-
سنت نبویﷺ کی روشنی میں بچوں کی تربیت اللہ تعالیٰ نے ہمیں اولاد کی صورت میں ایک بہت بڑی امانت سونپی ہے، اس امانت کی صحیح تربیت کرنا ہمارا فرض ہے، تاکہ ہمارے بچے نہ صرف دنیا میں کامیاب ہوں بلکہ آخرت میں بھی سرخرو ہوں، اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا}’’اے ایمان والو!اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ‘‘۔ [التحریم :۶]
اسی طرح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ‘‘۔’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘[صحیح البخاری: ۷۱۳۸، صحیح مسلم:۱۸۲۹]
نبی کریمﷺنے بچوں کے ساتھ نرمی، محبت اور پیار سے پیش آنے کی تعلیم دی ہے، اور انہیں اللہ کے احکامات اور سنت نبویﷺسے روشناس کرانے پر زور دیا ہے، چھوٹی چھوٹی روزمرہ کی سرگرمیوں کے دوران اگر ہم انہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں قیمتی اسباق دیں، تو یہ بچوں کے دلوں میں ایمان اور نیکی کی بنیاد مضبوط کرنے کا بہترین ذریعہ بن سکتے ہیں، مثلاً:
(۱) جب آپ کا بچہ آپ کو نماز پڑھتے یا اللہ کا ذکر کرتے دیکھے، تو اسے بتائیں کہ نبیﷺنے فرمایا:’’مَثَلُ الْبَيْتِ الَّذِي يُذْكَرُ اللّٰهُ فِيهِ، وَالْبَيْتِ الَّذِي لَا يُذْكَرُ اللّٰهُ فِيهِ، مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ‘‘۔’’اس گھر کی مثال جس میں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے اور اس گھر کی مثال جس میں اللہ کو یاد نہیں کیا جاتا، زندہ اور مردہ جیسی ہے‘‘۔[صحیح مسلم:۷۷۹]
ـــ تاکہ وہ جان لے کہ ذکرِ الٰہی دل کو زندہ کرتا ہے، اور کثرتِ ذکر اور نماز اسے اللہ کی رحمت کے قریب کرتی ہے۔
(۲) جب آپ اپنے بچے کو قرآن پڑھتے یا اسے حفظ کرتے ہوئے دیکھیں تو اسے نبی اکرمﷺکی یہ بشارت سنائیں کہ:’’يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا‘‘۔’’صاحب قرآن (حافظ قرآن یا ناظرہ خواں) سے کہا جائے گا:پڑھتے جاؤ اور چڑھتے جاؤ اور عمدگی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ تم دنیا میں عمدگی سے پڑھتے تھے، تمہاری منزل وہاں ہے، جہاں تم آخری آیت پڑھ کر قرآت ختم کرو گے‘‘۔[سنن ابی داؤد:۱۴۶۴، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح]
ـــ تاکہ وہ قرآن کی تلاوت اور حفظ کی طرف راغب ہو۔
(۳) جب آپ اپنے بچے کے بال سنوار رہے ہوں، تو اسے بتائیں کہ آپ یہ کام اس لیے کررہے ہیں کیونکہ نبی ﷺنے فرمایا:’’مَنْ كَانَ لَهُ شَعْرٌ، فَلْيُكْرِمْهُ‘‘۔’’جس کے پاس بال ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ انہیں اچھی طرح رکھے‘‘۔[سنن ابی داؤد:۴۱۶۳، قال الشیخ الألبانی: حسن صحیح]
ـــ تاکہ وہ اپنی ظاہری حالت کی دیکھ بھال کرنا سیکھے، اللہ کی نعمت کی قدر کرے، اور یہ کہ اچھی ہیئت سنت ہے۔
(۴) جب اپنے بچے (بیٹے)کو خوشبو لگائیں، تو اسے بتائیں کہ آپ ایسا نبیﷺکی پیروی میں کررہے ہیں، کیونکہ نبی کریمﷺنے فرمایا:’’حُبِّبَ إليَّ من دُنياكم:النِّسائُ والطِّيبُ، وجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيني فى الصلاةِ‘‘۔’’تمہاری دنیا میں سے میرے نزدیک عورت اور خوشبو کی محبت ڈالی گئی ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے‘‘۔[صحیح الجامع:۳۱۲۴، صحیح]
ـــ تاکہ وہ خوشبو لگانے کی سنت سمجھے اور جانے کہ یہ مومن کی پسندیدہ چیزوں میں سے ہے۔
