العبد التقی الغنی الخفی (سانحہ ارتحال والدگرامی مولانا فضل حق مدنی مبارکپوری رحمہ اللہ) (تیسری اور آخری قسط)
اخلاص وسادہ نفسی:
ابو محترم اخلاص، سادگی، بے لوثی، دنیا سے بے زاری، ملذات فانی سے کنارہ کشی بلکہ نفور، قناعت پسندی اور جاہ وحشمت سے اعراض جیسی صفات سے معمور تھے، آپ کی زبان سے ہم نے کبھی دنیا کی بابت باتیں نہ سنیں، نہ کبھی انہیں دنیا داری کرتے دیکھا، نہ دنیادار لوگوں سے قر یب دیکھا، آپ کا مطمح نظر آخرت کے علاوہ کچھ نہ تھا، اس کے پورے اثرات ظاہری رکھ رکھاؤ پر غالب آگئے تھے، شروع میں جب آپ جوان تھے، آپ بودوباش اور لباس وپوشاک میں انتہائی اعلیٰ نفاست کامظاہرہ کرتے، لیکن جلد ہی یہ سب کچھ بدل گیا، رہن سہن، بودوباش اور گزارہ زیست میں انتہائی محتاط ہوگئے، اخلاص اور بے نفسی کی زندگی پر راضی ہوگئے، یہ سادگی اتنی زیادہ ہوگئی کہ کپڑے عموماً بے استری زیب تن کرنے لگے، کہیں جاتے تو بھی اسی لباس میں، انہیں دیکھ کر لوگ عام آدمی سمجھتے، ہم لوگ جب آپ کی توجہ دلاتے تو بڑی شان بے نیازی سے کہتے بیٹا رہنے دو، ایسے ہی ٹھیک ہے۔
بزرگ عالم دین محترم جناب مولانا مقتدیٰ عمری اعظمی؍حفظہ اللہ (مؤلف تذکرۃ المناظرین) اپنے مضمون ’’سرزمین مبارکپور کا ایک علمی چراغ گل ہوا‘‘میں رقمطراز ہیں:
’’یہ جنازہ کی بھیڑ اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ شیخ فضل حق صاحب مبارکپوری کی زندگی اگرچہ گوشہ نشینی اور سادگی میں گزری، مگر ان کی دینی خدمات، اخلاص اور تربیت نے ایسا اثر چھوڑا کہ ان کے رخصت ہونے پر ہر آنکھ اشکبار تھی، ہر دل مغموم تھا اور ہر زبان ان کے لیے دعائیں کررہی تھی‘‘۔
محترم ڈاکٹر عبدالغنی القوفی (استاد جامعہ سراج العلوم)لکھتے ہیں:’’آپ کی ذات سادگی، تقویٰ، زہد، حلم اور علم کا ایک حسین امتزاج تھی۔ دنیا سے بے رغبتی، اخلاص، تواضع اور عبادت گزاری آپ کی زندگی کے نمایاں اوصاف تھے۔ آپ ہمیشہ کتاب و سنت کے علوم کو عام کرنے، طلبہ کی صحیح رہنمائی کرنے اور دینی بیداری پیدا کرنے میں مصروف رہے۔ ان کا طرزِ تدریس، اندازِ نصیحت، اور طلبہ سے شفقت بھرا رویہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا‘‘۔
شیخ اشفاق سلفی (حیدرآباد) اپنے مضمون ’’ایک مربی کی رحلت‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:
’’جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں میں نے تقریباً پندرہ سال گزارا ہے، جس میں دور طالب علمی اور زمانہ تدریس دونوں شامل ہیں، اس پورے عرصے میں آپ کے ساتھ بہت قربت رہی اور بہت قریب سے آپ کو دیکھنے کا موقع ملا، آپ کی شخصیت بہت متواضع اور سادہ تھی، آپ اچھے اخلاق کا پیکر اور ملنسار تھے، آپ کے حلیے اور پوشاک اور رہن سہن سے قطعاً یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ آپ قصبہ مبارکپور کے ایک متمول گھرانے کے چشم وچراغ ہیں، آپ پر نظر پڑتے ہی جو پہلا تاثر ذہن میں ابھرتا تھا وہ یہ کہ ایک داعی، ایک مبلغ اور مربی کی شخصیت ہے اور میں سمجھتا ہوں عوام وخواص میں آپ اسی حیثیت سے پہچانے گئے‘‘۔
