Vbet Online Cassino Brasil

O Vbet Brasil é um dos sites de apostas mais procurados da América do Sul. Totalmente hospedado pelo respeitado arcoirisdh.com, o Vbet Brasil se dedica a fornecer aos seus membros experiências de jogo seguras e protegidas. A Vbet Brasil apresenta algumas das melhores e mais recentes máquinas caça-níqueis e jogos de mesa para os jogadores, dando-lhes a oportunidade de experimentar uma atmosfera de cassino da vida real em sua própria casa. A Vbet Brasil também vem com um forte sistema de bônus, permitindo aos jogadores desbloquear bônus e recompensas especiais que podem ser usados para ganhos em potencial. Em suma, a Vbet Brasil tem muito a oferecer a quem procura ação emocionante em um cassino online!

  • رسول اللہ ﷺ نے دس سال مدینہ میں قیام کیا اور ہر سال قربانی کرتے تھے تحقیق کے میزان پر…

    الحمد للّٰه وحده، والصلاة والسلام علٰي من لا نبي بعده، أما بعد:
    ٭ امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل الشیبانی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۴۱ھ)فرماتے ہیں:
    حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ زَكَرِيَّا، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أَقَامَ رَسُولُ اللّٰه صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ، يُضَحِّي (كُلَّ سَنَةٍ)۔
    ٭ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر القرشی المدنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
    رسول اللہﷺنے دس سال مدینہ میں قیام کیا اور ہر سال قربانی کرتے تھے۔
    ٭تخریج: مسند الإمام احمد بتحقیق شعیب الأرنوؤط ورفقائہ:۹؍۱۹، ح:۴۹۵۵،و سنن الترمذی بتحقیق الألبانی :ح:۱۵۰۷،والزیادۃ لہ ۔
    ٭حکم حدیث: یہ سند ضعیف ہے۔
    سبب: اس سند میں حجاج بن ارطاۃ الکوفی النخعی رحمہ اللہ ہیں جو کہ کثیر التدلیس ہیں اور آپ نے زیر بحث حدیث میں سماع کی صراحت نہیں کی ہے۔
    آپ نے درج ذیل لوگوں سے تدلیس کی ہے:
    (۱) ضعیف اور متروک راویوں سے۔
    (۲) جن سے آپ نے ملاقات کی ہے۔
    (۳) جن سے آپ کی ملاقات ثابت نہیں ہے ۔
    (۴) جن سے آپ نے حدیث نہیں سنی یا جن سے سماع ثابت نہیں ہے۔
    ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
    ٭ امام ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن المبارک المروزی رحمہ اللہ (المتوفی:۱۸۱ھ)فرماتے ہیں:
    رأيت الحجاج ابن أرطاة يحدث فِي مسجد الكوفة والناس مجتمعون عَلَيْه، وَهو يحدثهم بأحاديث مُحَمد بْن عَبيد اللّٰه العرزمي ، يدلسها حجاج عَن شيوخ العرزمي، والعرزمي قائم يصلي ما يقربه احد، والزحام على الحجاج۔
