-
حقوق العباد اسلام نے انسانی زندگی کو دو اہم پہلوؤں میں تقسیم کیا ہے:حقوق اللہ اور حقوق العباد۔حقوق اللہ میں خالص اللہ کی عبادت اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا شامل ہے، جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور دیگر عبادات، جبکہ حقوق العباد سے مراد بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے حقوق کی ادائیگی ہے، اسلام نے دونوں پہلوؤں کو لازم قرار دیا ہے تاکہ ایک متوازن اور پرامن معاشرہ تشکیل پا سکے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :{ وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْـًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا}’’اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے، اور پہلو کے ساتھی سے، اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام ،کنیز سے) یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔[النسآء:۳۴]
اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ : (۱) رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی خیریت دریافت کریں۔ (۲) یتیموں اور مسکینوں کا سہارا بنیں۔(۳) بھوکوں کو کھانا کھلائیں اور بے سہارا افراد کی مدد کریں۔(۴) حتیٰ کہ جانوروں کے ساتھ بھی رحم دلی اور حسن سلوک کا مظاہرہ کریں۔
مگر افسوس آج کے دور میں ہمارا رویہ اکثر دوسروں کے لیے تکلیف دہ بن گیا ہے، ہم بغیر سوچے سمجھے الفاظ استعمال کرتے ہیں، جن سے دوسرے افراد ذہنی دباؤ اور دکھ کا شکار ہو جاتے ہیں، معافی مانگنے کو ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں حالانکہ بہترین انسان وہ ہے جو اپنی غلطی کا اعتراف کر کے معذرت کرے۔
آج ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ہم اپنے رشتہ داروں، دوستوں، اساتذہ، شاگردوں اور پڑوسیوں کی خیریت دریافت کر سکیں، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اتنا وقت ضرور نکالیں کہ ہم ان کے حالات سے واقف ہو سکیں، اگر وہ مشکل میں ہیں تو ان کی مدد کریں، انہیں دلاسہ دیں، صبر اور اللہ پر توکل کی تلقین کریں، ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے میٹھے الفاظ کسی کی زندگی میں کس طرح خوشگوار ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ ایسے وقت میں اکثر لوگ ایسے الفاظ کے بھوکے ہوتے ہیں، طنز کرنے والے تو بہت ہوتے ہیں لیکن تسلی دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’جس نے کسی مومن سے دنیا کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی بڑی تکلیف دور فرما دے گا، جس نے کسی تنگ دست اور عسیر الحال (بد حال) پر آسانی کی اللہ تعالیٰ اس پر دنیا و آخرت میں آسانی فرمائے گا، جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالی دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے (مسلمان) بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے، جو ایسے راستے پر چلتا ہے جس میں وہ علم (دین) تلاش کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے ذریعے سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے اور جو لوگ بھی اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے اور آپس میں اس کی تدریس (سیکھتے یا سکھلاتے بحث و تکرار) کرتے ہیں، تو ان پر اللہ کی طرف سے سکینت نازل ہوتی ہے، انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر ان فرشتوں میں فرماتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں اور جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھائے گا‘‘۔[صحیح مسلم :۲۶۹۹]
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحم کرنے میں اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت و نرمی کرنے میں جسم کی طرح ہے، جب اس کا کوئی ایک عضو درد کرتا ہے تو اسکا سارا جسم اس کی وجہ سے بیداری اور بخار میں مبتلا رہتا ہے‘‘۔[صحیح بخاری :۶۰۱۱]
یہ حدیث معاشرتی تعاون اور بھائی چارے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔
تاریخ اسلام کی روشنی میں : اگر ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ کس طرح لوگ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھتے تھے، وہ والدین کا احترام کرتے، اولاد کی صحیح تربیت کرتے، یتیموں و مسکینوں کی مدد کرتے، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کرتے، معاشرتی محبت، اخوت اور تعاون ان کی نمایاں خصوصیات تھیں۔
مگر افسوس کہ آج کے دور میں یہ اوصاف کمزور پڑ گئے ہیں۔ ہم والدین کی خدمت، اساتذہ کا احترام اور اولاد کی تربیت میں کوتاہی برتنے لگے ہیں، یہی رویے معاشرتی زوال اور اخلاقی کمزوری کا سبب بن رہے ہیں۔
حقوق العباد کے چند اصول : اپنی سوچ کو بدلنا اور قرآن و سنت سے سبق حاصل کرنا۔ دوسروں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت خود کو ان کی جگہ رکھ کر سوچنا۔مثبت سوچ اپنانا اور دوسروں کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کرنا۔والدین، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے وقت نکالنا۔ضرورت مندوں کی مدد کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنانا۔اپنا محاسبہ کرنا اور رب سے مدد مانگنا۔
حقوق العبادادا نہ کرنے کے نقصانات : حقوق العباد کی عدم ادائیگی معاشرے میں بے سکونی، تناؤ اور ڈپریشن جیسے مسائل کو جنم دیتی ہے، دوسروں کے ساتھ طنزیہ رویہ اور سخت کلامی انسان کو ذہنی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہے، آج کے دور میں ہمیں اپنے رویے، الفاظ اور عمل پر غور کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہم دوسروں کے لئے آسانی اور خوشی کا ذریعہ بن سکیں، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنے رویوں کو درست کریں، نرمی، شفقت اور حسنِ سلوک کو اپنائیں اور قرآن و سنت کی روشنی میں ایک خوشگوار معاشرہ قائم کریں۔
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق دے، ہمیں دین پر ثابت قدم رکھے اور ہمارا خاتمہ ہو تو ایمان پر ہو۔ آمین یارب العالمین