-
فتویٰ دینے میں عورتوںکی جلد بازی اور سلف صالحین کا طرز عمل یہ ایک ایسا نازک اور اہم موضوع ہے جس پر قلم اٹھاتے ہوئے دل لرزتا ہے اور کہتے ہوئے زبان کانپتی ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کا تعلق ہر دورسے رہا ہے، اور آج کے پُر فتن دور میں تو اس پر گفتگو اور بھی بڑھ گئی ہے، اس لیے کہ معاشرہ میں بالعموم اور سوشل میڈیا پر بالخصوص بغیر علم کے فتویٰ بازی عام ہوگئی ہے اور ہر کوئی دین کے معاملے میں اپنی رائے زنی کو حق سمجھنے لگا ہے، اس لیے اس موضوع کو سمجھنا اور اس کی حکمت عملی کو اپنانا ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو دین کی سمجھ بوجھ حاصل کررہا ہے یا کرنا چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا طالب ہے، نیز یہ موضوع دینِ مبین کے اُس عظیم الشان منصب سے تعلق رکھتا ہے جسے ’’فتویٰ‘‘کہا جاتا ہے، فتویٰ محض ایک شرعی مسئلہ بیان کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بندوں کے لیے دستخط کیا ہوا صحیفہ کی مانند ہوتا ہے جو ایک عالم لوگوں تک پہنچاتا ہے، یہ ایک نور ہے جو تاریکیوں میں راستہ دکھاتا ہے، یہ ایک امانت ہے جو راسخین علماء کرام کے کندھوں پر رکھی گئی ہے، اور اس امانت کی ادائیگی بغیر علم و بصیرت کے ہرگز ممکن نہیں۔
عصر حاضر کا منظر نامہ ایسا ہے کہ جہالت عام ہوگئی ہے اور علم کم، فتوے دینے کی جرأت بھی بڑھ گئی ہے، ہر کس و ناکس علم کی گہرائی اور شرعی اصولوں کی باریکیوں سے نا واقف ہوتے ہوئے بھی دین کے معاملات میں اپنی رائے زنی کو حق سمجھتا ہے، بالخصوص خواتین کا ایک طبقہ دینی مسائل میں علم کی کمی کے باوجود بغیر تحقیق اور بغیر سمجھے بوجھے فوراً فتویٰ جاری کرنے میں سبقت لے جاتا ہے، اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کچھ خواتین تھوڑا بہت غیر عربی زبانوں (جیسے اردو، انگریزی) میں دینی مسائل کو پڑھ کر خود کو’’ منصب فتاویٰ ‘‘پر فائز سمجھ بیٹھتی ہیں اور کھلے عام سوشل میڈیا پر فتویٰ دینے لگتی ہیں، جبکہ یہ سطحی علم، جو عربی زبان کی گہرائی اور شرعی علوم کی وسعت سے ناواقفیت کی بنیاد پر حاصل کیا ہوا ہوتا ہے اکثر گمراہی کا سبب بنتا ہے، یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو دین کو نقصان پہنچانے کے بنیادی اسباب میں سے ہے اور لوگوں کو گمراہی میں ڈال سکتا ہے، لہٰذا جو بھی تصدر پسندی میں حق سے بھٹک رہے ہوں انہیں اس امر کی حساسیت کا احساس ہونا چاہیے، اور انہیں حد درجہ احتیاط کرنا چاہیے، اسی احتیاط اور دیانت کا ایک اہم ترین پہلو یہ ہے کہ جب کسی شرعی مسئلے میں علم نہ ہو تو برملا ’’لا ادري‘‘یعنی ’’میں نہیں جانتا‘‘کہہ دینا چاہیے، یہ محض ایک لفظ نہیں، بلکہ یہ ایک طرزِ عمل، ایک فکر اور ایک تربیت کا مظہر ہے، ’’لا ادری‘‘کہنا جہالت کا اعتراف نہیں، بلکہ علم کی قدر و منزلت کا اعتراف ہے، اور یہ اس بات کا اعلان ہے کہ انسان اپنی علمی حدود سے واقف ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کے رسولﷺکی سنت کے مقابلے میں اپنی رائے کو کوئی حیثیت نہیں دیتا۔
یہ’’لا ادري‘‘کا کلمہ بظاہر سادہ سا عام جملہ لگتا ہے، لیکن درحقیقت تقویٰ، خشیتِ الٰہی اور علمی دیانت داری کا ایک روشن بیان ہوتا ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان اپنی زبان کو بے لگام نہیں چھوڑتا، اور نہ ہی دین کے معاملے میں محض قیاس آرائی اور اندازوں پر تکیہ کرتا ہے، بلکہ وہ اس عظیم ذمہ داری کو سمجھتا ہے جو اس کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے، اور اس بات سے خائف رہتا ہے کہ کہیں اس کی زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہو اور جس سے وہ لوگوں کی گمراہی کا سبب بنے۔