اہلیہ محترمہ حافظہ نغمہ ارم سلمہا کہنے لگیں:’’ابو جیسا سادہ نفس ، پرہیزگار، مخلص اور بے غرض شخص میں نے نہیں دیکھا‘‘۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
تدریس وافادہ:
ابو محترم کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو آپ کا طویل تدریسی دورانیہ ہے، یہ مدت تقریباً تینتالیس سال پر محیط ہے، یہ کوئی ایک دو سال کی بات نہیں، یہ بجائے خود آپ کی مستقل مزاجی، شریعت سے گہری وابستگی، زہد وتقویٰ اور دنیا بیزاری کی انتہائی مستحکم دلیل ہے، آپ نے اپنے انداز تدریس وتربیت سے ایک نسل کو متاثر کیا اور انہیں مضبوط دینی بنیادیں عطا کیں، بقول حضرت محترم مولانا شمیم احمد ندوی (ناظم اعلیٰ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر)آپ کے والد گرامی نے تقویٰ وطہارت کی زندگی گزاری، اپنے دروس اور اپنی تربیت سے جامعہ میں ایک نسل کومتاثر کیا ‘‘۔
مولانا ندوی حفظہ اللہ اپنے تعزیتی مضمون میں مزید فرماتے ہیں:
’’مولانا فضل حق مبارکپوری کا سانحہ ارتحال نہ صرف ان کے اہل وعیال اور ان کے ورثاء وپسماندگان کے لیے ایک المناک سانحہ ہے بلکہ جامعہ سراج العلوم کے پورے خانوادہ کے لیے ایک باعث رنج وملال حادثہ ہے، وہ طویل عرصہ تک جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ جب جامعہ سراج العلوم میں عا لمیت تک کی تعلیم ہونے لگی اور اس کا معادلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے کئے جانے کی کاروائی شروع کی گئی تو اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کچھ اچھے اور باصلاحیت اساتذہ بالخصوص جامعہ اسلامیہ کے فارغین کی جامعہ میں تدریسی خدمات کے لیے تقرری کی جائے، چنانچہ خطیب الاسلام علامہ جھنڈانگری رحمہ اللہ کی دعوت اور ان کے طلب پر ایک ساتھ جن چھ اساتذہ کی تقرری ہوئی تھی اور جن کا ابتعاث رابطہ عالم اسلامی نے منظور کیا تھا ان میں سے مولانا فضل حق رحمہ اللہ ایک تھے، وہ بہت محنت وجاں فشانی اور پوری ذمہ داری سے اپنی تفویض کردہ کتابوں کا درس دیتے تھے، اور جامعہ کی تعمیرو ترقی سے ازحد لگاؤ رکھتے تھے، وہ بہت ہی خوش مزاج اور راضی برضائے الٰہی رہنے والے، بہت صلح جو، محتاط اور قناعت پسند ہونے کے ساتھ بہت تقویٰ شعار اور نیک ودیانت دار تھے۔ وہ جامعہ میں کوئی بھی کمی دیکھتے تھے تو نہ صرف اس کی طرف توجہ دلاتے تھے بلکہ اس کی اصلاح کا حل بھی پیش کرتے تھے‘‘۔
مولانا رفیع احمد مدنی (آسٹریلیا) میرے نام اپنے تعزیتی مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’آپ کے والد خوش قسمت تھے،جامعہ سے فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ سے استفادہ کیا۔ یہاں سے فراغت کے بعد درس وتدریس میں آگئے اور مدرسے سے تعلق جوڑا۔ پوری عمر سراج العلوم جھنڈا نگر اور اس کے تابع بعض اداروں میں گزاری۔ اپنی پوری زندگی علم کی خدمت کے لیے وقف کردی، خاموشی سے علم کی آبیاری کرتے رہے، وطن عزیز سے دور رہ کر ایک نسل کی تربیت کی۔ الحمد للہ، خوش قسمتی کی بات ہے کہ اپنے بچوں کی اسلامی تربیت میں بھی کامیاب رہے۔آپ سب کے لیے یہ بات باعث افتخار ہے‘‘ ۔