    میں نے حجاج بن ارطاۃ کو دیکھا کہ وہ کوفہ کی مسجد میں حدیث بیان کر رہا تھا اور لوگ اس کے پاس جمع تھے اور وہ ان کو محمد بن عبید اللہ العرزمی کی حدیث بیان کر رہا تھا ، حجاج ان احادیث کو عرزمی کے شیوخ سے تدلیس کرتے ہوئے (یعنی سند سے عرزمی کو ساقط کر کے ڈائریکٹ عرزمی کے شیوخ سے ) بیان کر رہا تھااور عرزمی کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہا تھا ، کوئی اس کے پاس نہیں تھا اور بھیڑ حجاج کے پاس تھی۔
    [الکامل لابن عدی بتحقیق مازن محمد السرساوی:۳؍۲۷۸، ت:۴۰۵وفیہ اَحْمَد بْن مُحَمد شیخ الساجی ولم اَعرفہ]
    ’’الکامل لابن عدی‘‘ میں امام ساجی کے احمد بن محمد نام کے کئی اساتذہ ہیں، ان کے نام درج ذیل ہیں:
    (۱) احمد بن محمد البغدادی (۲) احمد بن محمد بن بکر (۳) احمد بن محمد بن عمار (۴) احمد بن محمد العطار
    ان چاروں میں سے کون زیر بحث سند میں ہے، میں اس کا تعین نہیں کر سکا،بعد میں اگر ممکن ہوا تو اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔
    ٭ امام ابو زکریا یحییٰ بن معین البغدادی رحمہ اللہ (المتوفی:۲۳۳ھ) فرماتے ہیں:
    الحجاج بن ارطاة كوفي، ليس بالقوي، يدلس عن محمد بن عبيد اللّٰه العرزمي، عن عمرو بن شعيب۔
    حجاج بن ارطاۃ کوفی ہیں ، قوی نہیں ہیں، آپ نے عن محمد بن عبید اللہ العرزمی، عن عمرو بن شعیب کے طریق میں تدلیس کی ہے۔
    [الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۳؍۱۵۶، ت:۶۷۳وسندہ صحیح]
    امام محمد الذہبی رحمہ اللہ مذکورہ قول کے اخیر میں فرماتے ہیں:’’یعنی حجاج الکوفی نے عرزمی کو سند سے ساقط کر دیا ہے‘‘۔ دیکھیں :[سیر اعلام النبلاء بتحقیق محموعۃ من المحققین :۷؍۷۰]
    راقم کہتا ہے کہ محمد بن عبید اللہ عرزمی محدثین کے نزدیک متروک ہے۔دیکھیں :[تاریخ الإسلام للذہبی بتحقیق بشار عواد:۴؍۲۰۷، ت:۳۴۳]
    ٭ اما م ابوزرعہ عبید اللہ بن عبد الکریم الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:۲۶۴ھ) فرماتے ہیں:
    الحجاج بن ارطاۃ صدوق، مدلس۔
    حجاج بن ارطاۃ صدوق ہیں اور مدلس ہیں۔[الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۳؍۱۵۶، ت:۶۷۳]
    ٭ اما م ابو حاتم محمدبن ادریس الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:۲۷۷ھ) فرماتے ہیں:
    حجاج بن ارطاة، صدوق يدلس عن الضعفاء ، يكتب حديثه وإذا قال: حدثنا، فهو صالح لا يرتاب فى صدقه وحفظه إذا بين السماع، ولا يحتج بحديثه، لم يسمع من الزهري ولا من هشام بن عروة ولا من عكرمة۔
    حجاج بن ارطاۃ صدوق ہیں، ضعیف راویوں سے تدلیس کرتے تھے، ان کی حدیث لکھی جائے گی جب آپ حدثنا کہیں اور آپ صالح ہیں ، آپ کی صداقت میں کوئی شک نہیں ہے اور آپ کے حفظ میں بھی کوئی شک نہیں ہے جب آپ سماع کو بیان کریں اور آپ کی حدیث سے احتجاج نہیں کیا جائے گا ۔ آپ نے امام زہری، امام ہشام بن عروہ امام عکرمہ سے نہیں سنا ہے۔
    [الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی:۳؍۱۵۶، ت:۶۷۳]
    ٭ امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب النسائی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۰۳ھ)فرماتے ہیں:
    حَجَّاجُ بْنُ اَرْطَاةَ ضَعِيفٌ، صَاحِبُ تَدْلِيسٍ۔
    حجاج بن ارطاۃ ضعیف ہیں اور تدلیس کرنے والے ہیں۔