اس کے برعکس، ہمارے سلف صالحین، جو علم و تقویٰ کے مینار تھے، فتویٰ دینے میں کس قدر محتاط تھے، وہ ’’لا ادری‘‘ کہنے میں کبھی عار محسوس نہیں کرتے تھے، بلکہ اسے اپنی علمی دیانت اور خدا خوفی کا نشان سمجھتے تھے، جب ان سے کوئی ایسا مسئلہ پوچھا جاتا جس کا انہیں علم نہ ہوتا، تو وہ برملا کہہ دیتے کہ ’’ہمیں نہیں معلوم‘‘، یہ ان کی عظمت کی دلیل تھی کہ وہ علم کی کمی کا اعتراف کرنے میں ذرا بھی ہچکچاتے نہیں تھے۔
سلف صالحین جو اس امت کے بہترین نمونے ہیں، جن کا منہج ہمارے لیے اسوہ ہے، ان کی زندگیوں میں ’’لا ادری‘‘ کہنے کی اہمیت اور اس پر عمل پیرا ہونے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، وہ علم کے سمندر تھے، لیکن اس کے باوجود جب کسی مسئلہ میں ان کا علم محیط نہ ہوتا تو وہ بلا جھجک ’’لا ادری‘‘کہہ دیتے، یہ ان کی علمی وسعت اور فہم وفراست کی دلیل تھی کہ وہ اپنے علمی حدود کو پہچانتے تھے اور اس سے تجاوز کرنے سے گریز کرتے تھے، ان کا طرزِ عمل ہمارے لیے ایک روشن مثال ہے کہ کس طرح شرعی مسائل میں احتیاط اور دیانت کا دامن تھاما جاتا ہے اور کس طرح ’’لا ادري‘‘کہہ کر انسان اپنی اور دوسروں کی گمراہی سے حفاظت کر سکتا ہے۔
بات کو طول نہ دیتے ہوئے یہ الفاظ نوک قلم پر جاری ہیں کہ ہم اس امر کی حساسیت کو سمجھیں، لہٰذا مضمون ہذا میں ہم بغیر علم کے فتویٰ دینے کی حرمت پر روشنی ڈالیں گے، اور ساتھ میں سلف صالحین کے طرزِ عمل کو بیان کریں گے تاکہ معلوم ہو اکہ ’’صدار فتویٰ ‘‘میں سلف صالحین کا کیا طرز عمل رہا ہے۔
اللہ عزوجل کی جانب سے تنبیہ :
{وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـذَا حَلَـالٌ وَهَـذَا حَرَام لِّتَفْتَرُوا عَلَي اللَّهِ لْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ}
[النحل:۱۱۶]
ترجمہ : ’’کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ موٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے، اس طرح حکم لگانا اللہ پر افترا پردازی کرنا ہے، بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ ابو نضرہ رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
’’میں نے جب سے سورۃ النحل کی یہ آیت پڑھی ہے فتویٰ دینے سے ڈرتا ہوں‘‘۔
اس قول پر امام شوکانی رحمہ اللہ تعلیقاً بیان کرتے ہیں کہ :
’’اللہ ان پر رحم فرمائے، یقینا انہوں نے سچ کہا، بلاشبہ یہ آیت اپنے الفاظ کے عموم کے ساتھ ہر اس شخص کے فتوے کو شامل ہے جو کتاب اللہ یا سنت رسول اللہﷺکے خلاف فتویٰ دیتا ہے، جیسا کہ اکثر ان لوگوں سے ہوتا ہے جو رائے (قیاس)کو قرآن وسنت پر مقدم کرتے ہوئے ترجیح دیتے ہیں، یا جو کتاب و سنت کے علم سے جاہل ہیں، جیسے مقلدین، اور بے شک یہ لوگ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ان کے اور ان کے فتووں کے درمیان رکاوٹ ڈال دی جائے اور انہیں ان کی جہالت سے روکا جائے، کیونکہ انہوں نے بغیر علم ، بغیر رہنمائی اور کتاب وسنت کے بغیر فتویٰ دیا، چنانچہ یہ ایسے لوگ ہیں جو خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں‘‘۔(فتح القدیر للشوکانی ۔مذکورہ آیت کی تفسیر)
اسی طرح امام ابن جُزیّ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں ذکر کرتے ہیں کہ :
’’یہ آیت گرچہ مشرکین عرب کے سلسلہ میں نازل ہوئی، لیکن اس میں ہر وہ شخص بھی شامل ہے جو بغیر علم کے کہتا ہے کہ یہ حلال ہے یا یہ حرام‘‘۔(تفسیر ابن جزی ۔مذکورہ آیت کی تفسیر)
قول’’لا ادری‘‘پر کچھ نصوص وآثار سلف :