(امیر جمعیت اہل حدیث ہند) شیخ اصغر علی امام مہدی سلفی لکھتے ہیں:
’’جامعہ سلفیہ بنارس اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے فارغ التحصیل تھے ۔فراغت کے بعد آپ نے پوری زندگی درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کے لیے وقف کردی ۔بیالیس سال تک جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈا نگر میں تدریسی خدمات انجام دیں۔دعوت وتبلیغ کے کاز سے کافی شغف تھا۔دیگر علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ علم فرائض اور عروض میں بھی ملکہ حاصل تھا۔کبھی کبھی شاعری بھی کرتے تھے۔آپ کے شاگردوں کی بڑی تعداد ہے جو آپ کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں۔مجھ ناچیز سے بڑی محبت فرماتے تھے اور ملاقاتوں میں بڑی دعائیں دیتے تھے ‘‘۔
محترم ڈاکٹر عبدالغنی القوفی (استاد جامعہ سراج العلوم)اپنے ایک قیمتی علمی مضمون میں لکھتے ہیں:
’’شیخ فضل حق مبارکپوری رحمہ اللہ کا شمار جامعہ سراج العلوم السلفیہ، جھنڈا نگر نیپال کے ان محسن اساتذہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی علم و تعلیم، دعوت و اصلاح اور طلبہ کی دینی و اخلاقی تربیت میں گزار دی۔ آپ نے جامعہ سراج العلوم السلفیہ اور اس کی شاخ کلیہ عائشہ صدیقہ میں ایک طویل مدت تک تدریسی خدمات انجام دیں، اور ہزاروں طلبہ آپ کے علمی چشمہ فیض سے سیراب ہوئے۔ آج آپ کے شاگرد مختلف محاذوں پر دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں، جو یقیناً آپ کے لیے صدقۂ جاریہ ہیں‘‘۔
مزید لکھتے ہیں:
’’ان کا طرز تدریس، انداز نصیحت، اور طلبہ سے شفقت بھرا رویہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا‘‘۔
برادر گرامی شیخ عبدالغفار سلفی (معروف عالم و خطیب) لکھتے ہیں:
’’شیخ فضل حق مبارکپوری رحمہ اللہ کی ساری زندگی گیسوئے علم و فن سنوارنے اور تشنگان علم دین کی پیاس بجھانے میں گزری ہے۔ ایک زمانے سے جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں تدریسی فرائض انجام دے رہے تھے۔آپ کی تمام اولاد علم و عمل کے معاملے میں صحیح معنوں میں آپ کی وارث ہے‘‘۔
برادر عزیز شیخ خالدرشیدسراجی (استاد جامعہ سراج العلوم) رقمطراز ہیں:
’’اللہ استاد مکرم کی مغفرت فرمائے اور آپ تمام کو صبر و شکیبائی دے۔ گہری نیند میں تھا کہ ساڑھے بارہ سے پہلے اہلیہ نے جگایا اور استاد محترم کے انتقال کی اطلاع دی، سن کر دل دھک سے رہ گیا اور ہم دونوں کی آنکھوں سے آنسو استاد محترم کی یادوں میں بہنے لگے۔رات بیت رہی ہے لیکن نیند کہاں آئی، بستر پر کروٹیں بدل رہا ہوں۔ دل غمگین ہے اور آنکھیں اشک بہا رہی ہیں اور زبان پر دعائیہ کلمات ہیں ۔اللہ اس مرد درویش کی مغفرت فرما جو پوری زندگی قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں دیتا رہا۔ الوداع استاد مکرم!الوداع استاد محترم‘‘!