    [السنن الکبریٰ بتحقیق حسن عبد المنعم:۸؍۲۳۱، تحت الحدیث:۹۰۵۹]
    ٭ امام ابو جعفر احمد بن محمد النحاس رحمہ اللہ (المتوفی:۳۳۸ھ) فرماتے ہیں:
    وَهَذَا لَا حُجَّةَ فِيهِ لِاَنَّ الْحَجَّاجَ بْنَ اَرْطَاةَ يُدَلِّسُ عَمَّنْ لَقِيَهُ وَعَمَّنْ لَمْ يَلْقَهُ، فَلَا تَقُومُ بِحَدِيثِهِ حُجَّةٌ إِلَّا اَنْ يَقُول:حَدَّثَنَا اَوْ اَخْبَرَنَا اَوْ سَمِعْتُ۔
    یہ حدیث قابل احتجاج نہیں ہے کیونکہ حجاج بن ارطاۃ ان لوگوں سے تدلیس کرتے تھے جن سے انہوں نے ملاقات کی ہے اور ان سے بھی تدلیس کرتے تھے جن سے انہوں نے ملاقات نہیں کی لہٰذا ان کی حدیث سے احتجاج نہیں کیا جائے گا مگر جب آپ’’ حدثنا‘‘ یا’’ اخبرنا‘‘ یا ’’سمعت‘‘ کہیں ۔
    [الناسخ والمنسوخ بتحقیق الدکتور محمد عبد السلام : ص:۱۳۲]
    ٭ امام ابو الحسن علی بن عمر البغدادی الدارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۸۵ھ) فرماتے ہیں:
    وَالْحَجَّاجُ فَرَجُلٌ مَشْهُورٌ بِالتَّدْلِيسِ وَبِاَنَّهُ يُحَدِّثُ عَنْ مَنْ لَمْ يَلْقَهُ وَمَنْ لَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ۔
    اور حجاج تو یہ آدمی تدلیس کرنے میں مشہور ہے اور اس میں بھی مشہور ہے کہ اس نے ایسے لوگوں سے حدیث بیان کی ہے جن سے اس نے ملاقات نہیں کی اور ان سے بھی احادیث بیان کی ہے جن سے اس نے سنا نہیں ہے۔
    [سنن الدارقطنی بتحقیق شعیب الارنووط وغیرہ:۴؍۲۲۶، تحت الحدیث:۳۳۵۶]
    ٭ امام ابو یعلی خلیل بن عبد اللہ الخلیلی القزوینی رحمہ اللہ (المتوفی:۴۴۶ھ)فرماتے ہیں:
    عَالِمٌ ثِقَةٌ كَبِيرٌ ، ضَعَّفُوهُ لِتَدْلِيسِهِ۔
    حجاج بن ارطاۃ عالم، ثقہ اور بڑی شان والے ہیں۔ محدثین نے آپ کو آپ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔
    [الإرشاد فی معرفۃ علماء الحدیث بتحقیق محمد سعید:۱؍۱۹۵]
    ٭ امام ابو بکر احمد بن علی الخطیب البغدادی رحمہ اللہ (المتوفی:۴۶۳ھ)فرماتے ہیں:
    والحجاج احد العلماء بالحدیث، وَالحفاظ لہ، وَکَانَ مدلسا، یروی عمن لم یلقہ۔
    حجاج بن ارطاۃ حدیث کے علمائے کرام میں سے ایک ہیں اور حفاظ حدیث میں سے ہیں ۔ آپ مدلس تھے ، جن سے آپ نے ملاقات نہیں کی، ان سے آپ نے روایت بیان کی ہے۔
    [تاریخ بغداد بتحقیق بشار عواد :۹؍ ۱۳۳،ت:۴۲۹۴]
    ٭ امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی رحمہ اللہ (المتوفی:۶۷۶ھ) فرماتے ہیں:
    احد الائمة فى الحديث والفقه…واتفقوا على انه مدلس، وضعفه الجمهور، فلم يحتجوا به، ووثقه شعبة وقليلون۔
    حجاج بن ارطاۃ حدیث اور فقہ کے ائمۂ کرام میں سے ایک ہیں اور محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ مدلس ہیں اور جمہور ائمۂ کرام نے آپ کو ضعیف قرار دیا ہے اور آپ کی احادیث سے احتجاج نہیں کیا ہے اور امام شعبہ اور کئی ائمۂ کرام نے آپ کی توثیق کی ہے۔
    [تہذیب الاسماء واللغات :۱؍۱۵۲، ت:۱۱۲]
    ٭ امام ابو سعید خلیل بن کیکلدی العلائی رحمہ اللہ (المتوفی:۷۶۱ھ) فرماتے ہیں :
    (۱) مشہور بہ عن الضعفاء وغیرہم۔