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:
{قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ}
[البقرۃ:۳۲]
ترجمہ: ’’ان سب(فرشتوں) نے کہا اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم و حکمت والا تو تو ہی ہے‘‘۔
امام قرطبی رحمہ اللہ (۶۷۱ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’جس شخص سے بھی کسی دینی مسئلہ کے بارے میں پوچھا جائے اور وہ اس بارے میں نہ جانتا ہو تو وہ فرشتوں، انبیاء اور اکابر علماء کی پیروی کرتے ہوئے کہے:
’’اللّٰہ أعلم ولا أدری‘‘’’اللہ اس بارے میں بہتر جانتا ہے اور میں نہیں جانتا‘‘۔
[تفسیر القرطبی:۱؍۲۸۵]
(۱) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
’’مَا أَدْرِي أَتُبَّعٌ لَعِينٌ هُوَ أَمْ لَا؟ وَمَا أَدْرِي أَعُزَيْرٌ نَبِيٌّ هُوَ أَمْ لَا؟‘‘۔
’’مجھے نہیں معلوم کہ تُبَّعْ قابلِ ملامت ہے یا نہیں، اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ عزیر نبی ہیں یا نہیں‘‘۔
[سنن أبو داؤد: ۴۶۷۴، وصححہ الألبانی]
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺکو کسی چیز کے بارے میں معلومات نہیں ہوتی تھیں تو وہ ’’ما ادري‘‘ کہا کرتے۔
صاحب عون شرف الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
’’یہ بات (ما أدری) آپﷺنے تُبّعْ کے معاملہ میں وحی نازل ہونے سے پہلے کہی تھی‘‘۔[عون المعبود شرح سنن أبی داود لشرف الحق العظیم آبادی، ۲۸۰؍۱۲]
(۲) سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا :
اے اللہ کے رسولﷺ!شہر کا کون سا حصہ سب سے بدترین ہوتا ہے؟ تو نبی کریمﷺنے فرمایا:
’’لَا أَدْرِي‘‘فَلَمَّا أَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، قَالَ:’’يَا جِبْرِيلُ، أَيُّ الْبُلْدَانِ شَرٌّ؟، قَال:لَا أَدْرِي حَتَّي أَسْأَلَ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ ‘‘۔
یعنی ’’مجھے معلوم نہیں‘‘، جب جبرائیل آئے تو نبیﷺنے ان سے یہی سوال پوچھا: انہوں نے بھی جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں، البتہ میں اپنے رب سے پوچھتا ہوں‘‘۔
[المستدرک علی الصحیحین (۲۱۸۰)، صحیح الإسناد، وصحیح الترغیب (۳۲۵)، حسن صحیح]
اہم نکتہ کی بات یہ بھی ہے کہ امام حاکم رحمہ اللہ نے (۴۰۵ھ) اس حدیث کے تحت’’کتاب المناسک – الأصل فی قول العالم لا أدری‘‘، باب باندھا ہے۔
أقوالِ سلف :
(۱) عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (۳۲ھ) نے فرمایا :
’’جو شخص ہر اس چیز کے متعلق فتویٰ دے جو اس سے پوچھا جائے، تو وہ مجنون اور دیوانہ ہے‘‘۔[جامع بیان العلم وفضلہ، لابن عبد البر: ۸۴۳؍۲، برقم ۱۵۹۰]
(۲) عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (۷۳ھ) نے فرمایا:
’’علم تین چیزیں ہیں: ۱۔ کتاب ناطق یعنی قرآن ۲۔ قائم رہنے والی سنت ۳۔اور قول’’لا أدری‘‘
(یعنی جب کسی چیز کا علم نہ ہو تو’’میں نہیں جانتا‘‘کہنا بھی علم کا ایک حصہ ہے۔[ذم الکلام للہروی (أبو إسماعیل الہروی) ۱۶۵؍۳]
آپ رضی اللہ عنہما ہی سے منقول ہے کہ ایک دیہاتی نے آپ سے پوچھا کہ:
کیا پھوپھی وارث بن سکتی ہے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا:’’لا أدری‘‘(میں نہیں جانتا)، اس پر اعرابی نے کہا: آپ ابن عمر ہیں اور آپ نہیں جانتے!؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:’’ہاں نہیں جانتا، مدینہ کے علماء کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو‘‘، جب وہ واپس جانے لگا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے دونوں ہاتھ چومتے ہوئے کہا:
’’ابو عبدالرحمن (ابن عمر) نے کیا خوب کہا!