شیخ عطاء الرحمن رامپوری (قصیم یونیورسٹی)لکھتے ہیں:
’’شیخ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں مدرس تھے، شیخ نے تقریباً نصف صدی علم و معرفت کی خدمت میں گزاری ہے۔ صاحب زادگان کو دیکھ کر ان کے والد مرحوم کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘‘۔
شیخ اجر الدین معین فیضی (استاد المعہد الإسلامی۔ سدھارتھ نگر)لکھتے ہیں:
’’استاد محترم:’’نہایت ملنسار، خوش اخلاق اور علم و عمل کے پیکر تھے۔ ان کی صحبت علم و حکمت سے بھرپور اور ان کا انداز تدریس محبت و شفقت کا آئینہ دار تھا۔ طلبہ کے ساتھ شیخ کا رویہ نہایت مشفقانہ ہوتا تھااور آپ کی گفتگو دلوں کو تسلی اور سکون بخشتی تھی‘‘۔
مولانا نور عالم سراجی آپ کے معلمانہ ومربیانہ اسلوب وطریقۂ کار کی بابت لکھتے ہیں:
’’شیخ محترم ایک عظیم دینی سرپرست،تجربہ کار مربی،باشعور منتظم اور مصلح و مخلص داعی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باصلاحیت اور کہنہ مشق استاذ بھی تھے، مجھے شیخ محترم سے ’’فقہ السنہ‘‘وغیرہ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ہے ، شیخ محترم کے درس و تدریس کا انداز بہت نرالا تھا موضوع سے متعلق اس طرح سے گفتگو فرماتے کہ دل مطمئن ہوجاتا، نقلی و عقلی دلائل سے بات اس طرح واضح فرماتے کہ کوئی اشکال باقی نہ رہ جاتا اور باتیں نقش بن کر ذہن میں بیٹھ جاتی تھیں، مسائل کو سمجھاتے ہوئے سارے ائمہ خصوصاً امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا اس مسئلے میں کیا موقف ہے، اس طرح فر فر بیان کرتے گویا کہ ساری باتیں حفظ ہیں۔ حنفیت اور مقلدیت کو ترک کر کے مجھے جو صحیح راستے کی رہنمائی ملی ہے اس میں شیخ محترم کا بہت اہم کردار رہا ہے ۔تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اپنے تلامیذ کی مدح سرائی و ہمت افزائی بھی فرماتے رہتے تھے‘‘۔
گویا عہد حاضر میں آپ کے گہوارہ ٔتربیت کے ہر فیض یافتہ کو بجائے خود اعتراف ہے کہ اس گہوارۂ علم وعمل اور شعور وتقویٰ میں رہ کر ہم انجم کے ہم قسمت ہوئے۔ عؔ
تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا گھر میرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا
تکریم علماء:
ابو رحمہ اللہ اہل علم وفضل کی انتہائی تکریم کیا کرتے تھے، ان کی ضیافت اور مہمان نوازی فیاضانہ طریقے سے کرتے، یہی وجہ ہے کہ اکثر ہمارے یہاں اہل علم آتے اور آپ بغیر کھانا کھلائے جانے نہ دیتے، ان کی تکریم وضیافت میں ذرا بھی کوتاہی نہ کرتے اور ہر آسانی پہنچانے کی کوشش کرتے، ہم نے وقت کے مقتدر علماء کو بار بار اپنے گھر مدعو پایا۔
