے مدد کا بدلہ یا شکریہ وصول کرنا ہوتا تھا۔
قارئین کرام! ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کوئی بھی کارنامہ انجام دیں تو اس کا چرچہ زبان زد عام ہوجائے اورلوگوں سے مخفی نہ رہے تبھی اس کا خاطر خواہ فائدہ ہوگا؟ بصورت دیگر ہم نے کچھ کیا ہی نہیں؟
اس ضمن میں ہمارے لیے ان انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے بہترین مثال کسی کی نہیں ہوسکتی جن کی ایک تعداد کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کے بڑے عہدے نبوت ورسالت سے سرفراز کرکے قوموں کی اصلاح کی عظیم ذمہ داری عائد کی، باوجود اس کے قرآن مجید میں ان سب میں سے صرف چندانبیاء کے نام وارد ہیں، تو کیا باقی انبیاء نعوذ باللہ وہ اپنی ذمہ داری میں بے لوث نہیں تھے؟ اللہ تعالیٰ نے ان کے ناموں اور کارناموں کو صفحات قرآنیہ کی زینت کیوں نہیں بنایا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ}
[سورۃ الغافر:۷۸]
’’یقینا ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے واقعات ہم آپ کو بیان کرچکے ہیں اور ان میں سے بعض کے قصے تو ہم نے آپ کو بیان ہی نہیں کئے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا یہ اسلوب ہمیں اخلاص پر محنت کرنے اور اس کو ہر عمل میں شامل کرنے پر ابھارتا ہے اور ریاکاری و شہرت جیسے افکار سے خلاصی دلاتا ہے۔
انبیاء سمیت نہ جانے کتنے ایسے عظیم المرتبت لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں دین اور انسانیت کی خوب خدمات کیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اور مصلحت کے تحت ان کے تذکرۂ خدمات کو ان کی زندگی ہی میں یا ان کی موت ساتھ اٹھالیا، ان کے کام باقی رکھے جن سے دنیا مستفید ہورہی ہے اور محنت کرنے والے کا نام دنیا کی نگاہوں سے اوجھل رہا، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پوری طرح نسیا ًمنسیا کر دیا، نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو آسمانی دنیا کی ناموری اور نعمتوں سے بہرور کرے گا جس کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت بھی ہیچ ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کا یوں بے لوث ہونا کہ اس کے لیے کیے گئے عمل کا کوئی بھی گواہ نہ ہو، نہایت عزیز ہے جیسا کہ نبی ﷺکا فرمان ہے :
إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ۔
’’اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی ہو، غنی ہو، گم نام ہو‘‘۔
[صحیح مسلم :۷۴۳۲]
اور اللہ تعالیٰ کی اخلاص والوں سے محبت کا ایک مظہر بروز قیامت اس وقت بھی ہوگا جب وہ پوشیدہ صدقہ کرنے والوں کو حشر کی تیز گرمی سے بچا کر اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا۔
ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے شہرت وسمعت سے موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اخلاص سراپا خیر ہے، جس کا وجود دنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے کافی ہے اور شہرت اور سمعت، دنیا میں وقتی طور پر خوشی تو مہیا کر سکتی ہے لیکن ابدی حسرت اور ناکامی کو ساتھی بنا چھوڑتی ہے ۔العیاذ باللہ۔
فتنۂ شہرت کی زد میں مسلم معاشرہ کس قدر خستہ حال کا شکار ہے کسی سے مخفی نہیں ہے، یہ کسی فرد واحد تک محدود نہ رہا بلکہ سارا معاشرہ لپیٹ میں آگیا، اس جذبہ نے ہمارے اعمال کو اندرونی طور پر لاغر اور کمزور کردیا اور ہر عمل کو ریاکاری سے جوڑ دیا ہے، ترقی یافتہ دور کے ساتھ دکھاوے کے بھی نت نئے طریقے برآمد ہوئے جس سے ریاکاری کی شرح مزید بڑھتی جا رہی ہے مگر جس کو اللہ تعالی سلامت رکھے۔
لہٰذا ہمارا کام یہ بنتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو اپنے رب کا مخلص بندہ بناکر پیش کریں، ہمارے تمام اعمال اور خدمات بے لوث ہوں، نہایت خالص ہوں، ہر طرح کی آمیزش سے پاک ہوں، ہمیں دنیاوی نفع ملے یا نہ ملے ہم اپنے رب کے وعدے پر اس کی حکموں کی بجا آوری کرتے جائیں، اس راہ میں اگرچہ خوش کن نظروں سے نہ دیکھا جائے بلکہ دشمنی نبھائی جائے، سراہا نہ جائے بلکہ ٹھکرایا جائے روندا جائے، ہمت افزائی نہ کی جائے بلکہ حوصلہ شکن باتوں سے سامنا ہو، تب بھی اگر وہ کام کسی کے یا کم از کم اپنے فائدے کے لئے کافی ہے تو اس سے رکیں نہیں بلکہ اخلاص وللہیت کے ساتھ انجام دیتے جائیں، اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ مخلص لوگوں کی ناقدری نہیں کرتا۔
قارئین کرام! ایسا بھی ہوتا ہے کہ نیک نیتی اللہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے کاموں میں مشغول انسان کو دنیا والوں کی تعریفات اور قدردانی بھی ملتی ہے تو ایسی صورت میں یہ اخلاص کے منافی اور ریاکاری میں شامل نہیں بلکہ یہ مومن کے لیے دنیاوی اعتبار سے خوشخبری ہے جو اس کے لیے ہمت افزائی کا کام کرتی ہے اور اس کو مزید آگے بڑھنے پر ابھارتی ہیں، جیسا کہ نبی کریم ﷺسے سوال کیا گیا کہ :آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک شخص اچھے کام کرتا ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:’’یہ مومن کے لیے فوری بشارت ہے‘‘۔
[صحیح مسلم :۶۷۲۱]
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے حقیر اعمال کو خلوص اللہیت سے بھر دے، ان کو شرف قبولیت بخشے اور ہر طرح کی ریاکاری سے ہماری حفاظت فرمائے۔آمین
٭٭ ٭