    حجاج بن ارطاۃ ضعفاء وغیرہ سے تدلیس کرنے میں مشہور ہیں۔[جامع التحصیل فی احکام المراسیل بتحقیق حمدی السلفی : ص:۱۰۵، ت:۸]
    (۲) احد المکثرین من التدلیس۔
    حجاج بن ارطاۃ کثرت سے تدلیس کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔[جامع التحصیل فی احکام المراسیل بتحقیق حمدی السلفی : ص:۱۶۰، ت:۱۲۳]
    ٭ امام ابو زرعہ احمد بن عبد الرحیم ، المعروف بابن العراقی رحمہ اللہ (المتوفی:۸۲۶ھ)فرماتے ہیں:
    مشہور بالتدلیس عن الضعفاء ۔
    حجاج بن ارطاۃ ضعفاء سے تدلیس کرنے میں مشہور ہیں۔[کتاب المدلسین بتحقیق رفعت و نافذ : ص:۴۰، ت:۸]
    ٭ امام ابو الوفاء برہان الدین الحلبی رحمہ اللہ (المتوفی:۸۴۱ھ)فرماتے ہیں :
    مشہور بہ عن الضعفاء۔
    حجاج بن ارطاۃ ضعفاء سے تدلیس کرنے میں مشہور ہیں۔[التبیین لاسماء المدلسین بتحقیق یحیی شفیق حسن:ص:۲۰، ت:۱۱]
    ٭ اما م ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ(المتوفی:۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
    (۱) صدوق کثیر الخطا والتدلیس۔
    حجاج بن ارطاۃ صدوق ہیں اور کثرت سے غلطی کرنے والے اور کثرت سے تدلیس کرنے والے ہیں۔[تقریب التہذیب بتحقیق محمد عوامۃ : ص:۱۵۲، ت:۱۱۱۹]
    (۲) اپنی دوسری کتاب میں امام ترمذی کی ایک تصحیح کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    وَفِي تَصْحِيحِهِ نَظَرٌ كَثِيرٌ مِنْ اَجْلِ الْحَجَّاجِ فَإِنَّ الْاَكْثَرَ عَلَي تَضْعِيفِهِ وَالِاتِّفَاقُ عَلَي اَنَّهُ مُدَلِّسٌ۔
    امام ترمذی رحمہ اللہ کی تصحیح حجاج کی وجہ سے بلا شبہ محل نظر ہے کیونکہ حجاج کو جمہور ائمہ کرام نے ضعیف قرار دیا ہے اور ائمہ کرام کا اتفاق ہے کہ آپ مدلس ہیں۔
    [التلخیص الحبیر بتحقیق الدکتور محمد الثانی :۴؍۱۵۲۰]
    نیزآپ رحمہ اللہ نے طبقات المدلسین میں موصوف کو چوتھے طبقے میں ذکر کیا ہے۔دیکھیں :[تعریف اہل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس بتحقیق الدکتور عاصم : ص:۴۹، ت:۱۱۸]
    رہی بات حدیث کے پہلے ٹکڑے ’’رسول اللہ ﷺ نے دس سال مدینہ میں قیام کیا ‘‘ کی تو وہ ثابت ہے ، کیونکہ صحیح بخاری میں اس کا صحیح شاہد موجود ہے ۔یہی بات عبد اللہ بن عباس القرشی رضی اللہ عنہ نے کہی ہے ۔دیکھیں :[صحیح البخاری: ۳۸۵۱] واللہ اعلم۔
    ٭ زیر بحث حدیث کی بابت علمائے کرام کے اقوال :
    (۱) علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ امام ترمذی کی تصحیح نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
    قلت:ورجاله ثقات إلا ان ابن ارطاة مدلس، وقد عنعنه۔
    میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں لیکن ابن ارطاۃ مدلس ہیں اور آپ نے حدیث کو معنعن بیان کیا ہے۔
    [فی تعلیق ہدایۃ الرواۃ لابن حجر:۲؍۱۳۳، ح:۱۴۲۰]
    (۲) علامہ شعیب الارنووط اور ان کی ٹیم رقمطراز ہیں:
    إسناده ضعيف، فيه حجاج – وهو ابن ارطاة -، مدلس، وقد عنعن۔
    اس کی سند ضعیف ہے ، اس میں حجاج – یہ ابن ارطاۃ- ہیں اور آپ مدلس ہیں۔ آپ نے اس حدیث کو معنعن بیان کیا ہے ۔