(۵) جب آپ کا بچہ مدرسہ جائے، تو اسے نبیﷺکا یہ فرمان یاد دلائیں:’’مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللّٰهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَي الْجَنَّةِ ‘‘۔’’جو علم حاصل کرنے کے ارادہ سے کہیں جائے، تو اللہ اس کے لیے جنت کے راستے آسان (و ہموار)کر دیتا ہے‘‘۔[سنن الترمذی:۲۴۶۴، صححہ الألبانی]
ـــ تاکہ وہ علم کے لیے پرجوش ہو اور جان لے کہ یہ جنت کا راستہ ہے۔
جب آپ اپنے بچے کے لیے ٹفن تیار کریں تو ٹفن میں تھوڑا زیادہ کھانا ڈالتے ہوئے کہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’خيرُكُمْ مَنْ أَطْعَمَ الطعامَ، وردَّ السلامَ‘۔’’تم میں بہترین وہ شخص ہے جو کھانا کھلائے اور سلام کو عام کرے‘‘۔[صحیح الجامع:۳۳۱۸، حسنہ الألبانی]
تاکہ وہ سخاوت اور دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کی عادت اپنائے۔
(۷) جب آپ اپنے بچے کی طرف مسکرا کر دیکھیں، تو اسے بتائیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:’’ تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ‘‘۔’’اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے‘‘۔[سنن الترمذی:۱۹۵۶، صححہ الألبانی]
ـــ تاکہ وہ سیکھے کہ مسکراہٹ بھی ایک نیکی ہے، اور یہ آپسی محبت بڑھاتی ہے۔
(۸) جب آپ اپنے بچے سے اچھے سے بات کریں، اور اس کی تعریف کریں، تو اسے نبیﷺکا یہ فرمان سنائیں:’’وَالْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ‘‘۔’’اور اچھی بات منہ سے نکالنا بھی صدقہ ہے‘‘۔[صحیح البخاری:۲۹۸۹، صحیح مسلم:۱۰۰۹]
ـــ تاکہ وہ دوسروں کے ساتھ بات کرتے وقت اچھے الفاظ استعمال کرے، اور جان لے کہ حوصلہ افزائی بھی ایک نیک عمل ہے۔
(۹) جب آپ اپنے بچے کو سچ بولنے کی تلقین کریں، تو اسے نبی ﷺکا یہ فرمان یاد دلائیں:’’عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَي الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَي الْجَنَّةِ‘‘۔’’تم سچ کو لازم پکڑو، کیونکہ سچ نیکی اور اچھائی کے راستے پر لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے‘‘۔ [صحیح البخاری:۶۰۹۴، صحیح مسلم:۲۶۰۷]
ـــ تاکہ سچائی اس کی زندگی کا ایک بنیادی وصف بن جائے۔
(۱۰) جب آپ اپنے بچے کو کسی کی مدد کرتے دیکھیں، تو اسے بتائیں:’’وَاللّٰهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ‘‘۔’’اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے‘‘۔ [صحیح مسلم:۲۶۹۹]
ـــ تاکہ وہ دوسروں کی مدد کرنے کی اہمیت سمجھے اور جان لے کہ تعاون کرنے سے اس کا ایمان مضبوط ہوگا۔
(۱۱) جب آپ کسی مجلس میں ہوں جہاں بڑے بزرگ موجود ہوں، تو اپنے بچے کو ان کا احترام کرنے کی تلقین کریں، اور اسے بتائیں کہ نبیﷺنے فرمایا:’’ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا ‘‘۔’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے، جو ہمارے چھوٹوں پر مہربانی نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے‘‘۔[صحیح الجامع: ۵۴۴۵، صححہ الألبانی]
ـــ تاکہ وہ بڑوں کے ادب کے ساتھ پیش آئے اور جان لے کہ یہ مومن کی صفت ہے۔
(۱۲) جب آپ اپنے بچے کو والدین کی فرمانبرداری کی تلقین کریں، تو اسے نبی ﷺکا یہ فرمان یاد دلائیں:’’رضا الرَّبِّ فى رضا الوالِدَيْنِ، وسَخَطُه فى سَخَطِهِما‘‘۔’’رب کی رضا والدین کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے‘‘۔[صحیح الجامع:۳۵۰۷، حسنہ الألبانی]
ـــ تاکہ وہ والدین کی اطاعت کو قربِ الہٰی کا ذریعہ سمجھے۔
اس طرح اپنے بچوں کے ہر عمل کو سنت اور نبی ﷺکی سیرت سے جوڑیں، انہیں صحیح احادیث سکھائیں، تاکہ ان کی صحیح تربیت ہو اور بچپن سے ہی ان کے دلوں میں محبتِ رسولﷺ پیدا ہو۔