حضرت شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ سے انتہائی عقیدت رکھتے تھے، شیخ الحدیث بھی انتہائی محبت وشفقت رکھتے تھے، ابو رحمہ اللہ جب آپ کا ذکر کرتے تو ہمیشہ ’’بڑے دادا‘‘کہتے تھے، احتراماً کبھی نام نہ لیتے، آپ کے ذکر پر اکثر آبدیدہ ہوجایا کرتے۔ کہتے بڑے دادا جب اپنے استاذحضرت العلام عبدالرحمن محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کا ذکر کرتے تو نام نہ لیتے،انتہائی احترام سے ہمیشہ’’بڑے مولانا‘‘کہہ کر یاد کرتے، جب حضرت مولانا نذیر احمد رحمانی املوی رحمہ اللہ کا ذکر کرتے تو احترام سے ’’مولانا املوی‘‘کہا کرتے، ان دونوں حضرات کا ذکر کرتے تو اس قدر عقیدت ومحبت سے کہ ہر شخص کو ان حضرات کی عظمت کا احساس ہوجاتا۔
امام ابن باز رحمہ اللہ کے ذکر پر اکثرآبدیدہ ہوجاتے، کہ آپ ان کی مجلس کے حاضر باشوں میں سے تھے، شیخ بھی آپ سے شیخ الحدیث رحمہ اللہ سے نسبت کی وجہ سے بڑی انسیت رکھتے تھے، جامعہ اسلامیہ مدینہ میں داخلہ سے لے کر بحیثیت موظف سعودی عرب میں اور پھر بحیثیت استاذ جھنڈا نگر میں تقرر در اصل آپ کے الطاف کریمانہ کا نتیجہ تھا، جسے ابو رحمہ اللہ نے ہمیشہ یاد رکھا، یہی وجہ ہے کہ شیخ کے انتقال پرآپ نے انتہائی رقت آمیز مرثیہ لکھا، جس کی ایک دوسطریں مجھے یاد آرہی ہیں۔ ایابونا شیخنا!اے ابن باز… یاد آتا ہے مجھے مکہ وطائف کا ملن…۔
اپنے اساتذہ میں حضرت مولانا ادریس آزاد رحمانی، مولانا صفی الرحمن مبارکپوری، ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری اور مولانا محمد رئیس ندوی رحمہم اللہ کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کرتے، مولانا آزاد رحمانی کی سادہ مزاجی وعمدگی تحریر، مولانا مبارکپوری کی ذہانت اور ہمہ جہتی،ڈاکٹر ازہری کے رعب اور علمی انہماک اور مولانا ندوی کے وسعت نظر کا ذکر والہانہ انداز میں کرتے۔ اسی طرح جد محترم حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوری وحضرت ڈاکٹر عبدالعزیز رحمانی حفظہما اللہ سے بڑی محبت وعقیدت سے پیش آتے، ہمیشہ قدر کرتے، جب بھی آتے ان دونوں حضرات سے ملاقات کے لیے جاتے، اول الذکر کو ہمیشہ بڑے ابا کہتے اور ثانی الذکر کو چچا کہتے۔ابو رحمہ اللہ کی نعش جب مبارکپور لائی گئی تو دونوں حضرات تشریف لائے ، اول الذکر دیکھتے ہی بلک بلک کر بچوں کی طرح رونے لگے اورثانی الذکر بھی دیر تک مغموم وساکت رہے۔
بزرگ دوستوں میں شیخ ابوالقاسم فاروقی؍حفظہ اللہ کی بڑی قدر کرتے، شیخ بھی جب تشریف لاتے دیر تک علمی مجلس گرم رکھتے، دہلی میں اکثر اجتماع ہوجاتا، ہم بھی شیخ کے علمی لطائف سے محظوظ ہوتے۔
معاصرین اور دوستوں میں شیخ عزیر شمس؍رحمہ اللہ کی ذہانت وکثرت اطلاع اور انہماک کا بہت ذکر کرتے، شیخ عزیر بھی ہم لوگوں سے بالکل بیٹوں جیسا سلوک کرتے۔
شیخ صلاح الدین مقبول؍حفظہ اللہ سے بھی بڑا قرب تھا، آپ کے علم وفضل کا اکثر اعتراف کرتے اور سراہتے، شیخ بھی اکثر بیماری کے عالم میں دہلی گھر پر تشریف لاتے اور عدیم الفرصتی کے باوجود دیر تک بیٹھے دلجوئی کرتے رہتے، علماء میں شیخ ہی ہیں جن سے ابو کی آخری ملاقات ہوئی ، وفات سے ایک روز پہلے شیخ تشریف لائے اور دیر تک دعائیں کرتے رہے اور انتقال کے بعد بھی ہم سب بھائیوں سے مسلسل رابطہ میں رہے۔ جزاہم اللہ خیرا۔