ان سے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا گیا جس کا انہیں علم نہیں تھا تو کہا:’’لا أدری‘‘’’یعنی میں نہیں جانتا‘‘۔ [تغلیق التعلیق لابن حجر، ۵؍۳]
نیز عقبہ بن مسلم رحمہ اللہ (۱۲۰ھ) سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:
’’میں تقریباً چونتیس مہینے تک ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ رہا، اکثر اوقات جب ان سے کوئی سوال پوچھا جاتا تو وہ کہتے:’’میں نہیں جانتا‘‘، پھر میری طرف متوجہ ہوکر فرماتے: “جانتے ہو ان لوگوں کا کیا ارادہ ہے؟ وہ چاہتے ہیں کہ ہماری پیٹھوں کو جہنم کا پل بنادیں‘‘۔
[جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر، ۲؍۸۴۱، برقم ۱۵۸۵]
(۳) عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہمانے فرمایا:
’’جس سے کوئی ایسی چیز پوچھی جائے جس کا اسے علم نہ ہو اور وہ کہہ دے کہ’’میں نہیں جانتا‘‘تو گویا کہ اس نے نصف علم حاصل کرلیا‘‘۔[العقد الفرید لابن عبد ربہ الأندلسی: ۸۵؍۲]
(۴) سعید بن جبیر رحمہ اللہ (۹۵ھ) سے کسی چیز کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:’’میں نہیں جانتا‘‘، پھر فرمایا: ’’اُس شخص کے لیے تباہی ہے جو اس چیز کے بارے میں جسے وہ نہیں جانتا، کہے کہ:’’میں جانتا ہوں‘‘۔[جامع بیان العلم وفضلہ، ۲؍ ۸۳۶، برقم ۱۵۶۸]
(۵) امام شعبی رحمہ اللہ (۱۰۶ھ) سے کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:’’میں نہیں جانتا‘‘۔
ان سے کہا گیا:کیا آپ کو’’میں نہیں جانتا‘‘کہنے میں شرم نہیں آتی، حالانکہ آپ اہلِ عراق کے فقیہ ہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:فرشتوں نے تو اس وقت شرم محسوس نہیں کی جب انہوں نے کہا تھا:
’’لا علم لنا إلا ما علمتنا‘‘۔’’ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تونے ہمیں سکھا رکھا ہے‘‘۔[إعلام الموقعین لابن القیم، ۱۰۶؍۵]
نیز فرمایا : ’’لا أدري‘‘یعنی قول’’میں نہیں جانتا‘‘کا کہنا نصف علم ہے ‘‘۔[ذم الکلام للہروی:۱۶۷؍۳]
(۶) ابن حصین رحمہ اللہ (۱۲۷ھ)نے فرمایا :
’’بلاشبہ ان میں سے کوئی ایک ایسے مسئلے میں فتویٰ دیتا ہے کہ اگر وہی مسئلہ عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش آتا تو وہ اس کے لیے بدری صحابہ کو جمع کرتے‘‘۔[إبطال الحِیَل لابن بطۃ :صـ: ۶۲]
(۸) امام مالک رحمہ اللہ (۱۷۹ھ) نے فرمایا:
’’عالم کو چاہیے کہ جس مسئلے میں اسے اشکال ہو، تو وہاں ’’لا أدری‘‘(میں نہیں جانتا)کہنے کا عادی بن جائے، کیونکہ ممکن ہے کہ اس میں اس کے لیے کوئی بھلائی مقدر ہو‘‘۔[جامع بیان العلم وفضلہ، لابن عبد البر: ۸۳۹؍۲، برقم ۱۵۷۴]
ہیثم بن جمیل رحمہ اللہ (۲۱۳ھ) امام مالک رحمہ اللہ کے متعلق کہتے ہیں :
’’میں نے امام مالک رحمہ اللہ کو سنا، ان سے ۴۸ مسائل پوچھے گئے، تو انہوں نے ۳۲ مسائل کے جواب میں ’’لا أدری‘‘(میں نہیں جانتا)کہا‘‘۔[سیر أعلام النبلاء : ۸؍ ۷۷]
(۹) شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ (۱۴۲۱ھ)نے فرمایا :
’’بے شک عقل، ایمان، تقویٰ اور اللہ کی تعظیم میں سے یہ ہے کہ آدمی کو اگر کسی چیز کے بارے میں علم نہیں، تو وہ کہے کہ ’’لا أعلم‘‘، ’’ولا أدری‘‘میں نہیں جانتا۔[کتاب العلم لابن عثیمین، ۵۸؍۱]
(۱۰) شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ (۱۴۲۹ھ)نے فرمایا :