    [فی تحقیق مسند الإمام احمد :۹؍۱۹، ح:۴۹۵۵]
    (۳) دکتور بشار عواد حفظہ اللہ امام ترمذی کی تصحیح کا تعاقب کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
    هكذا قال ، وفيه الحجاج بن ارطاة وهو مدلس وقد عنعنه۔
    اسی طرح کہا امام ترمذی رحمہ اللہ نے ۔ اس سند میں حجاج بن ارطاۃ ہیں اور وہ مدلس ہیں اور انہوں نے حدیث کو معنعن بیان کیا ہے ۔
    [فی تحقیق سنن الترمذی ، تحت الحدیث :۱۵۰۷]
    (۴) شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    إسنادہ ضعیف۔[رواہ الترمذی:۱۵۰۷]
    وقال:’’حسن‘‘۔حجاج بن ارطاة، ضعيف مدلس۔
    اس کی سند ضعیف ہے ، اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے ۔(اور حسن قرار دیا ہے)۔ حجاج بن ارطاۃ ضعیف اور مدلس ہیں۔
    [فی تحقیق مشکاۃ المصابیح:۱؍۴۸۳، تحت الحدیث:۱۴۷۵]
    (۵) علامہ ابو الحسن عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ امام ترمذی رحمہ اللہ کا حکم نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
    قلت:في إسناده حجاج بن ارطاة، وهو كثير الخطا والتدليس، ورواه عن نافع بالعنعنة۔
    میں کہتا ہوں کہ اس سند میں حجاج بن ارطاۃ ہیں اور آپ کثیر سے غلطی کرنے والے اور کثرت سے تدلیس کرنے والے ہیں اور آپ نے اس حدیث کو امام نافع سے معنعن بیان کیا ہے۔
    [مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح:۵؍۱۱۰، تحت الحدیث:۱۴۸۹،وانظر ایضا :۵؍۷۲، قبل الحدیث:۱۴۶۸]
    یہی بات علامہ محمد عبد الرحمن المبارکپوری رحمہ اللہ -صاحب تحفۃ الاحوذی- نے بھی کہی ہے۔دیکھیں :[تحفۃ الاحوذی بشرح جامع الترمذی:۵؍۸۰، تحت الحدیث:۱۵۰۷، الناشر :دار الکتب العلمیۃ – بیروت]
    ٭ تنبیہ بلیغ :
    زیر بحث حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن اور علامہ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔دیکھیں:[سنن الترمذی بتحقیق الالبانی : ح:۱۵۰۷،و مسند الإمام احمد بتحقیق الشیخ احمد محمد شاکر :۴؍۴۶۲، ح: ۴۹۵۵]
    راقم کہتا ہے کہ:
    (۱) امام ترمذی رحمہ اللہ کی تحسین کا تعاقب کئی علمائے کرام نے کیا ہے جیساکہ ان کے اقوال گذشتہ سطور میں گزر چکے ہیں۔
    اس پر مزید یہ کہ امام محمد الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    قَدْ يَتَرَخَّص التِّرْمِذِيُّ وَيُصحِّحُ لابْنِ اَرْطَاةَ، وَلَيْسَ بِجَيِّدٍ۔
    امام ترمذی رحمہ اللہ نے نرمی برتی ہے اور حجاج بن ارطاۃ کی احادیث کو صحیح قرار دیا ہے جو کہ اچھا نہیں ہے۔
    [سیر اعلام النبلاء بتحقیق مجموعۃ من المحققین:۷؍۷۲، ت:۲۷]
    (۲) علامہ احمد محمد شاکر المصری رحمہ اللہ کا زیر بحث حدیث کی سند کو صحیح قرار دینا بلا شبہ درست نہیں ہے کیونکہ آپ نے حجاج بن ارطاۃ الکوفی رحمہ اللہ کا سماع پیش نہیں کیا ہے جو کہ حدیث کی علت ہے۔ کئی محدثین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ آپ جب ’’حدثنا ‘‘یا’’ سمعت‘‘ کہیں ، تب آپ کی حدیث سے احتجاج کیا جائے گا کیونکہ جن سے آپ کا لقاء ثابت ہے اور جن سے آپ کا لقاء ثابت نہیں ہے، سب سے آپ نے تدلیس کی ہے حتی کہ ضعیف اور متروک رواۃ سے بھی تدلیس کی ہے۔