جھنڈانگر کے احباب میں شیخ مختار احمد مدنی؍رحمہ اللہ، شیخ عبدالرشید مدنی؍حفظہ اللہ ابو رحمہ اللہ کے ساتھ انتہائی مخلصانہ انداز کی دوستی تھی، ابو ان حضرات سے بڑی محبت رکھتے تھے، یہ حضرات بھی ہم سب سے گھریلو انداز کی شفقت رکھتے تھے، خاص کر شیخ عبدالرشید مدنی حفظہ اللہ۔ جب آپ مبارکپور پہنچے اور ابو رحمہ اللہ کو دیکھاتو زاروقطار رونے لگے، دیر تک یہی کیفیت رہی، اللہ تعالیٰ ان سب مخلصین کو خوش رکھے۔
اسی طرح شیخ خورشید احمد سلفی اور شیخ عبدالمنان سلفی سے بھی گھریلو نوعیت کے مراسم رہے۔ خردوں میں وہاں ڈاکٹر عبدالغنی القوفی، شیخ خالد رشید سراجی، شیخ وصی اللہ مدنی اور شیخ سعود اختر سلفی وغیرہم کی قدر کرتے تھے۔ (بہت ممکن ہے میری یادداشت سے کچھ نام رہ گئے ہوں)
وصیت:
ابو رحمہ اللہ نے انتقال سے دو تین ماہ قبل وصیت لکھی تھی، اس وقت وہ کافی بیمار تھے، جسم کے مختلف حصوں میں سخت قسم کا درد تھا، اٹھنا بیٹھنا مشکل ہورہا تھا، لیکن اسی عالم میں انہوں نے یہ کلمات تحریر فرمائے۔ وصیت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ تقویٰ شعاری، نیک نفسی، اخلاص وللہیت اور اعراض عن الدنیا کے کس مقام پر فائز تھے، اخروی وایمانی تربیت کی بات کس قدر فکر مند ہوتے تھے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، کہا جاسکتا ہے کہ اختصار کے باوجود یہ جملے جو دل کی گہرائی سے نکلے شاہکار اور آپ کی پوری زندگی کی تصویری جھلک پیش کرتے ہیں۔
’’میرے بچو اور بچیو! نماز کی پابندی رکھنا اور جماعت سے نماز پڑھتے رہنا، اور پورے طور پر زکاۃ نکالتے رہنا، کوشش کرکے فاضل (زیادہ) نکالنا، اللہ تعالیٰ اس سے بلائیں دور کرتا ہے۔
میرے بچو! میں تم سب سے راضی اور خوش ہوں، تم لوگ میرا اور اپنی ماں کا پورا خیال رکھتے ہو، اور آپس میں جھگڑا لڑائی نہ کرنا، پیار محبت سے بٹوارہ کرلینا، ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو دونوں جہاں میں عزت دے گا۔ اور برابر توبہ واستغفار کرتے رہنا۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور تنہائی میں اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں کرتے رہنا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تنہائی کے آنسو بہت پسند ہیں اور انسانیت کے ناطے جو بھی گناہ ہوئے ہیں اس کے لیے سچے دل سے توبہ کرنا، تاکہ اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دے اور اپنا محبوب بندہ بنائے۔ اور ہمیشہ حلال روزی تلاش کرنا، حرام سے دور رہنا، جوبھی دعا کروگے ان شاء اللہ ضرور قبول ہوگی‘‘۔
الوداع اے رشک بزم فنا!