عالم کی ڈھال’’لا أدری‘‘ہے۔[حلیۃ طالب العلم: ص: ۱۸۴]
(۱۱) شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
’’انسان کے لیے اس میں کوئی عار کی بات نہیں کہ وہ’’میں نہیں جانتا‘‘کہے، یا سائل سے کہے کہ انتظار کرو یا مجھ سے دوبارہ رجوع کرو، تاکہ وہ مسئلے پر غور و فکر کرسکے، یہ اس کے حق میں کوئی کمی نہیں بلکہ کمال ہے، کمی تو تب ہے جب وہ بغیر علم کے جواب دے اور اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بات کرے‘‘۔[من آداب المفتی والمستفتی؍موقع معالی الشیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ]
یہ تو مشت نمونہ از خروارے ہے ورنہ سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
ان تمام دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سلف صالحین کس قدر فتویٰ دینے میں احتیاط برتتے تھے، اور اگر انجانے میں کبھی ان سے کوئی غلط فتویٰ جاری بھی ہوجاتا تھا تو وہ چین سے نہیں بیٹھتے تھے یہاں تک کہ سامنے والے کو درست فتویٰ کی طرف رہنمائی کردیں، جیسا کہ قاضی حسن بن زیاد اللؤلؤی رحمہ اللہ (۲۰۴ھ) سے ایک مسئلہ کے بارے میں فتویٰ طلب کیا گیا تو انہوں نے وہ فتویٰ دینے میں غلطی کردی، اور جس شخص کو انہوں نے فتویٰ دیا تھا وہ بھی انہیں یاد نہ رہا، چنانچہ انہوں نے ایک منادی کرنے والے کو رکھا جو یہ اعلان کرتا تھا کہ:’’حسن بن زیاد سے فلاں دن ایک مسئلے کے بارے میں فتویٰ طلب کیا گیا تھا جس میں ان سے غلطی ہوگئی ہے، لہٰذا جس کسی کو بھی حسن بن زیاد نے کوئی فتویٰ دیا ہو، وہ ان سے رجوع کرے‘‘۔
اس کے بعد وہ کئی دنوں تک فتویٰ دینے سے رکے رہے، یہاں تک کہ وہ شخص مل گیا جسے انہوں نے فتویٰ دیا تھا، پھر انہوں نے اسے بتایا کہ ان سے فتوی دینے میں غلطی ہوگئی تھی اور صحیح فتویٰ یہ ہے۔[الفقیہ والمتفقہ، للخطیب البغدادی:۴۲۳؍۲]
چنانچہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ بغیر علم کے فتویٰ دینا شرعاً حرام اور عقلاً مذموم ہے، یہ نہ صرف ایک سنگین گناہ ہے بلکہ یہ دین کے ساتھ کھلواڑ اور لوگوں کی گمراہی کا سبب بھی بن سکتا ہے، خاص طور پر خواتین کو اس معاملہ میں زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان میں جلد بازی اور جذباتی پن کا عنصر غالب ہوتا ہے، انہیں چاہیے کہ دینی مسائل میں رائے زنی کرنے سے پہلے علم حاصل کریں اور مستند علماء سے رجوع کریں، نیز شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس قول کو ذہن نشین رکھیں کہ آپ رحمہ اللہ (۷۲۸ھ) نے فرمایا :
’’ہر وہ شخص جو علم رکھتا ہو، ضروری نہیں کہ وہ اسے بیان کرنے، اس کے لیے دلائل پیش کرنے پر بھی قادر ہو، کیونکہ علم ایک چیز ہے، اسے واضح طور پر بیان کرنا دوسری چیز ہے، اس پر مناظرہ کرنا اور اس کے دلائل قائم کرنا تیسری چیز ہے، اور مخالف کے دلائل کا جواب دینا چوتھی چیز ہے‘‘۔[جواب الاعتراضات المصریۃ:۴۴؍۱]
لہٰذا سلف صالحین کا طرزِ عمل ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے، انہوں نے’’لا ادري‘‘کہہ کر علم کی حرمت کو برقرار رکھا اور اپنی دیانت داری کا ثبوت دیا۔ ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علم کی قدر کرنی چاہیے اور بغیر علم کے فتویٰ دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے اور ہمیں ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھے۔آمین