    ٭ زیر بحث حدیث کا ایک شاہد :
    ٭ اما م ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی ،المعروف بابن سعد رحمہ اللہ(المتوفی:۲۳۰ھ) رقمطراز ہیں:
    اَخبَرنا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَر، اَخبَرنا عَبدُ الله بن عَبد الرَّحمَن الجُمَحيُّ، عَن الزُّهريِّ، عَن عُروَةَ، عَن عائِشَةَ۔
    (ح) قالَ: واَخبَرنا عُبيد اللّٰه بن عُمَر، عَن نافِعٍ، عَن ابن عُمَر
    (ح) قال: واَخبَرنا عَبدُ العَزيز بن مُحَمدٍ، عَن رُبَيح بن عَبد الرَّحمَن بن اَبي سَعيدٍ الخُدريِّ، عَن اَبيه، عَن جَدِّه، قالوا: نَزَلَ فَرضُ شَهر رَمَضانَ بَعدَ ما صُرِفَت القِبلَةُ إِلَي الكَعبَة بِشَهرٍ فى شَعبانَ عَلَي رَاس ثَمانيَةَ عَشَرَ شَهرًا مِن مُهاجَر رَسول اللّٰه صَلي اللّٰه عَليه وسَلم، واُمِرَ رَسولُ اللّٰه صَلي اللّٰه عَليه وسَلم فى هَذِه السَّنَة بِزَكاة الفِطرِ، وذَلِكَ قَبلَ اَن تُفرَضَ الزَّكاةُ فى الاَموالِ، واَن تُخرَجَ عَن الصَّغير والكَبير والحُرّ والعَبد والذَّكَر والاُنثَي: صاعًا مِن تَمرٍ، اَو صاعًا مِن شَعيرٍ، اَو صاعًا مِن زَبيبٍ، اَو مُدّان مِن بُرٍّ، وكانَ يَخطُبُ رَسولُ اللّٰه صَلي اللّٰه عَليه وسَلم قَبلَ الفِطر بيَومَين، فَيَامُرُ بِإِخراجِها قَبلَ اَن يَغدوَ إِلَي المُصَلَّي، وقال: اَغنوهُم يَعني المَساكينَ عَن طَواف هَذا اليَومِ، وكانَ يَقسِمُها إِذا رَجَعَ وصَلَّي رَسولُ اللّٰه صَلي اللّٰه عَليه وسَلم صَلاَةَ العيد يَومَ الفِطر بِالمُصَلَّي قَبلَ الخُطبَةِ، وصَلَّي العيدَ يَومَ الاَضحَي واَمَرَ بِالاُضحيَّةِ، واَقامَ بِالمَدينَة عَشرَ سِنينَ يُضَحّي فى كُلّ عامٍ.
    [الطبقات الکبیر بتحقیق الدکتور علی محمد عمر:۱؍۲۱۳، رقم:۵۵۹، ہذہ الاسانید کلھا واہیۃ لمحمد بن عمر الواقدی]
    مذکورہ تمام سند وں کو بیان کرنے والے محمد بن عمر الاسلمی الواقدی ہیں، ان کے علاوہ کسی نے ان سندوں کو بیان نہیں کیا ہے، جمہور ائمۂ کرام نے آپ پر جرح کی ہے، آپ متروک الحدیث ہیں ۔ کئی ائمۂ کرام نے آپ کو جھوٹا اور حدیث گھڑنے والا قرار دیا ہے۔
    ائمۂ کرام کے اقوال کے لیے دیکھیں :[تہذیب الکمال للمزی بتحقیق بشار عواد:۲۶؍۱۸۰، ت:۵۵۰۱]
    لہٰذا یہ سندیں نا قابل احتجاج اور تقویت کے قابل نہیں ہیں۔واللہ اعلم۔
    ٭ نبی کریم ﷺنے پہلی قربانی کب کی ؟
    ٭ امام علی بن محمد الجزری ، عز الدین ابن اثیر رحمہ اللہ(المتوفی:۶۳۰ھ) فرماتے ہیں:
    وفي السنة الثانية…وفيها ضحي رَسُول اللّٰه صَلَّي اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، وخرج بالناس إلى المصلي، وذبح بيده شاتين، وقيل شاةأ
    سن دو ہجری میں رسول اللہ ﷺنے مدینہ میں قربانی کی، آپ لوگوں کے ساتھ عید گاہ نکلے اور اپنے ہاتھ سے دو بکریاں ذبح کیں اور کہا گیا ہے کہ ایک بکری ذبح کی۔
    [اسد الغابۃ :۱؍۲۹، الناشر:دار الفکر – بیروت]