وفات سے تقریباً آٹھ ماہ قبل آپ کو مختلف امراض نے آگھیرا، آپ کا علاج دہلی کے مشہور ہاسپیٹل مثلاً: اکورڈ، میٹرو اور سریودیا میں مختلف اوقات میں ہوا، بعد میں(سریودیا ہاسپیٹل میں) ایمس کے ریٹائرڈ ڈاکٹر اور ان کے ساتھ ایک منتخب ٹیم کی نگرانی میں علاج چلا، لیکن ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘، بالآخر وقت موعود آن پہنچا اور ۱۱؍فروری ۲۰۲۵ء بروز منگل بوقت شب تقریباً گیارہ بج کر پندرہ منٹ پر آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے پیچھے ہزاروں شاگردان ومحبین ، قدردانوں اور اعزا ء واقرباء کو سوگوار چھوڑ گئے۔
انا لله وانا اليه راجعون۔
اپنی بیماری کے آغاز سے لے کر وفات تک آپ کی راتیں تہجد، دعا، مناجات اور اپنے رب کے حضور عاجزی واظہار بے کسی میں گزرتیں، رب ذی شان کی بارگاہ میں سسکیاں اور آہوں کے درمیان فجر کا وقت ہوجاتا، فجر کی نماز سے فراغت کے بعد کچھ نوش کرنے کے بعد استراحت فرما ہوتے، یہی آپ کا روز انہ کا معمول تھا، جب کہ کمزوری اور نقاہت نے بدن کے ہر ہر عضو کو بے جان کررکھا تھا، ہم بھائیوں خصوصا ًچھوٹے بھائی عزیزم حمود حسن سلمہ یا امی جان کے سہارے اٹھتے، خود سے اٹھنے یا بیٹھنے کی سکت نہ تھی، بالکل آخر میں بیماری کے اثرات حافظہ تک جاپہنچے، مگر مجال کہ نماز ذہن سے محو ہو، دھیرے دھیرے خاموشی نے آپ پر ڈیرا جمالیا، اس قبائے سکوت نے ذکر الٰہی کو اپنی آغوش میں لے لیا، زبان ہمیشہ سے ذکر الٰہی سے زمزمہ سنج رہا کرتی تھی، سو ایفائے پیماں کا یہ سلسلہ سانسوں کا بندھن ٹوٹنے تک جاری رہا، اس طرح ابو رحمہ اللہ نیکی، خداترسی، تقویٰ شعاری، اخلاص وللہیت اور بے مثال دعوت وتبلیغ اور حسن تربیت کے انمٹ نقوش ہمارے درمیان چھوڑ گئے۔
قد طلبنا فلم نجد لك فى السؤ = دد والمجد والكرم مثلا
ہم نے تلاش بسیار کے علی الرغم
سیادت اور مجد وکرم میں تیرا ہمتا نہ پایا
انتقال دہلی میں ہوا، وہاں سے بذریعہ ایمبولینس آبائی وطن مبارکپور لایا گیا، گاڑی دوسرے دن بعد از ظہر پہنچ سکی، شام نو بجے آبائی قبرستان روضہ راجہ مبارک شاہ محلہ حیدرآباد،مبارکپور میں سپرد خاک کئے گئے، جنازہ بڑے بھائی شیخ صہیب حسن مدنی مبارکپوری؍حفظہ اللہ (لکچرر جامعۃ الہند الإسلامیۃ،مالاپورم، کیرلا) نے پڑھائی، جنازہ میں روضہ کا پورا اندرونی میدان بھرا ہوا تھا، جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر کے جملہ اساتذہ، جامعہ اسلامیہ فیض عام مئو کے جملہ اساتذہ، مدرسہ انوار العلوم، املو، اور جامعہ عربیہ دار التعلیم مبارکپور کے تمام اساتذہ، مئو اور بنارس کی جمعیتوں کے ذمہ داران اور اہل علم بڑی تعداد میں موجود تھے، انسانوں کا غیر معمولی ہجوم تھا، حضرت مولانا مقتدیٰ عمری؍حفظہ اللہ نے اپنے مضمون میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے، ہم نے بڑے بڑے اہل علم کے جنازے دیکھے ہیں، لیکن انسانوں کا پروانہ وار اتنا ہجوم نہ دیکھا، شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری اورڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری رحمہما اللہ کے بعد سرزمین مبارکپور نے شاید جنازہ میں اتنا بڑا ہجوم نہ دیکھا ہو۔’’یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا‘‘۔ یہ سب کچھ آپ کی عظمت پر دلالت کناں ہے۔
فما راقني من لاقني بعد بُعده…ولا شاقني من ساقني لوصاله
ولا لاح لي مذ ندَّ ندٌّ لفضله … ولا ذو خلال حاز مثل خلاله
(اس کے فراق وجدائی کے بعد کوئی ملنے والا مجھے خوشگوار نہ لگا۔ اور نہ اپنے وصال کا داعی پرکشش محسوس ہوا، اس کی جدائی کے بعد اس کے فضل وکمال کا کوئی ہمتا ظاہر ہوا ، نہ اس جیسی خوبیوں کا کوئی پیکر وجامع)
آپ کے کل چھ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں ایک کی وفات آپ کی زندگی میں ہوگئی ، شیخ صہیب حسن مدنی، حافظ حامد حسن سلفی، حافظ راشد حسن سلفی، حافظ حمید حسن سلفی، حافظ خبیب حسن سلفی، حافظ حمود حسن سلفی۔ سب کے سب حافظ وعالم اور بیٹیاں بھی علم دین کی دولت سے فیضیاب ہیں، اسی طرح والدہ ؍حفظہا اللہ اور پانچ بہویں ہیں،سبھی تعلیم یافتہ ہیں، ان میں ایک یعنی خاکسار کی اہلیہ حافظہ وعالمہ اور جامعہ امیر نورہ ریاض کی فارغہ ہیں۔
ہم معروف شاعر شیخ انصر نیپالی حفظہ اللہ کے اس خوبصورت منظوم کلام پر اپنا یہ مضمون ختم کرتے ہیں، جوابو رحمہ اللہ کی اکثر خوبیوں کا احاطہ کرتا ہے۔
نگاہیں آبدیدہ ہیں یہ ہم نے آج پھر جانا
’’مبارک پور‘‘سے لے کر ہوگیا ’’نیپال‘‘ویرانہ
کسی کی موت پر آنسو بہانا دل کی فطرت ہے
مگر اے ’’فضل حق مدنی‘‘ترا غم ہے جدا گانہ
تو فضل حق تھا تیری افضلیت حق کی خاطر تھی
تو جھوٹی شان وشوکت سے رہا کرتا تھا بیگانہ
تری شفقت ،محبت آئے دن مجھ کو ستائے گی
تری تعلیم تھی ’’جھنڈا نگر‘‘میں مثل پدرانہ
تیرے چہرے کی سادہ مسکراہٹ ہم نہ بھولیں گے
تری پاکیزہ سیرت نے کیاہے مجھ کو فرزانہ
پڑھانے کا ہنر اللہ نے کیا خوب بخشا تھا
بنایا تو نے مجھ کو علم کی شمع کا پروانہ
ہمیشہ خندہ پیشانی سے ملتے تھے کوئی بھی ہو
تری سادہ طبیعت میں عیاں تھی خوئے شاہانہ
تری سنجیدہ گفتاری مثالی تھی زمانے میں
کہاں سے لاؤں تجھ جیسا نہ کوئی دانا وبینا
پڑھایا اپنے بچوںکوعزیمت کاسبق رو کر
خوشی ہو یا غمی ہو کرتے رہنا رب کا شکرانہ
بڑے ہی نیک و صالح تھے صف اول کے عابد تھے
الٰہی ! تو عطا کردے انہیں رحمت کا نذرانہ
دعائیں روز وشب انصر کرے ہے مدنی کے حق میں
الٰہی !جنت الفردوس میں ہو ان کاکاشانہ
بار الہا! والد محترم شیخ فضل حق مدنی مبارکپوری رحمہ اللہ کی بال بال مغفرت فرما،ان کی بشری لغزشوں سے درگزر کرتے ہوئے جنت الفردوس میں جگہ دے ۔ آمین۔
٭٭٭
Articles Views: 61