    ٭ امام ابو حفص عمر بن علی المصری، المعروف بابن الملقن رحمہ اللہ (المتوفی:۸۰۴ھ) فرماتے ہیں:
    فقد اشْتهر فِي السّير اَن اول عيد شرع عيد الْفطر، وَاَنه فِي السّنة الثَّانِيَة من الْهِجْرَة ۔
    سیرت کی کتابوں میں مشہور ہے کہ پہلی عید جو مشروع ہوئی وہ عید الفطر ہے اور یہ سن دو ہجری میں ہوئی ہے ۔
    [البدر المنیر بتحقیق مصطفی وغیرہ :۵؍۳۳، کتاب صلاۃ العیدین]
    ٭ یہی بات حافظ بن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی:۸۵۲ھ) نے بھی کہی ہے۔دیکھیں:[التلخیص الحبیر بتحقیق محمد الثانی:۳؍۱۰۶۹]
    اور بھی کئی علمائے کرام نے یہ بات کہی ہے۔ بس مجھے اس تعلق سے کوئی صحیح حدیث یا کوئی صحیح اثر نہیں مل سکا۔
    مذکورہ تمام اقوال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریم ﷺنے پہلی قربانی سن دو ہجری میں کی ، دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ آپ مدینہ میں دس سال رہے (صحیح البخاری:۳۸۵۱)اور ہر سال آپ نے قربانی نہیں کی کیونکہ پہلے سال قربانی مشروع نہیں ہوئی تھی۔واللہ اعلم۔
    ٭ اب چند باتیں بطور فائدہ پیش خدمت ہیں :
    (فائدہ نمبر:۱) نبی کریم ﷺکا مدینہ منورہ میں عید الاضحی کے دن قربانی کرنا ثابت ہے۔
    حضرت عبد اللہ بن عمر القرشی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
     اَنَّ رَسُولَ اللّٰه ﷺَ نَحَرَ يَوْمَ الْاَضْحَي بِالْمَدِينَةِ ، قَال: وَقَدْ كَانَ إِذَا لَمْ يَنْحَرْ، يَذْبَحُ بِالْمُصَلَّي۔
    رسول اللہ ﷺعید الاضحی کے دن مدینہ منورہ میں اونٹ نحر کیا اور جب اونٹ نحر نہیں کرتے تو بکری کو عید گاہ لے جا کر ذبح کرتے۔
    [سنن النسائی بتحقیق الالبانی ، ح:۴۳۶۷وصححہ الالبانی]
    (فائدہ نمبر:۲) حجاج بن ارطاۃ الکوفی رحمہ اللہ کی بابت کئی ائمہ کرام نے یہ بات کہی ہے کہ جمہور ائمہ کرام نے آپ کو ضعیف قرار دیا ہے۔
    دیکھیں :[تہذیب الاسماء واللغات للنووی:۱؍۱۵۲، ت:۱۱۲،و التلخیص الحبیر لابن حجر بتحقیق الدکتور محمد الثانی:۴؍۱۵۲۰وغیرہ]
    راقم کہتا ہے کہ:
    (۱) اگر حجاج الکوفی کی بابت امام نووی اور امام ابن حجر رحمہما اللہ وغیرہ کی تحقیق راجح ہے تو زیر بحث حدیث کی علتوں میں حجاج الکوفی کا ضعف بھی شامل ہو جائے گا۔
    (۲) کئی محققین نے یہ بات کہی ہے کہ آپ صدوق حسن الحدیث ہیں لیکن فی الحال میں نے حجاج کی تضعیف کی بابت مفصل تحقیق نہیں کی ہے، اللہ نے توفیق دی تو اس پر مفصل تحقیق کی جائے گی ۔
    ٭ خلاصۃ التحقیق:
    زیر بحث حدیث بلا شبہ ضعیف ہے۔ بعض علمائے کرام کا اسے قابل احتجاج قرار دینا بلا شبہ درست نہیں ہے کیونکہ اس حدیث کو حجاج بن ارطاۃ الکوفی نے بیان کیا ہے اور آپ کثیر التدلیس ہیں اور آپ نے سماع کی صراحت نہیں کی ہے ۔اور اس حدیث کا شاہد اسے قوت دینے والا نہیں ہے کیونکہ وہ سخت ضعیف ہے۔ ہاں زیر بحث حدیث کا پہلا ٹکڑا ’’رسول اللہ ﷺ نے دس سال مدینہ میں قیام کیا ‘‘ وہ ثابت ہے ، کیونکہ صحیح بخاری میں اس کا صحیح شاہد موجود ہے ۔واللہ اعلم۔

نیا شمارہ

مصنفین

Website Design By: Decode Wings